- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
وقت کے احکام
اذان اور نماز کے درمیانی وقت کے احکام
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایا :''لایردالدعاء بین الاذان والاقامۃ''اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ک جاتی۔(ابوداؤد:٥٢١، ترمذی:٢١٢)
چنانچہ اس وقت باتیں کرنے کی بجائے دعا کرنی چاہیے کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔
اس کی تعیین میں کوئی صحیح مرفوع متصل حدیث تو نہیں ملی مگر امام شعبہ فرماتے ہیں کہ:''اذان اور اقامت کے درمیان تھوڑا سا وقت ہونا چاہیے۔''(بخاری:بعدح٦٢٥ تلیقا بالجزم)
یہ بات یاد رہے کہ اذ ان سے تو نما ز کے وقت کی اطلاع دینا مقصود ہے اب اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقت تو ہونا چاہیے جس میں اذان سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں سے آسکیں ،اگر کسی کو ضرورت ہو اس نے استنجا بھی کرنا ہے ، اسی طرح وضو بھی کرنا ہے،نماز سے پہلے کی دو ،چار رکعتیں بھی پڑھنی ہیں،اوراگر کوئی دعا بھی کرنا چاہے تو وہ بھی کر سکے ۔اتنا وقت تو ہونا چاہیے کہ جس میں مذکورہ کام ممکن ہو سکیں۔اگر مقتدی جلدی آگئے ہیں تو اما م کو جماعت جلدی کروا دینی چاہیے۔اتنا زیادہ وقت بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جس سے نماز کااول وقت ہی فوت جائے۔
تنبیہ:وہ حدیث جس میں آتا ہے کہ :''اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ کرو جتنے میں کوئی کھانے والا اپنے کھانے سے فارغ ہو سکے۔'' (ترمذی:١٩٥،یہ ضعیف ہے۔دیکھئے ،فتح الباری:٢/١٣٦)
(
حافظ عبدالمنان نورپوری حفظہ لکھتے ہیں :''یہ رات والی اذان فجر کی اذان سے پہلے کہی جاتی تھی ۔منٹوں ،گھنٹوں میں اس وقفے کی تعیین کہیں وارد نہیں ہوئی۔''(احکام ومسائل:١/١٧١)
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیاکہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا؟تو انھوں نے جواب دیا:''پچاس آیات پڑھنے کی مقدار کے برابر۔''(بخاری:١٩٢١)
یا ساٹھ آیات کی مقدار کے برابر(بخاری:٥٧٥)
سحری کا آخری وقت صبح صادق کے خوب نمایاں ہو جانے سے ہوتا ہے۔(بخاری:١٩١٦،مسلم:١٠٩٠)
نمازوں کے اوقات کے احکام:
اس میں دو بحثیں ہیں
(١)فرضی نمازوں کے اوقات
(٢)نفلی نمازوں کے اوقات
اس کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔(مسلم:٦١٢)
امام ابن المنذر فرماتے ہیں کہ:''اجماع ہے کہ نماز فجر کا وقت طلوع فجر(صبح صادق)ہے۔''(کتاب الاجماع:رقم٣٦)
نماز فجر اس وقت پڑھنی چاہیے جب فجر(صبح صادق)پھوٹتی ہے اور آدمی اپنے ساتھ والے کونہ پہچان سکے۔(مسلم:٤١٦)
یہ نماز اندھیرے میں پڑھنی چاہیے۔(بخاری:٥٦٠،مسلم:٦٤٦)
رسول اللہ ؐ نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی پھر دوسری مرتبہ روشن کر کے پڑھی پھر وفات تک آپ کی نمازاندھیرے میں ہی رہی آپ نے دوبارہ کبھی اسے روشن کر کے نہ پڑھ۔''(ابوداؤد:٣٩٤،صحیح ابن خزیمہ:٣٥٢)
جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے اگر ایک رکعت پالی تواس نے تو اس نے نماز پالی۔(بخاری:٥٧٩،مسلم،٦٠٨)
نماز فجر کا آخری وقت یہ ہے۔یہ نماز روشن کر کے پڑھی جائے۔(مسلم:٦١٣)
ویسے تو یہ نماز طلوع آفتاب تک پڑھنی جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ اول وقت پڑھی جائے۔
اس کا وقت سورج ڈھلنے شروع ہوتا ہے اور ایک مثل تک رہتا ہے۔(مسلم:٦١٣)
اس بات پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے فورا بعد شروع ہو جاتا ہے۔(الافصاح لابن ہبیرہ:١/٧٢)
گرمیوں میں ذرا دیر سے ٹھنڈی کر کے پڑھنی چاہیے۔(بخاری:٥٣٦،مسلم:٦١٥)
اس کو اچھی طرح ٹھنڈی کر کے پڑھنا اس کا آخری وقت ہے۔(مسلم:٦١٣)
ویسے تو یہ نماز ایک مثل تک پڑھنی جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ اول وقت پڑھی جائے۔
حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:''زوال کا وقت معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی روز سورج طلوع ہونے سے تھوڑی دیر بعد تقریبا ایک فٹ زمین یا مکان کی سطح لیبل کے ساتھ ہموار کر لیںپھر تین چار انچ پرکار کھول کر اس سطح پر ایک دائرہ بنا لیں اس کے بعد دائرہ کے قطب (مرکزی نقطہ)پر تین انچ لمبا ایک دو سوتر موٹا سریہ یا اس کے مساوی لکڑی گاڑدیں بایں طور کہ وہ شاکول(سایل) کے ساتھ سیدھے ہوں شروع شروع میں اس سریے یا لکڑی کا سایہ بطرف مغرب دائرہ سے باہر ہو گا،جب وہ سایہ سمٹتے سمٹتے دائرہ کی لکیر پر ٹھک برابر ہو جائے تو وہاں (مدخل ظل در دائرہ)پر نشان لگا لیں پھر سایہ کی دائرہ سے بجانب مشرق نکلنے کا انتظر کریں جب سایہ بڑھتے بڑھتے دائرہ کی لکیر پر پہنچیے تو وہاں بھی(مخرج ظل از دائرہ)پر نشان لگا دیں اس کے بعد جنوبا و شمالا ایک خط کھنچیں بایں طور کہ وہ شمالی محیط دائرہ سے شروع ہو کر مدخل اور مخرج کے عین وسط والے نقطہ سے گزرتا ہوا مرکز دائرہ کے نقطہ پر ہوتا ہوا دوسری جانب والے محیط جنوبی پر ختم ہو اور دائرہ کی تنصیف کر دے یہ خط خطِ نصف النہار کہلاتا ہے۔یہ عمل ایک دن میں ہوگا ۔
اب دوسرے دن ساڑے گیارہ بجے کے قریب اس دائرہ کے پاس بیٹھ جائیں جب دائرہ کے مرکز میں نصب شدہ سریے یا لکڑی کا سایہ خطِ نصف النھار پر پہنچ جائے تو سایہ کے آخری سریے پر خطِ نصف النھار میں نشان لگا دیں ۔یہ وقت وقتِ زوال ہے اور خط نصف النھار میں نشان سے لے کر سریے یا لکڑی کی جڑ تک یا مرکز دائرہ تک سایہ فئے زوال کی پیمائش کر لیں اب سایہ جونہی خطِ نصف النھار سے بجانب مشرق بڑھنا شروع ہو گا ،ظہر کا وقت شروع ہو جائے گا اور بڑھتے بڑھتے جب سایہ سریے یا لکڑی کی پیمائش جمع فئے زوال کی پیمائش کے برابر ہو جائے گا تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جائے گا اور اس وقت سایہ ایک مثل ہو گا کیونکہ ایک مثل فئے زوال کو نکا ل کر ہے۔''(احکام و مسائل:١/١١٧)
یا کسی کھلی اور ہموار زمین میں زوال سے پہلے ایک لکڑی گاڑ دی جائے اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا یہاں تک کہ زوال کاوقت کم سے کم رہ جائے گا اس سائے کو ماپ لیا جائے جب یہ سایہ بڑھنا شروع ہو تو وہ اس بات کی علامت ہے کہ زوال ہو گیا ہے پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ لکڑی کے برابر ہو جائے (زوال کے وقت لکڑی کا ماپا ہوا سایہ اس سے وضع کرنے کے بعد)تو ایک مثل وقت ہو جائے گا اور جب دو گنا ہو جائے تو دو مثل ہو جائے گا۔(فقہ السنۃ:١/١١٥)
تنبیہ:زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہو گا ۔یہی بات امام ابن تیمیہ کے فتاوی(٢٢/٧٤)فقہ حنفی کی کتاب الھدایہ(١/٤)فقہ شافعی کی المجموع(٣/٨١)فقہ حنبلی کی الروض المربع(١/٤٢)وغیرہ میں موجود ہے ،الغرض یہ بات اتفاقی ہے کہ زوال کا سایہ نکال کر مثل پیمائش ہو گی ۔کذا فی (آپ کے مسائل اور ان کا حل للشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ:٣/١١٣۔١١٤)
(الترمذی:١٤٩وقال :حدیث ابن عباس حدیث حسن،استاذ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:''اس کی سند حسن ہے،اسے ابن خزیمہ(ح٣٥٢)،ابن حبان(ح٢٧٩)،ابن الجارود(ح١٤٩)،الحاکم(١/١٩٣)،ابن عبد البر ،ابوبکر بن العربی،النووی وغیرھم نے صحیح کہا ہے۔''(نیل المقصودفی التعلیق علی سنن ابی داؤد:ح٣٩٣)امام بغوی اور نیموی حنفی نے حسن کہا ہے۔(آثار السنن ص٨٩ح١٩٤)کذا فی (ہدیۃ المسلمین :ص٢٥)
اور سورج کے زرد ہونے تک رہتا ہے۔(مسلم:٦١٢)
اس کا آخری دو مثل تک ہے ۔(صحیح الترمذی:١٢٧،١٢٨)
ویسے تو یہ نماز سورج کے زرد ہونے تک پڑھنی جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ اس کو اول وقت پڑھا جائے۔
جس نے نماز عصر کی ایک رکعت پالی اس نے مکمل نماز پالی(بخاری:٥٧٩،مسلم:٦٠٨)
اس کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔(بخاری:٥٦١،مسلم:٦٣٦)
