عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
وہ امریکہ کی غلامی نہیں کرتے
ہفت روزہ جرار
تاشقند کا نام بہت معروف ہے، بالخصوص اعلانِ تاشقند (جنوری 1966ئ) کے حوالے سے ہر پڑھا لکھا پاکستانی جانتا ہے۔ یہ ترکستان کی مملکت ازبکستان کا دارالحکومت ہے۔ پہلی صدی ہجری میں جب مسلمانوں نے ترکستان فتح کیا، اس وقت یہ شہر شاش کہلاتا تھا اور اس علاقے کا نام ماوراء النہر یا ترکستان تھا۔ یہی ماضی قدیم کا توران تھا۔ ایرانی اسے ترکستان اور عرب ماوراء النہر (نہر پار) کہتے تھے، اس میں نہر (دریا) سے مراد دریائے جیحون (Oxus) یا آمو دریا تھا۔ ان دنوں آمو دریا افغانستان کی شمالی سرحد بناتا ہے اور اس کے پار تاجکستان اور ازبکستان واقع ہیں۔ ازبکستان کی وادی فرغانہ سے ظہیر الدین بابر پہلے کابل اور پھر ہندوستان آیا تھا اور 1526ء میں یہاں خاندان مغلیہ کی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ امام ترمذیؒ کا شہر ترمذ آمو کنارے ازبکستان میں واقع ہے۔
یہی تاشقند تھا جہاں 10 جنوری 1966ء کو پاکستان اور بھارت میں صلح نامہ (اعلان تاشقند) پر دستخط ہونے کے بعد رات کے پچھلے پہر بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری پر مذاکرات کی میز پر جیت جانے کی خوشی میں شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی اور اگلے دن کے اخبارات میں اعلان تاشقند پر دستخط کی خبروں کے ساتھ ساتھ شاستری جی کے ’’پرلوک‘‘ سدھار جانے کی خبر بھی شائع ہوئی تھی۔ ساڑھے چار فٹ کے شاطر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شاستری نے چھ فٹ کے دسویں پاس جنرل ایوب سے کشمیر پر کسی پیشرفت کے بغیر اپنے علاقے اور قیدیوں کی واپسی منوا لی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاشقند اور اسلام آباد کا فضائی فاصلہ اسلام آباد اور کراچی کے باہمی فاصلے سے کم ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان حائل واخان (افغانستان) کی پٹی اور تاجکستان کا کچھ علاقہ پار کرکے تاشقند آ جاتا ہے اور سمرقند اور بخارا تو اس سے بھی قریب ہیں۔ ازبکستان نے 29اگست 1991ء کو سوا صدی کی روسی سامراجی غلامی سے آزادی حاصل کی۔ انہی دنوں دیگر مسلم ترک ریاستیں کرغیزستان، تاجکستان، قازاقستان، ترکمانستان اور آذر بائیجان بھی آزاد ہو گئیں۔