عمران اسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 333
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 204
ماہرین فلکیات کے مطابق آج رات پاکستان میں چاند گرہن ہوگا۔ سورج اور چاند گرہن کےبارے میں متعدد معاشرے افراط و تفریط کاشکار نظر آتے ہیں ہیں۔ کہیں تو سورج گرہن کا نظارہ کرنے کے لئے پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں تو کہیں اس دوران حاملہ خواتین کو کمروں میں بند کر دیا جاتا ہے اور انہیں چھری، کانٹے وغیرہ کے استعمال سے روک دیاجاتاہے تاکہ بچے پیدائشی نقص سے پاک پیداہوں۔
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں جب سب سے پہلا سورج گرہن ہوا اتفاق سے اسی دن آپ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ لہذا لوگ کہنے لگے کہ سورج گرہن آپﷺ کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔ حضورﷺ نے اس ضعیف الاعتقادی کو ان الفاظ سے رد فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا
(صحيح بخاری: 1041)
سورج اور چاند کسی کے مرنے سے گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو قدرت الٰہی کی دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔
ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
شمس و قمر اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو گہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔ چنانچہ جب تم انہیں اس حالت میں دیکھو تو اللہ تعالی سے دعا کرو اور نماز پڑھو حتیٰ کہ سورج گہن کھل جائے۔ (صحيح بخاری: 1043)
صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث میں مرقوم ہےکہ آپﷺ نے فرمایا:
’’چاند اور سورج کا گرہن آثار قدرت ہیں۔ کسی کے مرنے، جینے (یا کسی اوروجہ)سے نمودار نہیں ہوتے۔ بلکہ اللہ اپنے بندوں کو عبرت دلانے کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔ اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد دعا، استغفار اور یاد الٰہی کی طرف رجوع کرو۔‘‘ (صحیح بخاری : 1059)
لہذا جب ایسا معاملہ پیش آئے تو اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ اس نظارہ سے محظوظ ہونے اور توہمات کا شکار ہونے بجائے دربار خداوندی میں حاضری دیں اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ کیونکہ سورج اور چاند گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ان كى ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ڈراتاہے اور ان کے ذہنوں میں قیامت کا منظر تازہ کرتا ہے کہ اس دن سورج لپیٹ دیا جائے گا اور ستارے توڑ دئیے جائیں گے، سورج اور چاند جمع کردئیے جائیں گے، وہ دونوں بے نور ہو جائیں گے۔ سرورکائنات ﷺ کا شمس و قمر کے گہنائے جانے پر عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ گھبرا اٹھتے اور نماز پڑھتے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ جب سورج گرہن ہوا تو آپﷺ نے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا:
أَنَّ الصَّلاَةَ جَامِعَةٌ
’’نماز (تمہیں) جمع کرنے والی ہے۔(تمہیں بلا رہی ہے۔)‘‘ (صحیح بخاری : 1045)
سورج و چاند گرہن کی نماز کا طریقہ
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ
نبی كريم ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھائی۔ آپ نے سورہ بقرۃ کی مقدار کے قریب لمبا قیام کیا پھر لمبار رکوع کیا، پھر سر اٹھاکر پہلے قیام سے کم لمبا قیام کیا، پھر پہلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، پھر (قومہ کرکے) دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوکر پچھلے قیام سے کم لمبا قیام کیا پھر پچھلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا پھر پچھلے قیام سے کم لمبا قیام کیا پھر پچھلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا ، پھر دو سجدے کیے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیرا۔ اتنی دیر میں سورج روشن ہوچکا تھا۔ پھر آپﷺ نے لوگوں کو وعظ بھی کیا۔ (صحیح بخاری : ١٠٥٢)
گرہن کی نماز کے طریقے میں اگرچہ اختلاف موجود ہے لیکن جمہور نے اسی طریقہ کو ترجیح دی ہے۔
نماز کسوف سے ملحقہ مسائل