ااور شفق کے غائب ہونے تک رہتا ہے ۔(مسلم:٦١٢)
شفق غائب ہوتے نماز عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے ۔(مسلم:٦١٣)
اور آدھی رات تک رہتا ہے۔(مسلم:٦١٢)
اس نماز کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ؐ نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنا پسند کرتے تھے(بخاری:٥٤٧،مسلم:٦٤٧)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ؐ سے سوال کیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟آپ نے فرمایا:''اول وقت پر نماز پڑھنا۔''(صحیح ابن خزیمہ:٣٢٧،صحیح ابن حبان:٢٨٠۔الموارد اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے(المستدرک:١/١٨٨،١٨٩ح٦٧٥)
تاخیر سے نماز پڑھنا منافق کا عمل ہے ۔(مسلم:٦٢٢)
یاد رہے کہ تمام نمازوں کو اول وقت پڑھنا افضل ہے لیکن نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔
اس کا وقت یہ کہ جب سورج ڈھل جائے تو اس وقت یہ نماز پڑھی جائے۔(بخاری :٩٠٤)
اس کو سردیوں میں جلد اور سخت گرمی میں دیر سے پڑھنا چاہیے۔(بخاری:٩٠٦)
ان کا وقت چاشت کا وقت ہے ۔سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے دن نماز کے لیے گئے ۔امام نے نماز میں تاخیر کر دی تو وہ فرمانے لگے کہ:''رسول اللہ ؐ کے زمانے میں ہم اس وقت نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے تھے ،راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا۔''(ابوداؤد:١١٣٥اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے)
جو شخص نماز پڑھنی بھول جائے (یا سو جائے)پس اس کا کفارہ یہ ہے جس وقت اسے یاد آئے (یا بیدار ہو)تو اس فوت شدہ نماز کو پڑھ لے(بخاری:٥٩٧،مسلم:٦٨٤)
نفلی نمازوں کے اوقات:
اس کا وقت یہ ہے کہ سورج نکلتے ہی اس کو ادا کیا جائے۔(ابو داؤد:١١٧٣اسے حاکم(المستدرک:١/٢٦٨)ابن حبان(ح٦٠٤)اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔)
فائدہ:نماز استسقاء اس وقت پڑھی جاتی ہے جب قحط سالی ہو مینہ نہ برسے تو اللہ تعالی سے بارش طلب کرنے کے لیے یہ نماز (جس کا خاص طریقہ ہے )پڑھی جاتی ہے۔
نماز اشراق:وہ نماز جو طلوع آفتاب کے بعد ادا کی جاتی ہے اور یہی اس کا وقت ہے ۔
نماز چاشت:اس وقت یہ نماز پڑھی جائے جب شدتِ گرمی کی وجہ سے اونٹنی کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں ۔(مسلم:٧٤٨)
یاد رہے نماز چاشت اور نما ز اوابین ایک ہی ہیں۔
اس کا وقت نماز عشاء اور طلوع فجر کے درمیان ہے۔(ابوداؤد:١٤١٨، صححہ الالبانی ،الصحیحہ:١٠٨)
امام ابن المنذر فرماتے ہیں کہ :''اجماع ہے کہ عشاء اور طلوع فجر کے درمیان کا سارا وقت وتر کا وقت ہے۔''(کتاب الاجماع:رقم٧٦)رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے(بخاری:٩٩٨،مسلم:٧٥١)جس کو یہ خدشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں ہی(یعنی نما ز عشاء کے بعد)وتر پڑھ لے اور جسے یہ توقع ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار ہو جائے گاتو اسے چاہیے کہرات کے آخری حصے میں ہی وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ افضل ہے۔(مسلم:٧٥٥)رسول اللہ ؐ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وتر سونے سے پہلے پڑھنے کی وصیت کی تھی۔(بخاری:١٩٨١،مسلم٧٢١)
تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنی منع ہے۔
ّ(١)جب سورج طلوع ہو رہا ہو حتی کہ وہ بلند ہو جائے۔(٢)جب سورج نصف آسمان پر ہو حتی کہ وہ ڈھل جائے۔(٣)جب سورج غروب ہونا شروع ہو جائے۔[٩]
[٩](مسلم:٨٣١)
فائدہ:انھیں تین وقتوں میں مردوں کی تدفین بھی منع ہے [١٠]
