کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
پاکستان میں انتخابات کی کہانیاں
وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 2 جون 2013
پاکستان کے انتخابات کی تاریخ پاکستان سے بھی پہلے شروع ہوتی ہے جب دسمبر انیس سو پینتالیس 1945 میں جداگانہ بنیادوں پر ہندوستان کی مرکزی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور کانگریس نے اسی فیصد سے زائد غیر مسلم نشستیں اور مسلم لیگ نے تیس کی تیس مخصوص مسلم نشستیں پاکستان کے نام پر جیت لیں۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ نے صوبہ سرحد کو چھوڑ کر دیگر مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی اچھی خاصی نشستیں حاصل کرلیں۔ لیکن یہ انتخابات ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر نہیں تھے۔ بلکہ ووٹر بننے کے لئے صاحبِ جائیداد یا ٹیکس دھندہ ہونے کی شرط تھی۔ ہر ایرا غیرا ووٹ نہیں دے سکتا تھا۔
پاکستان کی پہلی انہتر 69 رکنی قانون ساز اسمبلی انہی مسلم اور چند مقامی غیر مسلم نمائندوں کو ملا کر بنائی گئی تھی۔ ان میں سے چوالیس 44 کا مشرقی بنگال سے، سترہ 77 کا مغربی پنجاب سے ، چار 4 کا سندھ سے، تین 3 کا صوبہ سرحد سے اور ایک کا کوئٹہ میونسپلٹی سے تعلق تھا (اس وقت بلوچستان کا وجود نہیں تھا۔ اور ریاست قلات پاکستان میں شامل نہیں تھی)۔
پاکستان بننے کے بعد پہلے انتخابات مارچ انیس سو اکیاون 1951 میں پنجاب اسمبلی کی ایک سو ستانوے 197 نشستوں کے لیے ہوئے۔ جن میں سات 7 جماعتوں نے حصہ لیا اور ووٹرز لسٹ میں صرف ایک ملین ووٹر تھے۔ لیکن ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح تیس فیصد سے بھی کم رہی۔ دسمبر انیس سو اکیاون 1951 میں سرحد اسمبلی کے، مئی تریپن میں سندھ اسمبلی کے انتخابات ہوئے جن میں مسلم لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی۔
البتہ اپریل انیس سو چون 1954 میں جب مشرقی پاکستان اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو بنگالی قوم پرست جماعتوں کے اتحاد جگتو فرنٹ کے ہاتھوں مسلم لیگ کو پہلی بھر پور انتخابی زک پہنچی کیونکہ مسلم لیگ بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حق میں نہیں تھی۔
انیس سو اکیاون 1951 سے چون 54 تک کے عرصے میں ہونے والے ان انتخابات کا معیار کیا تھا اس کا اندازہ جھرلو کی اصطلاح سے ہو سکتا ہے جو پہلے پہل پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کی نشاندھی کے لیے استعمال ہوئی۔
انیس سو چھپن 1956 میں انتخابی اصلاحات کی تجاویز دینے والے سرکاری کمیشن نے اعتراف کیا کہ پاکستان بننے کے بعد سات برس کے عرصے جتنے بھی صوبائی انتخابات ہوئے وہ جعل سازی، فراڈ اور مذاق سے زیادہ نہیں تھے۔
اور پھر انہی منتخب صوبائی اسمبلیوں نے انیس سو چون 1954 میں پاکستان کی دوسری مجلسِ قانون ساز تشکیل دی جس نے ون یونٹ نظام کے تحت انیس سو چھپن 1956 کا پہلا آئین بنایا۔ یہ اسمبلی اسی ارکان پر مشتمل تھی یعنی ملک کے دونوں حصوں سے چالیس چالیس ارکان لیے گئے تھے۔ آئین کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ ایک تین رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دیا۔
لیکن اس سے پہلے کہ یہ الیکشن کمیشن انتخابات کرا پاتا۔ صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کی مدد سے سات اکتوبر انیس سو اٹھاون کو مارشل لا لگا کر آئین، اسمبلی اور الیکشن کمیشن کو ہی لپیٹ دیا۔ اور پھر بیس روز بعد جنرل ایوب نے سکندر مرزا کی بساط لپیٹ دی۔ بہت سے سیاستداں اور اسمبلی ارکان کو سات برس کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ ایک اور آئینی کمیشن بنا جس نے سن باسٹھ کا صدارتی آئین بنایا۔
بنیادی جمہوریت کے انتخابات
انیس سو باسٹھ 1962 کے آئین کے تحت ایک سو چھپن 156 ارکان پر مشتمل جو قومی اسمبلی تین 3 برس کے لیے وجود میں آئی، اس کا چناؤ عوام نے نہیں بلکہ صدر ایوب کے بنیادی جمہوریتی نظام کے تحت عوامی ووٹ سے بننے والے اسی ہزار بیسک ڈیموکریٹس نے کیا۔ بعد ازاں آئین میں ترمیم کرکے اسمبلی کے ارکان کی تعداد دو سو اٹھارہ 218 اور الیکٹورل کالج (بیسک ڈیموکریٹس) کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک کر دی گئی۔
انہی بیسک ڈیمو کریٹس نے جنوری انیس سو پینسٹھ 1965 کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لئے صدر منتخب کیا۔ ایوب خان اس دوڑ میں مسلم لیگ کنونشن کے حمائیت یافتہ تھے۔ جبکہ فاطمہ جناح کی حمائیت کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز نامی پانچ جماعتی اتحاد کر رھا تھا۔ الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لئے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی۔
لیکن جب اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ عام لوگ فاطمہ جناح کو سننے کے لیے جوق در جوق آ رہے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے ہر فریق کے لیے زیادہ سے زیادہ نو پروجیکشن میٹنگز منعقد کرنے کی حد لگا دی۔ جن میں صرف الیکٹورل کالج کے بیسک ڈیموکریٹس یا صحافی شریک ہو سکتے تھے۔ عوام کو ان اجلاسوں میں آنے کی ممانعت تھی۔
عجیب بات ہے کہ ایوب خان جنہیں عام طور پر ایک لبرل اور سیکولر شخصیت سمجھا جاتا تھا انہوں نے کئی علماء سے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ لیا۔ جبکہ جماعتِ اسلامی نے کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ایوب خان کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ باسٹھ کے آئین کے تحت اس وقت تک صدر رہ سکتے تھے جب تک انکا جانشین منتخب نہ ہو جائے۔
چنانچہ ایوب خان بحثیت صدر پوری سرکاری مشینری اور ہر طرح کا دباؤ برتنے کے بعد حسبِ توقع بھاری اکثریت سے فاطمہ جناح کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی حلقوں میں جو مایوسی پھیلی اس نے تین برس بعد ایوب خان کے خلاف بھرپور ملک گیر ایجی ٹیشن کی بنیاد رکھ دی۔
جاری ھے