رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم۔
پانی کے متعلق چند مختصر سوالات ہیں جن کا مختصر سا جواب دے دیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سے ایسے پانی کے متعلق سوال ہوا جو جنگلوں میں ہوتا ہے، درندے اور چوپائے اس سے پانی پینے کے لیے آتے ہیں تو رسول ﷺ نے جواب دیا:
"اذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث"
"جب پانی دو مٹکے ہو تو نجس نہیں ہوتا"
سنن اربعۃ
1- فقہاء نے اس حدیث سے جو پانی کے رنگ، ذائقہ، اور بو، کے نا بدلنے کی تخصیص کی ہے، اس کی دلیل کیا ہے؟
ایک دوسری حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لا يبولن احدكم في الماء الدائم الذي لا يجري ثم يغتسل فيه
"تم میں سے ہر شخص اس پانی میں جو رکا ہوا ہو، جاری نا ہو، ہرگز پیشاب نا کرے، پھر وہ اس سے غسل کرتا ہے"
کتب ستہ
2- پچھلی حدیث کے مطابق اگر پانی دو قلوں سے زیادہ ہو تو نجس نہیں ہوتا، پھر اس حدیث میں ایسے پانی میں غسل کرنے سے کیوں منع کیا گیا ہے، جس میں نجاست گرنے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ یہ دو قلوں سے زیادہ ہے (مثلا: تالاب وغیرہ)؟
3- کتے کا جھوٹھا نجس ہے اور اگر وہ کسی برتن میں منہ مار دے تو اس میں موجود پانی کو ضائع کرنا پڑے گا، لیکن اگر کتا دو قلوں سے زیادہ مقدار والے پانی میں منہ مارے تو کیا تب بھی پانی ضائع کیا جائے گا، یا اس سے وضو غسل کرنا جائز ہے؟
عطا بن ابی رباح روایت کرتے ہیں کہ:
عَنْ عَطَاءٍ، أَنَّ حَبَشِيًّا، وَقَعَ فِي زَمْزَمَ فَمَاتَ , قَالَ: فَأَمَرَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَنْ يُنْزَفَ مَاءُ زَمْزَمَ قَالَ: فَجَعَلَ الْمَاءُ لَا يَنْقَطِعُ قَالَ: فَنَظَرُوا فَإِذَا عَيْنٌ تَنْبُعُ مِنْ قِبَلِ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: حَسْبُكُمْ
زمزم (کے کنویں) میں ایک حبشی گر کر مر گیا تو عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے (پانی نکالنے) کا حکم دیا، (حبشی نکالنے کے بعد) اس کا پانی نکالا گیا تو پانی رکتا ہی نہیں تھا، پھر دیکھا گیا تو حجرہ اسود کی طرف سے ایک چشمہ جاری تھا، پھر ابن الزبیر نے فرمایا: تمہارے لیے یہی کافی ہے۔
ٌ(مصنف ابن ابی شیبہ 1/162) شیخ زبیر علی زئی فرماتے ہیں: "اس کی سند صحیح ہے" (انوار السنن)
اس حدیث کے نیچے شیخ صاحب نے فرمایا: "اس سے معلوم ہوا کہ اگر کنویں میں کوئی چیز گر کر مر جائے (تو چیز نکالنے کے بعد اس کے مطابق) پانی نکالنا چاہیے"
4- اس حدیث اور شیخ صاحب کے قول میں "اس کے مطابق" اور "اس کا پانی" سے کیا مراد ہے؟
5- اگر پانی دو قلوں سے زیادہ تھا تو نکالنے کی کیا ضرورت تھی؟
اور اسی طرح درج ذیل آثار بھی ہیں:
میسرہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کے بارے میں، جس میں چوہا گر کر مر جائے، فرمایا: اس کا (سارا) پانی نکالا جائے
(اسے طحاوی نے روایت کیا ہے 1/17 اور شیخ زبیر علی زئی کے بقول اس کی سند حسن ہے)
اگر کنویں میں مرغی یا اس جیسی چیزیں گر کر مرجائیں تو ان کے بارے میں امام عطا بن ابی رباح نے فرمایا: اس میں سے ایک ڈول پانی نکالو اور (بعد میں) اس (کنوئیں والے پانی) سے وضو کرو۔ اگر وہ پھول کر خراب ہو جائے تو اس کنویں میں سے چالیس ڈول نکالو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/162 ح 1716، وسندہ حسن)
مرغی اگر کنویں میں گر جائے تو اس کے بارے میں سلمۃ بن کہیل نے فرمایا: اس کنویں سے چالیس ڈول پانی نکالیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/162 ح 1719، وسندہ حسن)
مقصد یہ ہے کہ اگر دو قلوں سے زیداہ مقدار والا پانی نجاست کے گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا تو مذکوہ بالا صورتوں میں پانی نکالنے کی کیا ضرورت ہے؟
