یہ اگر آپ کا ذاتی قول ہے تو خیر سے کوئی بات نہیں۔ :)
لیکن اگر کوئی دینی اصول ہے تو حوالہ عنایت کیجیے۔ اور ساتھ ہی اس سوال کا جواب بھی دیتے جائیں کہ :
کیا اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ یا مکہ سے قطعاَ کوئی محبت نہیں تھی؟
السلام و علیکم -
محبّت اگر فطری ہو تو جائز ہے -جیسے لوگوں کو اپنے رشتے داروں عزیز و اقارب سے ہوتی ہے - یا اکثر کو جیسے اپنی جائے پیدائش سے بھی ہوتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں -
ایسی ہی محبّت نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو ان دو شہروں سے تھی یعنی مکہ اور مدینہ سے - لیکن اس محبّت کے باوجود آپ صل الله علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں مکّہ یا مدینہ کے لئے اپنی جان قربان کردوں گا - -بلکہ آپ نے صرف اسلام کی سر بلندی کے لئے جنگ کی ہے -
لیکن ہم ایسے جملے "
کہ پاکستان کی خاطر اپنی جان قربان کروں گا یا پاکستان کی عزت میری عزت ہے وغیرہ وغیرہ روز سنتے ہیں خاص کر ہمارے فوجی جوان بھی اسی قسم کے جذبات لئے پاکستان سے متعلق اپنے خیالات کے اظہار کرتے رہتے ہیں - اور یہ 'شرک' ہی ہے - جینا مرنا اور عزت یہ سب الله ہی کی ذات کے لئے ہونا چاہیے -
اور یہ بات بھی ذہن میں رکھ لیں کہ مکہ اور مدینہ کی خصوصیت اور درجات اور فضیلت عام شہروں سے بلکل مختلف ہے -
یہاں پر کافروں مشرکوں کا داخلہ ممنوع ہے -
یہاں قتل غارت گری خون بہانا حرام ہے -
یہاں کی حرمت کا خیال رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے
یہاں ایک نماز کا ثواب ہزاروں نمازوں کے برابر ہے -
زیارت کے لئے صرف ان دو شہروں کے لئے سفر کرنا جائز ہے -
حتیٰ کہ ان دونوں شہروں اور یہاں کے رہنے والوں سے الله کے نبی نے خود محبّت کرنے کی ترغیب دی ہے -
لہذا ان دو شہروں کو دنیا کے باقی شہروں یا وطنوں سے کوئی نسبت نہیں -حتیٰ کے میرے نزدیک ایک مسلمان کی حثیت سے ان دو شہروں (مکّہ و مدینہ ) سے زیادہ اپنے ملک یا کسی اور شہر سے محبّت رکھنا بھی گناہ ہے -
واسلام -