نماز کسوف کے حوالے سے درج ذیل مسائل ملحوظ رکھنا ضروری ہیں:
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں جب سب سے پہلا سورج گرہن ہوا اتفاق سے اسی دن آپ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ لہذا لوگ کہنے لگے کہ سورج گرہن آپﷺ کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔ حضورﷺ نے اس ضعیف الاعتقادی کو ان الفاظ سے رد فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا
(صحيح بخاری: 1041)
سورج اور چاند کسی کے مرنے سے گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو قدرت الٰہی کی دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔
ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
شمس و قمر اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو گہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔ چنانچہ جب تم انہیں اس حالت میں دیکھو تو اللہ تعالی سے دعا کرو اور نماز پڑھو حتیٰ کہ سورج گہن کھل جائے۔ (صحيح بخاری: 1043)
صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث میں مرقوم ہےکہ آپﷺ نے فرمایا:
’’چاند اور سورج کا گرہن آثار قدرت ہیں۔ کسی کے مرنے، جینے (یا کسی اوروجہ)سے نمودار نہیں ہوتے۔ بلکہ اللہ اپنے بندوں کو عبرت دلانے کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔ اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد دعا، استغفار اور یاد الٰہی کی طرف رجوع کرو۔‘‘ (صحیح بخاری : 1059)
لہذا جب ایسا معاملہ پیش آئے تو اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ اس نظارہ سے محظوظ ہونے اور توہمات کا شکار ہونے بجائے دربار خداوندی میں حاضری دیں اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ کیونکہ سورج اور چاند گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ان كى ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ڈراتاہے اور ان کے ذہنوں میں قیامت کا منظر تازہ کرتا ہے کہ اس دن سورج لپیٹ دیا جائے گا اور ستارے توڑ دئیے جائیں گے، سورج اور چاند جمع کردئیے جائیں گے، وہ دونوں بے نور ہو جائیں گے۔ سرورکائنات ﷺ کا شمس و قمر کے گہنائے جانے پر عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ گھبرا اٹھتے اور نماز پڑھتے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ جب سورج گرہن ہوا تو آپﷺ نے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا:
أَنَّ الصَّلاَةَ جَامِعَةٌ
’’نماز (تمہیں) جمع کرنے والی ہے۔(تمہیں بلا رہی ہے۔)‘‘ (صحیح بخاری : 1045)
سورج و چاند گرہن کی نماز کا طریقہ
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ
نبی كريم ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھائی۔ آپ نے سورہ بقرۃ کی مقدار کے قریب لمبا قیام کیا پھر لمبار رکوع کیا، پھر سر اٹھاکر پہلے قیام سے کم لمبا قیام کیا، پھر پہلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، پھر (قومہ کرکے) دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوکر پچھلے قیام سے کم لمبا قیام کیا پھر پچھلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا پھر پچھلے قیام سے کم لمبا قیام کیا پھر پچھلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا ، پھر دو سجدے کیے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیرا۔ اتنی دیر میں سورج روشن ہوچکا تھا۔ پھر آپﷺ نے لوگوں کو وعظ بھی کیا۔ (صحیح بخاری : ١٠٥٢)
گرہن کی نماز کے طریقے میں اگرچہ اختلاف موجود ہے لیکن جمہور نے اسی طریقہ کو ترجیح دی ہے۔
نماز کسوف سے ملحقہ مسائل
نماز کسوف کے حوالے سے درج ذیل مسائل ملحوظ رکھنا ضروری ہیں:
- نماز کسوف کا پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
- نما ز کسوف مسجد میں ہی ادا کی جائے گی۔
- نماز کسوف کے لیے اذان و اقامت نہیں کہی جائے گی۔
- نماز کسوف کا باجماعت ادا کرنا بہتر ہے۔
- راجح قول کے مطابق نماز کسوف میں قراء ت جہری ہو گی۔
- پہلے رکوع کے بعد قومہ میں سورۃ فاتحہ دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی۔
- رکوع میں رکوع کی عام ثابت دعائیں ہی پڑھی جائیں گی۔
- نماز کسوف کے بعد خطبہ دینا مسنون عمل ہے۔