ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
پاکستان میں اختلافِ قراء ت والے قرآنی مصاحف کی اِشاعت
مفتی محمد طاہر مکی
کلیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ نے درس و تدریس کے ۲۰ سالہ دَور کے بعد عوام الناس میں علم القراء ات کے مختلف گوشوں سے تعارُف وواقفیت کیلئے ماہنامہ ’رُشد‘ کی مسلسل تین خصوصی اشاعتوں کااہتمام کیا۔ جن میں قراء ات سے متعلق جملہ پہلوؤں پر اس قدر تفصیلی مباحث عوامی سطح پر پیش کی گئیں کہ بعض تبصرہ نگاروں کے مطابق قراء ات سے متعلق اتنا بڑا علمی کام پہلی دفعہ عالم اسلام کے مجلات میں منظر عام پر آیا ہے۔ تقریباً ۳۰۰۰ صفحات پر مشتمل ان اشاعتوں کو فن قراء ات کا انسائیکلوپیڈیا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ مجلہ کی ’مجلس ادارت‘ جس میں تمام مکاتب فکر کے نامور قراء کرام شامل ہیں، نے انتہائی سوچ وبچار کے بعد تمام لٹریچر کی چھانٹی کر کے مطبوعہ وغیر مطبوعہ مضامین کا شاندار مجموعہ تیار کر دیا، جس کی اشاعت کے بعد ’فتنۂ انکارِ حدیث‘ کی طرح ’فتنۂ انکارِ قراء ات (انکارِ قرآن) بھی ان شاء اللہ ختم ہو جائے گا۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ قراء اتِ سبعہ و عشرہ کو منکرین حدیث و قراء ات فتنۂ عجم قرار دیتے ہیں بلکہ سینکڑوں مکتبوں کی طرف سے ان قراء توں پر مشتمل شائع شدہ قرآنوں کو قرآن مجید ہی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حرمین شریفین کے زائرین اکثر اوقات وہاں متعدد قراء ات میں شائع شدہ مصاحف دیکھنے کے ساتھ ساتھ پوری دُنیا سے آنیوالے حجاج کرام کو مختلف قراء ات کے مطابق قرآن پڑھتے ہوئے سنتے ہیں۔ اگر یہ قراء ات قرآن نہیں تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ عالم اسلام کے کروڑوں مسلمان قرآنِ مجید کی سعادت ہی سے محروم ہیں۔ غور فرمائیے کہ ان متجدّدین کو اکثر یہ شکوہ رہتا ہے کہ علمائے کرام ایک دوسرے پر فتویٰ بازی کا شغل کرتے ہیں، ایک دوسرے کو گمراہ کہتے اور اُمت میں تفریق پیدا کرتے ہیں جبکہ مسئلہ قراء ات میں عالم اسلام کے علماء متفق ہیں مگر مٹھی بھر منکرین حدیث ان کے برعکس دانستہ یا نادانستہ طور پر کروڑوں مسلمانوں کو قرآن سے محروم قرار دے کر انہیں گمراہ اور گم گشتہ راہ قرار دینے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں۔
ماہنامہ رُشد کی ان علمی و تحقیقی اشاعتوں کے حوالے سے اربابِ علم و دانش کیا رائے رکھتے ہیں؟ اس کیلئے قراء ات نمبر۲ اور ۳ میں اہل علم کے تبصرہ جات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، لیکن منکرین حدیث نے ان تحقیقی اشاعتوں کے بعد شدید بوکھلاہٹ کا اظہار یوں کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں پراپیگنڈہ مہم کے طور پر حقائق سے ہٹ کر غیر علمی انداز میں طعن وتشنیع کا آغاز کیا، خصوصاً کراچی میں دار الموطا نامی ادارے نے عوام اور حکومتی اداروں میں منفی لٹریچر تقسیم کر کے اس کارِ مذموم میں ’قیادت کا فریضہ‘ سر انجام دیا ہے، چونکہ دیگر ناقدین کے اعتراضات بھی اسی لٹریچر کا چربہ ہیں لہٰذا ہم نے مناسب سمجھا کہ دار الموطا کے تقسیم کردہ کتابچہ کو من و عن شائع کرتے ہوئے ادارے کے مؤقف کے ساتھ ساتھ دیگر علمی وعوامی شخصیات کا اس پر تنقیدی جائزہ پیش کریں اور فیصلہ معزز قارئین پر چھوڑ دیا جائے۔ (ادارہ)