مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 464
- پوائنٹ
- 209
ویسٹیج مارکیٹنگ میں ممبرسازی کا شرعی حکم
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)
اس وقت ویسٹیج (Vestige) نامی نٹورک مارکٹنگ کا لوگوں میں بڑا چرچا ہے ، کئی سالوں سے یہ کمپنی ملٹی لیول تجارت کے میدان میں کام کررہی ہے ، عوام کی اکثریت اس کمپنی پر اعتماد رکھتی ہے اور ایک کثیر تعداد میں اس سے جڑ کر پیسے کمارہی ہے ۔ غیرمسلموں کے طرح مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد اس سے جڑ کر اپنی معاشی حالت بہتر بنانے میں مصروف ہے بلکہ بعض مسلمانوں کا کہنا ہے اس بزنس سے منسلک ہوکر ہم اپنے اہل خانہ کی کفالت بہتر انداز میں کر رہے ہیں ۔
اسلام ہمیں تجارت کرنے سے نہیں روکتا ، اسلام معاشی حالت بہتر بنانے سے نہیں روکتا اور نہ ہی اہل خانہ کی بہترطور پر کفالت کرنے سے روکتا ہے تاہم اسلام نے ہمیں فطری نظام زندگی دیاہے جس میں اللہ اور اس کے رسول نے تجارت کے صاف ستھرے اصول بتلائے ہیں ۔ یقینا اسلام کے پاکیزہ تجارتی اصول میں ہی زندگی کی حقیقی سعادت، فردوجماعت کی اصل کامیابی اور دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی بھلائی ہے۔اسلام ہمیں کسب معاش کے لئے محنت پر ابھارتا ہے ، اسے شرف اور فضیلت کا مقام دیتا ہے ، محنت بھی جائز طریقے سے کرنی ہوگی تبھی روزی پاکیزہ اور حلال ہوگی ورنہ ناجائز طریقے سے انتھک محنت کرکے حاصل کی گئی روزی حرام ہوگی ۔
ویسٹیج کا جتنا شہرہ ہے اس کے بارے میں لوگوں میں اور انٹرنیٹ پہ اتنی ہی باتیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ میں نے اس کمپنی کو کے اصول و مقاصد کوجاننے کی کوشش کی اور اس کے طریقہ کار کا جائز لیا تو وہی کچھ خامیاں جو میں نے ملٹی لیول کمپنی کے متعلق سابقہ مضمون میں بیان کیا ہے پائی ہے کیونکہ یہ بھی ممبر سازی والی کمپنی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ ممبر سازی کے جو بنیادی اصول ہیں وہ ہر ایسی کمپنی میں پائی جائے گی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کمپنی کے پاس اپنے کچھ پراڈکٹس ہیں جن کے سہارے یہ کمپنی چلائی جارہی ہے ۔ دعوی کرنے والے ممبران نے کچھ سو کی تعداد تو کچھ دو سو کی تعداد تک بتلائی ہے ۔لوگوں کو نظر بھی آتا ہے کہ یہ کمپنی اپنے پراڈکٹس کی تجارت کررہی ہے۔اس کمپنی سے جڑتے وقت کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی ، بغیر فیس کے اور بغیر کوئی شرط لگائے ممبر کا اکاؤنٹ کھول دیا جاتا ہے ۔ اب یہ ممبر ویسٹیج سے تجارت کرکے پیسہ کمانا چاہتا ہے ۔ ویسٹیج سے جڑکرمال کمانے کے دو طریقے اہم ہیں ۔
٭پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جب وہ اس کمپنی کا ممبر بنا ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ یا تو سامان خرید کرے گا یا ممبر سازی کرے گا۔ گوکہ یہ اختیاری ہے مگر اور کوئی آبشن بھی نہیں ہے ۔ سامان خرید نے پہ کچھ چھوٹ ملتی ہے اور کچھ بونس پوائنٹ ملتے ہیں ۔ پھر اس خریدے گئے سامان کو یا تو خود استعمال کرتا ہے یا مارکیٹ میں بیچ کر کچھ نفع کمانا چاہتا ہے۔
