• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں دہشت گردی… بیرونی ہاتھ ملوث ہے ۔۔پروفیسر حافظ محمد سعید

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فوج کی ڈاکٹرائن تبدیل، دہشت گردی بڑا خطرہ قرار۔

جمعرات۔ 3 جنوری 2013ء​
اسلام آباد: پاک فوج نے دہائیوں پرانی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے دہشت گردی کو ملکی سلامتی کیلیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیدیا ہے۔

نئے فوجی ڈاکٹرائن کے مطابق قبائلی علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں اور بڑے شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملوں کو قومی سلامتی کیلیے حقیقی اور سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، نیا فوجی ڈاکٹرائن آپریشنل تیاریوں کے متعلق ہے۔ فوج دہائیوں تک بھارت کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتی رہی مگر ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی نے فوجی اتھارٹیز کو اپنی حکمت عملی پر غور کرنے پر مجبور کردیا۔

سینئیر فوجی حکام نے ''ایکسپریس ٹریبیون'' کو بتایا کہ آرمی ڈاکٹرائن میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا گیا ہے جو نیم روایتی خطرات کے متعلق ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاک فوج کو روایتی خطرات سے نمٹنے کیلیے تیار کیا جاتا تھا مگر موجودہ صورتحال نے تبدیلی کو ناگزیر کردیا اور قبائلی علاقوں میں لڑنے والی فوج کو ضروریات کے مطابق تربیت دی گئی ہے، نئے ڈاکٹرائن پر ایک سال قبل کام شروع کیا گیا تھا اور اب اس کو اختیار کیا گیا ہے۔ نئے ڈاکٹرائن میں نام لیے بغیر بعض تنظیموں اور عناصر کا ذکر کیا گیا ہے جو ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے دوسری طرف افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا بھی ذکر ہے۔

کسی ملک کا نام لیے بغیر پروکسی وار کا بھی ذکر ہے مگر خیال کیا جا رہا ہے کہ اس سے مراد بلوچستان میں بھارتی مداخلت ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے رابطہ کرنے پر پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فوج ہر طرح کے خطرات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے، نیم روایتی خطرات حقیقی ہیں اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا حصہ ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روایتی خطرے کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ فوجی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مغربی سرحدوں سے کسی سنگین خطرے کی عدم موجودگی اور دفاعی افواج کا تمام ارتکاز مشرقی سرحدوں کی جانب ہونے کے باعث پاکستانی مسلح افواج اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی غرض سے آنے والے امریکی ہیلی کاپٹروں کی بر وقت نشاندہی نہیں کر سکی۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس ڈاکٹرن کے شائع ہونے سے پہلے تک بھارت ہی پاکستان کا دشمن نمبر ایک رہا ہے، پاکستانی فوج کے تمام اثاثے صرف اسی دشمن کے لیے بنتے اور جمع ہوتے رہے ہیں، یہ پہلی بار ہے کہ پاکستانی فوج نے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ اب ملک کو اصل خطرہ اندرونی ہے جس کا ارتکاز مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہے۔ نئی حکمت عملی اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ دفاعی پالیسی بنانا صرف فوج کا کام نہیں، ریاست کے دیگر اداروں کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ امکان ہے کہ عوامی حمایت حاصل کرنے کیلیے نیا فوجی ڈاکٹرائن پبلک بھی کیا جائے گا۔

شاید اب مذکورہ بالا ڈاکٹرائن کو تبدیل کرنے کے لئے ‘‘بیرونی ہاتھ’’ کی بحث چھیڑنے کی شروعات ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اسلام آباد (بی بی سی اردو ڈاٹ کام + نیٹ نیوز) پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے گیارہ سال بعد اپنی آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے ملک کو لاحق اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار ے دیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق پاکستانی فوج کی جانب سے شائع کردہ نئے فوجی نظرئیے یا "آرمی ڈاکٹرائن" میں ملک کی مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری شدت پسندوں کی کارروائیوں اور بعض تنظیموں کی جانب سے اداروں اور شہریوں پر بم حملوں کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن فوج اپنی جنگی تیاریوں اور استعدادِ کار کے جائزے اور اسے درست سمت میں رکھنے کے لیے شائع کرتی ہے۔ اس بار اس "سبز کتاب" (گرین بک) میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے جسے "سب کنونشنل وار فیئر" یا نیم روایتی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگ کے کرداروں میں نام لیے بغیر بعض تنظیموں اور عناصر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس ذیل میں مغربی سرحد کے اس پار سے ہونے والی کارروائیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

