ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
عودة المياه إلى مجاريها!
پانی کی اپنے دھاروں کی طرف واپسی
ہم نہیں سمجھتے کہ"بشار" طاغوت کے اپنی بِل میں لوٹنے میں بھی کوئی تعجب کی بات ہے کہ جس میں "سیسی" اور ابن سلمان اور ان کے جیسے دیگر (مرتدین) پہلے سے موجود ہیں، جو کفر و جرائم اور اسلام و اہل اسلام کے خلاف جنگ میں ان سے کسی طور کم نہیں، بلکہ شاید اسلام کے خلاف ان میں سے بعض کی جنگیں زیادہ شدید، زیادہ خطرناک، زیادہ وسیع اور مؤثر ہیں۔
کفری عربی اکٹھ کی نشستوں پر براجمان سارے (طواغیت) کو چھوڑ کر صرف نصیری طاغوت کو ہی مسئلہ بنا لینا مسلمانوں کے عقیدے کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے، "بشار" طاغوت کو شر اور جرائم کی علامت بنا کر پیش کرنے سے بہت سے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ اس کے سوا دیگر طواغیت شاید عدل و سلامتی کی علامتیں ہیں! اور یہ اس گہری گمراہ کُنی کا حصہ ہے جس میں عوام سے پہلے خواص مبتلا ہیں۔
لوگ بھول گئے کہ کفری عربی اکٹھ میں نصیری حکومت کی رکنیت معطل کرنا تو بس "عارضی" طور پر تھا تاکہ وہ بعض سیاسی اقدامات کی بجا آوری کر لے، اور ایسا کوئی مستقل تھوڑا ہی ہوا تھا!! اسی لیے یہ معطلی آخر کار تو ختم ہونی ہی تھی، نیز لوگ یہ بھی بھول گئے کہ نصیری حکومت کی رکنیت کی معطلی خالص عربوں کا فیصلہ نہ تھا بلکہ اس سے زیادہ یہ صلیبی امریکا کی ہدایات کی تعمیل تھی جو کہ اس وقت خطے میں زیادہ اثر و رسوخ کا مالک تھا، جب عرب طواغیت عالمی سطح پر طاقت کے بدلتے میزان کے سبب بعض ٹلتے ہوئے معاملات کے بارے میں اپنے مؤقف کی تبدیلی پر مجبور نہ ہوئے تھے، مگر وہ بات کہ جس کے اہتمام کی عرب طواغیت ٹھانے بیٹھے ہیں وہ کفری اتحادوں کی "چاکری" ہے خواہ وہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں۔
یکساں حکم اور یکساں دلوں والے طواغیت کی جمعیت میں نصیری حکومت کی واپسی کا فیصلہ، بالکل ایک عجوبہ بن کر ابھرا ہے، حالانکہ گزشتہ سالوں میں ہر قدم اور ہر نہر اسی دھارے میں جا کر گر رہی تھی اور اپنے درست دھارے کی طرف پانیوں کی واپسی میں مضبوط کردار ادا کر رہی تھی، پس حیرت تو ان لوگوں پر ہونی چاہیے جو مجرم کے اپنے بِل میں اور اپنے بھائی بندوں کی طرف لوٹنے پر حیران پریشان ہیں، جبکہ جانوروں کی دنیا میں تو کوئی خنزیر ایسا نہیں ہوتا جو اپنے ہم جنس کی واپسی کو ناپسند کرے یا اپنے ماں جائیوں سے وحشت محسوس کرے۔
عرب کے تمام طواغیت ایک ہی جیسے ہیں جبکہ "بشار" تو ان کا صرف ایک نمونہ ہے، جو اپنے اندر کی "خونخواری" کو ظاہر کرنے کے لیے صرف موزوں حالات کے منتظر ہیں، ان میں ہر ایک اپنے تخت کو درپیش خطرے کے وقت "بشار" ہی بن جاتا ہے۔
ان تمام لوگوں نے گھاٹے کا سودا کیا جنہوں نے ان حکومتوں کے نام پر بازی لگادی اور اپنے انجام اور مؤقف کو اس طاغوتی اکٹھ پر گروی رکھوادیا کہ جسے برطانیہ کے اشارے پر "بالفور کے منہج" کے مطابق قائم کیا گیا تھا تاکہ عرب طواغیت کو صلیبی آرزوؤں کی خدمت کے لیے بنے فرمانبرداری کے باڑے کی طرف ہانکا جا سکے۔
