خودکش حملہ ہر حال میں حرام ہے۔ فدائی اورخودکش حملہ ایک ہی چیز نہیں(تحقیقی جائزہ)
February 6, 2013 at 6:49am
الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد!
خودکش حملہ:
"یعنی کسی کو مارنے سے پہلے خود کو مارنا"۔
دین اسلام میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ مگر آجکل خودکش حملے پر مختلف الفاظ "فدائی حملہ" یا "شہیدی حملہ" جیسے الفاظ کی ملمع کاری کر کے اسے عین اسلام اور جہاد نبوی کا ایک عظیم عمل قرار دیا اور دلوایا جاتا ہے۔
فدائی اور خودکش حملے میں واضح فرق:
اور جو لوگ خودکش حملوں کے فدائی یا شہیدی حملہ ہونے کا شائبہ ڈالتے ہیں انکو معلوم ہونا چاہیئے
:فدائی حملہ یا شہیدی حملہ میں پہلے کافر کو مارا جاتا ہے اور پھر اس کے ہاتھوں قتل ہوا جاتا ہے
مگر خودکش حملہ میں کافر مرے یا نہ مرے بندہ خود کو مار ڈالتا ہے۔۔۔۔جسے دین میں واضح طور پر خودکشی کہا جاتا ہے۔
جب دین میں فدائی حملے موجود ہیں تو پھر خود سے ایک ایسی قسم ایجاد کرنا کہ جس کے جائز ہونے میں ہی اشکالات و شکوک وشبہات ہوں اور دلائل باوجود تراش خراش کے بھی نہ بن پا رہے ہوں تو اس عمل کا کیا فائدہ؟؟؟
اسی طرح جب ان حضرات سے کہا جاتا ہے کہ اسلام میں فدائی حملوں پر دلائل باکثرت موجود ہیں تو آپ اس کو چھوڑ کر خودکشی یا خودکش حملوں پر لفظ "فدائی" یا "شہیدی" کی ملمع کاری کیوں کرتے ہو، تو وہ کہتے ہیں آج اگر ہم فدائی کریں تو اہداف حاصل نہیں ہوتے جبکہ خودکش حملے میں اہداف کافی حد تک حاصل ہوتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کافی حد حاصل نہیں ہوتے بلکہ حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اور اکثر اوقات بے گناہ ، حرام الدم افراد ہی اس کی زیادہ بھینٹ چڑھتے ہیں اور یہ کوئی مفروضہ نہیں ، حقائق ہیں۔
وی میں ہر عمل سر انجام دینا ہے ،اس کا دنیا میں فائدہ کم ہے یا زیادہ ، اہداف ملیں یا نہیں ،ہم اس کے مکلف نہیں۔ہمارا مطمع نظر اللہ اور اسکے رسول کی پیروی ہونی چاہیئے نہ دنیاوہ نفع و نقصان۔
اور اللہ تعالی قرآن میں واضح منع فرماتا ہے کہ:
ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة ( البقرة/ 195)،
" اپنی جان کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو"۔
تو پھر خودکش ہو یا خودکشی ایک ہی بات ہے۔۔۔
کبارعلماء سلف اسے حرام قرار دیتے ہیں ۔ اور جو چند ایک علماء اس کے جواز کی راہ نکالتے ہیں وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اس کا جواز تب بنے گا جب :
ا۔ فاعل انتہائی مجبور ہو اور کفار کو نقصان پہنچانے کا کوئی اور ذریعہ نہ بچا ہو۔۔۔
ب۔ عمل مسلم ممالک میں مسلمان معاشروں میں نہیں بلکہ حربی کفار کے خلاف صرف میدان جہاد میں ہو۔۔
ج۔ خودکش حملے سے بہت بڑا نقصان متوقع ہو نہ کہ ایک دو بندے مارنا جیسا کہ آجکل رواج بن چکا ہے، کوئی انڈر ویئر میں ڈالتا ہے کوئی پیٹ میں نگل کر، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
د۔ اس فعل کو کراہت سمجھ کر کرنا نہ کہ اپنے جہاد کا شعار بنا لینا۔۔جیسا کہ آجکل عام ہے اور کچھ جہادی تنظیمیں صرف اپنے اسی عمل کی وجہ سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں
ر۔ اس عمل کو معمول بنانے کی بجائے ، صرف ناگزیر حالات میں اختیار کرنا۔۔
لیکن جواز کی اس رائے کہ باوجود ، علماء کی بڑی تعداد ان کے مجبوری میں بھی حرام اور ناجائز ہونے کے قائل ہیں ۔
اس بارے جاننے کے لئے یہ لنک : ملاحضہ فرمائیں
خودکش حملے ہر حال میں حرام ہیں جید وممتاز سلفی علماء کرام
http://www.asliahlesunnet.com/index.php?option=com_content&view=article&id=174:2010-02-11-04-16-52&catid=44:2009-10-15-03-50-08&Itemid=58
ان علماء کے مطابق ، اگر جہاد میں کسی مجبوری کی حالت میں خودکشی جائز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان جہاد میں کفار کے خلا ف اس شخص کو خودکشی کرنے پر جہنم کی وعید نہ سناتے کہ جس نے اپنے زخموں سے تنگ ہو کر اور مجبور ہو کر خود ہی اپنے آپ کو مار لیا تھا ۔