٭ دوسرا سب سے بڑا منافع کمانے کا طریقہ ممبر سازی کرنا یعنی وہ لوگوں میں اس کمپنی اور اس کی تجارت کی تشہیر کرکے انہیں اس سے جوڑے ۔ کسی نے مثلا چھ آدمی جوڑے تو ان چھ آدمی کی کمپنی سے خرید پہ منافع کا کچھ کمیشن جوڑنے والے کوملے گا۔ یہ چھ اشخاص پھر اپنے ساتھ چھ چھ آدمی کو جوڑتے ہیں تو ان سب کی خرید کے منافع کا کمیشن پہلے شخص کو بھی ملے گا۔ اس طرح جس قدر لیول بنتے جائیں گے سارے لیول کے منافع کا کمیشن اول شخص کو بھی ہمشہ آتا رہے گا حتی کہ وہ مر جائے تب بھی ۔
اس مارکیٹ میں امیر بننے اور اچانک غریبی دور کرنے کا جو نیا نیا فارمولہ لوگوں کو بتایا جاتا ہے اس جھانسے میں آکرلوگ اس کا ممبر بن جاتے ہیں اور ایک دفعہ ممبر بننے کے بعد یاتو وہ کمپنی کا پراڈکٹ خریدے گا ، سامان نہیں خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ممبر بنا ہی جاتا ہے سامان خریدنے کے لئے ورنہ تجارت کس نام کی ۔ مارکیٹ ریٹ سے کئی گنا مہنگے سامان خرید نے سے ممبر کو فائدہ نہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر یہ نقصان دراصل امیر بننے کے لالچ میں برداشت کیا جاتا ہےاور اس بات کو عام لوگوں پرمخفی رکھا جاتا ہے ۔ جن اشیاء کی ضرورت نہیں ، وہ بھی مہنگے داموں پر کمپنی سے خرید کر ممبر اپنا پوائنٹ بڑھانا چاہتا ہے ۔ یہاں ایک ممبر ،ممبر نہیں رہ جاتا ،انوسٹر بن جاتا ہےپھر بھی کمپنی کی نظر میں کسٹمر ہی کہلاتا ہے۔ اشیاء کی خریدوفروخت سے حاصل شدہ پوائنٹ، کمیشن اور چھوٹ معمولی ہوتی ہے اصل منافع تو ممبر سازی میں ہے ۔ ایک بار چند ممبر بنالئے پھر گھر بیٹھے بلامحنت منافع آتا رہتا ہے ۔
ویسٹیج سے مسلمان بھی بڑی تعداد میں جڑے ہیں ، ان کے جڑنے کی وجہ یہ خوش فہمیاں ہیں کہ مرکزی جمعیت علمائے ہنداور دبئی حلال مراکز نے اس کمپنی کی تصدیق کی ہےیعنی یہ کمپنی حلال سرٹیفائیڈ ہے۔یہ بھی کہنا ہے بہت سارے مسلمان اس سے جڑے ہوئے ہیں اورآج تک مسلمان علماء کی طرف سے اس کی مخالفت نہیں ہوئی ہے ۔ خوش فمہیوں میں مزید اضافہ کرنے والا دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤکا فتوی ہے جس میں اس بزنس کو حلال اوراس سے مسلمانوں کے جڑنے کو جائز کہا گیاہے ۔
میں ان مسلمانوں بھائیوں کو بتلانا چاہتا ہوں کہ ویسٹیج کے تعلق سے اپنی خوش فہمی ختم کریں اور حلال طریقے سے روزی کمائیں ، اللہ نے زمین بہت کشادہ بنائی ہے ، اس روئے زمین پر روزی کمانے کے لاکھوں جائز ذرائع آمدنی ہیں ۔
مسلمانوں کی خوش فہمیوں سے متعلق پہلی بات یہ ہے کہ مرکزی جمعیت علمائے ہنداور دبئی حلال مراکز نے ویسٹیج کے پراڈکٹس کو حلال کہا ہے ، یہ نہیں کہا ہے کہ پراڈکٹس بیچنے کا طریقہ بھی حلال ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جہاں تک ندوہ کے فتوی کی بات ہے تو سائل نے فتوی میں چالاکی سے سوال کیا ہے ،کمپنی کی حقیقی صورت حال کا ذکر نہیں کیا ہےاور مفتی صاحبان نے بھی تحقیق کرکےجواب دینے کی بجائے عجلت سے کام لیا ہے ۔ بہرکیف ! تازہ اطلاع کے مطابق ندوہ نے سابقہ فتوی سے رجوع کرلیا ہے اور بعد میں اس کمپنی سے پرہیز کرنے کی صلاح دی ہے ۔دارالعلوم دیوبند نے بھی ویسٹیج سے جڑ کر ممبرسازی کے ذریعہ منافع کمنانے کو جائز نہیں کہا ہے ۔