سب سے طاقتور طمانچہ تو ان صحواتی جماعتوں کو کھانا پڑا جو خلیج و اردن کے طواغیت کے اشاروں پر ناچا کرتے تھے اور جنہوں نے "انقلاب" اور "حزب اختلاف" کے نام سے مجاہدین کے خلاف جنگ میں ان کے منصوبے پورے کیے تھے، وہ جو "عرب ممالک کی جمعیت" کے ارکان میں سے اپنی باگ ڈور سنبھالنے والے ان مہربانوں کے ہاتھوں بےقیمت مہرے بن کر رہ گئے، کہ جو شروع دن سے انہیں امریکی چاہت کی خلاف ورزی کرنے والی نصیری حکومت کے خلاف دباؤ ڈالنے کے لیے تاش کے پتوں کی طرح استعمال کرتے رہے، اور آج صحوات اپنے تمام کیے دھرے کو اکارت جاتا دیکھ رہے ہیں اور اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔
رہے وہ لوگ جو اس ساری صورتحال کے ذمہ دار ہیں، وہ تمام لوگ جنہوں نے مجاہدین سے جنگ کی، ان کے خلاف جنگ کے فتوے دیے، ان کو بدنام کرنے کی منظم مہمیں چلائیں، یہ سب کے سب نصیری طاغوت کی واپسی میں برابر کے حصہ دار ہیں، کہ نصیری طاغوت تو دولت اسلامیہ کی ضربوں کی چوٹ سے تڑپ رہا تھا، جس نے سینکڑوں کی تعداد میں اس کے سپاہی ہلاک کر ڈالے تھے، ان کے پشت پناہوں کی بیخ کُنی کی تھی، اس کے شہر اور معسکر فتح کرلیے تھے اور ان کی جیلیں ڈھا ڈالی تھیں، مگر پھر خیانت پیشہ مرتدین ہر طرف سے اس (دولتِ اسلامیہ) پر ٹوٹ پڑے، اس نے پکارا کہ: "ہمارے اور نصیریوں کے بیچ سے ہٹ جاؤ"، مگر وہ نہ مانے، اسی طرح سے القاعدہ کے دانشوروں کے فتوے کہ جن کا ذکر تک بھی اللہ تعالی نے مٹا دیا، نیز آل سلول کے شیوخ کے فتوے اور ان تحریکوں اور جبہات کے اقدامات اور سازشیں جنہوں نے مجاہدین سے دغا کیا، یہ سب لوگ آج نصیری طاغوت کی از سر نو واپسی میں برابر کے حصہ دار ہیں۔
سیاسی طور پر دیکھیں تو عرب طواغیت کے گفتگو میں موجود وہ عذر و غایت کہ جس کے تحت انہوں نے نصیری طاغوت کو اپنے اکٹھ میں واپس بلایا، وہ "عرب گھرانے کی صف بندی اور عربی تشخص کی حفاظت" تھا، پس یہی وہ قومیت پرستی ہے جس کے خلاف شرعی بنیادوں پر حقیقی معنوں میں ہر جگہ صرف اور صرف خلافت کے سپاہی ہی بر سر پیکار ہیں۔
عملی طور پر دیکھیں تو رسمی و سرکاری اجتماعات میں نصیری طاغوت کی واپسی کا مطلب ہر عرب طاغوت کے لیے یہ صریح اعلان ہے کہ وہ جو چاہے جرائم و قتلِ عام کرتا پھرے، اسے اپنے سیاسی مستقبل پر اس سب کے نتائج سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اس میں ان مرتد تحریکوں کا بھی رد ہے جو عالمی سیاست اور کفریہ جمہوریت پر ایمان رکھتی ہیں، اور عقلی و نقلی طور پر انہی سراپا خسارہ راستوں کے ذریعے امت کے حقوق لوٹانے کی کوشش کرتی ہیں، بلاشبہ وہ تو بس بند سراب میں گھِری ہوئی ہیں۔