اور یہ کام ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ جب کوئی خودکش بمبار فوج یا پولیس کے درمیان گھر جاتا ہے تو وہ گرفتاری کے ڈر سے خود کو اڑا لیتا ہے جس میں نہ تو کوئی کافر مرتا اور نہ ہی کوئی ہدف حاصل ہوتا ہے۔ کبھی بہانہ تراشا جاتا ہے کہ وہ ایسا محض اس لئے کرتا ہے کہ اگر وہ پکڑا جائے تو لوگ اس سے راز نکلوا سکتے ہیں ، معلومات حاصل کرسکتے ہیں ۔ تو میں پوچھتا ہوں کتنے ہی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور مجاہدین اس سے پہلے جنگوں میں گرفتار ہو چکے ، کیا انہوں نے راز چھپانے کی خاطر خود
کشی کی؟؟
یا پھر یہ جواز تراشتے ہیں کہ وہ ایسا صرف گرفتاری کے بعد ملنے والی تکالیف و ظلم سے بچنے کے لئے کرتا ہے۔ اگر تو یہ بات ہے تو پھر یہ ہو با ہو اس شخص کا عمل ہے جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تکلیف سے بچنے کے لئے اپنا کام تمام کیا تھا۔یقینا جو کہ واضح خودکشی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
ہماری رائے :
خودکش حملے کے ہر حال میں حرام اور ناجائز ہونے پر دلائل واضح اور زیادہ قوی ہیں۔جب کہ حلال ہونے پر توکوئی دلیل نہیں ، محض مجبوری میں جواز ضرور نکالا جاتا ہے تراشا جاتا ہے باقی لوگ اکثر اس مسئلہ پر شک و شبہات کا شکار ہیں کہ یہ جائز ہیں کہ نہیں۔ تو انکو ہماری نصحیت ہے کہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مطابق "جو شک والی چیز سے بچ گیا ،گویا اس نے ایمان بچا لیا
"۔۔
لہذا، جب دوسری طرف یقینی زرائع اور طریق جہاد و شہادت موجود ہوں تو اس میں مشکوک یا حرام عمل کو شوق و شعار بنانا اور اس کے کرنے والوں کو عظیم فاعل قرار دینا چہ معنی دارد!!
ایک بات ضرور یاد رہے:
باقی اگر کوئی یہ عمل کرتا ہے ، تو وہ حرام کام کا مرتکب ہی ہوتا ہے یعنی گناہ گار ہوتا ہے نہ کہ کفر و ارتداد کا مرتکب ہوتاہے۔
اور اسکا معاملہ اللہ پر ہے جو اسکا پیدا کرنا والا ہے کہ وہ اسے کتنا عذاب دیتا ہے یا نہیں دیتا۔۔۔۔۔ہم یقینی صرف یہی کہہ سکتا ہیں کہ اس نے حرام کام کیا ۔ ۔ ۔جو کہ اسلام میں کوئی دلیل نہیں رکھتا بلکہ قابل مذمت ہے نہ کے قابل تقلید!
ایک دلچسپ شبہ:
اور آخر میں رہی بات راشد منہاس والا واقعہ۔۔ بلکہ ایک اور واقعہ میری طرف سے بھی ایڈ کر لیں کہ ۱۹۶۵ کی پاک- بھارت جنگ میں پاک فوج کے جوانوں کا سیالکوٹ سیکٹر پر سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹنا وغیرہ وغیرہ
ازالہ
یہ عمل کتنےہی مفید کیوں نہ تھے مگر!
ہم تو خوب جانتا ہیں کہ یہ اللہ کا اصول ہے کہ وہ اپنے دین و جہاد کی سر بلندی کا کام جس چاہے لے لیتا ہے چاہے وہ مومن ہو یا فاسق و فاجر مسلمان ہو۔۔۔
فاسق و فاجر مسلمان تو کیا اللہ تو کافروں سے بھی اسلام و مسلمانوں کی سربلندی کا کام لے لیتا ہے
اور ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ خودکش حملے والا عمل فسق و فجور ہی ہے نہ کہ کفر و ارتداد ہے اور اللہ شرک کے سوا جس گناہ کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس گناہ پر چاہے گا عذاب کرے گا۔ اور اللہ اس پر قادر ہے
اللہ نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا ہے اللہ ہی جانے ، مگر ہم اس عمل کو قابل ستائش اور قابل تقلید نہیں کہہ سکتے کہ جس کی خود اللہ اور اسکا رسول واشگاف الفاظ میں مذمت کی ہو۔۔
بس میرے علم میں اتنا ہی تھا جو مین نے نیک نیتی سے پہنچا دیا۔اس کا مقصد نہ کسی پر فتوی لگانا تھا اور نہ کسی کے جنتی و جہنمی ہونے کا فیصلہ سنانا۔
بلکہ مسئلہ کی وضاحت درکار تھی۔اللہ کمی کوتاہیوں اور زیادتیوں سے درگزر فرمائے۔ آمین
سبحانک اللھم وبحمدک اشہدوان الاالہ الا اللہ انت استغفرک واتوب الیک۔بشکریہ ملتقی اہل حدیث اردو فورم