پانی کے متعلق چند مختصر سوالات ہیں جن کا مختصر سا جواب دے دیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سے ایسے پانی کے متعلق سوال ہوا جو جنگلوں میں ہوتا ہے، درندے اور چوپائے اس سے پانی پینے کے لیے آتے ہیں تو رسول ﷺ نے جواب دیا:
"اذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث"
"جب پانی دو مٹکے ہو تو نجس نہیں ہوتا"
سنن اربعۃ
1- فقہاء نے اس حدیث سے جو پانی کے رنگ، ذائقہ، اور بو، کے نا بدلنے کی تخصیص کی ہے، اس کی دلیل کیا ہے؟
ایک دوسری حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لا يبولن احدكم في الماء الدائم الذي لا يجري ثم يغتسل فيه
"تم میں سے ہر شخص اس پانی میں جو رکا ہوا ہو، جاری نا ہو، ہرگز پیشاب نا کرے، پھر وہ اس سے غسل کرتا ہے"
کتب ستہ
2- پچھلی حدیث کے مطابق اگر پانی دو قلوں سے زیادہ ہو تو نجس نہیں ہوتا، پھر اس حدیث میں ایسے پانی میں غسل کرنے سے کیوں منع کیا گیا ہے، جس میں نجاست گرنے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ یہ دو قلوں سے زیادہ ہے (مثلا: تالاب وغیرہ)؟
3- کتے کا جھوٹھا نجس ہے اور اگر وہ کسی برتن میں منہ مار دے تو اس میں موجود پانی کو ضائع کرنا پڑے گا، لیکن اگر کتا دو قلوں سے زیادہ مقدار والے پانی میں منہ مارے تو کیا تب بھی پانی ضائع کیا جائے گا، یا اس سے وضو غسل کرنا جائز ہے؟
عطا بن ابی رباح روایت کرتے ہیں کہ:
عَنْ عَطَاءٍ، أَنَّ حَبَشِيًّا، وَقَعَ فِي زَمْزَمَ فَمَاتَ , قَالَ: فَأَمَرَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَنْ يُنْزَفَ مَاءُ زَمْزَمَ قَالَ: فَجَعَلَ الْمَاءُ لَا يَنْقَطِعُ قَالَ: فَنَظَرُوا فَإِذَا عَيْنٌ تَنْبُعُ مِنْ قِبَلِ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: حَسْبُكُمْ
زمزم (کے کنویں) میں ایک حبشی گر کر مر گیا تو عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے (پانی نکالنے) کا حکم دیا، (حبشی نکالنے کے بعد) اس کا پانی نکالا گیا تو پانی رکتا ہی نہیں تھا، پھر دیکھا گیا تو حجرہ اسود کی طرف سے ایک چشمہ جاری تھا، پھر ابن الزبیر نے فرمایا: تمہارے لیے یہی کافی ہے۔
ٌ(مصنف ابن ابی شیبہ 1/162) شیخ زبیر علی زئی فرماتے ہیں: "اس کی سند صحیح ہے" (انوار السنن)
اس حدیث کے نیچے شیخ صاحب نے فرمایا: "اس سے معلوم ہوا کہ اگر کنویں میں کوئی چیز گر کر مر جائے (تو چیز نکالنے کے بعد اس کے مطابق) پانی نکالنا چاہیے"
4- اس حدیث اور شیخ صاحب کے قول میں "اس کے مطابق" اور "اس کا پانی" سے کیا مراد ہے؟
5- اگر پانی دو قلوں سے زیادہ تھا تو نکالنے کی کیا ضرورت تھی؟
اور اسی طرح درج ذیل آثار بھی ہیں:
میسرہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کے بارے میں، جس میں چوہا گر کر مر جائے، فرمایا: اس کا (سارا) پانی نکالا جائے
(اسے طحاوی نے روایت کیا ہے 1/17 اور شیخ زبیر علی زئی کے بقول اس کی سند حسن ہے)
اگر کنویں میں مرغی یا اس جیسی چیزیں گر کر مرجائیں تو ان کے بارے میں امام عطا بن ابی رباح نے فرمایا: اس میں سے ایک ڈول پانی نکالو اور (بعد میں) اس (کنوئیں والے پانی) سے وضو کرو۔ اگر وہ پھول کر خراب ہو جائے تو اس کنویں میں سے چالیس ڈول نکالو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/162 ح 1716، وسندہ حسن)
مرغی اگر کنویں میں گر جائے تو اس کے بارے میں سلمۃ بن کہیل نے فرمایا: اس کنویں سے چالیس ڈول پانی نکالیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/162 ح 1719، وسندہ حسن)
مقصد یہ ہے کہ اگر دو قلوں سے زیداہ مقدار والا پانی نجاست کے گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا تو مذکوہ بالا صورتوں میں پانی نکالنے کی کیا ضرورت ہے؟