• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ولی کی تعریف حسن بصری رحمہ اللہ کی زبان سے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ولی کی تعریف حسن بصری رحمہ اللہ کی زبان سے

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے مذکور بالا آیت کریمہ ان کے امتحان کے لیے نازل فرمائی اور اس میں یہ بیان کر دیا کہ جو شخص رسول اللہ کی اتباع کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کا مدعی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کرے تو وہ اولیاء اللہ سے نہیں ہے اور نہ ہوسکتاہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ دل میں اپنے متعلق یا کسی اور کے متعلق یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اولیاء اللہ میں سے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اولیاء اللہ نہیں ہوتے۔ یہود و نصاریٰ بھی تو اس کے مدعی ہیں کہ وہ اللہ کے دوست اور محبوب ہیں اور جنت میں صرف وہی داخل ہوگا جو ان میں سے ہوگا۔بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿١٨﴾
المائدہ

’’یہودیوں اور نصرانیوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، ان سے کہہ دوکہ پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں پر عذاب کیوں کرتا ہے(ایسا ہرگز نہیں) بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں ایک نوع یعنی بشر ہو۔ اس کی شان یہ ہے کہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے۔ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ سب کی بادشاہت اسی کے پاس ہے اور اسی کی طرف جانا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١١١﴾ بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١١٢﴾البقرہ
’’اور اہل کتاب کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے سوا، جنت میں کوئی نہیں جانے پائے گا۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں۔ اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لائو (بلکہ واقعی بات تو یہ ہے کہ) جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور وہ نیکوکار بھی ہے تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے پروردگار کے ہاں موجود ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کسی قسم کا خوف طاری ہوگا اور نہ وہ کسی طرح آزردہ خاطر ہوں گے۔‘‘
مشرکینِ عرب کا یہ دعویٰ تھا کہ مکہ مکرمہ میں رہنے اور بیت اللہ کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہم اللہ کا کنبہ ہیں اور اس کی وجہ سے دوسروں پر اپنی بڑائی جتایا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ ﴿٦٦﴾ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ ﴿٦٧﴾المومنون
’’ہماری آیتیں تم کو پڑھ کرسنائی جاتی تھیں اورتم اکڑے اکڑے قرآن کا مشغلہ بناتے ہوئے بیہودہ باتیں کرتے، الٹے پائوں بھاگتے تھے۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا:
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ﴿٣٠﴾ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَـٰذَا ۙ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿٣١﴾ وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٢﴾ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿٣٣﴾ وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٤﴾الانفال
’’اے پیغمبر! وہ وقت یاد کرو جب کافر تمہارے بارے میں تدبیر کر رہے تھے تاکہ تم کو باندھ رکھیں یا تم کو مار ڈالیں یا تم کو جلا وطن کر دیں اور حال یہ تھا کہ کافر اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے اور جب ہماری آیات اُن کافروں کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں۔ ہم نے سن تو لیا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس طرح کا قرآن کہہ لیں۔ یہ اگلے لوگوں کی کہانیاں ہی تو ہیں اور اے پیغمبر! وہ وقت یاد کرو جب ان کافروں نے دعائیں مانگیں کہ یااللہ اگر یہ دین اسلام یہی دین حق ہے اور تیری طرف سے اترا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی اور عذاب درد ناک لا نازل کر اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تم ان لوگوں میں موجود رہو اور وہ تمہارے رہتے ان لوگوں کو عذاب دے اور اللہ ایسا بھی نہیں کہ بعض لوگ گناہوں کی معافی اللہ سے مانگتے رہیں اور وہ ان سب کو عذاب دے اور (اب کہ تم مدینے ہجرت کر کے چلے آئے) تو ان کفارِ مکہ کا کیا استحقاق رہا کہ یہ تو خانہ کعبہ کے جانے سے مسلمانوں کو روکیں اور اللہ ان کو عذاب نہ دے حالانکہ یہ لوگ اللہ کے ولی (دوست) نہیں ہیں۔ اللہ کے ولی (دوست) صرف وہ ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں لیکن ان میں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔‘‘
سو اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بیان فرما دیا کہ مشرکین میرے ولی (دوست ) نہیں ہیں اور نہ ہی کعبۃ اللہ کے متولی اور مختار ہیں۔ میرے ولی (دوست) تو صرف متقی لوگ ہیں۔
صحیحین میں سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ نہیں بلکہ علانیہ اور بلند آواز سے فرما رہے تھے:
’’ان اٰل فلان لیسوا لی بأولیاء (یعنی طائفہ من اقاربہ) انما ولیی اللہ و صالح المؤمنین‘‘
کہ آل فلاں (جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقارب و اعزہ کی ایک جماعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) میرے دوست نہیں ہیں ، میرا ولی (دوست) تو اللہ ہے اور نیکوکار اہل ایمان ہیں
(بخاری کتاب الادب باب تبل الرحم ببلالھا رقم:۵۹۹۰ ، مسلم کتاب الایمان باب موالات المؤمنین و مقاطعۃ غیرھم برقم: ۲۱۵)
یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے کہ:
فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿٤﴾التحریم
’’تو اللہ تعالیٰ اس کا دوست ہے۔ جبریل اور نیک مومن اس کے دوست ہیں ۔‘‘
صالح المومنین سے مراد وہ شخص ہے جو اہل ایمان میں سے ہو اور نیک کام کرنے والا ہو اور مومن و متقی ہو یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔ ان لوگوں میں سیدناابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اور وہ تمام لوگ داخل ہیں، جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت رضوان کا فخر حاصل کیا۔ یہ لوگ تعداد میں چودہ سو تھے اور وہ سب جنتی ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ صحیح سے ثابت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ النَّارَ اَحَدٌ بَا یَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ
(مسلم کتاب الفضائل باب فضائل اصحاب الشجرۃ۔ رقم ۶۴۰۴ ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی الخلفاء رقم ۳۶۵۳۔ ترمذی کتاب المناقب باب ماجاء فی فضل من بایع تحت الشجرۃ ، رقم: ۳۸۶۰)

’’درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے ایک بھی دوزخ میں نہ جائے گا۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث ہے:
اِنَّ اَوْلِیَائَ اللہِ الْمُتَّقُوْنَ اَیْنَ کَانُوْا وَحَیْثُ کَانُوْا
(فتح الباری۱۱۱۶۰۔طبرانی۵۳۹۔روا ہ احمد عن معاذ بن جبل و لفظہ ان اولی الناس بی المتقون من کانوا وحیث کانوا ، ۵۲۳۵ (ازھر))

’’اللہ کے دوست متقی لوگ ہیں، چاہے وہ کوئی بھی ہوں یا کہیں بھی ہوں۔‘‘
حوالہ
 
Top