دفاعی مبصرین مغربی سرحد اور اس کے قریب پیدا ہونے والے ان اندرونی و بیرونی خطرات کا ادراک کرنے کو پاکستان کی فوجی پالیسی میں بنیادی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے اس بارے میں کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ پاکستانی فوج نے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ اب ملک کو اصل خطرہ اندرونی ہے جس کا ارتکاز مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہے۔ طلعت مسعود نے کہا کہ فوجی نظرئیے یا ڈاکٹرائن میں اس تبدیلی سے پتہ چلتا ہے کہ فوج اب اپنی آپریشنل تیاریوں اور منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت اس "نیم روایتی جنگ" کو دے رہی ہے جس کا ہدف ممکنہ طور پر تحریکِ طالبان پاکستان اور افغان سرحد کے اس پار ان کے اتحادی ہیں۔

اس فوجی نظرئیے کی تیاری میں کردار ادا کرنے والے ایک سینئر فوجی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ نیم روایتی جنگ کے نام سے نیا باب شامل کرنے کا مقصد فوج کو اس نئے خطرے سے لڑنے کے لیے تیار کرنا اور اس کے لیے ضروری عوامی اور سیاسی حمایت کا حصول ہے۔

سبز رنگ کی یہ کتاب (گرین بک) دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جسے متعلقہ فوجی کمانڈروں میں تقسیم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دستاویز کو عوام تک پہنچانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور مناسب وقت آنے پر اسے فوج کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے گا۔

اس "سبزکتاب" میں کہا گیا ہے کہ بعض تنظیمیں اور عناصر پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی غرض سے قبائلی اور شہری علاقوں میں دہشت گردی کارروائیاں کر رہی ہیں۔ 'یہ حملے انتہائی درجے کی سفاک اور مہلک منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جا رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اسی درجے کی تیاریوں اور جوابی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔

غیر روایتی جنگ کے باب میں "پراکسی وار" کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں تشدد کی وجہ یہ عنصر بھی ہے۔ تاہم اس ذیل میں کسی ملک کا نام تحریر نہیں کیا گیا۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا باضابطہ اعتراف اور دستاویزی شکل میں ان خطرات کو شائع کرنے سے فوج کی صلاحیتوں کو ان کے خلاف بہتر طور پر استعمال کرنے کا موقع بھی ملے گا۔

ان فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ مغربی سرحدوں سے کسی سنگین خطرے کی عدم موجودگی اور دفاعی افواج کا تمام ارتکاز مشرقی سرحدوں کی جانب ہونے کے باعث پاکستانی مسلح افواج اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی غرض سے آنے والے امریکی ہیلی کاپٹروں کی بروقت نشاندہی نہیں کر سکیں۔ اس افسر کے مطابق ایبٹ آباد کمشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے فضائی افواج کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر فضائیہ کے اثاثے اس تعداد میں موجود نہیں کہ وہ اس طرح کی کارروائی کی بروقت اطلاع دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی فوج کی توجہ کا محور مشرقی سرحد ہی رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بیان نے پاکستان کے دفاعی پالیسی سازوں کو اپنی پالیسی میں اس بنیادی تبدیلی کے حق میں فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔

اس کے علاوہ، فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ نومبر 2011ء میں سلالہ کے مقام پر پاکستانی فوج پر نیٹو افواج کے حملے کو روکنے اور جوابی کارروائی کے لیے بھی مقامی کمانڈرز کے پاس اختیارات اور معقول اثاثے نہ ہونا بھی اس نئی "غیر روایتی جنگ" کی اصطلاح کی تخلیق کا باعث بنا ہے۔

شاید اب مذکورہ بالا ڈاکٹرائن کو تبدیل کرنے کے لئے ''بیرونی ہاتھ'' کی بحث چھیڑنے کی شروعات ہیں۔
 
Top