سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
دیکھتا ہوں کے بجائے دکھاتا ہوں ہوگا۔ایک مجرم تمہیں دیکھتا ہوں
پڑھنے میں نہیں آرہا ۔ کیا واقعی مصرعہ اسی طرح ہے؟دین حق کا وہ شیدائی ہے
دیکھتا ہوں کے بجائے دکھاتا ہوں ہوگا۔ایک مجرم تمہیں دیکھتا ہوں
پڑھنے میں نہیں آرہا ۔ کیا واقعی مصرعہ اسی طرح ہے؟دین حق کا وہ شیدائی ہے
پہلے مصرعے کی تو آپ نے صحیح بات کی یہ لفظ "دیکھتا ہوں" نہیں "دکھاتا ہوں" ہے۔دیکھتا ہوں کے بجائے دکھاتا ہوں ہوگا۔
پڑھنے میں نہیں آرہا ۔ کیا واقعی مصرعہ اسی طرح ہے؟
انس صاحب فرماتے ہیںرہی یہ بات کہ اس لفظ کا مطلب آقا وغیرہ کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحیح مسلم کی ایک روایت میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو مولیٰ (بمعنی آقا) کہنے سے منع فرمایا ہے۔
ولا يقل العبد لسيده مولاى ... فإن مولاكم الله عز وجل (غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے ۔۔۔ کیونکہ تمہارا مولیٰ اللہ عز وجل ہے ۔)
صحیح مسلم ، كتاب الالفاظ من الادب ، باب : حكم اطلاق لفظة العبد والامة والمولى والسيد ، حدیث : 6013
اب دونوں قرآن کی آیت اور حدیث صحیح مسلم میں دو متضاد باتیں بیان ہوئی حدیث صحیح مسلم میں کہا جارہا ہے کہ غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے جبکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ ایک مثال میں غلام کے آقا کو مولیٰ ارشاد فرمارہا ہےمثلاً فرمانِ باری ہے: ﴿ وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ٧٦ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے، دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وه اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیجے وه کوئی بھلائی نہیں لاتا۔ کیا یہ اور وه جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے بھی سیدھی راه پر، برابر ہوسکتے ہیں؟ (76)
یہاں مولیٰ آقا کے معنوں میں ہے، اور مخلوق کیلئے استعمال ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں ان لوگوں کی شدید مذمت کی ہے جو بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان کی بھی جو باتوں کو چھپا جاتے ہیں۔ اور ان صفات کی نسبت یہودیوں کی طرف کی ہے۔وہابی کیسے کہتے ہیں ؟
باذوق صاحب فرماتے ہیں
انس صاحب فرماتے ہیں
اب دونوں قرآن کی آیت اور حدیث صحیح مسلم میں دو متضاد باتیں بیان ہوئی حدیث صحیح مسلم میں کہا جارہا ہے کہ غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے جبکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ ایک مثال میں غلام کے آقا کو مولیٰ ارشاد فرمارہا ہے
اور باذوق صاحب فرماتے ہیں کہ آقا یا مولاہ کا کہنا غیر اللہ کے لئے جائز نہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ وہابی ہیں اور
من كنت مولاه فعلي مولاه
کی حدیث صحیح میں لفظ مولاہ کا معنی آقا مراد لینا حضرت علی کو اپنا آقا ماننا ہے جو وہابی کبھی نہیں مان سکتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں غلام کے آقا کو مولاہ ہی کہا ہے اس کے باجود
قرآن کی اس آیت کو نہ مانتے ہوئے مولاہ سے آقا نہ مراد لینے والے کو وہابی کہتے ہیں
شائد ایسے لوگوں کو شیعان علی کہتے ہیں!اور بعض مرتبہ اس سے مراد حقیقی خالق، مالک اور رازق اور مدد گار ہوتا ہے۔
اگر مولیٰ سے یہ معنیٰ مراد لیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین پر ہو سکتا ہے، کسی مخلوق پر نہیں خواہ وہ کتنا جلیل القدر مقرب فرشتہ یا مرسل نبی ہی کیوں نہ ہو۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ١٠٧ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں (107)
لفظ مولاہ کو اللہ تعالیٰ تو غلام کے آقا کے لئے ارشاد فرمایا لیکن وہ وہابیوں کی نظر میں ناجائز ٹھرا نعوذباللہ من ذالکاللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں ان لوگوں کی شدید مذمت کی ہے جو بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان کی بھی جو باتوں کو چھپا جاتے ہیں۔ اور ان صفات کی نسبت یہودیوں کی طرف کی ہے۔
بہرام صاحب نے یہاں میری پوسٹ کا پہلا حصہ (جو ان کے مطابق تھا وہ لے لیا) اور آخری حصہ (جو ان کے خلاف تھا) چھوڑ دیا یا چھپا لیا۔ جس میں میں نے واضح لکھا تھا:
شائد ایسے لوگوں کو شیعان علی کہتے ہیں!