آئیے میں آپ کو ویسٹیج سے جڑنےکی شرعی حیثیت بتاؤں ، اگر آپ اس کمپنی کا ممبر بن کر صرف سامان کی خریدوفروخت تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں اور کسی قسم کی غلط تشہیر میں حصہ نہیں لیتے ہیں تو یہاں تک معاملہ درست ہے مگر کوئی بھی ممبر ملٹی لیول کمپنی میں ممبرسازی سے باز نہیں رہ سکتا ، آخر اسی میں امیر بننے کا نسخہ ہے اور اس بات کے جھانسے میں آکر کمپنی میں شمولیت اختیار کیا گیاہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ممبر اس کمپنی کے سستے اور بلاکام والاسامان مہنگے داموں میں خرید کر تا رہے جبکہ بازا ر میں اس سے کئی گنا سستا سامان موجود ہے ؟
ممبرسازی کے ذریعہ پیسہ کماناپہلے لیول تک تو جائز ہے جن کو خود سے بلاواسطہ کمپنی کا ممبر بنایا ہے لیکن انہوں نے جن لوگوں کو ممبر بنایا ہے یا ان کے بعد والے جن کو ممبر بنائیں گے ان لوگوں کے منافع سے کمیشن لینا جائز نہیں ہے ۔ شریعت کی رو سے منافع کی جائز تین صورتیں بنتی ہیں ۔ (1)یاتو ہم نے کاروبار میں رقم لگائی ہو اور محنت بھی کرتے ہوں ، یہ شرکت ہے (2)یا صرف رقم لگائی ہو محنت کوئی دوسراکرے، یہ مضاربت ہے۔(3) یا بغیر رقم کے محنت کرتے ہوں اسے اجارہ یعنی مزدوری کہتے ہیں ۔ممبرسازی کا تعلق اس تیسری قسم ہے ۔ اس لحاظ سے اپنی محنت کی مزدوری صرف پہلے لیول تک ہی جائز ہے اس کے بعد والے مرحلوں کا منافع اورکمیشن لینا ناجائز ہے ۔
ویسٹیج کی مزید چند خامیاں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس کے نقصانات سے ایک مسلمان باخبر رہے اور خود کو اس کمپنی سے الگ رکھے ۔
(1) دنیا بھر کی ملٹی لیول کمپنیاں اپنے سے جوڑ نے کے لئے جھوٹے قصے ، بناوٹی کہانی اور لفاظی کے ذریعہ لوگوں کو اپنا شکار بناتی ہیں ، یہ کمپنیاں اپنے ممبران کو اسکی ہی اصل ٹریننگ دیتی ہیں کہ لوگوں کو کیسے کنونس کرنا ہے اور کس طرح کمپنی جوائن کروانا ہے ؟ گاؤں والوں کو کیسے پھنسانا ہے اور شہریوں کو کیسے لبھانا ہے؟ ویسٹیج کی ہزاروں ویڈیوز یوٹیوب پر دستیاب ہیں جہاں لوگوں کو اپنا شکار بنانے کے طرح طرح کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں۔دنیا کی گھٹیا سے گھٹیا تجارتی کمپنی (جو ملٹی لیول نہ ہو)اپنا سامان فروخت کرنے کے لئے ایسے حربے نہیں اپناتی ۔
(2) یہ صحیح ہے کہ ویسٹیج کے پاس ذاتی پراڈکٹس ہیں بظاہر اسی کی تجارت نظر آتی ہے اور حکومت سے رجسٹرڈ کرانے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی ثبوت دینا پڑے گا ، یہ پراڈکٹس حکومت کی نظر میں تجارتی ثبوت ہیں تاہم اس کے تمام ممبران کی توجہ کا مرکزاصیل فقط ممبر سازی ہے۔گویا برائے نام تجارت ہے اس کے پس پردہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھایا جارہا ہے ۔
(3) کمپنی اور اشیاء کی تشہیر میں جھوٹ، فریب، غلو، ملمع سازی اور انوکھے خواب بیان کئے جاتے ہیں حتی کہ دباؤ تک بنایا جاتا ہے۔اسلام میں نہ اس طرح کوئی سامان فروخت کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کسی کمپنی کی اس طرح تشہیر کرنے کی اجازت ہے۔
(4) ممبرسازی کے ذریعہ ایک طرح سےپورے شہر اور ملک کو یرغمال بنانے کی کوشش ہے ،اس نٹورک مارکیٹ سے جڑنے والا پھر دوسرے تمام مارکیٹ سے محروم ہوجاتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شہر اور ملک کی تمام تجارت کے لئے نقصان دہ ہے ۔
(5) جس طرح آدمی جوا میں پیسہ لگاتا جاتا ہے تاکہ کبھی نہ کبھی اچانک امیر بن جائے گا اسی طرح اس کے ممبران لالچ میں ہرماہ زیادہ سے زیادہ کمپنی کے پراڈکٹس خریدتے ہیں حالانکہ انہیں ان کی ضرورت نہیں ہوتی ہے محض لالچ اسے یہ سامان خریدواتا ہے۔
