السلام علیکم و رحمة الله وبركاته!
کیا ولیمہ سے پہلے شادی کی پہلی رات جماع ضروری ہے کیا جماع کے بنا ولیمہ جائز نہیں وضاحت فرما دیں کوئی۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ :
وقت وليمة النكاح
السؤال :
أنا مقبل على الزّواج إن شاء الله ، وأريد أن أطبّق سنة الرسول صلى الله عليه و سلم بأداء وليمة الزواج . وسؤالي هو : متى يدخل وقتها ؟ وكم هو العدد المحدد لها؟ علما أنه في بلادنا يتم دعوة وإطعام المدعوين قبل عقد الزواج، فهل تعد هذه وليمة ، وهل تسقط بذلك عن صاحبها؟
الجواب :
الحمد لله :
أولاً :
الأفضل فعلُ وليمة النكاح بعد الدخول اقتداءً بفعل النبي صلى الله عليه وسلم ، فإن لم يتيسر ذلك فلا حرج من فعلها قبل الدخول ، أو عند العقد أو بعده .
والأمر في هذا واسع ، ومراعاة الإنسان ما جرى عليه عمل أهل بلده أولى ، لعدم وجود نص شرعي يدل على إيجاب أو استحباب فعلها في وقت محدد .
قال الحافظ ابن حجر : "وَقَدْ اِخْتَلَفَ السَّلَف فِي وَقْتهَا ، هَلْ هُوَ عِنْد الْعَقْد ، أَوْ عَقِبه ، أَوْ عِنْد الدُّخُول ، أَوْ عَقِبه ، أَوْ مُوَسَّع مِنْ اِبْتِدَاء الْعَقْد إِلَى اِنْتِهَاء الدُّخُول ، عَلَى أَقْوَال" انتهى .
"فتح الباري" (9/230) .
وقال الصنعاني :
"وصرح الماوردي من الشافعية بأنها عند الدخول .
قال السبكي : والمنقول من فعل النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنها بعد الدخول .
وكأنه يشير إلى قصة زواج زينب بنت جحش ، لقول أنس : أصبح النبي صلى الله عليه وآله وسلم عروساً بزينب ، فدعا القوم .
وقد ترجم عليه البيهقي (باب : وقت الوليمة)" . انتهى من " سبل السلام" (1/154) .
وحديث أنس رواه البخاري (4793) ومسلم (1428) بلفظ : ( أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ ، وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالْمَدِينَةِ ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ ...)
وفي لفظ للبخاري (5166) : (أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَا عَرُوسًا ، فَدَعَا الْقَوْمَ فَأَصَابُوا مِنْ الطَّعَامِ) .
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية : "ووقت الوليمة في حديث زينب وصفته ، يدل على أنه عقب الدخول". انتهى من "الاختيارات العلمية " ص 346 .
وقال الحافظ ابن حجر : "وَحَدِيث أَنَس صَرِيح فِي أَنَّهَا بَعْد الدُّخُول ؛ لِقَوْلِهِ فِيهِ : (أَصْبَحَ عَرُوسًا بِزَيْنَب فَدَعَا الْقَوْم) .
وَاسْتَحَبَّ بَعْض الْمَالِكِيَّة أَنْ تَكُون عِنْد الْبِنَاء وَيَقَع الدُّخُول عَقِبهَا ، وَعَلَيْهِ عَمَل النَّاس الْيَوْم " . انتهى .
" فتح الباري " (9/231) .
وقال المرداوي : " الْأَوْلَى أَنْ يُقَالَ : وَقْتُ الِاسْتِحْبَابِ مُوَسَّعٌ مِنْ عَقْدِ النِّكَاحِ إلَى انْتِهَاءِ أَيَّامِ الْعُرْسِ .
لِصِحَّةِ الْأَخْبَارِ فِي هَذَا ، وَكَمَالِ السُّرُورِ بَعْدَ الدُّخُولِ ، لَكِنْ قَدْ جَرَتْ الْعَادَةُ فِعْلَ ذَلِكَ قَبْلَ الدُّخُولِ بِيَسِيرٍ " انتهى .
" الإنصاف " (8 /317) .
وقال البخاري : " بَاب حَقِّ إِجَابَةِ الْوَلِيمَةِ وَالدَّعْوَةِ ، وَمَنْ أَوْلَمَ سَبْعَةَ أَيَّامٍ وَنَحْوَهُ ، وَلَمْ يُوَقِّتْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَلَا يَوْمَيْنِ ".
