• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وجود باری تعالیٰ کے عقلی دلائل : متفرق تحریریں

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
وجود باری تعالی یعنی ہستی صانع عالم کے دلائل عقلیہ سے ثبوت


پہلی دلیل --- دلیل صنعت

تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کے صنعت سے صانع(بنانے والا) کی خبر ملتی ہے مصنوع (جس کو بنایا گیا)اور صنعت (factory)کو دیکھ کر عقل مجبور ہوتی ہے کے صانع کا اقرار کرے اور دہریئے(atheist) اور لا مذہب لوگ بھی اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کے فعل کے لئے فاعل کا ہونا ضروری ہے . پس جبکہ ایک بلند عمارت اور ایک بڑا قلعہ اور اونچے مینار کو اور ایک دریا کے پل کو دیکھ کر عقل یہ یقین کر لیتی ہے کہ اس عمارت کا بنانے والا کوئی ضرور ہے اور اس منار اور پل کا بنانے والا کوئی بڑا ہی ماہر انجینیر ہے تو کیا آسمان اور زمین کی اعلیٰ ترین عمارت اور اسکی عجیب و غریب صنعت اور اسکی باقائدگی اور حسن ترتیب کو دیکھ کر ایک اعلیٰ ترین صانع کا کیوں اقرار نہیں کیا جاتا.

ایک تخت کو دیکھتے ہی یہ یقین آجاتا ہے کہ کسی کاریگر نے اس ہئیت اور وضع سے اس کو بنایا ہے کیونکہ تخت کا خود بخود تیّار ہوجانا اور خاص ترتیب کے ساتھ لوہے کی کیلوں کا اس میں جڑ جانا محال ہے کسی درخت کے تختوں اور لوہے کی کیلوں میں یہ قدرت نہیں کہ اس ترتیب سے خود بخود جڑ جائیں.

ایک دہری اور سائنس دان ایک معمولی گہڑی اور گھنٹہ کو دیکھ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ کسی بڑے ہی ماہر کی ایجاد ہے کے جو قوائد ہندسہ(digits) اور کل سازی کے اصول سے پورا واقف ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کے ضرور بالضرور اس گھڑی کا کوئی بنانے والا ہے کہ جس نے عجیب انداز سے اسکے پرزوں کو مراتب کیا ہے اور جس کے ذریعہ اوقات کا بخوبی پتہ چلتا ہے حالانکہ وہ یہ امر بخوبی جانتا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اور گھنٹے وقت بتلانے میں بسا اوقات غلطی کرتے ہیں مگر چاند سورج جو کبھی طلوع اور غروب میں غلطی نہیں کرتے اور جنکے ذریعہ سارے عالم کا نظام حیات اور نظام اوقات چل رہا ہے ،یہ دہری چاند اور سورج کے صانع کا اقرار نہیں کرتا اگر اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے لگے کہ اس گھڑی کو ایک ایسے شخص نے بنایا ہے جو اندھا اور بھرا اور گونگا ہے اور ناسمجھ اور بے خبر اور علم ہندسہ سے بے بہرہ اور کل سازی کے اصول سے ناواقف ہے تو کیا یہی فلسفی اور سائنسدان اس کہنے والے کو پرلے درجہ کا احمق نہ بتلائےگا ؟ غرض یہ کہ جہاں صنعت اور کاریگری پائی جائیگی صانع کا تصور اور اقرار ضرور کرنا پڑےگا.

بلکہ

صنعت کو دیکھ کر صرف صانع کا یقین ہی نہیں ہوتا بلکہ اجمالی طور پر صانع کا مرتبہ بھی معلوم ہو جاتا ہے پس کیا آسمان و زمین کی اعلی ترین صنعت کو دیکھ کر ہم کو یہ یقین نہیں ہوگا کہ اس کا صانع بھی بڑا ہی اعلی اور ارفع اور اعظم اور اجل اور عقل سے بالا اور برتر ہے کہ جس کے صنائع اور بدائع کے سمجھنے سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز ہیں.

یہ منکرین خدا جب بازار میں بوٹ جوتا خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار سے پوچھتے ہیں کے یہ بوٹ کس کارخانہ کا بنا ہے تو وہ اگر جواب میں یہ کہے کہ یہ بوٹ کسی کارخانہ میں نہیں بنا ہے بلکہ یہ بوٹ خود مادہ اور ایتھر کی حرکت سے آپ کے پیر کے مطابق تیار ہوگیا ہے اور خود بخود حرکت کرکے میری اس دکان پر آگیا ہے تو منکر خدا صاحب دکاندارکے اس جواب کے متعلق کیا کہیں گے، غور کرلیں اور بتلائیں کہ کیا سمجھ میں آیا اور اپنے اوپر منطبق کریں.

اثبات صانع کی دوسری دلیل--- وجود بعد العدم

ہر ذی عقل کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ایک وقت میں معدوم(نا پید،فناکیا گیا ) تھا اور ایک طویل وعریض عدم(نیستی۔نہ ہونا۔ناپیدی) کے بعد موجود ہوا ہوں اور جو چیز عدم کے بعد وجود میں آئے اس کے واسطے کوئی پیدا کرنے والا اور اس کو عدم سے وجود میں لانے والا چاہئے اور یہ بھی معلوم ہے کہ میرا خالق نہ میرا نفس ہے اور نہ میرے ماں باپ اور نہ میرے جنس اس لئے کہ وہ سب میری طرح عاجز ہیں کسی میں ایک ناخن اور بال پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں اور نہ آسمان اور زمین اور نہ یہ عناصر اور نہ کواکب اور نہ یہ فصول میرے خالق ہیں اس لئے کہ یہ چیزیں بے شعور اور بے ادراک (بے عقل) ہیں اور ہر وقت متغیر (بدلتی) اور متبدل ہوتی رہتی ہیں ان میں یہ صلاحیت کہاں کہ ایک ذی علم اور ذی فہم انسان کو پیدا کرسکیں پس معلوم ہوا کہ میرا خالق کوئی ایسی چیز ہے کہ جو لاچارگی اور حدوث اور تغیر و تبدل اور عیب اور نقسان سے پاک ہے وہی ہمارا خدا اور معبود ہے۔


اثبات صانع کی تیسری دلیل---- تغیراتِ عَالَم

موجودات عالم پر ایک نظر ڈالیے ہر ایک چھوٹی اور بڑی چیز حیوانات یا نباتات یا جمادات مفردات یا مرکبات جس پر نظر ڈالیے ہر لمحہ اس میں تغیر و تبدل ہے اور کون و فساد اور موت و حیات کا ایک عظیم انقلاب برپا ہے جو بآواز بلند پکار رہا ہے کہ یہ تمام متغیر ہونے والی (بدلنے والی) چیزیں حادث ہیں اپنی ذات سے کوئی بھی قدیم نہیں۔ کسی عظیم ترین ہستی کے زیر ِفرمان ہیں کہ وہ جس طرح چاہتا ہے ان کہ پلٹییں دیتا رہتا ہے اور طرح طرح سے ان کہونچاتا رہتا ہے اور زیر و زبر کرتا ہے پس جس ذات بابرکت کے ہاتھ میں ان تغیرات اور انقلابات کی باگ ہے وہی ان سب کا خالق و موجد ہے۔

منکیرین ِ خدا یہ کہتے ہیں کہ عالم کے یہ تغیرات اور تبدلات محض قانون طبعی اور قانون فطری کے تحت چل رہے ہیں ،اہل اسلام یہ کہتے ہیں کہ قانون طبعی اور قانون فطری صرف ایک آلہ ہے جو کسی با اختیار کاریگر کا محتاج ہے اس کاریگر کو ہم خدا کہتے ہیں جو اس آلہ کا محرک ہے اور وہی اس آلہ کا خالق بھی ہے وہی اپنے اختیار سے اس عجیب و غریب نظام کو چلا رہا ہے محض آلہ کو کاریگر سمجھ لینا اور یہ گمان کرلیتا کہ اس آلہ اور بسولہ(لکڑی چھیلنے کا آلہ) ہی نے تخت اور الماریاں تیار کردی ہیں یہ ایک خیال خام ہے اور جو شخص یہ گمان کرے کہ بغیر کاریگر کے محض آلہ کی فطری اور طبعی حرکت سے یہ الماری تیار ہوگئی ہے تو وہ بلا شبہ دیوانہ ہے۔

اثبات صانع کی چوتھی دلیل-امکانِ اشیاء

واجب الوجود کی ہستی کی ایک دلیل یہ ہے کہ عالم میں جس قدر اشیاء موجود ہیں وہ سب کی ممکنات ہیں یعنی ان کا ہونا اور نہ ہونا وجود اور عدم ہستی اور نیستی دونوں برابر کے درجہ میں ہیں نہ انکا وجود ضروری ہے اور نہ ان کا عدم ضروری ہے اور جو چیز بذاتہ (خود سے)ممکن الوجود ہو یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے اسکی ہستی اور نیستی برابر ہو اس کے وجود اور ہستی کے لئے عقلاً کسی مرجح (افضل) اور موجد(بانی) کا وجود ضروری ہے کیوں کہ کوئی چیز خود بخود یا محض اتفاق وقت سے بلا سبب عدم سے نکل کر وجود میں نہیں آسکتی جب تک اس کے وجود کے لئے کوئی سبب اور موجد نہ ہو کہ جو اس کو ترجیح دیکر اس کو عدم سے نکال کر وجود میں لائے ورنہ ترجیح بلا مرجح لازم آئے گی جو بالبداہت محال ہے اور ہر ذی ہوش کے نزدیک ظاہر البطلان ہے کیوں کہ ممکن اپنی ذات اور ماہیت (کیفیت)کے لحاظ سے نہ موجود ہے اور نہ معدوم ۔ وجود اور عدم دونوں اس کے حق میں یکساں ہیں پس ضرورت اس کی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہو کہ جو اس کو عدم ازلی (ہمیشہ کی نیستی/نہ ہونے)کے پنجرے سے نکال کر وجود کے دلفریب میدان میں لے آئے پس جس ذات نے اس عالم امکانی کو عدم سے نکال کر وجود کا خلعت(پوشاک) پہنایا اور اس کے وجود کو اس کے عدم پر ترجیح دی وہی ذات واجب الوجود ہے جس کو اہل اسلام خدا کی ہستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ؂