اس کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جہاں قرآن میں مولاہ کے الفاظ سے مراد ذات باری تعالیٰ ہے تو اس سے مراد حقیقی خالق، مالک اورمدد گار ہوتا ہے۔لیکن اگر دیگر مخلوق کے لئے لفظ مولاہ قرآن میں آیا ہے جیسے اللہ کے نیک بندے جبرائیل علیہ السلام یا دیگر فرشتوں تو اس سے مراد اللہ کی عطاء سے یہ مالک اور مدد گار ہیںاور بعض مرتبہ اس سے مراد حقیقی خالق، مالک اور رازق اور مدد گار ہوتا ہے۔
اگر مولیٰ سے یہ معنیٰ مراد لیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین پر ہو سکتا ہے، کسی مخلوق پر نہیں خواہ وہ کتنا جلیل القدر مقرب فرشتہ یا مرسل نبی ہی کیوں نہ ہو۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ١٠٧ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں (107)
اب تو سارا کچھ ہی عرض کردیا ہے اب آپ کو شکایت نہیں ہوگیبہرام صاحب نے یہاں میری پوسٹ کا پہلا حصہ (جو ان کے مطابق تھا وہ لے لیا) اور آخری حصہ (جو ان کے خلاف تھا) چھوڑ دیا یا چھپا لیا۔ جس میں میں نے واضح لکھا تھا:
شیعہ حضرات کا پرانا طریقہ کار ہے کہ ایک ہی موضوع میں جب بات نہ بن رہی ہو جواب نہ آرہا ہو تو غیر متعلق بحثیں شروع کر دی جائیں۔اس کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جہاں قرآن میں مولاہ کے الفاظ سے مراد ذات باری تعالیٰ ہے تو اس سے مراد حقیقی خالق، مالک اورمدد گار ہوتا ہے۔لیکن اگر دیگر مخلوق کے لئے لفظ مولاہ قرآن میں آیا ہے جیسے اللہ کے نیک بندے جبرائیل علیہ السلام یا دیگر فرشتوں تو اس سے مراد اللہ کی عطاء سے یہ مالک اور مدد گار ہیں
مولاہ کے الفاظ کو رب تبارک تعالیٰ نے قرآن میں اپنے لئے اور ایسی کے ساتھ اللہ کےنیک بندوں کے لئے اور اللہ کے مقرب فرشتے جبرائل علیہ السلام کے لئے اور فرشتوں کے لئے بھی قرآن میں ارشاد فرمایا ہے
مثال کے طور سے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں سورۃ التحریم کی آیت 4 میں رسول اللہ کی دو ازواج کو مخاطب کرکے فرما رہا ہے کہ
إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ
(اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کارساز اللہ ہے اور جبریل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوه فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور یہ دونوں بیویاں کون ہیں جن کے خلاف خود اللہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاحامی و مدد گار ہے اور اللہ کی عطاء سے سے جبرائیل علیہ السلام بھی مدد گار ہیں اور نیک ایمان والے بھی مدد گار ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی حامی و مدد گار ہیں اس بارے میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ امی عائشہ اور امی حفصہ ہیں اور اس کے لئے دلیل امام بخاری کی صحیح بخاری سے دیتے ہیں
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں ہمیشہ اس بات کا آروز مند رہتا تھا کہ حضرت عمر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ٰنے (سورۃ التحریم میں) فرمایا ہے "اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو (تو بہتر ہے) کہ تمہارے دل بگڑ گئے ہیں۔" پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا۔ عمر راستے سے قضائے حاجت کے لیے ہٹے تو میں بھی ان کے ساتھ (پانی کا ایک) چھاگل لے کر گیا۔ پھر وہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے۔ اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا۔ اور انہوں نے وضو کیا، پھر میں نے پوچھا، یا امیرالمؤمنین! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں میں وہ دو خواتین کون سی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ "تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو"انہوں نے فرمایا، ابن عباس! تم پر حیرت ہے۔ وہ تو عائشہ اور حفصہ ہیں۔۔۔۔۔۔ الخ