[١٠](مسلم:٨٣١)ایک حدیث میں آتا ہے کہ :''صبح کی نماز (کی ادائیگی )کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی (دوسری)نماز(جائز )نہیںاور نماز عصر (کی ادائیگی )کے بعد غروبِ آفتاب تک کوئی دوسری نماز جائز نہیں۔''[١١][١١](بخاری:٥٨٦،مسلم:٨٢٧)یاد رہے صبح کی نماز کے بعد دو رکعت کا پڑھناجائز ہے اگر آدمی پہلے نہ پڑھ سکا ہو۔(ترمذی:٤٢٢،ابوداؤد:١٢٦٧ اس کو ترمذی نے اور ابن خزیمہ(٦١١١)نے صحیح کہا ہے)اسی طرح نماز عصر کی ادائیگی کے بعد جو نماز پڑھنا منع ہے وہ سورج کے بلند ہونے کی صورت میں جائز ہے(ابوداؤد:١٢٧٤ صححہ الالبانی)یعنی سورج کے بلند ہونے تک کوئی نماز مثلا دو نفل،نماز جنازہ،فوت شدہ یا بھولی ہوئی نمازپڑھنا درست ہے۔لیکن جب سورج غروب ہو رہا ہو اس وقت جائز نہیں ہے۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا :''جو شخص جمعہ کو نہائے اور جس قدر پاکی حاصل ہو سکے کرے پھر تیل یا اپنے گھر سے خوشبو لگائےاور مسجد کو جائے دو آدمیوں کے درمیان راستہ نہ بنائے پھر اپنے مقدر کی نماز پڑھے پھر دوران خطبہ خاموش رہے تو اس کے گزشتہ جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔''(بخاری:٨٨٣،نیز دیکھیںمسلم:٨٥٧)حافظ ابن قیم فرماتے ہیںکہ:''جمعہ کے دن زوال کے وقت (نصف النھار)نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے...اور وہ ہمارے شیخ ابن تیمیہ کا بھی موقف ہے۔''(زاد المعاد:١/٣٧٨)
حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:''یہاں نماز سے مانع نصف النھار کو نہیں بلکہ امام کے نکلنے کو نماز سے مانع قرار دیا گیا ہے۔تو معلوم ہو ا نصف النھار کے وقت جمعہ کے دن نماز پڑھنی مکروہ نہیں ہے۔''(احکام ومسائل:٢/٢٨٤)نیز فرماتے ہیں:''جمعہ کے روز بھی زوال ہوتا ہے ،البتہ جمعہ کے روز جمعہ پڑھنے والے جس وقت بھی مسجد میں پہنچیں ۔اس وقت سے لے کر خطبہ شروع ہونے تک جتنی ان کے مقدر میں پڑھ سکتے ہیں۔''(احکام و مسائل:٢/٣٣٩)
رسول اللہ ؐ نے فرمایا:''اے عبدمناف کی اولاد!بیت اللہ کا طواف کرنے والے کسی شخص کو منع نہ کرو اور نہ کسی نماز پڑھنے والے کو (نماز پڑھنے سے)خواہ وہ شب وروز کی کسی گھڑی میں یہ کام کرے۔''(ابوداؤد:١٨٩٤،اس کو امام ترمذی(٨٦٨)اور ابن حبان(الاحسان:٣/٤٦،ح:١٥٥٠)نے صحیح کہا ہے۔)
یہی موقف علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کا ہے۔(تحفۃ الاحوزی:٢/٩٥)
شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ:''عدمناف کی اولاد کو مخاطب اس لیے کیاہے کہ یہ اس وقت کعبہ کے متولی تھے۔(صلّٰی اَیَّۃَ سَاعَۃِِ شَائَ)یہ الفاظ ممنوعہ تین اوقات میں بھی نماز پڑھنے کی اجازت پر دلالت کرتے ہیںجن احادیث میں ممانعت ہے یہ حدیث اس عام حکم کو بیت اللہ کی وجہ سے خاص قرار دیتی ہے کہ بیت اللہ میں یہ ممانعت نہیں۔''(اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام:١/١٣٢اردو)
١:نماز فجر سے پہلے
٢:ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو
٣:اور عشاء کی نماز کے بعد(النور:٥٨)
وجہ یہ ہے کہ:''یہ تینوں وقت تمہاری خلوت اور پردہ کے ہیں۔''(النور:٥٨)
سبحان اللہ کتنا پیارا اسلام ہے مگر افسوس کہ مسلمان اس کی روشن تعلیمات پر عمل پھر بھی نہیں کرتے۔مذکورہ اصول پر عمل انتہائی ضروری ہے ورنہ حیاء کا جنازہ نکل جائے گا۔اللہ تعالی اس پر مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نوٹ:شام کے وقت کے احکام اور اس کے اذکار کے لیے دیکھیں''رات کے احکام''
اور صبح کے وقت کے احکام اور اس کے اذکار کے لیے دیکھیں''دن کے احکام''۔
نوٹ ٌیہ مضمون حسینوی بلوگ پر بھی پڑھ سکتے ہیں رابطہ حسینوی بلوگ
اذان اور نماز کے درمیانی وقت کے احکام
(١)اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایا :''لایردالدعاء بین الاذان والاقامۃ''اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ک جاتی۔(ابوداؤد:٥٢١، ترمذی:٢١٢)
چنانچہ اس وقت باتیں کرنے کی بجائے دعا کرنی چاہیے کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔
(٢)اذان اور اقامت کے درمیان کتنا وقت ہونا چاہیے؟