یہ بارونق جو ہے ہستی کا گلزار :: عدم سے کر دیا اس نے نمودار

اور واجب الوجود وہ ہے کہ جس کا وجود ضروری ہو اور ممکنات کے قبیل سے نہ ہو ورنہ ، خفتہ را خفتہ کے کند بیدار(خفتہ – سویا ہوا، کند – سست کاہل) کی مثل صادق ہوگی کیوں کہ اگر وہ خود ممکن ہوگا تو اس کا وجود اور عدم اس کے حق میں یکساں ہوگا تو وہ دوسری چیز کے لئے وہ کیوں کر علت اور مرجح (افضل) بن سکے گا۔ پس جو واجب الوجود اور خود بخود موجود ہو اور دوسرے کے لئے واجب الوجود ہو اسی کو ہم خدا کہتے ہیں۔ خدا کو خدا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے۔

اثبات صانع کی پانچویں دلیل ---- فناء و زوال

عالم کی جس چیز کو بھی دیکھو تو اس کا وجود پائدار نہیں ،ایک زمانہ تھا کو وہ پردہ عدم میں مستور تھی اور پھر اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں اس کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔؂

رہیں گے پھول نہ پھولوں میں رنگ و بو باقی :: رہے گا اے میرے معبود ایک تو ہی باقی

یہ موت اور حیات کی کشمکش اور وجود و عدم کی آمد و رفت بآواز بلند یہ پکار رہی ہے کہ ہمارا یہ وجود ہمارا خانہ زاد اور خود ساختہ نہیں بلکہ مستعار اور کسی دوسرے کی عطا ہے جیسے زمیں پر دھوپ اور روشنی کی آمد و رفت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ روشنی زمین کی ذاتی نہیں بلکہ عطیئہ آفتاب ہے کہ حرکت طلوعی میں آفتاب اس کو عطا کرتا ہے اور حرکت غروبی میں اس کو واپس لےلیتا ہے اسی طرح ممکنات اور کائنات کا وجود اور عدم جس ذات کے ہاتھ میں ہے وہی واجب الوجود ہے جس کا وجود ذاتی ہے اسی کو ہم مسلمان اللہ اور خدا کہتے ہیں۔

اثبات صانع کی چھٹی دلیل ---- اختلاف صفات و کیفیات

زمین سے لے کر آسمان تک عالم کے تمام اجسام جسمیت کے لحاظ سے برابر ہیں اور جب چیزیں حقیقت اور ماہیت سے برابر ہوں تو جو کچھ ایک چیز کے لئے روا ہے وہی دوسرے کے لئے بھی روا ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے معلوم ہوا کہ آسمان جو بلند ہے اس کا نشیب اور پستی میں ہونا بھی روا ہے اور زمین جو پستی میں ہے اس کا بلندی میں ہونا بھی روا ہے اور آگ جو گرم اور خشک ہے اس کا سرد اور تر ہونا بھی روا ہے اور پانی جو سرد اور تر ہے اس کا گرم اور خشک ہونا بھی روا ہے پس جب اجسام میں تمام صفات اور کیفیات جائز اور روا ہیں تو پھر ہر جسم کے لئے ایک خاص معیّن کیفیت اور معیّن شکل اور معیّن احاطہ اور معیّن مقدار کے لئے کوئی مؤثر مدبّر اور مقدّر مقتدر چاہئے کہ جس نے ان تمام جائز اور ممکن صفات اور کیفیات میں سے ہر جسم کو ایک خاص صفت اور خاص کمیّت اور خاص کیفیت اور خاص ہئیت کے ساتھ معیّن اور مخصوص کیا ،کیوں کہ ہر جائز اور ممکن کے لئے کسی مرجح (افضل) کا ہونا ضروری ہے کہ جو کسی ایک جانب کو ترجیح دے ورنہ ترجیح بلا مرجح لازم آئیگی پس وہی مؤثر مدبر اور مقدّر مقتدر اس عالم کا رب ہے۔

اثبات صانع کی ساتویں دلیل ---- دلیل حرکت

علامہ احمد بن مسکویہ الفوز الاصغر میں فرماتے ہیں کہ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالو وہ حرکات سے خالی نہیں اور حرکت کی چھ قسمیں ہیں

(۱)حرکتِ کَون

(۲)حرکت فساد

(۳)حرکتِ نمو

(۴)حرکت ذبول

(۵)حرکت استحالہ

(۶)حرکت نقل۔

اس لیے حرکت ایک قسم کے تبدل یا نقل کو کہتے ہیں اگر ایک شئی عدم سے وجود کی طرف حرکت کرے تو یہ حرکت کَون ہے اور اگر خرابی کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت فساد ہے اور اگر ایک کیفیت اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکتاستحالہ ہے اور اگر کمی سے زیادتی کی طرف ہو جیسے بچّہ کا بڑا ہوجانا اور پودہ کا درختہو جانا تو یہ حرکت نمو ہے اور افر زیادتی سے کمی کی طرف حرکت ہو جیسے کسی موٹے آدمی کا دبلا ہو جانا تو یہ حرکت ذبول ہے اور اگر ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت نقل ہے اس کی دو قسمیں ہیں مستقیمہ اور مستدیرہ غرض یہ کہ عالم کے تمام عناصر اور جمادات اور نباتات اور حیوانات سب کے سب حرکت میں ہیں اور ان میں کسی شئی کی حرکت اس کی ذاتی نہیں اور کوئی چیز اپنی ذات سے متحرک نہیں اور عقلاً ہر متحرک کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس کے علاوہ اس کے لئے کوئی محرِّک ہو پس ضروری ہے کہ تمام اشیاء عالم کا بھی کوئی محرک ہو جس کی وجہ سے تمام اشیاء عالم حرکت میں آرہی ہیں پس وہ ذات جس پر کائینات عالم کی حرکت کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہی خدا ہے جو اس سارے عالم کو چلا رہا ہے اور طرح طرح حرکت دے رہا ہے جن کے انواع و اقسام کے ادراک سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز اور درماندہ ہیں۔

اثبات صانع کی آٹھویں دلیل--- حسن ترتیب

امام رازی فرماتے ہیں کہ ہستی صانع کی ایک دلیل یہ ہے کہ آسمان اور ستارے اور نباتات اور جمادات اور حیوانات کی ترتیب ہم اس طرح پر پاتے ہیں کہ حکمت کی نشانیاں اس میں ظاہر ہیں اور جس قدر زیادہ غور و فکر کرتے ہیں اسی قدر یہ نشانیاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں جیسا کہ ہم آئیندہ فصلوں (پوسٹس) میں اس کی شرح اور تفصیل کرینگے اور بداہت عقل سے یہ جانتے ہیں کہ ایسی عجیب و غریب نشانیوں کا ظہور محض اتفاقی طور پر محال ہے اس لئے ضروری ہوا کہ ایسے کامل اور قادر حکیم کے وجود کا اقرار کیا جائے جسے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ان عجیب و غریب چیزوں کو عالم علوی اور سفلی میں ظاہر کیا ہے۔

قدرت کا نظام ہے بتاتا :: تو صانع و منتظم ہے سب کا

اثبات صانع کی نویں دلیل--- عاجزی اور درماندگی

ہر ذی ہوش اس امر کو بداہت عقل سے جانتا ہے کہ انسان جب کسی بلا اور مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اسباب اور وسائل اسکو جواب دے دیتے ہیں تو اس وقت اس کا دل بے اختیار عاجزی اور زاری کرنے لگتا ہے اور کسی زبردست قدرت والی ہستی سے مدد مانگتا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہر شخص فطری طور پر ہی جانتا ہے کہ کہئی دافع البلیات اور مجیب الداعوات اور حافظ و ناصر اور دستگیر ضرور ہے جس کو انسان بیچارگی کی حالت میں بے اختیار اپنی دستگیری کے لئے پکارتا ہے اور اس کے روبرو گریہ و زاری کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ وہ دستگیر میری مصیبت کو ٹال دے گا پس وہی دستگیر ہمارے نزدیک خدا ہے جو سارے عالم کی سنتا ہے اور دستگیری کرتا ہے ؂

جب لیتے ہیں گھیر تیری قدرت کے ظہور

منکر بھی پکار اٹھتے ہیں تجھکو ضرور

اثبات صانع کی دسویں دلیل--- ذلّت و خواری ِ اشیاء

اس کارخانۂ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالیے تو ذلّت و خواری اوراحتیاج ہی ٹپکتی ہوئی نظر آئےگی جس سے بالبداہت یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ محض بخت و اتفاق سے پیدا نہیں ہوا بلکہ کسی بڑے عزت و حکمت والے کے سامنے ذلیل و خوار اور اس کے حکم کا فرمانبردار ہے۔

