عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
تذکیر وموعظت
مریم جمیلہ علوی
وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ
[اور حسد کرنے والے کے شر سے،جب وہ حسد کرنے لگے]
[اور حسد کرنے والے کے شر سے،جب وہ حسد کرنے لگے]
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانی طبائع کو جہاں گونا گوں صفاتِ عالیہ سے نوازا ہے وہاں اُس میں کچھ کوتاہیاں بھی رکھ دی ہیں،جو اُس کے بشر ہونے پر دلیل ہیں۔خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو ان خامیوں کے اِدراک کی صلاحیت بھی بخشی ہے اور دور کرنے کا سلیقہ بھی عطا کیاہے۔اِنسانی شعور ان کو محسوس کرسکتا ہے اور اسباب و علل کو تلاش کرکے علاج بھی کرسکتا ہے۔یہ خامیاں جسمانی، روحانی قسم کی ہیں جو نفسیات واخلاق سے تعلق رکھتی ہیں۔ان میں سے کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں، کچھ کو بدلنا انسان کے اختیار میں نہیں، کچھ پر کم وقت اور کم محنت صرف ہوتی ہے اور کچھ اَخلاقی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو خود بخود ختم نہیں ہوتیںبلکہ باقاعدہ محنت کرکے ہی ان کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔یہ مشقت طلب بھی ہے اور صبرآزما بھی۔انہی میں سے ایک ’حسد‘بھی ہے۔
حسد کی تعریف
حسد کا مطلب ہے کہ
حاسد وہ ہے جو دوسروں کی نعمتوں پر جلنے والا ہو۔ وہ یہ نہ برداشت کرسکے کہ اللہ نے کسی کو مال، علم، دین، حسن ودیگر نعمتوں سے نوازا ہے۔ بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آپہنچتی ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے خلاف کچھ عملی قدم اٹھانے پہ آ جاتاہے۔ اس کی کیفیات کا اظہار کبھی اس کی باتوں سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا عمل اندرونی جذبات و اِحساسات کی عکاسی کرتا ہے۔حسد کی کیفیت جب تک حاسد کے دل ودماغ تک محدود رہے ، محسود کے لیے خطرہ کا باعث نہیں بنتی بلکہ وہ سراسر حاسد کے لیے ہی وبالِ جان بنا رہتاہے اور یوں وہ اپنی ذات کا خود ہی بڑا دشمن بن بیٹھتاہے، لیکن جب وہ اپنی جلن کو کھلم کھلا ظاہر کرنے لگے تو یہی وہ مقام ہے جس سے پناہ مانگنے کے لیے خالق ارض و سماء نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے:’’کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی نعمت اور خوش حالی دور ہوکر اسے مل جائے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں یہ نہیںسکھایا گیا کہ ’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو‘‘ بلکہ اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ{وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدٍ} (الفلق:۵)
’’(میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگی۔‘‘
کیونکہ جب تک اس کا حسد ظاہر نہیں ہوتا تب تک وہ ایک قلبی وفکری بیماری ہے جس کا تعلق حاسد کی ذات سے ہے اور یہ درجہ محسود کے حق میں نقصان دہ نہیں ہے۔’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو جب وہ حسد کرنے لگے‘‘