• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے سے متعلق ایک حدیث کی صحت

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
وسیلے سے متعلق ایک حدیث کی صحت


طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے کہ کہ ایک شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس آیا کرتا تھا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نہ ان کی طرف توجہ کرتے او رنہ اس کی شکایت پر کان دھرتے اس شخص نے حضرت عثمان بن حنیف سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے کہا وضو خانے میں جاکر وضو کرو اور مسجد نبوی میں جاکر دورکعات نماز پڑھو اور یہ دعا مانگو
اے اللہ تجھ سے تیرے نبی کے واسطے سے سوال کرتا ہوں اے محمد میں آپ کو آپ کے رب کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ آپ میری حاجت پوری فرمادیں یہ دعا پڑھ کر اپنی حاجت کا ذکرکرنا
اس شخص نےایسا ہی کیا پھر حضرت عثمان  کے دروازے پر پہنچا تو دربان اس کا ہاتھ پکڑ کرحضرت عثمان  کے پاس لے گیا اور ان کے پاس بٹھادیا حضرت عثمان  نے اس سے کہا اپنی حاجت بیان کرو اس نے بیان کی تو آپ نے پوری کرڈالی اور فرمایا جو بھی ضرورت ہو تو کہنا
وہ شخص وہاں سے اٹھ کر حضرت عثمان بن حنیف کے پاس گیا اور کہا اللہ آپ کو جزائے خیر دے حضرت عثمان  تو میری طرف رخ ہی نہیں کرتے تھے لیکن آپ نے ان سے گفتگو کی تو متوجہ ہوئے
ابن حنیف نے کہا واللہ میں نے تو ان سے بات تک نہیں کی لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ کے پاس ایک اندھاآیا اور اپنے اندھے پن کی شکایت کی پھر نابینا والی پوری حدیث بیان کی
یہ حدیث دلائل النبوۃ میں بھی موجود ہے اور اس کی سند اس طرح ہے
أخبرنا أبو سعيد عبد الملك بن أبي عثمان الزاهد ، رحمه الله ، أنبأنا الإمام أبو بكر محمد بن علي بن إسماعيل الشاشي القفال ، قال : أنبأنا أبو عروبة ، حدثنا العباس بن الفرج ، حدثنا إسماعيل بن شبيب ، حدثنا أبي ، عن روح بن القاسم ، عن أبي جعفر المديني ، عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضي الله عنه في حاجته...... [al-Bayhaqi’s Dala’il (no. 2417)]
رضا بھائی آپ کی پوسٹ کو اردو میں کردیا گیا ہے آپ سے درخواست ہے کہ تحریر انگلش کے بجائے اردو میں لکھا کریں
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
یہ روایت بطریق ابن وہب از شبیب بن سعید کتاب الدعاء للطبرانی 1/320 , المعجم الکبیر للطبرانی 9/31 , العدۃ للکرب والشدۃ للمقدسی, معرفۃ الصحابہ لأبی نعیم ح 4505 , 4946 میں مذکور ہے ۔
اور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ شبیب بن سعید کی مرویات جنہیں عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا ہے منکر یعنی ضعیف ہیں ۔
اسی طرح یہی روایت بطریق العباس بن الفرج از اسماعیل بن شبیب از شبیب از روح بن القاسم از ابو جعفر المدینی , دلائل النبوۃ للبیہقی ح 2417 , 2425 , الترغیب فی الدعاء لعبد الغنی المقدسی ح 61 , میں مذکور ہے ۔
اس سند کے مرکزی راوی عباس بن الفرج کے بارہ میں ابو داود السجستانی کہتے ہیں کہ لیس بشیء اور ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے , أحمد بن شیعب النسائی فرماتے ہیں متروک الحدیث ہے , اسی طرح امام بخاری اور امام مسلم نے بھی اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے ۔
لہذا یہ روایت پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
رفیق طاہر بھائی!
جزاکم اللہ خیرا، وبارک فی علمکم
امام البانی﷫ نے (التوسل) میں اس قصہ کو ضعیف ومنکر قرار دیا ہے۔
جبکہ شیخ مقبل بن ہادی الوادعی﷫ نے (الشفاعہ) میں فرمایا کہ اس کی سند میں روح بن قاسم ہے اور اس قصہ کے ضعف کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا دار ومدار شبیب بن سعید پر ہے۔
