• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ّّعثمان غنی رض

عبدالرءوف

مبتدی
شمولیت
جولائی 22، 2015
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
4
السلام. عليكم ورحمةالله وبركاته
یوم شہادت حضرت عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

مانا کہ داستان کربلا بڑی دردناک ہے ۔۔۔مگر شہید م ظلوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی داستان بھی بڑی کربناک ہے ۔
اگر حسین پرکربلا میں تین دن پانی بندرہا۔۔۔تو۔۔۔عثمان پرمدینہ میں چالیس دن پانی بند رہا
اگر حسین پر فرات کا پانی بند تھا ۔۔۔تو۔۔۔عثمان پراپنے زرخریدبئر رومہ کاپانی بند تھا
اے ذکر کربلا سنا نے والے خطیبو،واعظوشہادت عثمان کا ذکر بھی کرو ۔۔۔کیونکہ
اگر حسین نواسہء رسول ہے ۔۔۔ تو عثمان داماد رسول ہے
اگر نواسہ رسول کا امت پرحق ہے۔۔۔۔۔۔ تو داماد رسول کا بھی امت پرحق ہے
کون عثمان غنی !
جو جامع القرآن بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور شہید قرآ ن بھی۔۔۔ جب باغیوں نے آپ پر حملہ کیا۔۔۔تو آپ قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔۔۔آپ کے خون کے چھینٹے۔۔۔قرآن کی آیت فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم (البقرہ:۱۳۷) پرپڑے۔۔۔ توگویا قرآن آپ کی شہادت کا گواہ بن گیا۔
قیامت کے دن ۔۔۔حشر کے میدان میں ۔۔۔جب خدا کی بارگاہ میں شہید حاضر ہوں گے تو
کسی کی شہادت کی گواہی ۔۔۔۔۔۔ بدر کا میدان دے گا
کسی کی شہادت کی گواہی ۔۔۔۔۔۔ احد کا میدان دے گا
کسی کی شہادت کی گواہی۔۔۔۔۔۔ تبوک کا میدان دے گا
کسی کی شہادت کی گواہی ۔۔۔۔۔۔ خندق کا میدان دے گا
کسی کی شہادت کی گواہی ۔۔۔۔۔۔ خیبر کا میدان دے گا
کسی کی شہادت کی گواہی ۔۔۔۔۔۔ کربلا کا میدان دے گا
مگر۔۔۔ جب حضرت عثمان غنی کی باری آئے گی۔۔۔توان کی شہادت کی گواہی خدا کا قرآن دے گا ۔سبحان اللہ
اے شہید مظلوم ۔۔۔اے سیدنا عثمان غنی۔۔۔ ہم گنہگاروں کی طرف سے سلامِ عقیدت قبول کرو۔۔۔آپ پر پر تو ہر صبح، ہرشام، ہر گھڑی خدا کا سلام آتاہے سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَ الدَّار (الرعد: ۲۴) —
تیسرے خلیفہ :: عثمان رضی اللہ عنہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
23 ذوالحجہ کی آخری تاریخوں میں خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر ایک مجوسی ابولولو فیروز نے نماز فجر میں قاتلانہ حملہ کیا ۔ جس میں آپ شدید زخمی ہو گئے ۔ اور یکم محرم 24 ھ کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔
آپ نے شہادت سے پہلے یہ وصیت فرمائی کہ حضرت عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ چھ آدمی تین دن کے اندر اندر کسی کو خلیفہ منتخب کر لیں ۔ اور تین دن صہیب رومی قائم مقام خلیفہ ہوں گے ۔ دو دن نئے خلیفہ کے انتخاب کے لئے بحث و مباحثہ جاری رہا لیکن کوئی بات طے نہ ہو سکی ۔ تیسرے دن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ ہم میں سے تین آدمی ایک ایک شخص کے حق میں دستبردار ہو جائیں ۔ تا کہ چھ کی بحث تین میں محدود ہو جائے ۔ اس پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ میں امیدواری سے دستبردار ہوتا ہوں اب بحث صرف حضرت عثمان اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میں رہ گئی ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایثار کیا تھا ۔ اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اپنا آخری فیصلہ ان کے سپرد کر دیا ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مسجد نبوی میں جمع کیا ۔ اور ایک مختصر تقریر کی ۔ اور اپنا فیصلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں دے دیا ۔
یہ 4 محرم 24 ھ کا واقعہ ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنی امیہ سے تھا ۔ تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شجرہ نسب پانچویں پشت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ شجرہ نسب یہ ہے :
عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف/ والدہ کی طرف سے بھی شجرہ نسب پانچویں پشت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔
شجرہ نسب یہ ہے :
ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی ام حکیم البیضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا سردار عبدالمطلب کی صاجزادی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کی سگی بہن بھی اس لحاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی کے نواسے تھے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی آپ کا یہی رشتہ تھا ۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دعوت اسلام کا آغاز کیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو جس شخص نے سب سے پہلے قبول کیا ۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اور معاون بن گئے ۔ آپ کو جو شخص ملتا ۔ تو آپ اسے اسلام کی دعوت دیتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ تو اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر 34 سال تھی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دیرینہ دوست تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب آپ کو دعوت اسلام دی ۔ دوران گفتگو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وہ شرف حاصل ہوا ۔ جو ان کی کتاب مناقب و فضائل سے درخشاں باب ہے ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاجزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا ۔ جنگ بدر 2ہجری کے موقعہ پر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی ۔ ( حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کی بیماری کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری صاجزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کر دیا ۔ اور یہ وہ شرف ہے ۔ جو پوری انسانی تاریخ میں کسی شخص کو حاصل نہیں ہوا ۔ گویا یہ آپ کی ایک خاص خصوصیت ہے ۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ” علمائے اسلام کا قول ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ پوری تاریخ انسانیت میں کوئی شخص ایسا نہیں گزرا ۔ جس نے کسی نبی کی دو صاجزادیوں سے نکاح کیا پھر اس وجہ سے آپ کو ذوالنورین ( دو نوروں والا ) کہا جاتا ہے ۔ “
 
Top