کلمہ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ﷺ کے تقاضے تو وہ بھولے گا جسے اس کی تعلیم و تربیت دی گئی ہو گی۔ اور جس کو کلمہ تو یہی پڑھایا گیا ہو لیکن تعلیم و تربیت اس کلمہ کے مطابق نہ ہوئی ہو اس کا قول و عمل مستقبل میں ان کی تعلیم و تربیت جیسا ہی ہوتا ہے۔
میری بات کی عملی تفسیر دیکھنی ہو تو ہمارے ملک میں موجود بہت سے لوگوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جو کلمہ تو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں لیکن اسی کلمہ کا تقاضا یہ بتاتے ہیں کہ قبر والوں سے توسل جائز ہے۔ ایسے لوگ قیام وطن کے وقت بھی اسی تعلیم و تربیت کے مالک تھے اور آج بھی۔ الا ماشاء اللہ۔ الا من رحم ربی۔
لہٰذا اسلام نے اپنے ماننے والوں کی تیرہ سال تک اسی کلمہ پر تعلیم و تربیت کی تھی۔ اور ان کی تربیت میں سے انہی بنیادی چیزوں کو خارج کیا گیا تھا جو قیام پاکستان کے وقت قوم اور اس کے لیڈران کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔
معذرت کے ساتھ لکھوں گا کہ اگر قوم اور اس کے لیڈر وں کے نظریات میں میری نشاندہی کی گئی چیزیں نہ ہوتیں تو اس وقت کے دیگر لیڈران جن کی تربیت واقعی اس کلمہ پر ہوئی تھی وہ یہ کہنے پر مجبور نہ ہوتے:
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلو گر حق زمیں و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم گمان میں
وہ بدلا گیا آکے ہندوستان میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا ربتہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کر مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
(مولانا الطاف حسین حالی)۔
اسی طرح یہ بات بھی بڑی قابل غور ہے کہ جو اس وقت کے بعض لیڈران نے کہی تھی کہ
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
جبکہ یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ
آزادی کا پروانہ دینے کے لئے کسی ایسے شخص کو کیوں نہ چنا گیا جس کی تربیت کلمہ لا الہ الا اللہ پر ہوئی تھی؟؟؟