تفصیل کیلئے یہ لنک ملاحظہ کریں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
رفیق بھائی ، انس بھائی۔۔۔جزاک اللہ خیرا کثیرا فی الدارین۔ اللہ تعالیٰ آپ اہل علم کو سلامت رکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھنے والوں کی کمزوریاں اسی طرح بے نقاب ہوتی رہیں۔ اللہ کرے کہ ہم اس علمی ذخیرہ کو اردو کے قالب میں بھی ڈھال سکیں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
رفیق طاہر بھائی!
جزاکم اللہ خیرا، وبارک فی علمکم
1- امام البانی﷫ نے (التوسل) میں اس قصہ کو ضعیف ومنکر قرار دیا ہے۔
2- جبکہ شیخ مقبل بن ہادی الوادعی﷫ نے (الشفاعہ) میں فرمایا کہ اس کی سند میں روح بن قاسم ہے اور اس قصہ کے ضعف کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا دار ومدار شبیب بن سعید پر ہے۔
تفصیل کیلئے یہ لنک ملاحظہ کریں۔
جزكم الله خيرا وبارك فيكم
1- کاش مجھے معلوم ہوتا کہ التوسل میں اسکی مفصل تحقیق ہے تو شاید مجھے اتنا وقت نہ کھپانا پڑتا اسکی اسانید کی تلاش میں
2- روح بن القاسم تو ثقہ ہے اسے ابو حاتم رازی ، ابو زرعہ ، یحیى بن معین ، ذہبی ، ابن حجر ، احمد بن حنبل ، سفیان بن عیینہ اور نسائی نے ثقہ قرار دیا ہے ۔
مزید برآں کہ شیخ مقبل کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اسکا مدار شبیب پر ہے کیونکہ اسکی کچھ اسانید ایسی بھی ہیں جن میں شبیب نہیں ہے مثلا :
المعجم الصغير للطبراني - من اسمه طاهر
حديث:‏509‏
حدثنا طاهر بن عيسى بن قيرس المقري المصري التميمي ، حدثنا أصبغ بن الفرج ، حدثنا عبد الله بن وهب ، عن شبيب بن سعيد المكي ، عن روح بن القاسم ، عن أبي جعفر الخطمي المدني ، عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف ، عن عمه عثمان بن حنيف " أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضي الله عنه في حاجة له , فكان عثمان لا يلتفت إليه , ولا ينظر في حاجته , فلقي عثمان بن حنيف , فشكا ذلك إليه , فقال له عثمان بن حنيف : ائت الميضأة فتوضأ , ثم ائت المسجد فصل فيه ركعتين , ثم قل : اللهم , إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله عليه وآله وسلم نبي الرحمة يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك عز وجل فيقضي لي حاجتي , وتذكر حاجتك , ورح إلي حتى أروح معك , فانطلق الرجل , فصنع ما قال له عثمان , ثم أتى باب عثمان , فجاء البواب حتى أخذ بيده , فأدخله على عثمان بن عفان , فأجلسه معه على الطنفسة , وقال : حاجتك ؟ فذكر حاجته , فقضاها له , ثم قال له : ما ذكرت حاجتك حتى كانت هذه الساعة , وقال : ما كانت لك من حاجة , فأتنا , ثم إن الرجل خرج من عنده , فلقي عثمان بن حنيف , فقال : له جزاك الله خيرا , ما كان ينظر في حاجتي , ولا يلتفت إلي حتى كلمته في , فقال عثمان بن حنيف : والله , ما كلمته ولكن شهدت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وأتاه ضرير , فشكا عليه ذهاب بصره , فقال : له النبي صلى الله عليه وآله وسلم : " أفتصبر ؟ " , فقال : يا رسول الله , إنه ليس لي قائد , وقد شق علي , فقال له النبي صلى الله عليه وآله وسلم : " ائت الميضأة , فتوضأ , ثم صل ركعتين , ثم ادع بهذه الدعوات " قال عثمان بن حنيف : فوالله , ما تفرقنا وطال بنا الحديث حتى دخل علينا الرجل كأنه لم يكن به ضرر قط " لم يروه عن روح بن القاسم إلا شبيب بن سعيد أبو سعيد المكي وهو ثقة وهو الذي يحدث عن أحمد بن شبيب , عن أبيه , عن يونس بن يزيد الأبلي , وقد روى هذا الحديث شعبة عن أبي جعفر الخطمي واسمه عمير بن يزيد , وهو ثقة تفرد به عثمان بن عمر بن فارس عن شعبة ، والحديث صحيح وروى هذا الحديث عون بن عمارة , عن روح بن القاسم , عن محمد بن المنكدر , عن جابر رضي الله عنه وهم فيه عون بن عمارة والصواب : حديث شبيب بن سعيد *

