سوال :
ہوائي جہاز کا مسافر کب روزہ افطار کرے گا ؟
جواب :
( جب کوئي شخص زمین پر غروب شمس ہونے پر روزہ افطار کرلے اورپھر ہوائي جہاز پرسفر کرے اورفضا میں سورج موجود دیکھے تواس پرلازم نہیں کہ وہ کھانے پینے سے گریز کرے کیونکہ وہ اپنے اس دن کے روزہ کو مکمل کرچکا ہے ، اس لیے کہ عبادت کومکمل کرنے کے بعد لوٹانے کی کوئي ضرورت نہیں ۔
اورجب سورج غروب ہونے سے چند منٹ قبل ہوائي جہاز اڑان بھرے تواگر کوئي شخص اپنے اس دن کے روزہ کو سفر میں پورا کرنا چاہے
تو وہ غروب شمس سے قبل افطاری نہیں کرسکتا جب تک وہ سورج کو دیکھتا رہے گا افطاری نہ کرے بلکہ جہاں اورجس فضا میں اسے سورج غروب ہوتا نظر آئے وہاں ہی وہ افطاری کرے گا ۔
اوراسی طرح ہوائي جہاز کے کپتان کےلیے جائز نہیں کہ وہ صرف افطاری کرنے کے لیے ہوائي جہاز کی بلندی کم کرے تا کہ اسے سورج نظر نہ آسکے اوروہ افطاری کرلے ، کیونکہ ایسا کرنا ایک حیلہ ہے ، لیکن اگر وہ ہوائي جہاز کی کسی مصلحت کےلیے بلندی کم کرتا ہے جس کی وجہ سے سورج کی ٹکیا غائب ہوجائے تو پھر اسے افطاری کرنے کی اجازت ہے ) ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا بالمشافہۃ فتوی آپ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب ( سبعون مسئلۃ فی الصیام ) روزوں کے ستر مسائل ۔ کا مطالعہ کریں ۔
لجنۃ دائمہ ( مستقل فتوی کمیٹی ) کا فتوی ہے :
جب کوئي روزہ دار ہوائي جہاز میں ہو اوراسے گھڑی یا پھر ٹیلی فون کے ذریعہ اپنے قریب ترین ملک میں افطاری کے وقت کا علم ہوجائے کہ وہاں افطاری ہوچکی ہے لیکن وہ خود ہوائي جہاز کی بلندی کی وجہ سے فضا میں سورج دیکھ رہا ہو تو اسے اس وقت تک افطاری کرنا جائز نہیں جب تک سورج کی ٹکیا غائب نہیں ہوجاتی ۔
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ پھر تم رات تک روزہ پورا کرو } ۔
اورروزہ دار جب تک سورج کی ٹکیا دیکھ رہا ہے اس وقت تک اس کی انتہاء نہیں ہوسکتی لھذا وہ سورج غائب ہونے پر ہی افطاری کرے گا ۔
لیکن جب کوئي شخص کسی ملک میں سورج غروب ہونے پر افطاری کرلے اورپھر جب ہوائی جہاز پر سوار ہوکرفضا میں پہنچے تو سورج دیکھنے پر اس کی افطاری قائم رہے گی ، کیونکہ اس کا حکم تو اسی ملک کا تھا جہاں سے اس نے اڑان بھری تھی اوراس وقت سورج غروب ہوچکا تھا ۔ ا ھـ
اورایک دوسرے فتوی میں فتوی کمیٹی کا فتوی ہے :
اگر کوئي شخص رمضان المبارک میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں ہوائي جہاز کا سفر کر رہا ہو اوروہ اپنے روزہ کو پورا کرنا چاہے تو اس کے لیے غروب آفتاب سے قبل افطاری کرنا جائز نہیں ۔ ا ھـ
دیکھیں مجموع فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 136 - 137 ) ۔
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
جزاک اللہ
یوسف بھائی اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے۔
یعنی دونوں گروہوں نے ٹھیک کیا؟ دونوں کا روزہ ہوگیا؟
قرین قیاس تو یہی لگتا ہے کہ دونوں کا روزہ ہوگیا ۔ کیونکہ دونوں گروہوں نے افطاری غروب آفتاب کے وقت ہی کی ہے ۔
جنہوں نے پہلے افطاری کی ان کے نزدیک افطاری کا وقت پہلے ہوچکا تھا اور مزید تاخیر کرنا جائز نہیں لہذا حدیث پر عمل کرتےہوئے انہوں نے افطاری کرلی ۔
جنہوں نے تاخیر کی ان کے نزدیک چونکہ جس جگہ وہ موجود تھے وہاں سورج باقی تھا اس لیے انہوں نے بھی شریعت کی رو سے غروب آفتاب کا انتظار کرتے ہوئے تاخیر کی ۔ واللہ اعلم ۔
یہ مسئلہ چونکہ اختلافی ہے ۔ دونوں طرف کے دلائل جان کر جو بات شریعت کی رو سے قابل اطمینان اور درست لگے اس پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے ۔ اگر صحیح بات کا انتخاب کرنے میں غلطی بھی ہوگئی تو ان شاء اللہ ، اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے ۔ کیونکہ انسان حتی الوسع کوشش کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جس نے یہ ذمہ داری ادا کرلی گویا اس نے حق کو پالیا ۔ واللہ اعلم ۔