الغرض یہ کہ شام کے کھاتے میں کوئی نئی چیز وقوع پذیر نہیں ہوئی کہ جس کا ذکر کیا جائے، بلکہ جو کچھ بھی ہوا وہ تو پہلے ہی عین متوقع تھا، بس اس وقت سب سے زیادہ قابلِ ذکر تو دولت اسلامیہ کے راستے کی درستی ہے، خواہ منہج ہو یا وسائل، اصل ہو یا فرع، عقیدہ ہو یا جہاد، نیز اس کے شرعی مؤقف کی درستی بھی قابلِ ذکر ہے کہ جو اس نے شام میں جہاد کے ان تمام برسوں میں ان ساری جِہات کے متعلق اختیار کیا، بلاشبہ وہ شریعت اور حقیقتِ حال دونوں ہی کے (بارے میں دولتِ اسلامیہ کے) عمدہ فہم کا نتیجہ ہے۔
چنانچہ، کیا کل لوگوں کو اس پر بھی حیرت ہو گی کہ یہ انقلابی جُھنڈ جب اسد کی شامی فوج کے سپاہی بن جائیں گے؟ کیا ابھی بھی لوگوں کے ذہنوں میں حالات پر مزید حیرت کی گنجائش باقی ہے؟ جبکہ دولت اسلامیہ تو شام میں جہاد کے اولین برسوں میں ہی یہ سب کچھ بتا چکی ہے، اس نے پہلے ہی صحوات اور ایجنسیوں کے منصوبوں سے، اور ان کے ہاتھوں مسلح جماعتوں اور تحریکات کے سِدھائے جانے، گھیر لیے جانے اور سموئے جانے سے خبردار کردیا تھا، اور ایسا تو اس سے پہلے حوران میں واقعتاً ہو چکا ہے جہاں انقلابیوں نے حکومت سے معاہدے کرلیے اور اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس اکلوتی جِہت (یعنی دولتِ اسلامیہ) کے خلاف لڑنے لگے جو آج تک نصیری حکومت سے دین اور عبادت کے طور پر قتال کر رہی ہے۔
اعلامی سطح پہ، یہ قدم میڈیا کے اس کردار کی خطرناکی کی عکاسی کرتا ہے جو کردار وہ عرب و عجم کے طواغیت کی حسب خواہش لوگوں کی ذہن سازی کرنے اور ان کے نظریات اُلٹ پَلٹ کرنے میں ادا کرتا ہے، چنانچہ خیانت سیاسی حل ٹھہرتی ہے اور دشمن دوست بن جاتا ہے اور اسی طرح اور بھی بہت کچھ۔ یہ امر اعلامی مجاہدین سے مزید کوششیں صرف کرنے کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ طواغیت، ان کی حکومتوں اور اداروں کی حقیقت کا پردہ چاک کرنے کے لیے واضح شرعی کلمات بروئے کار کریں، نیز امور کو ان کے ان ہی ناموں سے پکاریں جن سے اللہ سبحانہ و تعالی نے انہیں پکارا ہے تاکہ بات زیادہ قوی، عمدہ حجت والی اور زیادہ مؤثر ہوجائے۔
اور آخر میں ہم شام میں بسنے والے اپنے بے کس عامۃ المسلمین بھائیوں کے کانوں میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ ان کے سامنے اس اندھی سرنگ سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ ہے اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کا راستہ، اور ان مرتد جماعتوں، مسلح گروہوں اور تحریکوں سے کفر کا راستہ جنہوں نے مجاہدین سے جنگ کی اور نصیری طاغوت کے لیے عرب قوم کی گود تک واپسی کے عملی حالات پیدا کرنے کا بلا واسطہ سبب بن گئیں! شام کے مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ جہاد کی قیمت خواہ کتنی بھی بھاری ہو، وہ بہر صورت ان دیگر حَلوں سے بڑھ کر ہی خون اور عزت کا محافظ ہوتا ہے، وہ حل کہ جن کا انجام بد ہر عقلمند کے لیے واضح ہوچکا ہے، بہرحال انجام کار تو پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے۔
صحيفة النبأ – العدد 392
السنة الرابعة عشرة - الخميس 5 ذو القعدة 1444 هـ
السنة الرابعة عشرة - الخميس 5 ذو القعدة 1444 هـ
Last edited: