اگر دو نمازوں کو جمع کریں گے تو ان کی سنتیں نہیں پڑھیں گے
جمع بین الصلاتین اور سنتیں؟
اگر اشد مجبوری و شرعی عذرکی وجہ سے سفر کے علاوہ (حضر) کی حالت میں دو نمازیں جمع کرنی پڑیں تو کیا دونوں نمازوں کی سنتیں ادا کرنا ہوں گی؟
جواب :
ایسی حالت میں صرف فرض پڑھنے پڑیں گے ،اور سنتیں ادا نہیں کی جائیں گی ۔
( دلیل کیلئے دیکھئے صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ ،باب تاخیر الظہر الی العصر ح543)
مجلہ الحدیث 94 ص11 )
https://ishaatulhadith.com/ishaatul-hadith/pdf/94/#11
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی جس حدیث کا حوالہ دیا ،وہ حدیث درج ذیل ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا: الظُّهْرَ وَالعَصْرَ وَالمَغْرِبَ وَالعِشَاءَ "، فَقَالَ أَيُّوبُ: لَعَلَّهُ فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، قَالَ: عَسَى "( صحیح بخاری 543)
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات ( ایک ساتھ ) اور آٹھ رکعات ( ایک ساتھ ) پڑھیں۔ ظہر اور عصر ( کی آٹھ رکعات ) اور مغرب اور عشاء ( کی سات رکعات ) جناب ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کی رات ہوگی ؟ ۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو ۔
تشریح : اس حدیث مبارکہ کے الفاظ سے واضح ہے کہ :
ظہر اور عصر ( کی آٹھ رکعات ) پڑھیں اور ظہر کی مؤکدہ سنتوں کا ذکر نہیں کیا
اور اسی طرح مغرب اور عشاء ( کی سات رکعات ) بتائیں ،لیکن عشاء کی سنتوں کا کوئی ذکر نہیں ۔
امام ترمذیؒ نے سعیدبن جبیرعن ابن عباس سے اس حدیث پر یہ باب منعقد کیا ہے با
ب ماجاءفی الجمع بن الصلوٰتین یعنی دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان۔
اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اورمغرب اور عشاءکو جمع فرمایا، ایسے حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے ،یعنی سفر پر نہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کوئی خوف لاحق تھا نہ بارش تھی۔ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی گئی توانھوں نے بتلایاکہ
اراد ان لاتحرج امتہ تاکہ آپ کی امت کیلئے کوئی مشقت نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سنن النسائی میں حدیث شریف ہے کہ :
عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «أَنَّهُ صَلَّى بِالْبَصْرَةِ الْأُولَى، وَالْعَصْرَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاء لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ شُغْلٍ». وَزَعَمَ ابْنُ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْأُولَى، وَالْعَصْرَ ثَمَانِ سَجَدَاتٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ»
(سنن النسائی 590 )
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ک انھوں نے بصرہ میں ظہر اور عصر کو اس طرح پڑھا کہ ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا (یا کوئی نماز نفل ،سنت نہیں تھی ) اور مغرب اور عشاء کو بھی اسی طرح پڑھا کہ ان کے درمیان کوئی شیء (فاصلہ )نہیں تھی۔ آپ نے یہ کام کسی مصروفیت کی بنا پر کیا تھا، نیز انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا،(یا یہ معنی ہے کہ ان دو نمازوں کے درمیان کوئی اور سنت نفل نماز نہ پڑھی )
٭٭٭٭٭
اور دو نمازیں ضرورت اورمجبوری کے پیش نظر آسانی کیلئے جمع کی جاتی ہیں ،اس پہلو سے بھی سنتیں چھوڑ دینے کی وجہ سمجھ آتی ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
نیز دیکھئے
فتاوی اصحاب الحدیث جلد اول ص131
https://archive.org/details/Fataawa-Ashaab-ul-Hadees-1/page/n132