لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ
@اسحاق سلفی صاحب حفظہ اللہ
اس حدیث اور اس جیسی احادیث کا کیا مطلب ھے؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ» قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ: «إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ» (صحیح مسلم کتاب الایمان )
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہو گا۔ ایک شخص بولا کہ ہر ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا (اوروں سے) اچھا ہو، (تو کیا یہ بھی غرور اور گھمنڈ ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے (یعنی اپنی بات کی پچ یا نفسانیت سے ایک بات واجبی اور صحیح ہو تو اس کو رد کرے اور نہ مانے) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔‘‘
أما بَطْرُ الْحَقِّ فَهُوَ دَفْعُهُ وَإِنْكَارُهُ تَرَفُّعًا وَتَجَبُّرًا .............
علامہ نووی ؒ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ :
امام خطابی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب دو میں سے ایک ہوسکتا ہے ایک تو یہ کہ اگر کوئی ایمان لانے سے تکبر کرے تو اگر اسی حالت میں اسے موت آگئی تو وہ جنت میں نہیں جائے گا،
دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ :(اگر وہ مومن ہے ،اور تکبر کا مرتکب بھی ہے ،تو ) اس تکبر کے ساتھ جنت نہیں جا سکتا ،بلکہ جنت داخل کرتے وقت اس کے دل سے تکبر نکال دیا جائے گا ،یعنی اس کا دل پاک کردیا جائے گا ،جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ :
وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْھٰرُ ۚ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا لِھٰذَا ‘‘ الآیہ سورہ الاعراف ۴۳)
ان اہل جنت کے دلوں میں اگر ایک دوسرے کے خلاف کچھ کدورت ہوگی تو ہم اسے نکال دیں گے۔ ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ کہیں گے : تعریف تو اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ (جنت کی) راہ دکھائی اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا تو ہم کبھی یہ راہ نہ پاسکتے تھے۔ ‘‘
لیکن نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ دونوں تاویلیں حقیقت سے بعید ہیں ،کیونکہ یہ حدیث عمومی طور پر پائے جانے والے تکبر سے ممانعت کے سیاق میں وارد ہے ،جس میں لوگوں کو حقیر سمجھنا اور حق بات کو تکبر کی بناء پر رد کرنا ‘‘ اس لئے اس کا ظاہر معنی یہی ہے جو قاضی عیاض اور دیگر محققین نے کیا کہ وہ تکبر کی سزا بھگتے بغیر جنت میں نہیں جائے گا ،یا پھر اس کی یہی سزا ہوگی کہ جنت میں نہ جائے گا ،
یا معنی یہ ہے کہ اول وہلہ میں متقین کے ساتھ جنت نہ جاسکے ،
اور بعد میں جائے ، وغیرہ
وقال ۔۔ وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم لايدخل الْجَنَّةَ مَنْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ فَقَدِ اخْتُلِفَ فِي تَأْوِيلِهِ فَذَكَرَ الْخَطَّابِيُّ فِيهِ وَجْهَيْنِ أَحَدُهُمَا أَنَّ الْمُرَادَ التَّكَبُّرُ عَنِ الْإِيمَانِ فَصَاحِبُهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَصْلًا إِذَا مَاتَ عَلَيْهِ وَالثَّانِي أَنَّهُ لَا يَكُونُ فِي قَلْبِهِ كِبْرٌ حَالَ دُخُولِهِ الْجَنَّةَ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غل وَهَذَانِ التَّأْوِيلَانِ فِيهِمَا بُعْدٌ فَإِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ وَرَدَ فِي سِيَاقِ النَّهْيِ عَنِ الْكِبْرِ الْمَعْرُوفِ وَهُوَ الِارْتِفَاعُ عَلَى النَّاسِ وَاحْتِقَارُهُمْ وَدَفْعُ الْحَقِّ فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ عَلَى هَذَيْنِ التَّأْوِيلَيْنِ الْمُخْرِجَيْنِ لَهُ عَنِ الْمَطْلُوبِ بَلِ الظَّاهِرُ مَا اخْتَارَهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ وَغَيْرُهُ مِنَ الْمُحَقِّقِينَ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ دُونَ مُجَازَاةٍ إِنْ جَازَاهُ وَقِيلَ هَذَا جَزَاؤُهُ لَوْ جَازَاهُ وَقَدْ يَتَكَرَّمُ بِأَنَّهُ لَا يُجَازِيهِ بَلْ لَا بُدَّ أَنْ يَدْخُلَ كُلُّ الْمُوَحِّدِينَ الْجَنَّةَ إِمَّا أَوَّلًا وَإِمَّا ثَانِيًا بَعْدَ تَعْذِيبِ بَعْضِ أَصْحَابِ الْكَبَائِرِ الَّذِينَ ماتوا مصرين عليها وقيل لا يدخلها مَعَ الْمُتَّقِينَ أَوَّلَ وَهْلَةٍ وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَالْمُرَادُ بِهِ دُخُولُ الْكُفَّارِ وَهُوَ دُخُولُ الْخُلُودِ وَقَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْقَالُ حَبَّةٍ هُوَ عَلَى مَا تَقَدَّمَ وَتَقَرَّرَ مِنْ زِيَادَةِ الْإِيمَانِ وَنَقْصِهِ الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ حدیث دوسرے لفظوں سے صحیح مسلم اور سنن ابوداود میں مروی ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ خَرْدَلَةٍ مِنْ إِيمَانٍ»
’’ یعنی جس کے دل میں رائی برابر تکبر ہو گا ،وہ جنت میں نہیں جائے گا ،اور جس کے دل میں رائی برابر ایمان ہوگا ، وہ جہنم میں نہ جائے گا ‘‘
جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ :
جو رائی برابر تکبر جنت میں داخلے سے مانع ہوگا ،وہ ایمان وکفر کے ضمن میں کیا گیا تکبر ہوگا ،یعنی تکبر کی بنا پر اگر خالص ایمان قبول نہ کرے تو جنت میں ہرگز نہ جائے گا ،
اسی لئے اس حدیث شریف کی شرح میں علامہ طیبی لکھتے ہیں :
للحديث تأويلان: أحدهما: أن يراد بالكبر الكفر والشرك. ألا ترى أنه قد قابله في نقيضه بالإيمان ،
یعنی یہاں تکبر دو میں سے ایک معنی میں ہے ،ایک یہ کہ یہاں تکبر سے مراد کفر ہے ، کیونکہ اس کے تقابل میں اس کی ضد میں ایمان کو بیان کیا گیا ہے ،‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