قال الحافظ : " أَيْ لَمْ يَجْعَل لِلْوَلِيمَةِ وَقْتًا مُعَيَّنًا يَخْتَصّ بِهِ الْإِيجَاب أَوْ الِاسْتِحْبَاب ، وَأُخِذَ ذَلِكَ مِنْ الْإِطْلَاق ".
وقال الدَّميري : " لَمْ يَتَعَرَّضْ الْفُقَهَاءُ لِوَقْتِ وَلِيمَةِ الْعُرْسِ ، وَالصَّوَابُ أَنَّهَا بَعْدَ الدُّخُولِ ، قَالَ الشَّيْخُ [ يقصد السبكي] : وَهِيَ جَائِزَةٌ قَبْلَهُ ، وَبَعْدَهُ ، وَوَقْتُهَا مُوَسَّعٌ مِنْ حِينِ الْعَقْدِ كَمَا صَرَّحَ بِهِ الْبَغَوِيّ " .
"النجم الوهاج" (7/393) .
وقال ابن طولون : " والأقرب : الرجوع إلى العرف ". انتهى من "فص الخواتم فيما قيل في الولائم" صـ 44 .
وقال الشيخ صالح الفوزان : " ووقت إقامة وليمة العرس موسع ، يبدأ من عقد النكاح إلى انتهاء أيام العرس " انتهى من " الملخص الفقهي" (2/364) .
ثانياً :
ليس لعدد المدعوين لوليمة النكاح حدٌ معين ، بل ذلك راجع إلى قدرة الشخص وطاقته .
قال ابن بطال : " الوليمة إنما تجب على قدر الوجود واليسار ، وليس فيها حدٌّ لا يجوز الاقتصار على دونه ". انتهى من " شرح صحيح البخاري" (13 /283) .
وقال : " كل من زاد في وليمته فهو أفضل ؛ لأن ذلك زيادة في الإعلان ، واستزادة من الدعاء بالبركة في الأهل والمال " انتهى من " شرح صحيح البخاري" (13 /282) .
والله أعلم
الإسلام سؤال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
وليمہ كرنےكا وقت؛
ان شاء اللہ ميرى شادى ہونے والى ہے، ميں وليمہ كرنے ميں سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرنے كا ارادہ ركھتا ہوں، ميرا سوال يہ ہے كہ وليمہ كا وقت كب ہے، اور اس كى تعداد كيا ہے ؟
كيونكہ ہمارے ملك ميں عقد نكاح سے قبل كھانے كى دعوت دى جاتى ہے تو كيا يہ وليمہ شمار ہو گا اور ايسا كرنے والے سے وليمہ ساقط ہو جائيگا يا نہيں ؟
الجواب
الحمد للہ:
اول:
افضل تو يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتے ہوئے وليمہ رخصتى اور دخول كے بعد كيا جائے، ليكن اگر ايسا كرنا ميسر نہ ہو تو پھر دخول سے قبل يا پھر عقد نكاح كے وقت يا عقد نكاح كے بعد بھى وليمہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
كيونكہ اس معاملہ ميں وسعت پائى جاتى ہے، اور پھر انسان كو اپنے علاقے كے رواج كا خيال كرتے ہوئے اس پر عمل كرنا بہتر اور اولى ہے؛ اس ليے كہ اس كى كوئى شرعى نص نہيں ملتى جو اس كے وجوب پر دلالت كرتى ہو يا پھر كسى محدود وقت كے استحباب پر.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" وليمہ كے وقت ميں سلف رحمہ اللہ كا اختلاف ہے كہ آيا يہ عقد نكاح كے وقت ہوگا يا پھر دخول كے وقت يا دخول كے بعد، يا كہ اس كے ليے وسعت ہے كہ عقد نكاح سے شروع ہو كر دخول ہونے تك كسى بھى وقت كيا جا سكتا ہے، اس ميں كئى ايك اقوال پائے جاتے ہيں " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 230 ).
اور امام صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شافعيہ ميں سے ماوردى نے بيان كيا ہے كہ وليمہ دخول كے وقت كيا جائيگا.
اور امام سبكى رحمہ اللہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عمل سے منقول ہے كہ وليمہ كا وقت دخول كے بعد ہے.
لگتا ہے سبكى رحمہ اللہ زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى شادى كے قصہ كى طرف اشارہ كر رہے كہ انس رضى اللہ تعالى تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب رضى اللہ تعالى عنہا سے بنا كى تو دوسرے دن صبح لوگوں كو كھانے كى دعوت دى.
امام بيہقى رحمہ اللہ نے اس حديث پر "وليمہ كا وقت " كا باب باندھا ہے" انتہى (ديكھيں: سبل السلام ( 1 / 154 ).
