• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وطن پرست مشرکین کی وطنی عید جشن آزادی کی حقیقت

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
وطن پرست مشرکین کی وطنی عید جشن آزادی کی حقیقت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پاکستان و ہندوستان میں ۱۴ اور ۱۵ اگست کو وطن پرست مشرکین کی عید ہوتی ہے جسے انڈیا و پاکستان کے تمام وطن پرست چاہے وہ کلمہ پڑھنے والے ہو یا پھر اصلی کافر جیسے نصاریٰ، ہندو، سِکھ وغیرہ سبھی ساتھ مل کر ان کی وطنی عید مناتے ہیں اور اسے جشن آزادی کا نام دیتے ہیں۔ اسلام میں جشن آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ یہ کفار و مشرکین کی تقلید اور ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔

سنن ابو داؤد میں حدیث ہے : حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا۔

[سنن ابو داؤد، حدیث : ۴۰۳۱]

اس حدیث سے دلیل ملتی ہے کہ اگر کوئی کلمہ پڑھنے والا کفار کے ان شرکیہ اعمال میں مشابہت اختیار کرے گا مثلا وطن کے جھنڈے کی تعظیم کرنا، جھنڈے کو چومنا یا سلامی دینا، وطن کا شرکیہ ترانہ پڑھنا یا شرکیہ ترانہ شروع ہونے پر تعظیما کھڑے ہو جانا وغیرہ تو وہ کلمہ گوہ وطن پرست بھی اصلی کفار کی طرح مشرک و کافر ہوگا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :

وهذا الحديث أقل أحواله أن يقتضي تحريم التشبه بهم، وإن كان ظاهره يقتضي كفر المتشبه بهم، كما في قوله (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/۵۱ فقد يحمل هذا على التشبه المطلق فإنه يوجب الكفر، ويقتضي تحريم أبعاض ذلك، وقد يحمل على أنه منهم في القدر المشترك الذي شابههم فيه، فإن كان كفرا، أو معصية، أو شعارا لها كان حكمه كذلك وبكل حال يقتضي تحريم التشبه

"اس حدیث کا کم از کم یہ تقاضا ہے کہ کفار سے مشابہت حرام ہے، اگرچہ ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مشابہت رکھنے والا شخص کافر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:

(وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) المائدة/۵۱
جو تم میں سے انکے ساتھ دوستی رکھے گا تو وہ اُنہی میں سے ہوگا۔


تو اس حدیث کو مطلق تشبیہ پر محمول کیا جاسکتا ہے، جو کہ کفر کا موجِب ہے، اور کم از کم اس تشبیہ کے کچھ اجزا کے حرام ہونے کا تقاضا کرتا ہے، یا اسکا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کی مشابہت ہوگی اسی طرح کا حکم ہوگا، کفریہ کام میں مشابہت ہوگی تو کفر، گناہ کے کام میں مشابہت ہوگی تو گناہ، اور اگر ان کفار کے کسی خاص کام میں مشابہت ہوئی تو اسکا بھی حکم اُسی کام کے مطابق لگے گا، بہر حال اس حدیث کا تقاضا ہے کہ مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔


[اقتضاء الصراط المستقيم ۲۷۰،۲۷۱/۱]

بعض وطن پرست مشرکین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم انکی وطنی عید کے دن وطن پرستی کے شرکیہ عمل نہیں کرتے جیسے وطن کے جھنڈے کی تعظیم کرنا، جھنڈے کو چومنا یا سلامی دینا، اور نا ہی ہم شرکیہ وطنی ترانہ گاتے ہیں اور نا ہی شرکیہ ترانہ شروع ہونے پر تعظیما کھڑے ہوتے ہیں بلکہ ہم تو ان وطن پرستوں کو انکی آزادی کے اس تہوار پر مبارکباد دیتے ہیں۔