اس کی تعیین میں کوئی صحیح مرفوع متصل حدیث تو نہیں ملی مگر امام شعبہ فرماتے ہیں کہ:''اذان اور اقامت کے درمیان تھوڑا سا وقت ہونا چاہیے۔''(بخاری:بعدح٦٢٥ تلیقا بالجزم)
یہ بات یاد رہے کہ اذ ان سے تو نما ز کے وقت کی اطلاع دینا مقصود ہے اب اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقت تو ہونا چاہیے جس میں اذان سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں سے آسکیں ،اگر کسی کو ضرورت ہو اس نے استنجا بھی کرنا ہے ، اسی طرح وضو بھی کرنا ہے،نماز سے پہلے کی دو ،چار رکعتیں بھی پڑھنی ہیں،اوراگر کوئی دعا بھی کرنا چاہے تو وہ بھی کر سکے ۔اتنا وقت تو ہونا چاہیے کہ جس میں مذکورہ کام ممکن ہو سکیں۔اگر مقتدی جلدی آگئے ہیں تو اما م کو جماعت جلدی کروا دینی چاہیے۔اتنا زیادہ وقت بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جس سے نماز کااول وقت ہی فوت جائے۔
تنبیہ:وہ حدیث جس میں آتا ہے کہ :''اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ کرو جتنے میں کوئی کھانے والا اپنے کھانے سے فارغ ہو سکے۔'' (ترمذی:١٩٥،یہ ضعیف ہے۔دیکھئے ،فتح الباری:٢/١٣٦)
(
٣)صبح کی اذان اور پہلی اذان کے درمیان کتنا وقت ہونا چاہیے؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ:''دونو ں اذانوں کا درمیانی وقت اتنا تھا کہ ایک (مؤذن )نیچے اترتا تو دوسرا (اذان کے )لیے چڑھتا۔''(بخاری:١٩١٨)حافظ عبدالمنان نورپوری حفظہ لکھتے ہیں :''یہ رات والی اذان فجر کی اذان سے پہلے کہی جاتی تھی ۔منٹوں ،گھنٹوں میں اس وقفے کی تعیین کہیں وارد نہیں ہوئی۔''(احکام ومسائل:١/١٧١)
سحری اور اذان کے درمیان کتنا وقت ہونا چاہیے؟
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیاکہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا؟تو انھوں نے جواب دیا:''پچاس آیات پڑھنے کی مقدار کے برابر۔''(بخاری:١٩٢١)
یا ساٹھ آیات کی مقدار کے برابر(بخاری:٥٧٥)
سحری کا وقت:
سحری کا آخری وقت صبح صادق کے خوب نمایاں ہو جانے سے ہوتا ہے۔(بخاری:١٩١٦،مسلم:١٠٩٠)
نمازوں کے اوقات کے احکام:
اس میں دو بحثیں ہیں
(١)فرضی نمازوں کے اوقات
(٢)نفلی نمازوں کے اوقات
فرضی نما زوں کے اوقات:
نماز فجر:
اس کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔(مسلم:٦١٢)
امام ابن المنذر فرماتے ہیں کہ:''اجماع ہے کہ نماز فجر کا وقت طلوع فجر(صبح صادق)ہے۔''(کتاب الاجماع:رقم٣٦)
نماز فجر اس وقت پڑھنی چاہیے جب فجر(صبح صادق)پھوٹتی ہے اور آدمی اپنے ساتھ والے کونہ پہچان سکے۔(مسلم:٤١٦)
یہ نماز اندھیرے میں پڑھنی چاہیے۔(بخاری:٥٦٠،مسلم:٦٤٦)
رسول اللہ ؐ نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی پھر دوسری مرتبہ روشن کر کے پڑھی پھر وفات تک آپ کی نمازاندھیرے میں ہی رہی آپ نے دوبارہ کبھی اسے روشن کر کے نہ پڑھ۔''(ابوداؤد:٣٩٤،صحیح ابن خزیمہ:٣٥٢)
جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے اگر ایک رکعت پالی تواس نے تو اس نے نماز پالی۔(بخاری:٥٧٩،مسلم،٦٠٨)
نماز فجر کا آخری وقت یہ ہے۔یہ نماز روشن کر کے پڑھی جائے۔(مسلم:٦١٣)
ویسے تو یہ نماز طلوع آفتاب تک پڑھنی جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ اول وقت پڑھی جائے۔
نماز ظہر:
اس کا وقت سورج ڈھلنے شروع ہوتا ہے اور ایک مثل تک رہتا ہے۔(مسلم:٦١٣)
اس بات پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے فورا بعد شروع ہو جاتا ہے۔(الافصاح لابن ہبیرہ:١/٧٢)
گرمیوں میں ذرا دیر سے ٹھنڈی کر کے پڑھنی چاہیے۔(بخاری:٥٣٦،مسلم:٦١٥)
اس کو اچھی طرح ٹھنڈی کر کے پڑھنا اس کا آخری وقت ہے۔(مسلم:٦١٣)
ویسے تو یہ نماز ایک مثل تک پڑھنی جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ اول وقت پڑھی جائے۔
زوال کا وقت یا مثل اول معلوم کرنے کا طریقہ:
حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:''زوال کا وقت معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی روز سورج طلوع ہونے سے تھوڑی دیر بعد تقریبا ایک فٹ زمین یا مکان کی سطح لیبل کے ساتھ ہموار کر لیںپھر تین چار انچ پرکار کھول کر اس سطح پر ایک دائرہ بنا لیں اس کے بعد دائرہ کے قطب (مرکزی نقطہ)پر تین انچ لمبا ایک دو سوتر موٹا سریہ یا اس کے مساوی لکڑی گاڑدیں بایں طور کہ وہ شاکول(سایل) کے ساتھ سیدھے ہوں شروع شروع میں اس سریے یا لکڑی کا سایہ بطرف مغرب دائرہ سے باہر ہو گا،جب وہ سایہ سمٹتے سمٹتے دائرہ کی لکیر پر ٹھک برابر ہو جائے تو وہاں (مدخل ظل در دائرہ)پر نشان لگا لیں پھر سایہ کی دائرہ سے بجانب مشرق نکلنے کا انتظر کریں جب سایہ بڑھتے بڑھتے دائرہ کی لکیر پر پہنچیے تو وہاں بھی(مخرج ظل از دائرہ)پر نشان لگا دیں اس کے بعد جنوبا و شمالا ایک خط کھنچیں بایں طور کہ وہ شمالی محیط دائرہ سے شروع ہو کر مدخل اور مخرج کے عین وسط والے نقطہ سے گزرتا ہوا مرکز دائرہ کے نقطہ پر ہوتا ہوا دوسری جانب والے محیط جنوبی پر ختم ہو اور دائرہ کی تنصیف کر دے یہ خط خطِ نصف النہار کہلاتا ہے۔یہ عمل ایک دن میں ہوگا ۔
اب دوسرے دن ساڑے گیارہ بجے کے قریب اس دائرہ کے پاس بیٹھ جائیں جب دائرہ کے مرکز میں نصب شدہ سریے یا لکڑی کا سایہ خطِ نصف النھار پر پہنچ جائے تو سایہ کے آخری سریے پر خطِ نصف النھار میں نشان لگا دیں ۔یہ وقت وقتِ زوال ہے اور خط نصف النھار میں نشان سے لے کر سریے یا لکڑی کی جڑ تک یا مرکز دائرہ تک سایہ فئے زوال کی پیمائش کر لیں اب سایہ جونہی خطِ نصف النھار سے بجانب مشرق بڑھنا شروع ہو گا ،ظہر کا وقت شروع ہو جائے گا اور بڑھتے بڑھتے جب سایہ سریے یا لکڑی کی پیمائش جمع فئے زوال کی پیمائش کے برابر ہو جائے گا تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جائے گا اور اس وقت سایہ ایک مثل ہو گا کیونکہ ایک مثل فئے زوال کو نکا ل کر ہے۔''(احکام و مسائل:١/١١٧)
یا کسی کھلی اور ہموار زمین میں زوال سے پہلے ایک لکڑی گاڑ دی جائے اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا یہاں تک کہ زوال کاوقت کم سے کم رہ جائے گا اس سائے کو ماپ لیا جائے جب یہ سایہ بڑھنا شروع ہو تو وہ اس بات کی علامت ہے کہ زوال ہو گیا ہے پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ لکڑی کے برابر ہو جائے (زوال کے وقت لکڑی کا ماپا ہوا سایہ اس سے وضع کرنے کے بعد)تو ایک مثل وقت ہو جائے گا اور جب دو گنا ہو جائے تو دو مثل ہو جائے گا۔(فقہ السنۃ:١/١١٥)
تنبیہ:زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہو گا ۔یہی بات امام ابن تیمیہ کے فتاوی(٢٢/٧٤)فقہ حنفی کی کتاب الھدایہ(١/٤)فقہ شافعی کی المجموع(٣/٨١)فقہ حنبلی کی الروض المربع(١/٤٢)وغیرہ میں موجود ہے ،الغرض یہ بات اتفاقی ہے کہ زوال کا سایہ نکال کر مثل پیمائش ہو گی ۔کذا فی (آپ کے مسائل اور ان کا حل للشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ:٣/١١٣۔١١٤)
نماز عصر:
اس کا وقت ایک مثل سے شروع ہوتا ہے(الترمذی:١٤٩وقال :حدیث ابن عباس حدیث حسن،استاذ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:''اس کی سند حسن ہے،اسے ابن خزیمہ(ح٣٥٢)،ابن حبان(ح٢٧٩)،ابن الجارود(ح١٤٩)،الحاکم(١/١٩٣)،ابن عبد البر ،ابوبکر بن العربی،النووی وغیرھم نے صحیح کہا ہے۔''(نیل المقصودفی التعلیق علی سنن ابی داؤد:ح٣٩٣)امام بغوی اور نیموی حنفی نے حسن کہا ہے۔(آثار السنن ص٨٩ح١٩٤)کذا فی (ہدیۃ المسلمین :ص٢٥)
اور سورج کے زرد ہونے تک رہتا ہے۔(مسلم:٦١٢)
اس کا آخری دو مثل تک ہے ۔(صحیح الترمذی:١٢٧،١٢٨)
ویسے تو یہ نماز سورج کے زرد ہونے تک پڑھنی جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ اس کو اول وقت پڑھا جائے۔
جس نے نماز عصر کی ایک رکعت پالی اس نے مکمل نماز پالی(بخاری:٥٧٩،مسلم:٦٠٨)
نماز مغرب:
اس کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔(بخاری:٥٦١،مسلم:٦٣٦)