آسمان، چھاند، سورج ستاروں کو دیکھے کہ ایک حال پر قرار نہیں کبھی عروج اور کبھی نزول کبھی طلوع اور کبھی غروب کبھی نور اور کبھی گہن ہے ۔ آگ کو دیکھئے کہ تھامے نہیں تھمتی ،ہوا کا حال یہ ہے کہ کبھی حرکت اور کبھی سکون اور حرکت بھی ہے تو کبھی شمال اور کبھی جنوب کی جانب اور کبھی مشرق اور کبھی مغرب کی جانب ہے۔ غرض یہ کہ ہوا ماری ماری پھرتی ہے اور پانی کا کرہ ہوا کے جھونکوں سے کہیں کا کہیں نکلا چلا جاتا ہے زمین کو دیکھے کہ اس کی پستی اور لاچاری اس درجہ میں ہے کہ مخلوق اس کہ جس طرح چاہتی ہے پامال کرتی ہے کوئی بول و براز سے اسے آلودہ کر رہا ہے اوع کوئی لید اور گوبر سے اس کو گندہ کر رہا ہے کوئی اس پر دوڑ رہا ہے اور کوئی اسے کھود رہا ہے مگر زمیں سر نہیں ہلا سکتی، حیوانات کو دیکھئے کہ وہ کس طتح لاچار ہیں کوئی ان پر سوار ہو رہا ہے اور کوئی ان پر بوجھ لاد رہا ہے اورکوئی ان کو ذبح کر رہا ہے اور تمام مخلوقات میں سب سے افضل یہ نوع انسانی ہے وہ ذلت اور احتیاج میں تمام مخلوقات سے بڑھا ہوا ہے۔ بھوک اور پیاس اور بول و براز صحت و مرض ، گرمی و سردی اور قسم قسم کی ضرورتوں اور خواہشوں نے اس کو نچا رکھا ہے حیوانات تو فقط کھانے اور پینے ہی میں محتاج ہیں اور حضرت انسان کے پیچھے تو حاجتوں کا ایک لشکر لگا ہوا ہے انسان کو کبڑا بھی چاہئے مکان بھی چاہئے گھوڑا گاڑی بھی چاہئے ، عزت اور منصب اور جاگیر بھی چاہئے بیاہ شادی بھی چاہئے بیماری کی حالت میں طبیب اور ڈاکڑ بھی چاہئے بغیر ان کے زندگی دوبھر ہے اور حیوانات کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ حیوان کو نہ لباس کی ضرورت ہے اور نہ بیماری میں لسہ ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ حیوان بغیر کسی میڈیکل کالج میں تعلیم پائے خود بخود اپنی بیماری کے مناسب جڑی بوٹیوں کو کھا کر شفایاب ہوجاتا ہے پس جب انسان کہ جو باتفاق اہل عقل اشرف المخلوقات ہے اس قدر ذلیل اور حاجت مند اور محکوم ٹھرا کہ ہر طرگ سے حاجتیں اور ضرورتیں اس کی گردن پکڑے ہوئے ہیں اور باقی عالم کی ذلت و خواری کا حال آسمان سے لیکر زمین تک محمل طور پر معلوم ہی ہوچکا تو پھر کیوں کر عقل باور کرسکتی ہے کہ یہ سارا کارخانہ خود بخود چل رہا ہے کائینات عالم کی اس ذلت و خواری اور مجبوریو لاچاری کو دیکھ کر بے اختیار دل میں آتا ہے کہ ان کے سر پر کوئی ایسا زبردست حاکم ہے جو ان سے ہر دم مثل قیدیوں کے بیگاریں لیتا ہے تاکہ یہ مغرور نہ ہوجائیں اور کسی کو ان کی بے نیازی کا گمان نہ ہو بیشک یہ قید میں رکھنے والی زبردست اور غالب ہستی واجب الوجوب اور الہ العالمین کی ہے۔

ایں جہاں آئینہ دارروئے تو :: ذرہ ذرہ رہ نماید سوئے تو

مادہ پرست بتلائیں کہ ہماری یہ بے شمار قسم قسم کی ضرورتیں اور حاجتیں کون پوری کر رہا ہے آیا مادہ اور اس کی حرکت سے پوری ہو رہی ہیں یا کسی خداوند کریم سے پوری ہو رہی ہیں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
http://islamazeemnama.blogspot.com/2014/03/blog-post_8797.html

وجود باری تعالیٰ کے دلائل

یہ مضمون اس امر کا تحقیقی جائزہ ہے کہ وجود باری تعالیٰ کے متعلق دین اسلام کونسا عقلی و منطقی مقدمہ پیش کرتا ہے ؟

عمومی طور پر ہم کسی بھی واقعہ، شخصیت یا فلسفے کو جانچنے کے لئے پانچ تحقیقی میعارات اختیار کرتے ہیں. ان پانچ میں سے اگر کوئی ایک بھی صحت کے ساتھ ہم پر ثابت ہو جائے تو ہم اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں
.
١. فطرت کی گواہی
٢. عقلی استدلال
٣. تاریخ کی شہادت
٤. معتبر گواہ
٥. قابل اعتبار ثبوت

میں ان پانچوں حوالوں سے وجود خدا اور دین کے مقدمے کو انشااللہ ثابت کروں گا اور آپ دیکھیں گے کہ کسی سلیم العقل شخص کے لئے یہ گنجائش نہیں کہ وہ اپنے خالق کا انکار کرسکے

فطرت کا تقاضہ


اس سے پہلے کہ ہم قرانی یا منتقی دلائل کو پیش کریں ، ضروری ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ کیا ہماری عقل و فہم خالق کے وجود کا تقاضہ کرتی ہے ؟ کیا ہماری فطرت ایک برتر ہستی کے نظریے کوآگے بڑھ کر قبول کرتی ہے کیونکہ اگر ہماری فطرت میں یہ تقاضہ ہی موجود نہیں ہے تو پھر تو یہ ایسا ہے کہ ایک شخص کو پیاس نہ لگی ہو اور آپ زبردستی اسے پانی پلانے لگیں. ایسے میں اسکا جسم پانی اگل دیگا کیونکہ اس میں طلب ہی نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ کیا انسان میں ایک خالق کی پیاس ہے ؟ کیا اسکی فطرت اپنا پروردگار طلب کرتی ہے؟

تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ انسان نے ہر دور میں اور ہر علاقے میں ایک برتر ہستی کے تصور کو تسلیم کیا ہے. ایک ثابت شدہ چیز کو ثابت نہیں کیا جاتا بلکہ اسکے رد کرنے والے سے استدلال طلب کیا جاتا ہے. انسانیت کی عدالت نے تاریخی اعتبار سے خدا کے وجود میں پیش کیۓ جانے والے مقدمے کو قبول کیا ہے، اب آپ لاکھ ان ثبوت و دلائل کا انکار کریں، اس تاریخی سچ کو بدلنے کی آپکی حیثیت نہیں ہے. یہ دعویٰ انسانیت نے ہر دور میں اجتماعی حثییت سے قبول کیا ہے، اب اگر کچھ سر پھرے اٹھتے ہیں اور انسانیت کے اس متفقہ فیصلے کو رد کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جاۓ گا کہ استدلال پیش کریں . یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے انسان یہ خوب جانتا ہے کہ ممتا کا جذبہ ماں میں الہامی طور پر ودیعت شدہ ہے ، اسکا اظہار مختلف ماحول میں مختلف طریق سے ہوسکتا ہے مگر اس جذبے کا فطری ہونا سب کو قبول ہے. اسی طرح ایک خالق کا تصور ہمیشہ ہر ماحول میں انسانیت کا مشترکہ اثاثہ رہا ہے، اسے کبھی الله، کبھی خدا، کبھی پرماتما اور کبھی آسمانی باپ کہہ کر پکارا گیا. نام جو بھی دیں مگر ایک برتر ہستی کے تصور کو انسانیت نے ہمیشہ آگے بڑھ کر قبول کیا

خدا کا تصور صرف گردوپیش سے پیش نہیں ہوتا، الله کا تصور ہم محض تجربات و مشاہدات سے نہیں پاتے ، یہ ایک فکری مغالطہ ہے. حقیقت یہ ہے کے اس کی کونپل فطرت کی گود میں پروان پاتی ہے یہ اندر سے باہر کا سفر شروع کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ چاہے وہ امریکہ میں پیدا ہوا ہو یا پاکستان میں ، چین سے تعلق رکھتا ہوں یا افریقہ کے زولو قبیلے سے .. وہ اپنے والدین سے بچپن میں یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ مجھے کس نے بنایا ؟ یا میں کہاں سے آیا؟ . آپ اسے کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں درخت سے توڑ لیا یا ایک فرشتہ ہمیں دے گیا یا مارکیٹ سے خرید لیا. آپ اس بچے کو مطمئن کرنے کیلئے جو بھی جواب دیں، مگر اس کا یہ معصوم سوال اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ خدا کے وجود کی طلب انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے . انسانی رویوں پر کی جانے والی بہت سی تحقیقات ، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق بھی شامل ہے ، وہ سب یہی بتاتی ہیں کہ انسان میں فطری و جبلی طور پر ایسے داعیات موجود ہیں جو اسے ایک خدا پر ایمان رکھنے پر آمادہ کرتے ہیں. تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ سخت ترین ملحد بھی انتہائی مشکل حالت میں بے اختیار ایک برتر ہستی کو پکار اٹھتا ہے
تو دل میں تو آتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں ، تیری پہچان یہی ہے

عقل کا استدلال





پس یہ تو ثابت ہوگیا کہ الله کے وجود کی پہلی گواہی، پہلا مطالبہ انسان کے اندر سے وقوع پزیر ہوتا ہے. اب ذرا اس بات کا بھی جائزہ لے لیتے ہے کہ کیا انسان کا عقلی تقاضہ بھی یہی ہے کہ ایک خالق کے تصور کو تسلیم کیا جائے؟ یا نہیں . اب میں ایک کے بعد ایک کچھ عقلی تناظر پیش کرونگا، جنکا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرنے والا ہر شخص ضرور یہ جان لے گا کہ خالق کے وجود کو تسلیم کرنا نہ صرف فطرت کا تقاضہ ہے بلکہ عقل کی آواز بھی ہے

