ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
وطن پرستی اور حب وطن
میرے ایک نہایت ہی پیارے اور عزیز دوست نے دوران گفتگو ایک بات کی تھی کہ وطن پرستی اور حب الوطنی دو مختلف چیزیں ہیں اور وطن پرستی شرک ہے مگر حب وطن محمود قابل تعریف چیز ہے یعنی جائز ہے اور اس لیۓ وطن پرستی کا رد ضرور کیجیۓ مگر حب وطن کا نہیں !
اس حوالے سے کچھ نکات ترتیب دیۓ تھے اپنے ناقص علم کے مطابق ، اہل علم بھائیوں سے گذارش ہے کہ اصلاح ضرور کریں:
(1) سب سے پہلے اس بات کا تعین لازمی ہے کہ اس ساری گفتگو میں جس 'وطن' کے متعلق بات کی جا رہی ہے اس سے کیا مراد ہے ؟
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیۓ کہ ادھر زیر بحث وطن سے مراد متعین سرحدیں اور جغرافیائی حدود ہیں۔
(2) وطن پرستی سے کیا مراد ہے ؟
اس کا تعلق الولاء والبراء سے ہے ۔ جب کوئی شخص اللہ کی محبت سے زیادہ وطن سے محبت کرے یا اللہ کی محبت کے برابر وطن سے محبت کرے، یعنی اس کی دوستی دشمنی وطن کی بنیاد پر ہو،نا کہ شریعت اسلامیۃ اور توحید کی بنیاد پر ، تو گویا وہ وطن کی عبادت کر رہا ہے اور اسے وطن پرستی کہا جاۓ گا۔
(3) حب وطن سے کیا مراد ہے ؟
اپنے وطن سے (جہاں پیدا ہوۓ ہیں) محبت ہونا حب وطن ہے۔
(4) اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی وطن پرستی اور حب وطن دو مختلف چیزیں ہیں بلکہ دو متضاد چیزیں ہیں جن میں سے ایک محمود اور ایک سراسر شرک ہے ؟
تو ایسا ہر گز نہیں ہے !
ان دونوں کا تعلق براہ راست اسلام کے بنیادی ترین عقیدہ الولاء والبراء سے ہے۔
وطن پرستی کی بنیاد میں بھی حب وطن ہی ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ جب حب وطن حد سے تجاوز کر جاۓ تو وطن پرستی بن جاتا ہے۔
اسلام کے عقیدہ الولاء کی بنیاد ہی یہ ہے کہ مومن کے دل میں سب سے بنیادی اور سب سے زیادہ محبت اللہ عز وجل کی ہونی چاہیۓ :
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے)۔
[سورۃ البقرہ آیت ۱۶۵]
دوسری تمام محبتیں اس محبت کے تابع ہوں گی مثلا" نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی محبت ، صحابہ کی محبت ، اسلام کی محبت ، نیک اعمال کی محبت ، مومنین کی محبت وغیرہم !
یہ تمام محبتیں اللہ کی محبت کی تابع ہیں بلکہ اللہ کے حکم کے باعث ہی ہیں۔ اب اگر کوئی محبت اللہ کی محبت کے تابع نا ہو گی تو وہ فسق ، ایمان کی کمزوری اور لغو محبت ہو گی !
اور اگر، یہ محبت سراسر اللہ کی محبت اور اس کے لوازمات سے ٹکراتی ہو گی تو یہ کفر و شرک ہو گی : مثلا" کسی گناہ کو دل سے محبوب جاننا یا کسی واضح اسلام دشمن مثلا ابو جہل وغیرہ کی محبت۔
اور اگر یہ محبت اللہ کی محبت کے برابر ہو گی یا زیادہ ہو گی اس صورت میں بھی یہ شرک ہے اور (من دون اللہ اندادا) کے اندر شامل ہو گي ۔
(5) اب آئیے جآئزہ لیتے ہیں کہ حب وطن کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ وطن پرستی سے متعلق چونکہ ہم متفق ہیں کہ یہ شرک ہے اس ليۓ یہ خارج از بحث ہے ۔
باقی رہی حب وطنی تو
❍ سب سے پہلے ان خود ساختہ جغرافیائی حدود کو تسلیم کر
کے ان سے محبت کرنا ہی جہالت ہے کیونکہ یہ حدود اللہ کی بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ اللہ کے حکم کی مخالفت ہیں جس نے تفرقہ سے منع فرمایا ہے اور امت کو امۃ واحدہ قرار دیا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ جس جگہ انسان پیدا ہو اس جگہ کی محبت فطری چیز ہے تو جناب عرض یہ ہے کہ بالفرض میں لاہور میں پیدا ہوا ہوں تو مجھے لاہور سے محبت یعنی انسیت ہو ، سمجھ آتی ہے ، چلو پنجاب سے ہو ، سمجھ آتی ہے ، مگر نہیں ، آپ کی یہ والی محبت بھی کم سے کم اپنے محلے یا اپنے شہر یا اپنے صوبے تک بریک نہیں مارتی مگر ملکی سرحدوں پر جا کر ایسی بریک مارتی ہے کہ جیسے آگے کوئی اور مخلوق آباد ہو!
تو پتہ چلا کہ یہ بھی دراصل ملک کی سرحدوں کو تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا ہی ہے جس کو ایک فطری جذبے کی آڑ لے کر ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ باطل ہے۔
❍ ایک دوست نے عرض کی ہے توحید میں روح ہے اور پاکستان میں گھر ہے !
تو اس کا صرف یہی جواب عرض ہے کہ حضرت پھر یہ دلیل ان مسلمانوں کو بھی سنائیں جن کے گھر امریکہ یورپ یا انڈیا میں ہیں ، تاکہ وہ بھی اپنی کالی ماتا اوہ سوری دھرتی ماتا سے پریم رچائیں !
❍ ایک اور فضول ترین اعتراض یہ ہے کہ ہمارا ملک چونکہ کلمے کی بنیاد پر بنایا گیا تھا اس ليۓ اس سے محبت لازمی ہے!
تو یہ بھی فضول بات ہے کیونکہ صرف کلمہ پڑھ لینے سے اگر کسی کی محبت لازم ہو جاۓ تو عبداللہ بن ابی سے لے کر آج تک کے بہت سارے "کلمہ گو" ایسے ہیں جن کی محبت آپ پر واجب ہو جاۓ گی ! یہ وطنیت کے معاملے میں ارجاءی فکر ہے!
مرتدین کے زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے انکی محبت لازم نہیں ہوتی بلکہ انکے عمل کی وجہ سے ان سے نفرت کی جاتی ہے اسی طرح جب تک ادھر کلمہ نافذ نہ ہو گا اس ملک سے محبت بھی کوئی دلیل نہیں رکھتی !
تو پتہ چلا کہ حب وطن یعنی وطن کی محبت ایک ایسی محبت ہے جو اللہ کی محبت کے تابع نہیں بلکہ کئی پہلوؤں سے تو اللہ کی شریعت سے متصادم ہے !
اور یہ حب وطنی ہی آہستہ آہستہ وطن پرستی میں مبتلا کر دیتی ہے اور انسان کو محسوس بھی نہیں ہوتا !
آخر میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کا ایک قول اللہ کے پاک کلام سے:
وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ
اور اس نے کہا : ’’تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور آگ تمہارا ٹھکانا ہو گی اور کوئی تمہارا مدد گار نہ ہوگا۔‘‘
[سورۃ العنکبوت آیت ۲۵]