تو انہیں جان لینا چاہیے کہ وطن پرست مشرکین کو انکی وطنی عید یا جشن آزادی کے تہوار کے دن پر خوش ہونا یا صرف زبان سے مبارکباد دینا بھی حرام ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ کا فرمان ہے:

وأما التهنئة بشعائر الكفر المختصة به : فحرام بالاتفاق ، مثل أن يهنئهم بأعيادهم ، وصومهم ، فيقول : " عيد مبارك عليك " ، أو " تهنأ بهذا العيد " ، ونحوه ، فهذا إن سلم قائله من الكفر : فهو من المحرمات ، وهو بمنزلة أن يهنئه بسجوده للصليب ، بل ذلك أعظم إثماً عند الله وأشد مقتاً من التهنئة بشرب الخمر ، وقتل النفس ، وارتكاب الفرج الحرام ، ونحوه

"کفریہ شعائر پر مبارکباد دینا سب کے ہاں مسلّمہ طور پر حرام ہے، مثال کے طور پر کفار کے تہواروں اور عبادات پر مبارکباد دیتے ہوئے کہنا تمہیں تمہارا تہوار اور عید مبارک ہو، یا اسی طرح کا کوئی بھی جملہ ادا کرنا، اگر مبارکباد دینے والا شخص کفر کا مرتکب نہ بھی ہو تو اتنا ضرور ہے کہ یہ الفاظ منہ سے نکالنا ہی حرام ہے، اور یہ ایسے ہی ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دی جائے، بلکہ شراب نوشی، قتل، اور زنا سے بھی بڑھ کر اس کا گناہ ہے"

[احکام اہل الذمہ ۲۱۱/۳]

لہٰذا وطن پرست مشرکین کی عید جشن آزادی پر ان کو مبارکباد دینا بھی حرام ہے اور یہ عمل شراب نوشی اور قتل سے بھی زیادہ بڑھا گناہ ہے۔ ویسے تو ہندوستان و پاکستان میں وطن پرستی کے اس شرک اکبر میں دیوبندی سب سے زیادہ ملوث ہوتے ہیں لیکن اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ یہ شرک
خود کو اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرنے والوں میں بھی بہت زیادہ پھیل گیا ہے اور تنظیم اہل حدیث والے بھی وطن پرستی کے اس شرک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور انکے مدارس میں بھی وطنی عید یعنی جشن آزادی کے دن وطنی جھنڈے کو سلامی دی جاتی ہے اور اس کی تعظیم کی جاتی ہے اور وطنی عید کی دھوم دھام سے خوشیاں منائی جاتی ہے۔

بہرحال اگر وہ لوگ یہ شرکیہ عمل نہ بھی کرے پھر بھی ہر سال وطن کی جشن آزادی منانا ناجائز اور حرام ہے اور وطن کی جشن آزادی منانے کو ان علماء نے بھی بدعت اور حرام قرار دیا ہے جن کو یہ لوگ معتبر اور جید علماء میں شمار کرتے ہیں لہٰذا ان کے لیئے سعودی کے ایک مفتی عبد العزیز بن باز کا فتویٰ پیش خدمت ہے۔

عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز بدعت کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ويلتحق بهذا التخصيص والابتداع ما يفعله كثير من الناس من الاحتفال بالموالد وذكرى استقلال البلاد أو الاعتلاء على عرش الملك وأشباه ذلك، فإن هذه كلها من المحدثات التي قلد فيها كثير من المسلمين غيرهم من أعداء الله، وغفلوا عما جاء به الشرع المطهر من التحذير من ذلك والنهي عنه، وهذا مصداق الحديث الصحيح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حيث قال «لتتبعن سنن من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه، قالوا يا رسول الله اليهود والنصارى؟ قال فمن۔ وفي لفظ آخر «لتأخذن أمتي مأخذ الأمم قبلها شبرا بشبر وذراعا بذراع، قالوا يا رسول الله فارس والروم؟ قال فمن۔ والمعنى فمن المراد إلا أولئك فقد وقع ما أخبر به الصادق المصدوق صلى الله عليه وسلم من متابعة هذه الأمة إلا من شاء الله منها لمن كان قبلهم من اليهود والنصارى والمجوس وغيرهم من الكفرة في كثير من أخلاقهم وأعمالهم حتى استحكمت غربة الإسلام وصار هدي الكفار وما هم عليه من الأخلاق والأعمال أحسن عند الكثير من الناس مما جاء به الإسلام، وحتى صار المعروف منكرا والمنكر معروفا، والسنة بدعة والبدعة سنة، عند أكثر الخلق؛ بسبب الجهل والإعراض عما جاء به الإسلام من الأخلاق الكريمة والأعمال الصالحة المستقيمة فإنا لله وإنا إليه راجعون

"انہی میں سے بعض ایام کی تخصیص اور بدعات ایجاد کرنا ہے جیسا کہ بہت سے لوگ اپنے وطن کی جشنِ آزادی یا بادشاہ کی تخت نشینی (یا تاج پوشی) کا یا ان جیسے دوسرے جشن مناتے ہیں، کیونکہ ان سب محدثات (نوایجاد یافتہ باتوں) میں بہت سے مسلمان دشمنانِ الہی غیرمسلموں کی تقلید کرتے ہیں، اور ایسا کرنے سے شریعتِ مطہرہ میں جو خبردار اور منع کیا گیا ہے اس سے غفلت برتتے ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق ہے کہ فرمایا:


لتتبعن سَنن من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه، قالوا: يا رسول الله اليهود والنصارى ؟ قال: فمن؟
(صحیح بخاری : ۷۳۲۰) (تم ضرور بالضرور ان لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں جیسا کہ تیر کا ایک پر دوسرے کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ! کیا اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اور کون؟)۔

اور اس حدیث کے ایک دوسرے الفاظ بھی آئے ہیں کہ:
’’لتأخذن أمتي ما أخذ الأمم قبلها شبراً بشبر وذراعاً بذراع ، قالوا : يا رسول الله! فارس والروم ؟ قال : فمن ؟‘‘(الابانة الکبری ابن بطہ ۳۳۰) (میری امت بھی اسی چیز سے دوچار ہوگی جس سے اممِ سابقہ دوچار ہوئیں جیسے بالشت بالشت کے برابر ہوتا ہے اورہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ان (گزشتہ امتوں) سے مراد روم وفارس ہیں؟ فرمایا: اور نہیں تو کون؟)۔

یعنی ان کے علاوہ اور کون مراد ہوسکتے ہیں، یقیناً یہی لوگ ہیں۔ واقعی ایسا ہوا جیسا کہ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی تھی کہ مسلم امت میں سے الا ما شاء اللہ سب نے اپنے اخلاق واعمال میں اپنے سے پہلوں یہود، نصاریٰ، مجوس اور دوسرے کافروں کی پیروی شروع کردی، یہاں تک کہ اسلام پر اجنبیت غالب آگئی اور کافروں کے اخلاق واعمال اور ان کا رہن سہن ہی بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اس چیز سے بہتر ہوگیا جو اسلام لے کر آیا ہے۔ یہاں تک کہ جو عمدہ اخلاق اور صالح ومستقیم اعمال اسلام لے کر آیا تھا اس سے ہالت کے باعث لوگوں کی اکثریت کے یہاں معروف منکر اور منکر معروف بن گیا، اسی طرح سے سنت بدعت اور بدعت سنت بن گئی، إنا لله وإنا إليه راجعون۔"


[مجموع فتاوىٰ الشيخ ابن باز: ۱۸۹/۵]

