• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہ ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر سے پوری طرح واقف ہے

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
وہ ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر سے پوری طرح واقف ہے

سنن ابوداؤد: نماز کا بیان :
باب تہجد کی رکعتوں کا بیان
جلد اول:حدیث نمبر 1338
جناب سعد بن ہشام رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر میں اپنی زمین بیچنے کے لیے جو کہ مدینہ میں تھی بصرہ سے مدینہ آیا تاکہ میں اس کے ذریعہ ہتھیار خرید سکوں اور جہاد میں شرکت کروں پس چند اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ میری ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا ایک مرتبہ ہم چھ افراد نے بھی ایسا ہی کر نے کا ارادہ کیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا (یعنی جہاد میں شرکت کی غرض سے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی تھی تاکہ وہ ان کی طرف سے بے فکر ہو کر پوری یکسوئی سے جہاد میں شریک ہوں) اور فرمایا کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ کار میں بہترین نمونہ عمل ہے۔
پھر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے پاس آیا اور ان سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کا پوچھا۔
انہوں نے کہا کہ میں تم کو اس ہستی کا پتہ دیتا ہوں جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر سے پوری طرح واقف ہے لہذا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جا (کیونکہ وہی سب سے زیادہ واقف حال ہیں) پس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جانے کے لیے تیار ہو گیا اور حکیم بن افلح سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ انہوں نے انکار کیا لیکن میں نے ان کو چلنے کے لیے قسم دی تو وہ میرے ساتھ گئے۔ پھر ہم دونوں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پہنچے اور ان سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟ کہا حکیم بن افلح۔ پھر انہوں نے پوچھا تیرے ساتھ دوسرا کون ہے؟ کہا سعد بن ہشام۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا، کیا اس عامر(رضی اللہ عنہ) کا بیٹا ہشام جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے؟ میں نے کہا: جی ! انہوں نے کہا کہ عامر(رضی اللہ عنہ) کیا ہی خوب آدمی تھے۔
میں نے عرض کیا ام المومنین مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے متعلق بیان فرمائیے، انہوں نے فرمایا: کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا؟ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق قرآن کے مطابق تھے،
میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تہجد کا حال بیان فرمائیے
پوچھا کیا تو نے سورت مزمل نہیں پڑھی؟ میں نے کہا کیوں نہیں ضرور پڑھی ہے۔ فرمایا جب اس صورت کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہونے لگے یہاں تک کہ (دیر دیر تک کھڑے رہنے کی بنا پر) ان کے پاؤں میں ورم آگیا۔ اور اس سورت کی آخری آیتیں بارہ مہینے تک آسمان پر رکی رہیں۔ پھر اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رات میں تہجد پڑھنا فرض نہ رہا بلکہ نفل ہو گیا۔
اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کا حال بیان فرمایئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تہجد کی آٹھ رکعیتں پڑھتے تھے اور آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھے تھے درمیان میں نہ بیٹھتے تھے، پھر کھڑے ہوتے اور ایک رکعت مزید پڑھتے اور صرف آٹھویں اور نویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور سلام نہ پھیرتے مگر نویں رکعت کے بعد۔ اس کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں۔
اے بیٹے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضعیف ہو گئے اور جسم بھاری ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے چھٹی رکعت کے بعد بیٹھتے بیچ میں نہ بیٹھتے پھر ساتویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور سلام نہ پھیرتے مگر ساتویں رکعت کے بعد پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے کل ملا کر نو رکعتیں ہوئیں ۔
اے بیٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی رات کو پوری رات صبح تک نہیں کھڑے ہوئے اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رات میں قرآن ختم کیا اور نہ ہی کسی مہینے میں پورے مہینے کے روزے رکھے سوائے ماہ رمضان کے
اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی نماز کو شروع کرتے تو ہمیشہ اس کو پڑھا کرتے اور اگر کسی دن رات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نیند غالب ہوتی تو دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے (سعد بن ہشام رحم اللہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ حدیث سن کر) میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس آیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا واللہ یہ ایسی حدیث ہے کہ اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے میری بول چال ہوتی تو میں انہی کی زبان سے یہ حدیث سن لیتا میں نے کہا اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ کی ان سے بات چیت نہیں ہوتی تو میں آپ سے یہ حدیث بیان نہ کرتا۔
تخریج : أخرجه مسلم ، صلٰوة المسافرین ، باب جامع صلٰوة اللیل ومن
نام عنه أو مرض ، ح : 746 من حدیث قتادہ به
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
فوائد و مسائل (فضیلة الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ)
1 ۔ جناب سعد بن ہشام رحمہ اللہ جیسا انداز فکر و عمل کہ انسان نفس و دنیا کی لذتوں سے بالکل ہی منقطع ہوجائے اسؤہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عمل صحابہ (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کے خلاف ہے ۔
2 ۔ تحقیق مسائل میں سائل کو افضل و اعلٰی علمی شخصیت کی طرف
تحویل (Refer) کرنا آداب علمی کا حصہ ہے ۔
3 ۔ رات کی نماز کے کئی نام ہیں ۔ قیام اللیل ، تہجد اور وتر ۔ رمضان کی مناسبت سے ''تراویح'' کا لفظ بعد کے زمانے میں رائج ہوا ہے ۔
4 ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلُق قرآن تھا،یعنی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اوامر و نواہی اور دیگر آداب کے مجسم نمونہ تھے ۔
5 ۔ تہجد اور وتر پڑھنے کے تقریباً تیرہ طریقے ہیں ۔
دیکھیے (محلٰی : 2 /82-91/ مسئله 29) اور ان میں کوئی تعارض نہیں ۔
6 ۔ نو رکعت مسلسل کی نیت باندھنا بالکل جائز اور سنت ہے ۔ اس صورت میں آٹھویں رکعت پر تشھد پڑھ کر نویں رکعت پڑھی جائے اور پھر سلام پھیرا جائے ۔ سات رکعت کی نیت ہو تو چھٹی پر تشھد کے لیے بیٹھے اور ساتویں پر سلام پھیرے ۔ تین اور پانچ رکعتوں میں صرف ایک آخری تشھد ہوتا ہے ۔
7 ۔ وتروں کے بعد کبھی کبھی دو رکعت بھی مستحب ہیں ۔
8 ۔ تہجد قضا ہوجائے تو فجر کی نماز سے پہلے یا بعد وتر ادا کر لے ۔ یا پھر دن میں بارہ رکعت پڑھ لی جائیں ۔
9 ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے کلام نہ کرنا یا تو ان کے ہاں نہ جانے کی بنا پر تھا یا ان سیاسی احوال کی بنا پر جو سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنھما کے مابین ظاہر ہوئے تھے ، واللہ اعلم،
تاہم اس کے باوجود اعزاز شخصی اور جلالتِ علمی کا کامل اعتراف و اقرار ملحوظِ خاطر تھا۔


رضی اللہ عنھم و ارضاھم


(سنن ابوداؤد دارالسلام لاھور پاکستان)
 
Top