تم نے بلا تحقیق بخاری شریف کی احادیث کو صحیح مان لیا کیوں کہ نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں کہ بخاری شریف کی احادیث صحیح ہیں۔ اور تم خود بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم سے نہیں ملے کہ تصدیق کر لو کہ یہ احادیث صحیح ہیں بلکہ تم نے محقیقن کے کہنے پر اس بات کو مان لیا کہ بخاری شریف کی احادیث صحیح ہیں۔ کسی معتبر کی بات بلا تحقیق مان لینا یہی تقلید ہے تو پھر اہل حدیث اپنے آپ کو کیوں کہتے ہو اور تقلید کا انکار کیوں کرتے ہو
میرے بھائی - احادیث کو پرکھنے کا اصول محدثین نے بیان کر دیا ہے - حدیث میں را ویوں کے حیثت ایک گواہ کی ہوتی ہے - ان کی گواہی کی بنا پر حدیث کو ضعیف یا صحیح تسلیم کیا جاتا ہے - امام بخاری کے اصول احادیث کو پرکھنے کے معاملے میں بہت سخت تھے -جن کی بنا پر ہی بخاری کی احادیث کو باقی کتب کی احدیث پر فوقیت دی جاتی رہی ہے -
جہاں تک اماموں کے اجتہادات کا تعلق ہے - وہ ان کی اپنی راے اور قیاس پر مبنی رہے ہیں اور ان کی راے میں تغیر بھی پایا جاتا رہا ہے- جس کی بنا پر ان کی تقلید نا قابل قبول ہے - اور خود آئمہ اربع نے بھی اسی بنیاد پر اپنی تقلید سے سختی سے منع فرمایا ہے -آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ امام کی آپ جس مسلے میں تقلید کر رہے ہیں اس مسلے میں امام کی راے حتمی تھی یا نہیں ؟؟؟
آپ کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ بخاری کی احادیث صرف محقق کے کہنے پر صحیح مان لی جاتی ہیں- اصل بات یہ ہے کہ تمام محققین کے نزدیک بخاری کی احدیث کے راوی نا صرف مستند ہیں بلکہ ان کا سماع بھی ایک دوسرے سے ثابت ہے - اور ہم غیر مقلدین اس اجماع کے فیصلے کی بنیاد پر ہی بخاری کی احادیث کو حجت مانتے ہیں - جب کہ امام کے اقوال اجماع سے ثابت نہیں ہوتے - بلکہ ان کے قول پر تو ان کے اپنے شاگردوں نے جرح کی ہے اور ان سے اختلاف کیا ہے -