صحیح بخاری : حدیث نمبر 2468
اس کے علاوہ پھر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایسی سورۃ التحریم کی آیت 10 میں اللہ کے نبیوں کی دو بیویوں کی مثال بیان فرماتا ہے کہ
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ
اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو (شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی پس وه دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا (اے عورتوں) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ۔
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اب تو سارا کچھ ہی عرض کردیا ہے اب آپ کو شکایت نہیں ہوگی
اور بعض مرتبہ اس سے مراد حقیقی خالق، مالک اور رازق اور مدد گار ہوتا ہے۔
اگر مولیٰ سے یہ معنیٰ مراد لیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین پر ہو سکتا ہے، کسی مخلوق پر نہیں خواہ وہ کتنا جلیل القدر مقرب فرشتہ یا مرسل نبی ہی کیوں نہ ہو۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ١٠٧ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں (107)
یہ ایک ضمنی سی بات ہے اس کا اس موضوع سے اتنا تعلق نہیں پھر بھی عرض کئے دیتا ہوںشیعہ حضرات کا پرانا طریقہ کار ہے کہ ایک ہی موضوع میں جب بات نہ بن رہی ہو جواب نہ آرہا ہو تو غیر متعلق بحثیں شروع کر دی جائیں۔
محترم اس بات کا جواب دیجئے کہ اگر سیدنا ابراہیم اور سیدنا موسیٰ کی بیویاں ان کے اہل بیت میں سے ہیں تو نبی کریمﷺ کی بیویاں کیوں نہیں؟
اور اس بات کا بھی جواب دیجئے کہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 107 میں مخلوق سے کس ولایت کی نفی ہورہی ہے؟
نہیں بھئی! ضمنی بات کہاں سے ہوگئی؟ اس لئے کہ آپ کے موقف کے خلاف ہے؟محترم اس بات کا جواب دیجئے کہ اگر سیدنا ابراہیم اور سیدنا موسیٰ کی بیویاں ان کے اہل بیت میں سے ہیں تو نبی کریمﷺ کی بیویاں کیوں نہیں؟یہ ایک ضمنی سی بات ہے اس کا اس موضوع سے اتنا تعلق نہیں پھر بھی عرض کئے دیتا ہوں
1۔ دیگر انبیاء کی ازواج پر ہم بات نہیں کررہے بلکہ ہم بات کررہے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے متعلق اور یہ وہابی طرز استدالال ہے جو میں نے بیان کیا ، آپ اتنی جلدی یہ سب بھول جاتے ہیں
اور اس بات کا بھی جواب دیجئے کہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 107 میں مخلوق سے کس ولایت کی نفی ہورہی ہے؟
اور بعض مرتبہ اس سے مراد حقیقی خالق، مالک اور رازق اور مدد گار ہوتا ہے۔
اگر مولیٰ سے یہ معنیٰ مراد لیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اور صرف اللہ رب العٰلمین پر ہو سکتا ہے، کسی مخلوق پر نہیں خواہ وہ کتنا جلیل القدر مقرب فرشتہ یا مرسل نبی ہی کیوں نہ ہو۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ١٠٧ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں (107)
یہ آپ کی خانہ ساز تشریح ہے۔یہ اس بات کی نفی ہے کہ اللہ کی عطاء کے بغیر کوئی مخلوق مدد نہیں کرسکتی