بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبارکتہ
بے وضو قرآنِ مجید کی تلاوت کر سکتا ہے کیونکہ کوئی ایسی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے جس میں بے وضو آدمی کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور قرآن مجید کی تلاوت کا حکم خود قرآن مجید میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”جو قرآنِ مجید سے میسر ہو ، پڑھو“۔
اس میں یہ نہیں کہ وضو کے بغیر نہ پڑھو۔ ایک حدیث میں آتا ہے (لا یمس القرآن الا طاھرا) ”قرآن کو طاہر کے سوا کوئی نہ چھوئے “ اس کی تفسیر بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت میں آئے جن میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مجلس سے نکل گئے۔ جب مجلس میں واپس آئے تو سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ ان المؤ من لا ینجس) کہ مومن نجس نہیں ہوتا یعنی طاہر ہی رہتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ( الا طاھرا) سے مراد غیر مومن ہے یعنی کافر قرآن مجید کو نہ چھوئے، مومن چھو سکتا ہے خواہ وہ با وضو ہو یا بے وضو۔
صحیح بخاری شریف میں ہی ایک حدیث ہےجسے ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوئے ہوئے تھے، جب اُٹھے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کی۔ پھر لٹکائے ہو مشکیزہ کی طرف بڑھے اور وضو کیا اور نماز شروع کر دی''۔ (صحیح بخاری مع الفتح ١۱/ ٣٤٣۳۴۳،۳۴۴٣٤٤)۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلاوت کی اور وضو بعد میں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
یہ بات تو مسلم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے وضو بھی ہوتے تھے اور مسلم شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ “نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر وقت اللہ تعالٰی کا ذکر کیا کرتے تھے“۔ اور اللہ کے ذکر میں قرآن مجید بھی داخل ہے۔ ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کیلئے با وضو ہونا لازمی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہ سمجھ لیا جائے کہ آدمی اپنی عادت ہی بنا لے کہ میں نے تلاوت ہی بے وضو ہونے کی حالت میں کرنی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ با وضو ہو کر کرے۔
اس پر جو سب سے بڑی دلیل دی جاتی ہے وہ قرآن کی یہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ 77ۙفِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ 78ۙلَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ 79ۭ
بیشک یہ قرآن ہے بڑا ہی عزت (و عظمت) والا، جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے، جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ سورۃ الواقعہ:۷۷۔۷۸۔۷۹
تفسیر تیسیر القرآن
مطہرون سے مراد کون؟ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکیزہ لوگوں سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب قرآن کریم لوح محفوظ میں ثبت ہے اور وہاں سے پاکیزہ فرشتے ہی اسے لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچاتے ہیں۔ کسی شیطان کی وہاں تک دسترس نہیں ہوسکتی جو اسے لا کر کسی کاہن کے دل پر نازل کر دے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین و مطالب تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوسکتی ہے جن کے خیالات پاکیزہ ہوں۔ کفر و شرک کے تعصبات سے پاک ہوں۔ عقل صحیح اور قلب سلیم رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کے خیالات ہی گندے ہوں۔ قرآن کے بلند پایہ مضامین و مطالب تک ان کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں یا چھونا چاہئے۔ مشرک اور ناپاک لوگوں کو ہاتھ نہ لگانا چاہئے۔ اسی آیت سے بعض علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ بے وضو لوگوں کو قرآن کو ہاتھ نہ لگانا چاہیے۔ لیکن راجح تر بات یہی ہے کہ بے وضو بھی قرآن کو چھو سکتا اور اس سے تلاوت کرسکتا ہے۔ صرف جنبی اور حیض و نفاس والی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتے۔ جب تک پاک نہ ہوں۔ البتہ حیض و نفاس والی عورت زبانی قرآن پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھا بھی سکتی ہے۔
اب اس آیت کے کئی مطالب سامنے آئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ کوئی انسان اس کتاب کو ہاتھ نہ لگائے مگر جو پاک ہو، اب دیکھنا یہ ہے کہ بغیر وضو انسان کیا پلید، ناپاک ہوجاتا ہے؟ اگر تو ایسا ہی ہے پھر تو وضو لازمی ہوا اور اگر ایسا نہیں ہے تو وضو کی شرط لگانا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ دین میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے مثلاً دیکھنے میں اکثر یہ آیا ہے کہ لوگ اکثر اس وجہ سے قرآن کی تلاوت کرنے سے رُک جاتے ہیں کہ ہم بے وضو ہیں اور اس طرح وہ قرآن سے دور ہوتے جا رہے ہیں بلکہ قرآن سے دور ہوچکے ہیں، میرے ساتھ خود کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہم کسی مسئلے پر بات چیت کر رہے ہوتے تو قرآن مجید کے حوالے کے لیے قرآن کی ضرورت پیش آئی اور ہم صرف اسی وجہ سے قرآن کو ہاتھ میں نہیں پکر رہے تھے کہ ہمارا وضو نہیں تھا اور وہ موقعہ محل بھی ایسا تھا کہ فوراً وضو بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اب اس مسئلے میں دین میں اضافہ کس مقصد کے لیے کیا گیا تھا اس کا مجھے علم نہیں مگر اس کی وجہ سے لوگ قرآن سے ضرور دور ہو چکے ہیں، وضو بعض لوگوں پر اتنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم نماز نہیں پڑھتے کہ وضو کرنا پڑتا ہے ۔ اصل میں ناپاک وہ انسان ہوتا ہے جو مرد یا عورت جنبی ہو یا عورت حیض و نفاس سے ہو. بے وضو کو بھی ناپاک سمجھنا کسی بھی طور ٹھیک نہیں ہے۔
پھر یہ کہ سورہ واقعہ مکی ہے جبکہ وضو کا حکم مدینہ میں آیا تھا ۔ لہٰذا اس آیت کو وضو کے ساتھ شرط نہیں کیا جا سکتا تاہم ہمیں صحیح احادیث کی کتاب میں سے بھی کوئی ایسی حدیث نہیں ملتی جس میں بغیر وضو قران پڑھنے کی ممانعت ہو۔
اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر پیش کرتا ہوں۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ فِي قَوْمٍ وَهُمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَسْتَ عَلَی وُضُوئٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَنْ أَفْتَاکَ بِهَذَا أَمُسَيْلِمَةُ
محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے لگے ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضوکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا؟ موطاامام مالک:جلد نمبر 1:باب: کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا حکم تو قرآن و حدیث میں کہیں نہیں ہے کہیں مسیلمہ کذاب نے تو ایسا حکم نہیں دے دیا؟؟ اور آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ مسیلمہ کذاب وہی شخص ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو قرآن و سنّت کی سمجھ اور ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے. آمین۔
تمام احباب سے گزارش ہے اگر آپ کو اس تحریر میں کچھ کوتاہی نظر آئے تو براہ کرم تصحیح فرما دیجئے گا، اپنی غلطی مان کر تصحیح کی طرف بڑھنا میرے نزدیک ایک علمی و فکری عمل ہے۔ جزاک اللہ خیراً کثیرا۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبارکتہ
وضو کے بغیر قرآنِ مجید کی تلاوت
بے وضو قرآنِ مجید کی تلاوت کر سکتا ہے کیونکہ کوئی ایسی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے جس میں بے وضو آدمی کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور قرآن مجید کی تلاوت کا حکم خود قرآن مجید میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”جو قرآنِ مجید سے میسر ہو ، پڑھو“۔
اس میں یہ نہیں کہ وضو کے بغیر نہ پڑھو۔ ایک حدیث میں آتا ہے (لا یمس القرآن الا طاھرا) ”قرآن کو طاہر کے سوا کوئی نہ چھوئے “ اس کی تفسیر بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت میں آئے جن میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مجلس سے نکل گئے۔ جب مجلس میں واپس آئے تو سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ ان المؤ من لا ینجس) کہ مومن نجس نہیں ہوتا یعنی طاہر ہی رہتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ( الا طاھرا) سے مراد غیر مومن ہے یعنی کافر قرآن مجید کو نہ چھوئے، مومن چھو سکتا ہے خواہ وہ با وضو ہو یا بے وضو۔
صحیح بخاری شریف میں ہی ایک حدیث ہےجسے ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوئے ہوئے تھے، جب اُٹھے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کی۔ پھر لٹکائے ہو مشکیزہ کی طرف بڑھے اور وضو کیا اور نماز شروع کر دی''۔ (صحیح بخاری مع الفتح ١۱/ ٣٤٣۳۴۳،۳۴۴٣٤٤)۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلاوت کی اور وضو بعد میں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
یہ بات تو مسلم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے وضو بھی ہوتے تھے اور مسلم شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ “نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر وقت اللہ تعالٰی کا ذکر کیا کرتے تھے“۔ اور اللہ کے ذکر میں قرآن مجید بھی داخل ہے۔ ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کیلئے با وضو ہونا لازمی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہ سمجھ لیا جائے کہ آدمی اپنی عادت ہی بنا لے کہ میں نے تلاوت ہی بے وضو ہونے کی حالت میں کرنی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ با وضو ہو کر کرے۔
-------!!!!!-------
بچپن میں ہمیں ایک بات کی نصیحت کی جاتی تھی کہ قرآن مجید کو بغیر وضو ہاتھ نہ لگانا اس سے بہت گناہ ہوتا ہے مگر جب میں نے قدرے بڑے ہوکر اس بات کی تحقیق کی کہ کیا واقعی بغیر وضو قرآن مجید کو ہاتھ لگانا منع ہے تو میں حیران رہ گیا کہ ایسا حکم قرآن و صحیح حدیث میں کہیں بھی نہیں ہے::یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے ایسا حکم نہ ملا ہو اگر کسی بھائی کے علم میں ہوتو وہ راہنمائی فرمائے ..جزاک اللہ::آج میں آپ کے سامنے اس بات کی تحقیق پیش کرونگا کہ کیا قرآن مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا منع ہے کہ نہیں؟؟؟اس پر جو سب سے بڑی دلیل دی جاتی ہے وہ قرآن کی یہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ 77ۙفِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ 78ۙلَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ 79ۭ
بیشک یہ قرآن ہے بڑا ہی عزت (و عظمت) والا، جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے، جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ سورۃ الواقعہ:۷۷۔۷۸۔۷۹
تفسیر تیسیر القرآن
مطہرون سے مراد کون؟ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکیزہ لوگوں سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب قرآن کریم لوح محفوظ میں ثبت ہے اور وہاں سے پاکیزہ فرشتے ہی اسے لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچاتے ہیں۔ کسی شیطان کی وہاں تک دسترس نہیں ہوسکتی جو اسے لا کر کسی کاہن کے دل پر نازل کر دے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین و مطالب تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوسکتی ہے جن کے خیالات پاکیزہ ہوں۔ کفر و شرک کے تعصبات سے پاک ہوں۔ عقل صحیح اور قلب سلیم رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کے خیالات ہی گندے ہوں۔ قرآن کے بلند پایہ مضامین و مطالب تک ان کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں یا چھونا چاہئے۔ مشرک اور ناپاک لوگوں کو ہاتھ نہ لگانا چاہئے۔ اسی آیت سے بعض علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ بے وضو لوگوں کو قرآن کو ہاتھ نہ لگانا چاہیے۔ لیکن راجح تر بات یہی ہے کہ بے وضو بھی قرآن کو چھو سکتا اور اس سے تلاوت کرسکتا ہے۔ صرف جنبی اور حیض و نفاس والی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتے۔ جب تک پاک نہ ہوں۔ البتہ حیض و نفاس والی عورت زبانی قرآن پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھا بھی سکتی ہے۔
اب اس آیت کے کئی مطالب سامنے آئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ کوئی انسان اس کتاب کو ہاتھ نہ لگائے مگر جو پاک ہو، اب دیکھنا یہ ہے کہ بغیر وضو انسان کیا پلید، ناپاک ہوجاتا ہے؟ اگر تو ایسا ہی ہے پھر تو وضو لازمی ہوا اور اگر ایسا نہیں ہے تو وضو کی شرط لگانا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ دین میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے مثلاً دیکھنے میں اکثر یہ آیا ہے کہ لوگ اکثر اس وجہ سے قرآن کی تلاوت کرنے سے رُک جاتے ہیں کہ ہم بے وضو ہیں اور اس طرح وہ قرآن سے دور ہوتے جا رہے ہیں بلکہ قرآن سے دور ہوچکے ہیں، میرے ساتھ خود کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہم کسی مسئلے پر بات چیت کر رہے ہوتے تو قرآن مجید کے حوالے کے لیے قرآن کی ضرورت پیش آئی اور ہم صرف اسی وجہ سے قرآن کو ہاتھ میں نہیں پکر رہے تھے کہ ہمارا وضو نہیں تھا اور وہ موقعہ محل بھی ایسا تھا کہ فوراً وضو بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اب اس مسئلے میں دین میں اضافہ کس مقصد کے لیے کیا گیا تھا اس کا مجھے علم نہیں مگر اس کی وجہ سے لوگ قرآن سے ضرور دور ہو چکے ہیں، وضو بعض لوگوں پر اتنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم نماز نہیں پڑھتے کہ وضو کرنا پڑتا ہے ۔ اصل میں ناپاک وہ انسان ہوتا ہے جو مرد یا عورت جنبی ہو یا عورت حیض و نفاس سے ہو. بے وضو کو بھی ناپاک سمجھنا کسی بھی طور ٹھیک نہیں ہے۔
پھر یہ کہ سورہ واقعہ مکی ہے جبکہ وضو کا حکم مدینہ میں آیا تھا ۔ لہٰذا اس آیت کو وضو کے ساتھ شرط نہیں کیا جا سکتا تاہم ہمیں صحیح احادیث کی کتاب میں سے بھی کوئی ایسی حدیث نہیں ملتی جس میں بغیر وضو قران پڑھنے کی ممانعت ہو۔
اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر پیش کرتا ہوں۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ فِي قَوْمٍ وَهُمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَسْتَ عَلَی وُضُوئٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَنْ أَفْتَاکَ بِهَذَا أَمُسَيْلِمَةُ
محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے لگے ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضوکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا؟ موطاامام مالک:جلد نمبر 1:باب: کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا حکم تو قرآن و حدیث میں کہیں نہیں ہے کہیں مسیلمہ کذاب نے تو ایسا حکم نہیں دے دیا؟؟ اور آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ مسیلمہ کذاب وہی شخص ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو قرآن و سنّت کی سمجھ اور ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے. آمین۔
تمام احباب سے گزارش ہے اگر آپ کو اس تحریر میں کچھ کوتاہی نظر آئے تو براہ کرم تصحیح فرما دیجئے گا، اپنی غلطی مان کر تصحیح کی طرف بڑھنا میرے نزدیک ایک علمی و فکری عمل ہے۔ جزاک اللہ خیراً کثیرا۔