١. انسان کا جسمانی وجود

میں جب کسی حضرت سے ملتا ہوں جو الله کے وجود کے منکر ہوں تو ان سے سوال پوچھتا ہوں کہ بھائی آپ کی آنکھوں کے وجود کا کیا مقصد ہے؟ وہ ایک لمحہ سوچے بنا جواب دیتے ہیں کہ 'چیزوں کو دیکھنا' ... میں پوچھتا ہوں کہ آپ کے کانوں کے وجود کا کیا مقصد ہے؟ فوری جواب ملتا ہے کہ 'آواز کو سننا' .. میں پوچھتا ہوں کہ یہ کہیے کے آپ کہ ہاتھوں کے وجود کا کا کیا مقصد ہے؟ جواب آتا ہے کہ 'چیزوں کو تھامنا' ..میں مزید استفسار کرتا ہوں کہ آپ کی ٹانگوں کے وجود کا کیا مقصد ہے؟ جھنجھلا کر کہتے ہیں کہ ' بھائی چلنا اور کیا ؟ !' .. میں آخری سوال پوچھتا ہوں کہ حضرت آپ کے اپنے وجود کا کیا مقصد ہے؟ ........... یہ وہ مرحلہ ہے جب میرا مخاطب پھٹی آنکھوں سے میری جانب دیکھتا ہے اور کچھ نہیں کہہ پاتا. لوگ پورا یقین رکھتے ہیں کہ ہر شے جس کا وجود ہے اس کا ایک مقصد ہے. لیکن اپنے وجود کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ وہ بغیر کسی مقصد کے اس دنیا میں موجود ہیں. یہ کیسی حماقت ہے؟

٢. انسان کا غیبی و نفسی وجود

جب میں کہتا ہوں کہ فلاں کام 'میں' نے کیا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ 'میں' ہے کون ؟؟ ... کیا اس سے مراد میرا جسمانی وجود ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہو جو میرا خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہو جائے اور میں اپنے ہاتھ یا پیر یا آنکھ سے محروم ہو جاؤں ؟ .. سوچنا یہ ہے کہ کیا پھر بھی میں 'میں' رہوں گا ؟؟ ... جواب ہے کہ بلکل رہونگا. میرے کسی حصے کے جسم سے الگ ہوجانے سے میری 'میں' کو کوئی فرق نہیں پڑتا. ثابت ہوا کہ یہ 'میں' میرا جسمانی وجود نہیں ہے بلکے یہ تو اس جسمانی ہیولے کے اندر چھپا کوئی نادیدہ روحانی وجود ہے جو مجھے 'میں' بناتا ہے. ہم اس وجود کا مشاہدہ نہیں کر سکتے لیکن ہماری اصل حقیقت یہی غیبی وجود ہے. جسطرح ہم اپنی اس چھپی ہوئی ذات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے لیکن پھر بھی اپنی 'میں' کے ہونے پر یقین رکھتے ہیں، اسی طرح الله کی ذات کا مشاہدہ بھی ہمارے ادراک سے باہر ہے مگر اس سے ہرگز یہ دلیل نہیں لی جاسکتی کہ وہ موجود نہیں ہے. بلکہ ہمارا اپنی غیبی وجود ، اس برتر غیبی وجود کے ہونے پر قوی دلیل ہے
٣. ارتقاء میں ذہانت
کسی منکر خدا سے سوال کیجیے کہ بھائی یہ آپ کی ناک آپ کے چہرے پر کیوں واقع ہے؟ نظریہ ارتقاء کے اعتبار سے ایسا کیوں نہ ہوا کہ آپ کی یہ ناک مبارک آپ کے پیٹ یا گھٹنے پر نکل آتی ؟ یہ ہی کیوں ضروری تھا کہ اسکا وجود عین آپ کی آنکھوں کے نیچے اور منہ کے اپر یعنی ان دونوں کے درمیان واقع ہو؟ ... اس سوال کا جواب اس حقیقت کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ یہ دراصل ایک 'ذہانت بھرے ڈیزائن' کا نتیجہ ہے. ہم آنکھوں سے کسی شے کا جائزہ لیتے ہیں پھر ناک سے اسے سونگھ کر مزید جانتے ہیں اور پھر اگر اسے کھانے کے لائق پائیں تو منہ سے اسے چکھتے ہیں یا کھا جاتے ہیں. یہ خوبصورت 'ذہانت بھرا ڈیزائن' ایک ایسی ذہین ہستی کے وجود کا واشگاف اعلان کر رہا ہے جس نے اسے سوچ سمجھ کر وجود بخشا ہے. -- بس وہی خدا ہے.

یاد رکھیں انسان لاکھ غلطیاں کر کے بھی انسان رہ سکتا ہے مگر خدا ایک غلطی کر کے خدا نہیں رہ سکتا. وہ ہر طرح کی کوتاہی سے پاک ہے. قرآن الله کا قول ہے اور سائنسی دریافت الله کا فعل. کسی بھلے آدمی کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوا کرتا پھر الله رب العزت کے قول و فعل میں تضاد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

٤. کائنات کی تکوین
گلاس کو زمین یا دیوار پر دے ماریں، وہ دھماکے سے کرچی کرچی ہوکر زمین پر بکھر جائے گا. آپ ایسا ایک بار کیجیۓ یا ہزار دفعہ، نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا. ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہ گلاس خود بخود ٹوٹ کر پلیٹ یا چمچوں کا روپ دھار لے. ایسا تو صرف اسی صورت ممکن ہے جب اس دھماکے کے پیچھے کوئی ذہانت یا صاحب عقل ہو، جو اسے منظم کرکے اسکی صورت گری کرے. یہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ دھماکے کا نتیجہ ہمیشہ تخریب کی صورت میں نکلتا ہے ، اس کے زریعے خود بخود ترتیب و تعمیر ممکن نہیں ہو سکتی. پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آج سے کروڑوں سال قبل بگ بینگ نامی ایک دھماکہ ہو جس سے ہماری یہ عظیم الشان کائنات اور اسکا ناقابل یقین نظم خود بخود وجود میں آگیا ہو ؟ لازم ہے کہ اس عظیم دھماکے کے پیچھے بھی ایک عظیم تر ذہانت موجود ہو. قران اور سائنس دونوں بگ بینگ کے نظریے کی تائید کرتے نظر آتے ہیں مگر کسی منکر خدا اور مومن میں فرق یہ ہے کہ ایک فریق اندھے بہرے مجنون مادے کی خدائی کو تسلیم کرتا ہے اور دوسرا فریق برتر ذہانت والے مسبب الاسباب خدا کے نظریے کو مانتا ہے. ملحد کا دعوا یہ ہوتا ہے کہ گلاس ٹوٹ کر خود بخود ڈنر سیٹ بن سکتا ہے، جبکہ مومن کہتا ہے کہ گلاس کو ڈنر سیٹ بنانے کے لئے ذہانت درکار ہے.
یہ زمین یہ فلک ان سے آگے تلک
جتنی دنیائیں ہیں ، سب میں تیری جھلک

٥. تحریر شدہ خلیات
ایک تجربے کے طور پر سیاہی کو کسی بھی سادہ کاغذ پر بکھیر دیجیۓ، یہی عمل آپ ہزار دفعہ دوہرایں، ممکن ہے کہ ہر بار ایک بھدا سا نشان پڑ جائے. یہ بھی امکان ہے کہ کسی وقت ایک جاذب نظر نقش ابھر آئے، جیسے کوئی ایبسٹریکٹ آرٹ کا نمونہ. مگر اس بات کا سرے سے کوئی امکان نہیں کہ اس سیاہی کو بکھیرنے سے کوئی تحریر وجود میں آجاۓ. یہ نہیں ہو سکتا کہ محض سیاہی کو پھینکنے سے کسی زبان کا مضمون تشکیل پاجائے. ثابت ہوا کہ امکانی یا حادثاتی قسمت سے یہ تو پھر شائد کسی کمتر درجے میں ممکن ہو کہ ایک دلکش نقش دکھائی دینے لگے مگر یہ ناقابل یقین ہے کہ کسی حادثے یا اتفاق کے نتیجے میں ایک تحریر یا معلومات پیدا ہو سکیں. اب ذرا اس سائنسی حقیقت پر غور کریں کہ ہمارا جسم جن لاکھوں کروڑوں خلیات پر مبنی ہے، ان میں سے ہر خلیہ اپنے اندر ایک معلومات کی ضحیم کتاب رکھتا ہے، جس میں یہ درج ہوتا ہے کہ وہ انسان کیا رنگ رکھے گا؟ کیا رویہ اپناۓ گا ؟ اسکے خد و خال کیسے ہونگے ؟ وغیرہ. جس طرح انسانوں نے کمپیوٹر کے لئے مختلف کوڈ ایجاد کر رکھے ہیں، اسی طرح ہمارے ان خلیات میں ہمارے خالق نے ایسے کوڈ قدرتی طور پر ڈال رکھے ہیں جو آپس میں نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ اسکے زریعے مختلف جسمانی حرکات انجام دیتے ہیں. سائنسدان اس طرح کے کوڈ کو - ڈی این اے کوڈ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں. سمجھنے والوں کے لئے یہ ایک واضح نشانی ہے کہ اس ذہین ترین نظام کو چلانے والی ایک برتر ذہانت موجود ہے.