علاوہ ازیں شبیب ضعیف بھی نہیں ہے صرف ابن وہب کی اس سے مرویات کو اہل نظر نے ضعیف کہا ہے وگرنہ وہ ثقہ ہے ۔
واللہ تعالى اعلم
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
رفیق بھائ، آپ کے جواب بھت بھت شکریہ،
بھائ جان، العباس بن الفرج، کو جیسا آپ نے فرمایا، ابو داود السجستانی، امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ھے، بلکل صحیح ھے، لیکن پھر، اسے اتنے بڑے بڑے جرح والتعدیل کے ائمہ، جیسے حافظ ابن حجر، حافظ زھبی، اور خطیب بغدادی نے ثقہ کیوں قرار دیا؟، اخر انھوں نے بھی تو یہ کسی جارح والتعدیل کے امام سے ھی نقل کیا ھو گا نا۔ اس بارے آپ کیا فرماتے ھیں۔

جزاک اللہ خیر
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
[URDU]ابو الفضل العباس بن الفرج الریاشی البصری النحوی کو
ابو حاتم بن حبان البستی نے ثقات میں ذکر کرکے مستقیم الحدیث کہا ہے۔
ابو سعید السمعانی , ابن حجر , خطیب بغدادی اور ذہبی نے ثقہ کہا ہے۔
لیکن انکے علاوہ تمام تر محدثین ناقدین اسے سخت ضعیف قرار دیتے ہیں۔
اور یہ بات مسلمہ ہے کہ جمہور کا قول ہمیشہ معتبر ہوتا ہے۔ بالخصوص جب وہ اسکے ہم عصر یا قریب العصر ہوں۔
اور جس طرح ثقہ راوی روایت بیان کرنے میں اوثق یا ثقات کی مخالفت کرے تو اسکی روایت شاذ قرار دے کر رد کر دی جاتی ہے بعینہ جرح وتعدیل کے معاملہ میں بھی یہ اصول کار فرما ہے۔
رہا یہ سوال کہ اسے ثقہ قرار دینے والوں نے ثقہ کیوں قرار دیا ہے تو اسکا صحیح جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں۔
ہمارا اندازہ ہی ہوسکتاہے اور وہ غلط بھی ہوسکتا ہے اور درست بھی ۔ لہذا اسکا کوئی فائدہ نہیں۔
[/URDU]
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اور جس طرح ثقہ راوی روایت بیان کرنے میں اوثق یا ثقات کی مخالفت کرے تو اسکی روایت شاذ قرار دے کر رد کر دی جاتی ہے بعینہ جرح وتعدیل کے معاملہ میں بھی یہ اصول کار فرما ہے۔
بہت زبردست دلیل ہے، ما شاء اللہ! واقعی جب ثقہ کی روایت شاذ ہونے کی بناء پر رد کر دی جاتی ہے، حالانکہ وہ ثقہ ہوتا ہے، تو پھر کسی راوی پر بعض ائمہ جرح وتعدیل کی توثیق کو بھی جمہور ائمہ جرح وتعدیل کی تضعیف کی بناء ردّ کیا جا سکتا ہے۔ اللہم زد فزد!
رفیق طاہر بھائی! آپ نے ذکر کیا کہ ائمہ ابن حبان، سمعانی، خطیب بغدادی، ابن حجر، اور ذہبی﷭ کے علاوہ تمام تر محدثین ناقدین ابو الفضل العباس بن فرج کو سخت ضعیف قرار دیتے ہیں، اگر ان جمہور ائمہ کرام کے نام بھی آجاتے تو مزید اطمینان ہو جاتا۔
 
Top