ااور شفق کے غائب ہونے تک رہتا ہے ۔(مسلم:٦١٢)
نماز عشائ:
شفق غائب ہوتے نماز عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے ۔(مسلم:٦١٣)
اور آدھی رات تک رہتا ہے۔(مسلم:٦١٢)
اس نماز کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ؐ نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنا پسند کرتے تھے(بخاری:٥٤٧،مسلم:٦٤٧)
تنبیہ:اول وقت نماز کی فضیلت۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ؐ سے سوال کیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟آپ نے فرمایا:''اول وقت پر نماز پڑھنا۔''(صحیح ابن خزیمہ:٣٢٧،صحیح ابن حبان:٢٨٠۔الموارد اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے(المستدرک:١/١٨٨،١٨٩ح٦٧٥)
تاخیر سے نماز پڑھنا منافق کا عمل ہے ۔(مسلم:٦٢٢)
یاد رہے کہ تمام نمازوں کو اول وقت پڑھنا افضل ہے لیکن نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔
نماز جمعہ:
اس کا وقت یہ کہ جب سورج ڈھل جائے تو اس وقت یہ نماز پڑھی جائے۔(بخاری :٩٠٤)
اس کو سردیوں میں جلد اور سخت گرمی میں دیر سے پڑھنا چاہیے۔(بخاری:٩٠٦)
نماز عیدین:
ان کا وقت چاشت کا وقت ہے ۔سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے دن نماز کے لیے گئے ۔امام نے نماز میں تاخیر کر دی تو وہ فرمانے لگے کہ:''رسول اللہ ؐ کے زمانے میں ہم اس وقت نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے تھے ،راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا۔''(ابوداؤد:١١٣٥اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے)
فوت شدہ نماز کا وقت:
جو شخص نماز پڑھنی بھول جائے (یا سو جائے)پس اس کا کفارہ یہ ہے جس وقت اسے یاد آئے (یا بیدار ہو)تو اس فوت شدہ نماز کو پڑھ لے(بخاری:٥٩٧،مسلم:٦٨٤)
نفلی نمازوں کے اوقات:
نماز استسقاء کا وقت:
اس کا وقت یہ ہے کہ سورج نکلتے ہی اس کو ادا کیا جائے۔(ابو داؤد:١١٧٣اسے حاکم(المستدرک:١/٢٦٨)ابن حبان(ح٦٠٤)اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔)
فائدہ:نماز استسقاء اس وقت پڑھی جاتی ہے جب قحط سالی ہو مینہ نہ برسے تو اللہ تعالی سے بارش طلب کرنے کے لیے یہ نماز (جس کا خاص طریقہ ہے )پڑھی جاتی ہے۔
نماز اشراق:وہ نماز جو طلوع آفتاب کے بعد ادا کی جاتی ہے اور یہی اس کا وقت ہے ۔
نماز چاشت:اس وقت یہ نماز پڑھی جائے جب شدتِ گرمی کی وجہ سے اونٹنی کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں ۔(مسلم:٧٤٨)
یاد رہے نماز چاشت اور نما ز اوابین ایک ہی ہیں۔
نمازوتر:
رات کے تمام حصوں میں نماز وتر پڑھنی مسنون ہے آخری وقت سحری تک ہے۔(بخاری:٩٩٦،مسلم:٧٤٥)اس کا وقت نماز عشاء اور طلوع فجر کے درمیان ہے۔(ابوداؤد:١٤١٨، صححہ الالبانی ،الصحیحہ:١٠٨)
امام ابن المنذر فرماتے ہیں کہ :''اجماع ہے کہ عشاء اور طلوع فجر کے درمیان کا سارا وقت وتر کا وقت ہے۔''(کتاب الاجماع:رقم٧٦)رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے(بخاری:٩٩٨،مسلم:٧٥١)جس کو یہ خدشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں ہی(یعنی نما ز عشاء کے بعد)وتر پڑھ لے اور جسے یہ توقع ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار ہو جائے گاتو اسے چاہیے کہرات کے آخری حصے میں ہی وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ افضل ہے۔(مسلم:٧٥٥)رسول اللہ ؐ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وتر سونے سے پہلے پڑھنے کی وصیت کی تھی۔(بخاری:١٩٨١،مسلم٧٢١)
وہ اوقات جن میں نماز پڑھنی منع ہے:
تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنی منع ہے۔
ّ(١)جب سورج طلوع ہو رہا ہو حتی کہ وہ بلند ہو جائے۔(٢)جب سورج نصف آسمان پر ہو حتی کہ وہ ڈھل جائے۔(٣)جب سورج غروب ہونا شروع ہو جائے۔[٩]
[٩](مسلم:٨٣١)
فائدہ:انھیں تین وقتوں میں مردوں کی تدفین بھی منع ہے [١٠]
[١٠](مسلم:٨٣١)ایک حدیث میں آتا ہے کہ :''صبح کی نماز (کی ادائیگی )کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی (دوسری)نماز(جائز )نہیںاور نماز عصر (کی ادائیگی )کے بعد غروبِ آفتاب تک کوئی دوسری نماز جائز نہیں۔''[١١][١١](بخاری:٥٨٦،مسلم:٨٢٧)یاد رہے صبح کی نماز کے بعد دو رکعت کا پڑھناجائز ہے اگر آدمی پہلے نہ پڑھ سکا ہو۔(ترمذی:٤٢٢،ابوداؤد:١٢٦٧ اس کو ترمذی نے اور ابن خزیمہ(٦١١١)نے صحیح کہا ہے)اسی طرح نماز عصر کی ادائیگی کے بعد جو نماز پڑھنا منع ہے وہ سورج کے بلند ہونے کی صورت میں جائز ہے(ابوداؤد:١٢٧٤ صححہ الالبانی)یعنی سورج کے بلند ہونے تک کوئی نماز مثلا دو نفل،نماز جنازہ،فوت شدہ یا بھولی ہوئی نمازپڑھنا درست ہے۔لیکن جب سورج غروب ہو رہا ہو اس وقت جائز نہیں ہے۔
جمعہ کے دن ممنوعہ اوقات میں سے نصف النھار کے وقت نماز پڑھنا درست ہے:
رسول اللہ ؐ نے فرمایا :''جو شخص جمعہ کو نہائے اور جس قدر پاکی حاصل ہو سکے کرے پھر تیل یا اپنے گھر سے خوشبو لگائےاور مسجد کو جائے دو آدمیوں کے درمیان راستہ نہ بنائے پھر اپنے مقدر کی نماز پڑھے پھر دوران خطبہ خاموش رہے تو اس کے گزشتہ جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔''(بخاری:٨٨٣،نیز دیکھیںمسلم:٨٥٧)حافظ ابن قیم فرماتے ہیںکہ:''جمعہ کے دن زوال کے وقت (نصف النھار)نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے...اور وہ ہمارے شیخ ابن تیمیہ کا بھی موقف ہے۔''(زاد المعاد:١/٣٧٨)
حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:''یہاں نماز سے مانع نصف النھار کو نہیں بلکہ امام کے نکلنے کو نماز سے مانع قرار دیا گیا ہے۔تو معلوم ہو ا نصف النھار کے وقت جمعہ کے دن نماز پڑھنی مکروہ نہیں ہے۔''(احکام ومسائل:٢/٢٨٤)نیز فرماتے ہیں:''جمعہ کے روز بھی زوال ہوتا ہے ،البتہ جمعہ کے روز جمعہ پڑھنے والے جس وقت بھی مسجد میں پہنچیں ۔اس وقت سے لے کر خطبہ شروع ہونے تک جتنی ان کے مقدر میں پڑھ سکتے ہیں۔''(احکام و مسائل:٢/٣٣٩)
بیت اللہ میں ممنوعہ اوقات میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے:
رسول اللہ ؐ نے فرمایا:''اے عبدمناف کی اولاد!بیت اللہ کا طواف کرنے والے کسی شخص کو منع نہ کرو اور نہ کسی نماز پڑھنے والے کو (نماز پڑھنے سے)خواہ وہ شب وروز کی کسی گھڑی میں یہ کام کرے۔''(ابوداؤد:١٨٩٤،اس کو امام ترمذی(٨٦٨)اور ابن حبان(الاحسان:٣/٤٦،ح:١٥٥٠)نے صحیح کہا ہے۔)
یہی موقف علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کا ہے۔(تحفۃ الاحوزی:٢/٩٥)
شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ:''عدمناف کی اولاد کو مخاطب اس لیے کیاہے کہ یہ اس وقت کعبہ کے متولی تھے۔(صلّٰی اَیَّۃَ سَاعَۃِِ شَائَ)یہ الفاظ ممنوعہ تین اوقات میں بھی نماز پڑھنے کی اجازت پر دلالت کرتے ہیںجن احادیث میں ممانعت ہے یہ حدیث اس عام حکم کو بیت اللہ کی وجہ سے خاص قرار دیتی ہے کہ بیت اللہ میں یہ ممانعت نہیں۔''(اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام:١/١٣٢اردو)
تین اوقات میں گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا منع ہے
١:نماز فجر سے پہلے
٢:ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو
٣:اور عشاء کی نماز کے بعد(النور:٥٨)
وجہ یہ ہے کہ:''یہ تینوں وقت تمہاری خلوت اور پردہ کے ہیں۔''(النور:٥٨)
سبحان اللہ کتنا پیارا اسلام ہے مگر افسوس کہ مسلمان اس کی روشن تعلیمات پر عمل پھر بھی نہیں کرتے۔مذکورہ اصول پر عمل انتہائی ضروری ہے ورنہ حیاء کا جنازہ نکل جائے گا۔اللہ تعالی اس پر مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نوٹ:شام کے وقت کے احکام اور اس کے اذکار کے لیے دیکھیں''رات کے احکام''
اور صبح کے وقت کے احکام اور اس کے اذکار کے لیے دیکھیں''دن کے احکام''۔
نوٹ ٌیہ مضمون حسینوی بلوگ پر بھی پڑھ سکتے ہیں رابطہ حسینوی بلوگ