٦. عقل کا ہونا عاقل خالق کی گواہی
ایک سوال اور ذہن پر دستک دیتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا محض اجزاء کی کیمیائی ترکیب سے ایک عاقل ، ذہین اور باشعور وجود کا بن جانا ممکن ہے ؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہاں ممکن ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم مردہ انسانی اجزاء کو آپس میں جوڑ کر ایک جیتا جاگتا عاقل وجود کھڑا کر دیں ؟ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ باوجود تمام تر علمی دریافتوں کے، ہم ایک باشعور وجود تو درکنار محض زندگی پیدا کردینے سے بھی قاصر ہیں. یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسان نے خود بیشمار تخلیقات کی ہیں ، جن میں بہت سی تخلیقات ذہین بھی ہیں جیسے کمپیوٹر یا روبوٹ وغیرہ. مگر ان تمام ذہین تخلیقات میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ کسی تخلیق کو ذہین بنانے کے لئے اس میں ذہانت باہر سے ڈالنی پڑتی ہے، یہ اندر سے نہیں پھوٹتی. دوسرے لفظوں میں ذہانت کی اپنی جداگانہ حیثیت ہے اور یہ صرف اجزاء کی ترتیب سے ازخود حاصل نہیں ہوسکتی. کمپیوٹر کی مثال لیجنے ، آپ اس کے بیرونی اور اندرونی اجزاء کو جوڑ کر اسے میکانکی حرکت میں تو لاسکتے ہیں مگر اس میں ذہانت ڈالنے کے لئے آپ کو لازمی ایک جدا سافٹ وئیر کو انسٹال کرنے کی ضرورت ہو گی. محض ہارڈ وئیر کو ترتیب دے لینے سے یا اس میں برقی توانائی کے بہاؤ سے آپ 'ذہانت' نہیں پیدا کرسکتے. انسانی جسم کی ترتیب کا بھی یہی معاملہ ہے ، آپ حد سے حد جسمانی و کیمیائی اجزاء کو ہارڈ وئیرکی طرح یکجا کرسکتے ہیں مگر اس میں ذہانت پیدا کرنے کے لئے لازم ہے کہ نفس (سول) نام کا سافٹ وئیر منطبق کیا جاۓ. اسکے علاوہ کسی اور راۓ کا اظہار محض حقیقت سے فرار ہے. کمپیوٹر ایک زہین تخلیق ہے اور وہ اپنے وجود سے یہ منادی کر رہی ہے کہ میرا تخلیق کار انسان ایک عظیم تر ذہانت کا مالک ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان نامی یہ زہین مخلوق بناء کسی خالق کے خود بخود وجود پا جائے؟

٧. غیر فانی طاقت کا عقلی اعتراف
لطف کی بات یہ ہے کہ ملحدین سائنس کے قانون توانائی (لاء آف تھرمو ڈائیںمکس) کو بڑے زور و شور سے مانتے ہیں، جس کے حساب سے توانائی کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے ختم کیا جاسکتا ہے. سادہ الفاظ میں توانائی غیر فانی ہے. لیکن اگر کہیں غلطی سے کوئی یہی صفات خدا کے نام سے بیان کردے تو سمجھیں قیامت آگئی. مومنین اور منکرین خدا کی جماعت میں بس اتنا فرق ہے کہ ایک مجنون مادے یا توانائی کی خدائی کو تسلیم کرتا ہے اور دوسرا فریق برتر ذہانت والے مسبب الاسباب کی خدائی کا قائل ہے. ملحد کا دعوا یہ ہوتا ہے کہ گلاس ٹوٹ کر خود بخود ڈنر سیٹ بن سکتا ہے جبکہ مومن کہتا ہے کہ گلاس کو ڈنر سیٹ میں ڈھالنے کے لئے ذہاںت لازمی درکار ہے.

٩. حاضر کو دیکھ کر غیب پر یقین
ہم ایک تصویر کو دیکھتے ہیں اور ایک مصور ہونے کا ہمیں یقین ہوجاتا ہے حالنکہ ہم نے مصور کو نہیں دیکھا ہوتا. ہم ایک گھر کو دیکھتے ہیں اور اسکے معمار کے وجود پر بناء دیکھیے ایمان لے آتے ہیں. الیکٹران، پروٹون جیسی بے شمار سائنسی حقیقتیں ایسی ہیں جن کا ہم نے آنکھ سے مشاہدہ نہیں کیا بلکہ علمی طور پر سمجھا ہے. اسکی ایک بڑی مثال کشش ثقل کی ہے، کشش ثقل کو آج تک کسی سائنسدان نے نہیں دیکھا مگر اسکے اثرات کا جائزہ لیکر ہم پورے اطمینان سے اسے ایک سائنسی حق تسلیم کرتے ہیں. عقل محسوس سے غیر محسوس کا استنباط کرتی ہے، حاضر سے غیر حاضر کا سراغ پالتی ہے


١٠. مخلوق میں مقصدیت
گاۓ چارہ کھاتی ہے ہرا ، اس سے اسکا خون بنتا ہے لال ، پھر وہ گوبر کرتی ہے پیلا ... وہ چارہ میرے کسی کام کا نہیں، وہ خون میرے لیے شریعت میں حرام اور وہ گوبر اپنے اصل میں میرے لئے نجس ! .... یہ میرا پروردگار ہے جس نے اس حرام اور نجس کے بیچ میرے لئے دودھ کی صاف اور پاک فیکٹری لگا رکھی ہے. ذرا سوچیے ! مچھلی کے بچے کو تیرنا کس نے سکھا دیا ؟ سانپ کا سنپولا رینگنا کیسے سیکھ گیا ؟ ایک مرغی کا چوزا انڈے کے خول میں دوڑنا بھاگنا کیسے جان گیا ؟ ایک ناپاک پانی کے قطرے سے جیتا جاگتا باشعور انسان کیسے اٹھا کھڑا ہوتا ہے؟ ایک ماں کے سینے میں بچے کے پیدا ہوتے ہی دودھ کیسے اتر آتا ہے؟ آپ شیر کو گھانس دیں ، وہ کبھی نہیں کھاےگا. آپ بکری کو گوشت پیش کریں ، وہ صاف منہ پھیر لیگی کہ میرا پرہیز ہے. شیر کو گوشت دیں وہ کھاے گا ، بکری کو گھانس دیجئے وہ کھاے گی. انہیں یہ سمجھ کون سمجھا گیا ؟ اس کائنات کا زرہ زرہ زبان حال سے گواہی دے رہا ہے کہ
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے .. وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے .. وہی خدا ہے
آپ نے دیکھا کہ نہ صرف فطری بلکہ عقلی طور پر بھی اس کائنات اور ہمارے اپنے وجود کی توجیح صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم ایک برتر ذہانت والے رب کے تصور کو قبول کریں. یہ چند عقلی دلائل ہیں جو میں نے پیش کر دئیے ، اسی طرح بیشمار اور زاویے بھی ہیں جو میں طوالت کے پیش نظر نہیں لکھ رہا. اس یقین کے ساتھ کہ ہر سلیم الفطرت شخص کے لئے مندرجہ بالا عقلی استدلال بہت کافی ہیں
=================================================
مندرجہ بالا دلائل صرف خدا کے وجود کے ہونے پر وکالت کرتے ہیں اور کسی بھی سچے طالب حق کی تلاش کے لئے کافی ہیں. ان دلائل کو اسلام کے مقدمہ سے نہیں بلکہ محض فطری و عقلی استدلال سے وپیش کیا گیا ہے. مجھے امید ہے کہ اس مقام پر آپ کو ایک برتر ہستی یا خالق کی موجودگی پر کوئی شک باقی نہ رہا ہوگا. لیکن اگر اب بھی کوئی ذہنی اشکال ہے تو آگے پڑھنے کے بجاۓ اپر درج استدلال کو ایک بار اور غور سے پڑھیں اور پھر دیانتداری سے اسکے منتقی یا غیر منتقی ہونے کا فیصلہ کریں. مجھے یقین ہے کہ ہر صاحب شعور ایک صاحب اختیار خالق کو ماننے پر خود کو راضی پاۓ گا.

=================================================

اب ہم مزید زاویوں سے الله کی موجودگی کا جائزہ لیں گے اور اب آزادانہ استدلال اسلام کی جانب سے بھی پیش ہوگا. اک ملحد اور مسلم میں بس اتنا فرق ہوتا ہے کہ ملحد کے بقول "کوئی خدا نہیں" اور مسلم کے بقول "کوئی خدا نہیں سوا الله کے" ، آدھا ایمان تو ملحد و مسلم کا مشترک ہے، بس اب دوسرے حصہ کو پرکھنا ہے
جو 'لا' کہا، وہ 'لا' ہوا
وہ 'لا' بھی اسمیں 'لا'ہوا
جزو 'لا' ہوا ، کل 'لا' ہوا
پھر کیا ہوا ؟ الله ہوا

نسل در نسل علمی تواتر
ہم بہت سی حقیقتوں کو نہ فطرت کی گواہی سے مانتے ہیں اور نہ ہی عقلی استدلال سے ، بلکہ ان تک ہم علمی تواتر سے پہنچتے ہیں. ہم جانتے ہیں کہ غالب ایک شاعرگزرا ہے اور دیوان غالب ان ہی کا کلام ہے. ہم مانتے ہیں کہ افلاطوں ایک عظیم .فلسفی گزرا ہے ، اس نے 'دی ریپبلک' تصنیف کی تھی . ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکندر اعظم تاریخ میں ایک بہت بڑا فاتح . رہا ہے. کیا آپ نے کبھی سوچا ؟ کہ ہم میں سے کوئی بھی ان شخصیات سے نہیں ملا لیکن ہم انکے وجود اور پیغام پر یقین رکھتے ہیں. وجہ اسکے سوا اور کچھ نہیں کہ انکی ذات و تعلیمات کی خبر ہم تک نسل در نسل متواتر پہنچی ہے. دین کا مقدمہ اور وجود خدا کی شہادت بھی ہم تک اسی اسلوب سے نسل در نسل پہنچی ہے. تاریخ ثابت کرتی ہے کہ الله اور اسکے کلام کی خبر انسانیت کو کسی ایک وقت میں کسی ایک آدمی سے نہیں ملی بلکہ پے در پے رسول ہر دور میں اور ہر علاقے میں معبوث ہوۓ جنکی صداقت کو انسانیت نے رنگ و نسل سے بلند ہو کر محض صداقت کی بنیاد پر قبول کیا

آپ سے پوچھوں کہ آپ کے دادا کے دادا کے دادا کے دادا اس دنیا میں کبھی موجود رہے ہیں ؟ تو آپ کا یقینی جواب ہوگا کہ ہاں موجود رہے ہیں، مگر کیا ہو اگر میں آپ سے اسکا ثبوت مانگوں ؟ کیا آپ کبھی ان سے ملے ہیں؟.. آپ کے پاس اپنے دعوی کی دو ہی ممکنہ دلیلیں ہوسکتی ہیں. پہلی یہ کے آپ کا اپنا اس دنیا میں موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کےدادا .کے دادا کے دادا بھی کبھی موجود رہے ہونگے. دوسرا یہ کہ انکے وجود کی خبر آپ تک نسل در نسل ہوتی ہوئی اپ کے دادا اور والدین سے پہنچی ہے لہٰذا آپ پورے اطمینان سے انکے وجود کا یقین رکھتے ہیں. اسی اصول پر آپ اب وجود خدا اور دین کے عمومی مقدمے کو دیکھ لیں ، تخلیق کا موجود ہونا خالق کے ہونے پر دلیل ہے اور اس خالق کے پیغام کی گواہی چاہے وہ پیغمبر ہوں، صحیفے ہوں یا معجزات ہم تک نسل در نسل منتقل ہوتی آائی ہے

معتبر گواہ

الله عزوجل نے انسانیت کی تربیت کے لیے ہر دور میں اپنی الہامی کتاب نازل کی. ان کتابوں کا بنیادی مقدمہ ہمیشہ یکساں رہا. قران کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو تمام انبیاء کو عطا کیا گیا اور ہر کتاب ایک آنے والے آخری نبی کی بشارت دیتی رہی. وہ توحید کا عقیدہ ہو یا سزا و جزا کی خبر، وہ ملائکہ و جنات پر ایمان کا معاملہ ہو یا وحی و تقدیر پر ایمان کا تقاضہ. تمام ایمانیات اسی طرح سے سابقہ الہامی کتابوں میں درج ہیں جس طرح قران حکیم میں مذکور ہیں.

یہی معاملہ من و عن عبادات کے حوالے سے بھی ہے، لہٰذا سابقہ مذاہب میں تحریف کے باوجود آج تک نماز کے حوالے سے پرستش کا تصور موجود ہے، چیرٹی کے نام پر زکات و صدقات کی ترغیب ہو یا روزہ، قربانی و حج کی دیگر روایات، تمام تر مالی و بدنی عبادات اصولی سطح پر ہر نبی کی امت کو عطا کی گئی. یہ اور بات ہے کہ انکے اظہار کی حرکات و سکنات اور وقت کا تعین زمانی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف رکھا گیا ہے جو
کے معمولی و ثانوی بات ہے
یہاں یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ دین کا اصل مقدمہ تمام تر تحریفات کے باوجود بھی اپنی اصل میں یکساں ہے. مگر کوئی بھی عدالت کسی مقدمے کو سمجھنے کے لئے معتبر گواہ کا مطالبہ کرتی ہے. اسلام کا مقدمہ یوں تو سب ہی پیغمبروں نے پیش کیا لیکن معلوم تاریخ میں اسکے نمائندہ گواہ و مبلغ رسول عربی محمد صلی الله الہے وسلم ہیں. اب یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کیا انکی گواہی کردار و تعلیمات کے حساب سے معتبر ہے ؟


اگرغور کریں توکوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ صرف تین صورتوں میں ہی کر سکتا ہے.
پہلا یہ کہ وہ کردار کے لحاظ سے جھوٹا ہو.
دوسرا کہ وہ ذہنی حوالے سے دھوکے زدہ ہو.
اور تیسرا یہ کے وہ اس دعوے سے کوئی مال و رتبے کا حصول چاہتا ہو.
جب ہم محمد (ص) کی حیات کہ جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں فوری معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ تینوں الزام آپ (ص) پر نہیں لگ سکتے.

پہلا اعتراض
نبوت سے پہلے ہی تمام اہل مکہ آپ کو اس درجے میں سچا تسلیم کرتے تھے کہ آپ کا لقب ہی صادق اور امین رکھ دیا گیا. لہٰذا تاریخ و منطق کے حساب سے آپ ہرگز جھوٹے نہ تھے.

دوسرا اعتراض
جب آپ (ص) کے اکلوتے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو اسی وقت سورج گرہن ہو گیا، صحابہ نے کہا کہ یہ ضرور رسول (ص) کا معجزہ ہے. آپ (ص) نے ارشاد فرمایا کہ نہیں !! سورج گرہن ایک قدرتی مظہر ہے اور اس کا ہونا نہ ہونا کسی کی زندگی موت سے وابستہ نہیں ہے. اگر آپ (ص) کسی ذہنی دھوکے کا شکار ہوتے تو کبھی اس کی تردید نہ فرماتے.

تیسرا اعتراض
یہ بھی سچ ہے کہ جب شدید مشکل کے دور میں سردار مکہ نے یہ پیشکش رکھی کہ وہ آپ کو حکومت دینے، مال و دولت دینے اور خوبصورت عورتیں فراہم کرنے کو تیار ہیں، بس شرط اتنی ہے کہ آپ دعوت دین ترک کر دیں تو آپ (ص) نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی لا رکھو تو میں کلمہ حق کہنے سے باز نہ آؤں گا. جب آخر میں حکومت، شہرت اور طاقت حاصل بھی ہوئی تو آپ نے دانستہ اپنے لیے فقر یعنی غربت کا انتخاب کیا تاکہ کل کوئی انگلی اٹھا کر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ (ص) نے دین کی محنت مال و رتبے کے لیے کی. جو کوئی دیانت داری سے آپ کی زندگی کا جائزہ لےگا وہ آپ (ص) کی حقانیت کو ضرور جان لے گا.
معتبر شہادت/ثبوت

یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ گواہ کی قبولیت کے لئے اسکا قابل اعتبار ہونا ضروری ہے، جو الحمداللہ ہم نے اپر اختصار سے بیان کردیا. البتہ گواہ کے ساتھ ساتھ کوئی بھی عدالت ثبوت کا بھی تقاضہ کرتی ہے. یوں تو تمام الہامی کتابیں دین کے مقدمے کا ثبوت ہے مگر اس کی سب سے بڑی اور محفوظ شہادت قران حکیم ہے.

تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بہت سے افراد نے نبوت کا جھوٹا دعوا کیا اور کچھ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے میں بھی کامیاب رہے مگر رسالت کا جھوٹا دعوا کوئی نہ کر پایا. وجہ یہ ہے کہ رسول صرف پچھلے پیغمبروں کی تائید ہی نہیں کرتا بلکے ایک الہامی کتاب بھی پیش کرتا ہےکسی صحیفے یا کتاب کو خدائی کلام کہنا اتنی بڑی جرات اور ہمت کا کام ہے کہ کوئی فریبی اسکا ارتکاب نہیں کرسکتا. اگر کوئی کر بھی بیٹھے تو کامیاب نہیں ہو سکتا. لہٰذا رسول عربی محمد (ص) کے بعد جتنے بھی افراد دین کی تعبیر لے کر آے انہوں نے یا تو نبوت و رسالت کا دعوا سرے سے کیا ہی نہیں جسے کہ گرو نانک، گرو رجنیش اوشو، سائیں بابا وغیرہ یا پھر اگر دعوا کیا بھی تو رسالت کا نہیں بلکے نبوت کا جھوٹا دعوا کیا جسے کہ مرزا قادیانی، مسلمہ کذاب، بہاالدین بہائی وغیرہ.

اس کتاب کے الہامی ہونے کے اتنے دلائل ہیں کہ اگر مجھ جیسا ناقص العلم بھی اسے بیان کرے تب بھی ایک پوری کتاب اسی موضوع پر درکار ہو. لہٰذا یہاں قران کے صرف اسلوب و زبان کے حوالے سےمختصر اشارے کیۓ جاییں گے

سوره یٰسین کی چالیسویں آیت میں ارشاد ہے کہ " نہ تو سورج ہی سے ہوسکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے۔ اور آسمان میں سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں" ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قران نے عربی کے جن الفاظ کا انتخاب کیا ہے وہ کچھ یہ ہیں "کل فی فلک .. یسبحون " .. غور کیجنے آپ "کل فی فلک" کو دونوں جانب سے پڑھیں گے تو ایک ہی جملہ بنے گا یعنی یہ الفاظ بھی تسبیح کے مدار کی طرح گھوم رہے ہیں (ک ل ف 'ی' ف ل ک). کیا یہ کسی انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ جملے میں اپنا ...مدعا بیان کرتے ہوے اس جملے کی عملی شکل بھی اس پیغام کے مطابق کردے؟ .. ایک اور مثال ملاحظہ ہو سوره مدثر کی تیسری آیت میں الله رب العزت نے محمد (ص) کو حکم دیا ہے کہ " اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو" .. خوبصورت بات یہ ہے کہ یہاں بھی جن الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ ہیں "ربک فکبر" .. دونوں جانب سے پڑھ کر دیکھ لیجیے ایک ہی جملہ وجود اور ایک ہی ترتیب وجود پزیر ہوگی. (ر ب ک 'ف' ک ب ر). یہاں صرف دو امثال بیان کی گئی ہیں ورنہ قران اپنی زبان اور اسلوب دونوں حوالوں سے عجائب کا خزانہ ہے
قرآن مجید میں اعداد کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے جو اس کلام کے الہامی ہونے کی دلیل ہے. قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ الہے سلام کی مثال بلکل حضرت آدم الہے سلام جیسی ہے. حیرت انگیز طور پر دونوں پیغمبروں کا ذکر پچیس پچیس بار آیا ہے. قرآن میں لفظ مرد یعنی 'رجل' کا ذکر چوبیس بار آیا ہے اور عورت یعنی 'امرا' کا ذکر بھی چوبیس بار آیا ہے. قرآن میں شیطان کا ذکر اڑسٹھ ٦٨ بار آیا ہے اور فرشتے کا ذکر بھی اڑسٹھ ٦٨ بار ہی آیا ہے. قرآن اس دنیا کی زندگی کا ایک سو پندرہ ١١٥ بار تذکرہ کرتا ہے اور آخرت کی زندگی کا بھی ایک سو پندرہ ١١٥ بار ذکر کرتا ہے. ہم میں سے ہر ایک بتا سکتا ہے کہ سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں لیکن سوچنے کہ قرآن دن یعنی یوم لفظ کا استمعال پورے تین سو پینسٹھ بار کرتا ہے. قرآن پاک میں سورہ توبہ کی آخری آیات میں الله عزوجل نے صاف فرما دیا ہے کہ اس نے ہر ایک چیز عدد میں گن رکھی ہے. ہر باشعور انسان جو دیانت داری سے غور کرے، اسکے لئے کوئی اس کتاب کے الہامی ہونے سے انکار کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ریفرنس: https://www.facebook.com/groups/oifd1/permalink/327805477410499/


ا ک مراسلہ پیش ِخدمت ہے ___پڑھنے سے پہلے بھول جایئے آپ صاحب دین ہیں یا لا دین ___سائینسی دماغ جو شعور کے موجد کہے جاتے ہیں _______کیا کہتے ہیں _____؟ بعد میں فیصلہ آپ پہ

How to discover God?

خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طور پر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ايک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طور پر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity)آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے ليے میں نے تمام متعلق علوم کو پڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین شعبوں سے تعلق رکھتا ہے فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہان میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔

سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعہ کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس ليے میں ہوں:

I think, therefore I am.

ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے قابل انطباق (applicable) ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابل فہم بناتا ہے:

Existence of man makes the existence of God understandable.

خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا بھی وجود ہے:

I am, therefore God is.

فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طور پر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگرچہ انھوں نے ''خدا'' کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ سپرٹ (world spirit)کا نام دیا، وغیرہ۔

اِس کے بعد میں نے چاہا کہ میں سائنسی طریقِ استدلال (scientific method) کے ذریعے اِس معاملے کی تحقیق کروں۔ سائنسی مطالعہ میں جو مسلّمہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے۔ مگر اس مشاہداتی استدلال کے دو دور ہیں۔ سائنس کا مطالعہ جب تک عام کبیر (macro world)تک محدود تھا، اُس وقت تک اس استدلال کا صرف ایک طریقہ رائج تھا۔ لیکن جب سائنس کا مطالعاتی سفر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچ گیا تو اِس استدلال میں ایک تبدیلی واقعہ ہوئی۔ وہ یہ کہ پہلے اگر مشاہداتی استدلال (observational argument) کو درست مانا جاتا تھا، تو اب استنباطی استدلال (inferential argument) کو بھی یکساں طور پر درست (valid)مانا جانے لگا، یعنی پہلے اگر آرگومینٹ فرام سین ٹو سین (argument from seen to seen) کا اصول رائج تھا تو اب آرگومینٹ فرام سین ٹو اَن سین (argument from seen to unseen)کا اصول بھی درست استدلال کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ اِن دونوں طریقوں کو فنی زبان میں اِس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:

1. Observation, hypothesis,verification

2. Hypothesis, observation, verification

ایک سادہ مثال سے اس معاملے کی عملی وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً آپ سیب کو شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کہتے ہیں دوسیب جمع دو سیب، برابر چار سیب۔ یہ مشاہداتی استدلال کی ایک مثال ہے۔ دوسرے استدلال کی مثال یہ ہے کہ نیوٹن (وفات: 1727) نے دیکھا کہ ایک سیب درخت سے گر کر نیچے آیا۔ یہ ایک مشاہدہ تھا۔ اُس نے سوچنا شروع کیا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر اوپر کیوں نہیں گیا، وہ نیچے کیوں آ گیا۔ اِس سوچ کے بعد وہ ایک استنباط تک پہنچا، وہ یہ کہ زمین میں قوتِ کشش ہے۔ اِس کے بعد اُس نے دوسرے متعلق شواہد (relevant data)کا جائزہ لیا تو اِس بات کی تصدیق ہو گئی کہ اس کا استنباط درست (valid) تھا۔

سائنسی میتھڈالوجی کو سمجھنے کے لیے میں نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ یہاں میں ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ مشہور برٹش فلسفی برٹرینڈ رسل (وفات 1970 ) کی کتاب ہیومن نالج (Human Knowledge) ہے۔ اِس کتاب میں مصنف نے بتایا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں چیزوں کا علم، سچائیوں کا علم

Knowledge of things, knowledge of truths.

چیزوں کی دریافت میں مشاہداتی طریقِ استدلال کار آمد ہے، لیکن خدا کے وجود کا معاملہ سچائی کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس لیے اس معاملے میں وہی استدلال قابل انطباق ہے جس کو استنباطی استدلال (inferential argument) کہا جاتا ہے۔

میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے ہوئی۔ وہ فلسفہ کے پروفیسر تھے۔ اُن سے خدا کے وجود کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس کرائٹیرین کیا ہے:

What criterion do you have to prove the existence of God?

میں نے جواب دیا کہ وہی کرائٹیرین جو آپ کے پاس اِس نوعیت کی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے ہو:

Same criterion that you have to prove anything else.

اِس کے بعد میں نے اُن کے سامنے مذکورہ طریقِ استدلال کی وضاحت کی۔ میں نے کہا کہ خدا کے وجود کا معاملہ سچائی (truth) کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ سچائی کی نوعیت کی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے جس کرائٹیرین کو استعمال کرتے ہیں، اُسی کرائٹیرین کو خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیجئے، اور پھر آپ جان لیں گے کہ خدا کا وجود بھی اُسی علمی معیار سے ثابت ہوتا ہے، جس علمی معیار سے اس نوعیت کی دوسری چیزیں ثابت ہو رہی ہیں۔

سنجیدہ اہلِ علم نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ مثلاً برٹرینڈ رسل نے اعتراف کیا ہے کہ تھیالوجین عام طور پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہا جاتا ہے۔ برٹرینڈرسل کے مطابق، یہ طریقہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پورے معنوں میں سائنسی منطق (scientific logic) پر مبنی ہے۔ اس لیے یہ استدلال اصولی طور پر اتنا ہی حقیقی ہے، جتنا کہ کوئی دوسرا سائنسی استدلال۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے:

Where there is design, there is designer and when designer is proved, the existence of God is also proved
.
اشیاء کا سائنسی مطالعہ 1969 میں شروع ہوا، جب کہ اطالوی سائنس داں گلیلیو (وفات 1642) نے ابتدائی دوربین (telescope) کے ذریعے ستاروں کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بینی کے ذریعے زیادہ بڑے پیمانے پر آسمانی مشاہدہ ممکن ہو گیا۔ اِس کے بعد الیکٹرانک دوربین ایجاد ہوئی جس کو 1990 میں امریکا کی ہبل آبزرویٹری میں نصب کیا گیا۔

اس قسم کے مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ تقریباً 15بلین سال پہلے خلا میں بگ بینگ کا واقعہ ہوا جس کے بعد ستاروں اور سیاروں کی موجودہ دنیا وجود میں آئی۔ اِس کے بعد تقریباً ایک بلین سال پہلے لٹل بینگ (little bang) ہوا جس کے ذریعے موجودہ شمسی نظام (solar system)وجود میں آیا۔ اس کے بعد سیارہ ارض پر واٹر بینگ (water bang) ہوا اور زمین پانی سے بھر گئی۔ اس کے بعد زندگی اور زندگی سے متعلق تمام چیزیں پیدا ہوئیں۔

بگ بینگ کے واقعہ کے مزید مطالعے کے لیے 1989 میں امریکہ کے ادارہ ناسا (NASA)نے ایک خصوصی سٹلائیٹ (cosmic Background Explorer) خلا میں بھیجا۔ اِس سٹلائیٹ نے بالائی خلا کی جو تصویریں بھیجی ہیں، اُن سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات کے بیرونی حصے میں لہر دار سطح (ripples)موجود ہیں۔ تصویر میں ان لہروں کو دیکھ کر ایک مغربی سائنس داں بولٹز من (Boltzmann)نے کہا وہ کون خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں:

Who was the God who wrote these signs?

یہ بات صرف بگ بینگ سے نکلی ہوئی لہروں تک محدود نہیں ہے، بلکہ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار چیزوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایک سنجیدہ انسان جب کائنات کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے وہ کون خدا تھا جس نے اِن تمام نشانیوں کو لکھا:

Who was the God who wrote these signs?

کائنات کا جب سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک بے نقص (zero-defect) کائنات ہے۔ وسیع خلا میں بے شمار ستارے اور سیارے مسلسل طور پر حرکت میں ہیں، مگر ہمارے شہروں کے برعکس، خلا میں کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا۔ گویا کہ عظیم خلا میں نہایت وسیع پیمانے پر ایک ایکسیڈنٹ فری ٹریفک (accident-free traffic) قائم ہے۔ ہماری زمین پر نیچر روزانہ بہت سے واقعات ظہور میں لا رہی ہے۔ یہ گویا ایک عظیم صنعتی نظام ہے۔ مگر یہ نظام زیرو ڈیفیکٹ انڈسٹری (zero-defect industry)کی سطح پر چل رہا ہے۔ بے مثال کا ئناتی کنٹرول اور یہ آفاقی توازن پکار رہا ہے کہ بلاشبہ اس کے پیچھے ایک عظیم خدا ہے جو اِن واقعات کو ظہور میں لا رہا ہے۔

کائنات میں واضح طور پرایک ذہین منصوبہ بندی (planning intelligent) پائی جاتی ہے۔ ایک چھوٹے ذرے سے لے کر عظیم کہکشانی نظام تک یہ منصوبہ بندی نمایاں طور پر ہمارے مشاہدے میں آتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی بلاشبہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کائنات کے پیچھے ایک بہت بڑا ذہن (mind) کار فرما ہے یہ عقیدہ اتنا ہی سائنسی ہے، جتنا کہ ایکس رے کی قابلِ مشاہدہ تصویر کو دیکھ کر ناقابلِ مشاہدہ ایکس ریز (X-Rays) کے وجود کو ماننا۔

موجودات کے مشاہدے سے ایک عظیم حقیقت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اُس میں جگہ جگہ یکسانیت کے ساتھ استثناء (exception amidst uniformity)کی مثالیں موجود ہیں۔ استثناء (exception)اُس کو کہا جاتا ہے جو عام قانون کے خلاف ہو، جو عام قانون کی پابندی نہ کرے:

Exception: That does not follow the rule.

