ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
وقف و اِبتداء
قاری حبیب الرحمن
ترتیلاللہ جل شانہ‘ کاارشاد گرامی ہے : ’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘ (المزمّل:۴) ’’قرآن کوصاف اورکھول کھول کر پڑھ‘ ترتیل کا حکم اس آیت مبارکہ میں بیان کیاگیاہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق ترتیل کے دو جزء ہیں:’’الترتیل ھو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘
’’یعنی ترتیل کا جزء اوّل تجوید الحروف ہے اورجزء ثانی معرفۃ الوقوف ہے۔‘‘
گویا جس آیت مبارکہ سے تجوید کا ثبوت ملتاہے اسی سے وقف کا بھی ثبوت ملتاہے۔ علم تجوید سے قرآن مجید کی صحت معلوم ہوتی ہے تو علم وقف سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ کا قول ہے :
’’من لم یعرف الوقف لم یعرف القرآن‘‘
’’جسے وقف کی پہچان نہیں اُسے قرآن کی پہچان نہیں۔‘‘
علم تجوید و قراء ات کے ساتھ وقف کااتنا گہرا تعلق ہے جیسے چولی دامن کا ساتھ۔ علم وقف کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کاقول ہے کہ جب تک قاری کو وقف و ابتداء کی معرفت حاصل نہ ہوجائے اُسے سند نہ دی جائے، کیونکہ قاری کے لیے یہ بات انتہائی معیوب ہے کہ ترتیل کے جزء پرتو عمل کرے اور دوسرے سے غفلت برتے۔
مگر مقام افسوس یہ ہے کہ مجودین و قراء کی تجوید و قراء ات کی جانب توجہ ہوتی ہے اور وقف کے معاملہ میں تغافل و تساہل برتا جاتاہے۔ بعض مجودین و قراء کی تجوید و قراء ت میں پختگی اور اَدائیگی کے حسن کی وجہ سے ان کی تلاوت میںلطف آرہا ہوتاہے کہ یکایک نامناسب یا غلط وقف و ابتداء کی وجہ سے سارا مزہ جاتا رہتا ہے۔