کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
مکرمی جناب محمدعظیم حاصل پوری ایڈیٹر مجلہ ’’المکرم‘‘ صاحب ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید کہ بخیرہوں گے۔
عرض اینکہ آپ کے مجلہ کے حالیہ شمارہ (مارچ ،اپریل ،مئی 2013) میں میری ایک تحریر شائع ہوئی ہے جس میں ایک ایسی بات کا اضافہ کردیا گیا ہے جسے کہنے یا لکھنے کی جرات میں کبھی نہیں کرسکتا چنانچہ صفحۃ 12 پر میری ہی تحریر میں ہے:
’’اس کی سند میں موجود راوی جعفربن عبداللہ کے حافظہ وضبط کے بارے میں کوئی دلیل مجھے نہیں ملی البتہ ابویعلی الخلیلی نے اس کی عدالت ودیانت کی طرف اشارہ کیا ہے‘‘ [مجلہ ’’المکرم‘‘ مارچ ،اپریل ،مئی 2013، ص 12]۔
یہ الفاظ میرے نہیں ہیں میں ایسی خطرناک بات ہرگزنہیں کہہ سکتا ’’جعفربن عبداللہ‘‘ یہ مسندرویانی کے بنیادی راوی ہیں ان پر جرح کرنے کا مطلب پوری مسندرویانی ہی کو غیر معتبر بتلانا ہے ، اس لئے کم ازکم میں تو اس بات کی جرات نہیں کرسکتا کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے جعفربن عبداللہ ہی کے طریق سے مروی ایک سند کو هذا إسناد صحیح کہا ہے دیکھئے [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 27/ 61]، اور راوی کی روایت کی تصحیح راوی کی ضمنی توثیق ہوتی جیساکہ امام ابن القطان ، امام ذہبی امام زیلعی ، امام ابن الملقن ،حافظ ابن حجر اور علامہ البانی وغیرہم رحمۃ اللہ علیھم اجمعین نے صراحت کی ہے دیکھیں: [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395،الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17، نصب الراية 1/ 149،البدر المنير لابن الملقن: 4/ 269، الدراية في تخريج أحاديث الهداية 2/ 158، سلسلة الأحاديث الصحيحة 7/ 16]۔
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سمیت جن جن محدثین نے مسندرویانی کی بعض روایات پر صحت کاحکم لگایا ہے ان کی نظر میں بھی یہ روای معتبر ہے۔
الغرض یہ کہ ’’جعفربن عبداللہ‘‘ ہماری نظر میں حسن الحدیث ہے اس پر مزیدتفصیل بھی پیش کی جاسکتی ہے لیکن اس کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہم نے اس پر کوئی جرح ہی نہیں کی ہے ، یاد رہے کہ میری یہی تحریر انٹر نیٹ پر تین فورمز پرموجود ہے لیکن کسی ایک میں بھی مذکورہ اضافہ نہیں ہے، اسی طرح مذکورہ اضافہ کے ساتھ جو ’’اولا‘‘ و ’’ثانیا‘‘ کی ترتیب ہے وہ بھی میری نہیں ، اس مقام پر میری اصل تحریر ’’اولا‘‘ ، و ’’ثانیا‘‘ کے بغیر ہے ۔
لہٰذا آں جناب سے درمندانہ گذارش ہے کہ اپنے مجلہ کے اگلے شمارہ میں میرے اس خط کی اشاعت کے ساتھ وضاحت فرمادیں ۔
ابوالفوزان کفایت اللہ السنابلی۔
ایڈیٹر مجلہ ’’اہل السنہ‘‘ ممبئی ، ہند۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید کہ بخیرہوں گے۔
عرض اینکہ آپ کے مجلہ کے حالیہ شمارہ (مارچ ،اپریل ،مئی 2013) میں میری ایک تحریر شائع ہوئی ہے جس میں ایک ایسی بات کا اضافہ کردیا گیا ہے جسے کہنے یا لکھنے کی جرات میں کبھی نہیں کرسکتا چنانچہ صفحۃ 12 پر میری ہی تحریر میں ہے:
’’اس کی سند میں موجود راوی جعفربن عبداللہ کے حافظہ وضبط کے بارے میں کوئی دلیل مجھے نہیں ملی البتہ ابویعلی الخلیلی نے اس کی عدالت ودیانت کی طرف اشارہ کیا ہے‘‘ [مجلہ ’’المکرم‘‘ مارچ ،اپریل ،مئی 2013، ص 12]۔
یہ الفاظ میرے نہیں ہیں میں ایسی خطرناک بات ہرگزنہیں کہہ سکتا ’’جعفربن عبداللہ‘‘ یہ مسندرویانی کے بنیادی راوی ہیں ان پر جرح کرنے کا مطلب پوری مسندرویانی ہی کو غیر معتبر بتلانا ہے ، اس لئے کم ازکم میں تو اس بات کی جرات نہیں کرسکتا کیونکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے جعفربن عبداللہ ہی کے طریق سے مروی ایک سند کو هذا إسناد صحیح کہا ہے دیکھئے [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 27/ 61]، اور راوی کی روایت کی تصحیح راوی کی ضمنی توثیق ہوتی جیساکہ امام ابن القطان ، امام ذہبی امام زیلعی ، امام ابن الملقن ،حافظ ابن حجر اور علامہ البانی وغیرہم رحمۃ اللہ علیھم اجمعین نے صراحت کی ہے دیکھیں: [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395،الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17، نصب الراية 1/ 149،البدر المنير لابن الملقن: 4/ 269، الدراية في تخريج أحاديث الهداية 2/ 158، سلسلة الأحاديث الصحيحة 7/ 16]۔
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سمیت جن جن محدثین نے مسندرویانی کی بعض روایات پر صحت کاحکم لگایا ہے ان کی نظر میں بھی یہ روای معتبر ہے۔
الغرض یہ کہ ’’جعفربن عبداللہ‘‘ ہماری نظر میں حسن الحدیث ہے اس پر مزیدتفصیل بھی پیش کی جاسکتی ہے لیکن اس کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہم نے اس پر کوئی جرح ہی نہیں کی ہے ، یاد رہے کہ میری یہی تحریر انٹر نیٹ پر تین فورمز پرموجود ہے لیکن کسی ایک میں بھی مذکورہ اضافہ نہیں ہے، اسی طرح مذکورہ اضافہ کے ساتھ جو ’’اولا‘‘ و ’’ثانیا‘‘ کی ترتیب ہے وہ بھی میری نہیں ، اس مقام پر میری اصل تحریر ’’اولا‘‘ ، و ’’ثانیا‘‘ کے بغیر ہے ۔
لہٰذا آں جناب سے درمندانہ گذارش ہے کہ اپنے مجلہ کے اگلے شمارہ میں میرے اس خط کی اشاعت کے ساتھ وضاحت فرمادیں ۔
ابوالفوزان کفایت اللہ السنابلی۔
ایڈیٹر مجلہ ’’اہل السنہ‘‘ ممبئی ، ہند۔