• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ اور حسد کرنے والے کے شر سے،جب وہ حسد کرنے لگے

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
دین دار طبقہ اور مرضِ حسد
مرد کے مقابلے میں عورت میں حسد کا جذبہ نسبتاً زیادہ موجود ہوتا ہے۔ حب ِجاہ اور حب ِ مال مردوں میں حسد کا بنیادی محرک ہیں۔ ان کے درمیان معاشرتی حیثیت، عہدوں کا تفاوت اور کاروبار کی نوعیت باعث رقابت بن جاتی ہے۔ کاروباری افراد ہوں یا دفتری و سرکاری ملازم، ذرائع آمدن، آمدنی، معاشرتی حیثیت، افسر اعلیٰ کی نظروں میں حاصل ہونے والا مقام، خاندان میں ملنے والی حیثیت، بنگلہ و گاڑی، تعلیم، فنی مہارت اورحسن و وجاہت عموماً حسد کاشاخسانہ ثابت ہوتے ہیں۔خواتین مال، اولاد، معاشرتی حیثیت،ملازمت، آمدنی، سامان معیشت، مکان، زیور،آرائش و زیبائش اورحسن و جمال جیسی باتوں پر حسد میںمبتلا ہوجاتی ہیں۔ خاوند کی طرف سے ملنے والی توجہ، سسرال میں مقام و حیثیت وغیرہ بھی جذبۂ رقابت کو جنم دیتے ہیں۔ اس سے گھریلو سیاست جنم لیتی ہے اور گھروں کے ماحول کشیدہ اور بوجھل ہوجاتے ہیں۔ تعلقات میں بگاڑ آتا ہے۔ خواتین کے ڈیپریشن اور ٹینشن کی تہہ میں اکثر یہی عنصر کارفرما ہوتا ہے۔
زمانۂ طالب علمی میںحسد کے محرکات کچھ اور ہوتے ہیں۔ مثلاً ذہانت، علمی مقام، حاصل کردہ نمبر اور پوزیشن، غیر نصابی سرگرمیوں کی کارکردگی وغیرہ۔بعض دفعہ استاد اگر کسی شاگرد کو اس کی قابلیت وصلاحیت، علمی یاطبعی ضرورت کی بنیاد پرکچھ خصوصی توجہ سے نوازتے ہیں (جوکہ شاگرد کی ضرورت یا حق ہوتا ہے) تو یہ بات بھی وجہ نزاع بن جاتی ہے۔ کسی کی اچھے نوٹس لینے کی صلاحیت، حسن تحریر یا خوبی تقریر بھی دوسروں کو حسد میں مبتلا کردیتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا دار طبقہ تو اس لعنت میں گرفتار ہے ہی، دیندار طبقہ اور اہل علم بھی ا س سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہرمسلک، ہر امام اور ہر عالم اپنی برتری چاہتا ہے اور دوسرے کوکمتر ثابت کرنے پرتلا ہوا ہے۔ اپنے مدرسے،اپنے نصاب اور طریقۂ تدریس کو دین اور معاشرے کی فلاح و بہبود کا ضامن سمجھے ہوئے ہیں۔ کس کے طالب علم زیادہ ہیں، کس کا حلقہ درس زیادہ وسیع ہے اور کس کے اجتماع میں زیادہ حاضری تھی؟ بس یہی حساب و کتاب جاری ہوگیا ہے اور دین کو اِخلاص و خیرخواہی کے ساتھ لوگوں تک پہنچانا ثانوی درجہ اختیار کرگیا ہے۔ شہرت کی حرص کو میڈیا نے دو چند کردیا ہے۔
سابقوں،لاحقوں کے ساتھ عظیم اور بھاری بھر کم القابات کا استعمال ایک رواج بن چکا ہے۔کوئی بھی خود کو شیخ الاسلام یا شیخ الحدیث سے کم سمجھنے کو تیار نہیں ہے اور کوئی مدرسہ بھی جامعہ سے کم نہیں ہے۔ جہاں بھی دین کا کام ہورہا ہے، جماعت یامسلک کا نام سب سے پہلے نظر آئے گا۔جماعت اپنا حلقہ قائم کرے گی پھر دین کا کام شروع ہوگا۔اگر کہیں حلقہ قائم نہ ہوسکے اور جماعت کا نام پس پردہ چلا جائے تو کام رُک جاتا ہے۔مقاصد اور تربیت کا کام بہت پیچھے چلا گیاہے۔
آج جتنی کوششیں علماء اپنے مسلک، جماعت، مسجد و مدرسے کو برتر ثابت کرنے کے لیے کررہے ہیں، اپنی علمی برتری کو کل عالم سے منوانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کررہے ہیں، ان کوششوں کا ادنیٰ حصہ بھی اگر وہ دین اسلام کو غالب کرنے کے لیے اور اخلاص وخیرخواہی کے ساتھ لوگوں تک صحیح دین پہنچانے کے لیے صرف کریں تومعاشرہ میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔پھر ہر طرف جماعتیں اور مکاتب فکر نہیں، دین کا غلبہ ہوگا اور یہی اصل میں دین اسلام کی خدمت ہے۔ اپنے مدرسے،حلقے اور اجتماع میں زیادہ حاضری چاہنا، اس کو وسیع تر کرنے کے لیے تگ و دو کرنا اور پھر اس کو دین کی خدمت کا ذریعہ قرار دینا فی نفسہٖ اپنی روح میں دین کی خدمت نہیں بلکہ اپنی برتری کا سکہ کل معاشرے پر جمانے کی کوشش کرنا ہے۔یہی مقابلہ بازی بڑھتے بڑھتے اصل مقصد کو کھو کر منفی جذبات میں ڈھل جاتی ہے اور اندر ہی اندر حسد کے بیج اُگنے لگتے ہیں۔ آج عصری ادارے ہوں یا مذہبی ادارے ہمیں دین کا نام لے کر دین کا کام کرتے ہوئے اس کیفیت اور حاسدانہ جذبات سے بچنا بہت ضروری ہے۔ وگرنہ نیکیوں کی فصل کو جل کر راکھ کے ڈھیر میں بدلنے میں لمحہ بھی نہیں لگے گا اور محاسبہ کڑا اور پکڑ سخت تر ہوگی۔
 
Top