سیدنا انس رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث امام بخارى اور مسلم نے درج ذيل الفاظ ميں روايت كى ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے رات بنا كى اور صبح سورج اونچا ہونے كے بعد لوگوں كو كھانے كى دعوت دى ... "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4793 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1428 ).
اور بخارى كے الفاظ يہ ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ و سلم نے زينت بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے ( رات بنا كى ) تو صبح لوگوں كو دعوت دى تو لوگوں نے كھانا كھايا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5166 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں:
" زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى شادى والى حديث ميں وليمہ كا وقت اور اس كا طريقہ بيان ہوا ہے، جو اس پر دلالت كرتى ہے كہ وليمہ دخول كے بعد ہوگا " انتہى (ديكھيں: الاختيارات ( 346 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس مسئلہ ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث صريح بيان كرتى ہے كہ وليمہ دخول كے بعد ہے؛ كيونكہ انس رضى اللہ تعالى عنہ كا بيان ہے: " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب رضى اللہ تعالى عنہا سے بنا كى تو صبح لوگوں كوكھانے كى دعوت دى "
بعض مالكى حضرات نے مستحب قرار ديا ہے كہ وليمہ بناء كے وقت ہوگا اور وليمہ كے بعد دخول كيا جائيگا، آج كل لوگوں كا عمل بھى اسى پر ہے " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 231 ).
اور (فقہ حنبلی کے مشہور و معتبر فقیہ ) علامہ مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اولى اور افضل تو يہى قول ہے كہ وليمہ كا وقت وسيع ہے جو عقد نكاح سے شروع ہو كر رخصتى كے ايام ختم ہونے تك رہتا ہے.
كيونكہ اس سلسلہ ميں صحيح احاديث وارد ہيں، ليكن پورى خوشى اور سرور تو دخول كے بعد ہى ہے، ليكن يہ رواج بن چكا ہے كہ رخصتى اور دخول سے كچھ دير قبل وليمہ كيا جاتا ہے " انتہى (ديكھيں: الانصاف ( 8 / 317 ).
امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" باب ہے وليمہ اور دعوت قبول كرنے كا حق، اور جو سات ايام وغيرہ ميں وليمہ كرے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك يا دو دن مقرر نہيں كيے "
حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وليمہ كے ليے كوئى معين وقت مخصوص نہيں فرمايا كہ وہ وقت واجب يا مستحب ہو، اسے اطلاق سے اخذ كيا گيا ہے.
اور دميرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" فقھاء كرام نے شادى كے وليمہ كے وقت ميں بحث نہيں كى، صحيح يہى ہے كہ يہ رخصتى اور دخول كے بعد ہے، شيخ سبكى كہتے ہيں: دخول كے بعد اور دخول سے قبل جائز ہے بغوى رحمہ اللہ كے بيان كے مطابق وليمہ كا وقت وسيع ہے "(ديكھيں: النجم الوھاج ( 7 / 393 ).
اور ابن طولون كہتے ہيں:
" اقرب يہى ہے كہ اس سلسلہ ميں عرف سے رجوع كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: فص الخواتم فيما قيل في الولائم ( 44 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" شادى كے وليمہ كا وقت وسيع ہے، جو عقد نكاح سے شروع ہو كر شادى كے ايام ختم ہونے تك رہتا ہے " انتہى
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 2 / 364 ).
دوم:
وليمہ ميں مدعوين كے ليے كوئى حد مقرر نہيں، بلكہ اس ميں وليمہ كرنے والےشخص كى استطاعت اور قدرت ديكھى جائيگى.
شارح صحیح البخاری علامہ ابن بطال رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" وليمہ حسب استطاعت آسانى كے ساتھ واجب ہے، اور اس ميں مدعو كرنے كے ليے افراد كى كوئى حد اور عدد متعين نہيں كہ اس سےكم نہيں بلائے جا سكتے " انتہى
ديكھيں: شرح صحيح البخارى ( 13 / 282 ).
اور ايك مقام پر رقمطراز ہيں:
" جو كوئى بھى وليمہ كى دعوت ميں زيادہ افراد بلائےگا وہ افضل ہے كيونكہ اس طرح نكاح كا اعلان زيادہ ہوگا، اور پھر جتنے زيادہ لوگ ہونگے اس كے مال و اہل ميں بركت كى دعا بھى زيادہ ہو گى " انتہى (ديكھيں: شرح صحيح البخارى ( 13 / 282 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب