• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وطنیت کی لکیروں کی وجہ سے معاشی طور پر ذلت و تباہی

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
515
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
وطنیت کی لکیروں کی وجہ سے معاشی طور پر ذلت و تباہی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پہلے زمانے میں ایک شخص پشاور سے اپنے گھوڑوں پر سامان باندھ کر نکل پڑتا وہ سامان کابل میں فروخت کر کے کابل سے وہ اشیاء خریدتا جو ترکستان میں لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی اور وہ ترکستان میں فروخت کر کے وہاں سے ایسی اشیاء لیتا جو پشاور میں موجود نہیں اور یہاں لا لا کر وہ اشیاء فروخت کر دیتا۔

اس ایک سفر سے وہ اتنا منافع کماتا کہ سال بھر اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتا رہتا اور دینی امور کےلئے بھی فرصت ہوتی۔

پھر دجالی دور آیا اور برطانیہ نے سرحدیں کھینچ لی! پھر امریکہ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے ساری دنیا پر تجارت پر پابندی عائد کردی اور صرف اپنی ضمانت پر کمپنیوں اور کرنسی میں تجارت کی اجازت دی۔

انسان ان لکیروں کی وجہ سے دینی اخلاقی اور دیگر تباہی کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی کیسے ذلت و تباہی کا شکار ہوا اندازہ لگا لو !

کسی ایک علاقے سے اشیاء خرید کر اس کو کسی دوسرے ایسے ملک میں جہاں ان اشیاء کی مانگ زیادہ ہو منافع بخش قیمت پر فروخت کرنے کو تجارت کہتے ہیں اور یہ اولاد آدم کا سب سے بنیادی ذریعہ آمدن اور کاروبار رہا ہے۔

انبیاء علیہم السلام بھی اس سے وابستہ رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ کاروبار کیا ہے۔

جب دجال کی عالمی حکومت کے قیام کا آغاز ہوا اور اس کے ایجنٹ مغربی ممالک نے انسانوں کو مکمل طور پر اپنے اختیار میں کرنے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے ان کےلئے سرحدیں کھینچ کر ان کو دائروں میں محدود کر دیا اور پھر تجارت پر قبضہ کرکے شرائط مقرر کردی کہ دنیا کے جس کونے میں جو بھی انسان تجارت کرنا چاہے گا اس کو عالمی قوت کو بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور عالمی قوت کے مقامی ایجنٹ جہاں سے وہ مال خریدتا ہے اس کو بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگا جہاں فروخت کرتا ہے وہاں بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ عالمی قوتوں سے منظور شدہ اجازت نامے، کاغذات، دستاویزات، ویزا، پاسپورٹ اور بہت ساری دیگر چیزیں بھی تصدیق کروانی ہوں گی اس کے بعد بھی وہ نہ تو مال اپنی پسند کی جنس میں خرید سکتا ہے اور نہ اپنی پسند کی جنس کے بدلے فروخت کرسکتا ہے بلکہ ہماری طرف سے جاری ضمانتی کاغذ (کرنسی) میں ہی وہ خرید و فروخت کرے گا۔

پھر ان قوتوں نے ان شرائط کو پورا کئے بغیر تمام انسانوں پر ہر قسم کی تجارت پر پابندی عائد کردی ! کہ جو بھی ان شرائط سے ہٹ کر کسی قسم کی تجارت کرے گا تو یہ ممنوع ہے اور اس انسان کو سزا ملے گی۔

ان شرائط سے ہٹ کر تجارت کو انہوں نے '"سمگلنگ " اور ایسی تجارت کرنے والوں کو " سمگلر" کا نام دے کر نہ صرف اس کو جرم بنا دیا بلکہ اس کو ایک بدنام اور حرام پیشہ بھی قرار دیا
جس کو سمگلنگ کہا جاتا ہے یہ وہی تجارت ہے جو ہمیشہ سے انسانوں کا سب سے بنیادی ذریعہ معاش رہا ہے اور جس سے انبیاء جیسی ہستیاں وابستہ رہی ہیں بس نام بدلنے سے انسانوں سے حقیقت چھپا کر بدل ڈالی۔

آزاد تجارت کو "سمگلنگ" اور دجالی قوتوں کے ماتحت غلام تجارت کو "بزنس" کا نام دے دیا۔

وما علینا الا البلاغ
 
Top