نیچر میں اس معاملے کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے ہاتھ میں پانچ انگلیاں ہوتی ہیں۔ یہ انگلیاں ہر ایک میں یکساں طور پر ہوتی ہیں۔ لیکن ہر ایک کے ہاتھ میں اس کے انگوٹھے کا نشان (finger print)ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہر ایک نشان دوسرے کے نشان سے الگ ہوتا ہے۔ اس عموم میں یہ استثناء ایک برتر ہستی کی بالقصد مداخلت کے بغیر ممکن نہیں۔

نیچر میں اِس قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق، خلا میں تقریباً 125بلین کہکشائیں موجود ہیں۔ ہر کہکشاں (galaxy)کے اندر تقریباً 200بلین ستارے پائے جاتے ہیں۔ لیکن شمسی نظام (solar system)ایک استثنائی نظام ہے جو صرف ہماری اُس قریبی کہکشاں میں پایا جاتا ہے جس کو ملکی وے (milky way)کہا جاتا ہے۔ عظیم کائنات میں یہ استثناء ایک طاقتور ہستی کی بالقصد مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا:

Exception means intervention, and when intervention is proved, intervenor is also proved. And intervenor is only the other name of God.

ہماری کہکشاں جس میں شمسی نظام واقع ہے، وہ اس نوعیت کی ایک انوکھی مثال ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کہکشاں کا درمیانی حصہ ناقابل برداشت حد تک گرم ہے۔ اگرچہ ہمارا شمسی نظام، کہکشاں کے درمیانی حصے میں ہو تو ہماری زمین پر کسی قسم کی زندگی اور نباتات کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہمارا شمسی نظام، کہکشاں کے ایک کنارے واقع ہے۔ اِس بنا پر کہکشاں کے پُر خطر درمیانی ماحول کے اثر سے بچا ہوا ہے۔ یہ استثناء واضح طور پر ایک منصوبہ بند مداخلت کا ثبوت ہے، اور منصوبہ بند مداخلت بلاشبہ خدائے برتر کی موجودگی کا ثبوت ہے۔

ہمارے شمسی نظام کے اندر بہت سے سیارے (planets)پائے جاتے ہیں۔ اُنھیں میں سے ایک سیارہ وہ ہے جس کو زمین کہا جاتا ہے۔ دوسرے تمام سیارے مدار (orbit)پر گھومتے ہیں۔ مگر ہماری زمین اپنے مدار پر گردش کرتے ہوئے اپنے محور (axis)پر بھی گھومتی ہے۔ زمین کی یہ دہری گردش (double rotation)ایک انتہائی استثنائی گردش ہے جو کسی بھی ستارے یا سیارے میں نہیں پائی جاتی۔ یہ استثناء اِس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے پیچھے ایک ایسے برتر عامل کو تسلیم کیا جائے جس نے اپنی خصوصی مداخلت کے ذریعے یہ بامعنیٰ استثناء خلا میں قائم کر رکھا ہے۔

ہماری زمین پر استثناء کی ایک ایسی انوکھی مثال پائی جاتی ہے، جو ساری کائنات میں کہیں بھی موجود نہیں، یہ لائف سپورٹ سسٹم (life support system)ہے۔ اِس لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر زمین پر انسان کا یا کسی اور نوعِ حیات کا وجود ممکن نہ تھا۔ لائف سپورٹ سسٹم کا یہ استثنائی انتظام خدا کی موجودگی کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کا انکار کوئی سنجیدہ انسان نہیں کر سکتا۔

البرٹ آئن سٹائن (وفات: 1955) کو بیسو یں صدی عیسوی کا سب سے بڑا سائنسی دماغ مانا جاتا ہے۔ آئین سٹائن نے کائنات کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اُس نے کائنات کے ہر حصے میں حیرت ناک حد تک معنویت (meaning)پائی ۔ یہ دیکھ کر اُس نے کہا کہ عالم فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ وہ قابلِ فہم ہے:

The most incomprehensible fact about nature is that it is comprehensible

آئن سٹائن اپنے اِس قول میں بالواسطہ طور پر خدا کے وجود کا اقرار کر رہا ہے۔ اگر اس کے قول کو بدل کر کہا جائے تو وہ اِس طرح ہو گا کہ خدا کے بغیر عالمِ فطرت مکمل طور پر ناقابلِ فہم رہتا ہے، اور خدا کے ساتھ عالمِ فطرت مکمل طور پر قابلِ فہم بن جاتا ہے:

Without God, nature is totally incomprehensible, and with God, nature becomes totally comprehensible.

کائنات بلا شبہ ایک بامعنی کائنات (meaningful world) ہے۔ سائنس داں وہ لوگ ہیں جو کائنات کا نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ عام انسان کے مقابلے میں کائنات کی معنویت سے بہت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے عام طور پر اس کا اعتراف کیا ہے۔ سائنس داں اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ''خدا'' (God)کا لفظ بولنے سے احتراز کرتے ہیں۔ لیکن نام کے بغیر وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔

مثلاً برٹش سائنس داں سر جیمز جینز (وفات: 1947) نے اپنی کتاب (The Mysterious Universe) میں کہا ہے کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical)کی شہادت دیتی ہے۔ برٹش عالمِ فلکیات سر فریڈ ہائل (وفات2001) نے اس حقیقت کا اعتراف یہ کہہ کر کر لیا ہے کہ ہماری کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe)ہے۔ امریکی سائنس داں پال ڈیویز (Paul Davis)نے اقرار کیا ہے کہ کائنات کے پیچھے ایک باشعور ہستی (conscious being) موجود ہے۔ برٹش سائنس داں سر آرتھر اڈنگٹن (وفات: 1944) نے اِس حقیقت کا اعتراف یہ کہہ کر لیا ہے کہ کائنات کا مادہ ایک ذہین مادہ ہے:

The stuff of the world is mind-stuff.

خدا کا وجود بلا شبہ اُس طرح ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جس طرح کوئی اور ثابت شدہ واقعہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا وجود صرف ایک پُر اسرار عقیدہ کی بات نہیں، خدا کا وجود اُس طرح ایک علمی مسلّمہ ہے جس طرح کوئی اور علمی مسلّمہ۔ اب یہ سوال ہے کہ خدا ایک ہے یا کئی خدا ہیں جو کائنات کی تخلیق اور اس کے انتظام کے ذمے دار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خدا کا عقیدہ شرک پر مبنی ہے یا توحید پر۔ اس معاملے میں علم کا فیصلہ مکمل طور پر توحید کے حق میں ہے۔

برٹش سائنس داں نیوٹن کو جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ نیوٹن سے پہلے دنیا میں توہمات (superstitions) کا زور تھا۔ اُس وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ خداؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مثلاً سن گاڈ (sun god)، مون گاڈ (moon god)، رین گاڈ (rain god)، وغیرہ۔ نیوٹن نے اِس معاملے کا سائنسی مطالعہ کیا۔ اُس نے کہا کہ چار طاقتیں (forces)ہیں جو کائنات کے نظام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ چار طاقتیں یہ ہیں:
١۔ قوتِ کشش (gravitational force)
2۔ برقی مقناطیسی قوت (electromagnetic force)
3۔ طاقت ور نیو کلير قوت (strong nuclear force)
4۔ کمزور نیو کلیر قوت (weak nuclear force)

مگر سائنسی مطالعے کے ذریعے جو دنیا دريافت ہو ئی، اُس میں اتنی زیادہ ہم آہنگی (harmony)پائی جاتی تھی کہ یہ ناقابلِ تصور تھا کہ اتنی زیادہ ہم آہنگ کائنات کو کئی طاقتیں کنٹرول کر رہی ہیں۔ اس لیے سائنسی ذہن اس تعداد پر مطمئن نہ تھا۔ مختلف سائنس داں اِس تعداد کو گھٹانے کے لیے کام کر رہے تھے، یہاں تک کہ 1979میں ایک نئی تحقیق سامنے آئی۔ اِس تحقیق کے مطابق، کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں چار نہیں تھیں، بلکہ وہ صرف تین تھیں۔ اِس دریافت تک پہنچنے والے تین نوبل انعام یافتہ سائنس داں تھے۔ اُن کے نام یہ ہیں:

Sheldon Glashow (b. 1932),
Steven Weingberg (b. 1933)
Dr. Abdussalam (d. 1996)

تاہم سائنسی ذہن تین کی تعداد پر بھی مطمئن نہ تھا۔ وہ اِس تعداد کو مزید گھٹا کر ایک تک پہنچانا چاہتا تھا۔ یہ کام برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ (پیدائش: 1942)کے ذریعے انجام پایا۔ اسٹفن ہاکنگ کو نظریاتی سائنس میں سب سے بڑا زندہ سائنس داں مانا جاتا ہے۔ اس نے پیچیدہ ریاضیاتی حساب (mathematical calculations) کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ صرف ایک طاقت (force) ہے جو پوری کائنات کو کنٹرول کر رہی ہے۔ یہ نظریہ اب تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان ایک مسلّمہ کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ عمومی زبان میں اس کو سنگل اسٹرنگ نظریہ (string theory single)کہا جاتا ہے۔

سنگل اسٹرنگ نظریہ گویا کہ ایک خدا (توحید الٰہ) کے عقیدے کے حق میں ایک سائنسی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ مذہبی عقیدے کے علمی مسلّمہ کی حیثیت دے رہا ہے۔ اب خالص سائنس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اِس کائنات کا ایک خدا ہے۔ یہ خدا ایک ہے اور صرف ایک:

"Single string concept by Estefan haking":,

The concept of God is purely a scientific concept, and this God is one and one alone.
 
Top