(6) اگر کوئی ممبر کمپنی سے آن لائن سامان خریدتا ہے اور اس سامان پر قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کردیتا ہے تو یہ صورت بھی جائز نہیں ہے ، اس کو مثال سے ایسے سمجھیں کہ کسی ممبر نے ویسٹیج کا کوئی پراڈکٹ بک کرایا پھر اس سامان پر اپنا قبضہ کرنے سے پہلے ہی کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔
(7) ویسٹیج کے بہت ہی موٹیویشنل مانے جانےوالےاسپیکراجے شرما کا کہنا ہے کہ ایک شخص کی وفات کے بعدبھی اس کی بیوی کو سترہ لاکھ کا چیک ملاکیونکہ اس نے ممبروں کا جال بنا تھاگویا ممبرسازی کا کمیشن لامحدود ہے ۔جو مسلمان بھائی یہ کہتے ہیں کہ ہم کو کمپنی صرف آٹھ یا نو لیول تک کمیشن دیتی ہے کیونکہ ہماری محنت ان لیول تک ہی محدود رہتی ہے سراسر جھوٹ ہے۔ بھلا ایک شخص مرنے کے بعد کیا محنت کرتا ہے؟
(8) ممبرسازی کے علاوہ لالچ میں مہنگے سامان کی خرید پہ ممبر جتنا پیسہ سال بھر ضائع کرتا ہےاس سے اپنی کوئی چھوٹی موٹی تجارت شروع کرسکتا ہے۔
(9) جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ویسٹیج کے ذریعہ ہم اچانک امیر ہوجائیں گے وہ بڑی بھول میں واقع ہیں اور جھوٹے لوگوں کی جھوٹی تسلی میں پڑے ہوئے ہیں ، وہ کم ازکم اس کمپنی کے سب سے زیادہ مشہور اور موٹیویشنل مانے جانے والے اسپیکر اجے شرما کے بیانات سن لیں کہ کامیابی کے لئے کس قدر محنت چاہئے ؟ جب ویسٹیج کے ذریعہ کمانے کے لئے اس کا ممبر بن کر اپنے پیسے سے آفس کھولناہے، اپنے پیسے سے پراڈکٹس خریدنا ہے اور انتھک محنت کرنی ہے تو پھر کیوں نہ ذاتی تجارت کھول لیں یا کسی حلال تجارت کی ایجنسی لے لیں ، ممکن ہےآمدنی کم ہو مگر جائز اور حلال تو ہوگی۔
(10) ایک بات اور آپ بتادوں کہ ملٹی لیول کمپنیوں میں کامیابی چند لوگوں کو ملتی ہے ، ویسٹیج کے ممبران ستر لاکھ سے زائد ہیں اور اس کمپنی کی ویب سائٹ پہ سولہ لوگوں کی کامیابی کا معمولی ذکر ملے گا، بقیہ انہتر لاکھ ننانوے ہزار نو سو چوراسی کی کامیابی کا کوئی ذکر نہیں ملے گا۔ مہینوں میں لاکھوں اور کروڑوں کمانے والے دو ایک ہوں گے باقی سارے لاکھوں ممبران انوسٹ کررہے ہیں اور کڑی محنت کررہے ہیں مگروہ کامیابی ان کے حصے میں نہیں ہے۔ یہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں پائی جاتی تھی پھر اشتراکیت نے مساوات کا نعرہ لگایا اور وہ بھی اپنی موت آپ مرگئی ۔ اسلامی نظام معیشت کی خوبی ہے کہ اس میں سرمایہ دارانہ نظام کی طرح نہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے اور نہ ہی اشتراکیت کی طرح مساوات کا ناقابل قبول دعوی بلکہ اسلام ان دونوں کے بیچ لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ اعتدال وتوازن قائم کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ(الحشر:7)
ترجمہ: تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی مال گردش کرتا نہ رہے ۔
ان ساری باتوں کے بعد آخر ی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ویسٹیج سے جڑ کر ممبرسازی کے ذریعہ پیسہ کمانا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے لہذا ہمیں اس سے نہیں جڑنا چاہئے ،ہاں اس کمپنی سے کوئی آدمی حلال فوڈ یا حلال پراڈکٹ خریدتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