آج یہی شرکیہ بدعت وطن پرست مشرکین بھی ایک خاص دن کی تخصیص کر کفار کی مشابہت و پیروی کرتے ہوئے ہر سال مناتے ہیں جسے یہ جشنِ آزادی کا نام دیتے ہیں شریعتِ مطہرہ میں یہ ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن وطن پرست مشرکین یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ ہم ہر سال ہماری وطنی عید یعنی جشن آزادی جو مناتے ہیں اسے دین کا حصہ تو نہیں سمجھتے ہیں نہ ہی ثواب سمجھ کر وطنی عید مناتے ہیں۔ لیکن وطن پرست مشرکین کا یہ مغالطہ باطل ہے کیوں کہ اگر یہ مشرکین اس شرکیہ عمل کو دین نہ سمجھے تو اس سے یہ شرکیہ عمل حلال نہیں ہو جائے گا۔ یعنی جس طرح ایک مشرک بت کو سجدہ کرے اور اسے دین نہ سمجھے بلکہ صرف اپنے علاقے کی ایک رسم و رواج سمجھ کر یہ عمل کرے تو اس سے بھی وہ مشرک ہی شمار ہوگا اسی طرح اگر وطن پرست مشرکین وطن کے جھنڈے کی تعظیم، جھنڈے کو چومنا یا سلامی دینا، شرکیہ وطنی حمد و ترانہ گانا اور شرکیہ ترانہ شروع ہونے پر تعظیما کھڑے ہونے جیسا شرکیہ عمل کو اگر دین کا حصہ نہ بھی سمجھے تب بھی وطن پرست ان شرکیہ عمل کرنے کی وجہ سے کافر و مشرک ہی شمار ہونگے۔

صالح بن فوزان بن عبد الله الفوزان فرماتے ہیں :

ومن ذلك تقليدهم في الأعياد الشركية والبدعية كأعياد الموالد- كمولد الرسول صلى الله عليه وسلم- وأعياد موالد الرؤساء والملوك وقد تسمى هذه الأعياد البدعية أو الشركية بالأيام أو الأسابيع– كاليوم الوطني للبلاد، ويوم الأم وأسبوع النظافة– وغير ذلك من الأعياد اليومية والأسبوعية، وكلها وافدة على المسلمين من الكفار؛ وإلا فليس في الإسلام إلا عيدان: عيد الفطر وعيد الأضحى وما عداهما فهو بدعة وتقليد للكفار

"اور اسى طرح شركيہ اور بدعتى تہواروں ميں كفار كى تقليد اور نقالى كى جا رہى ہے مثلا: عيد ميلادـ جيسا كہ عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلمـ اور صدر اور بادشاہوں كى سالگرہ، ان تہواروں كو بدعتى يا شركيہ تہوار يا ہفتے كہا جاسكتا ہےـ مثلا يوم آزادى، يوم والدہ، اور ہفتہ صفائىـ اس كے علاوہ دوسرے يومى تہوار يا ہفتہ وار تہوار، يہ سب مسلمانوں ميں كفار كى جانب سے داخل ہوئے ہيں؛ وگرنہ اسلام ميں تو صرف دو ہى تہوار اور عيديں ہيں: عيد الفطر، اور عيد الاضحى، اس كے علاوہ باقى جتنى بھى عيديں اور تہوار ہيں وہ كفار كى تقليد اور نقالى ميں منائے جارہے ہيں۔"

[من خطبة "الحث على مخالفة الكفار" (اسلام سوال و جواب نگرام اعلی صالح المنجد سوال نمبر ۴۵۲۰۰)]

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں بت پرستی، قبر پرستی اور وطن پرستی جیسے تمام تر شرک و کفر سے محفوظ رکھے ،توحید اور سلفی منہج پر ثابت قدم رکھے اور ہمیں دور جدید میں شرک کی نئی نئی قسموں مثلا وطن پرستی، جمہوریت وغیرہ جیسے شرک اکبر کو سمجھنے اور ان تمام اقسام کے شرک سے بچنے اور ہر طرح کے شرک کی تردید کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
Top