شیخ رفیق طاھر حفظہ اللہ
ماروی میمن نے بچیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کے لیے ایک بل پیش کیا , جسے ڈاکٹر عبد الکریم صاحب حفظہ اللہ نے خلاف شریعت کہہ کر مسترد فرما دیا ۔ لیکن شاید حافظ صاحب حفظہ اللہ کا اس خلاف شریعت بل کو رد کرنا کچھ لوگوں کو ہضم نہ ہوسکا تو انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کر دی۔ اسی سلسلہ میں محترم قاری حنیف ڈار صاحب کی ایک تحریر بعنوان
"دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے" نظروں سے گزری جس میں موصوف نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری کی اس حدیث پر طعن کیا جس میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ نے نکاح کے وقت اپنی عمر مبارک چھ سال ذکر فرمائی ہے۔آپ فرماتی ہیں:
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَأُدْخِلَتْ عَلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَكَثَتْ عِنْدَهُ تِسْعًا»
نبی ﷺ نے ان سے جب نکاح کیا تو وہ چھ سال کی تھیں اور جب انکی رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں۔ اور وہ آپ ﷺ کے پاس نو سال تک رہیں۔
[صحیح البخاری:5133]
موصوف نے اس عمر میں شادی کو شرمناک فعل قرار دے کرایک طرف تو امام الانبیاء جناب محمد مصطفى کی توہین کا ارتکاب کیا ہے اور دوسری طرف کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کی اصحیت پر کیچڑ اچھال کر امت کےاتفاق کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ موصوف اس بات پہ مصر ہیں کہ کمسن بچیوں کی شادی نہیں ہوسکتی۔ اور نبی مکرم کی شادی بھی سیدہ عائشہ سے چھ سال کی عمر میں نہیں ہوئی, بلکہ یہ بات رسول مکرم کی طرف غلط منسوب ہے۔ اپنے ان نظریات کا اظہار واضح لفظوں میں کرنے کی بجائے رقمطراز ہیں :
"نہ تو اپنی بیٹی ، پوتی ،نواسی کوئی چھ سال کی عمر میں کسی 53 سال کے مفتی صاحب کو دیتا ھے اور نہ ھی کوئی مفتی 53 سال کی عمر میں کسی 6 سال کی بچی سے نکاح کرتا ھے ،، سب کو اپنا اپنا امیج بہت عزیز ھے ،، اس سے بڑھ کر کوئی نفاق نہیں ھے کہ جس کام کو خود شرمناک سمجھتے ھیں اسے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرتے ھوئے ان کو شرم محسوس نہیں ھوتی ھے ،،ایک راوی نے قرآن کی نکاح کے لئے رشد کی عمر کی شرط کو ساقط کر دیا ھے ،، اور اسی ایک حدیث کو بنیاد بنا کر قرآن کو معطل کر کے رکھ دیا گیا ھے"
موصوف کی اس عبارت سے درج ذیل باتیں صاف جھلکتی ہیں:
1- سیدہ عائشہ صدیقہ کے چھ سال کی عمر میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی سے متعلق روایات جھوٹی اور غلط ہیں۔
2- ایک راوی(جس نے مذکورہ روایت بیان کی) کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔
3- مذکورہ روایت کی وجہ سے قرآن کا حکم معطل کر دیا گیا۔
4- کمسنی کی شادی شرمناک فعل ہے۔
ہم سب سے پہلے روایت پر بات کریں گے کیونکہ تمام تر باتیں اسی کے گرد گھوم رہی ہیں ۔تو اس روایت کے صحیح ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ روایت دو ایسی کتابوں میں موجود ہے جنہیں امت نے صحیح ترین کتب قرار دیا ہے۔ یعنی صحیح البخاری(5133) اور صحیح مسلم(1422)۔ اور یہ روایت صرف انہی دو کتب میں نہیں بلکہ انکے سوادیگر کتب میں بھی موجود ہے۔ اور پھر موصوف کے اس فرمان کہ
" ایک راوی نے قرآن کی نکاح کے لئے رشد کی عمر کی شرط کو ساقط کر دیا ہے"
سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ روایت کسی ایک ہی راوی نے بیان کی ہے۔ جبکہ صرف انہیں دو کتب کو ہی سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ اس روایت کو سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت کرنے والے دو مختلف اشخاص ہیں ایک کانا م اسود ہے اور دوسرے کا عروہ , عروہ سے انکے بیٹے ہشام اور امام زہری روایت کرتے ہیں تو اسود سے انکے شاگرد رشید ابراہیم , پھر ابراہیم سے یہ روایت نقل کرنے والے اعمش ہیں اور زہری سے معمر, اور ہشام سے عبدہ بن سلیمان , سفیان, علی بن مسہر,وہیب وغیرہ ہیں۔ یعنی یہ روایت کسی "ایک" راوی کی مرہون نہیں ہے۔ اس صحیح حدیث پر طعن کرنےکے لیے موصوف نے قرآن مجید فرقان حمید کی ایک آىت کو بنیاد بنانے کی کوشش کی ہے۔ جو درج ذیل ہے:
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْداً فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ
اور یتیموں کو آزماؤ حتى کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں, تو اگر تم ان میں کوئی بھلائی دیکھو تو انکے مال انکے سپرد کر دو۔ [النساء : 6] اس آیت کو بنیاد بناتے ہوئے موصوف رقمطراز ہیں:
"تقسیمِ وراثت میں تو نکاح کی عمر کو فرض سمجھ لیا گیا ھے جو کہ شعور کے ساتھ مشروط ھے ،مگر نکاح 6 ماہ کی بچی کا بھی کیا جا سکتا ھے گویا نکاح کی وہ عمر ھی سراب ٹھہری جس کو اللہ نے تقسیمِ وراثت کا پیمانہ بنایا تھا "
موصوف کی درج بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ
1- موصوف "تقسیم وراثت" کے لیے نکاح کی عمر کو فرض سمجھتے ہیں۔اور اسے "رشد" سے مشروط کرکے تقسیم وراثت کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔
2- بلوغت سے قبل نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ نے نکاح کی عمر کو "تقسیم وراثت" کے لیے شرط نہیں قرار دیا بلکہ آیت کے الفاظ سے کسی بھی ادنی شعور رکھنے والے کو یہ بات واضح سمجھ آسکتی ہے کہ نکاح کی عمر کو جس کام کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے وہ ہے "مال سپرد کرنا" ۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ جب ورثاء سب نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور ان میں رشد بھی آ جائے تو تب مال وراثت تقسیم کیا جائے۔ بلکہ اس سے قبل بھی وراثت تقسیم کی جاسکتی ہے ۔ اور ایسے بچوں کے حصص جو ابھی سمجھدار نہیں ہوئے انکےسپرد کرنے کی بجائے ان کے سرپرست اپنے پاس محفوظ رکھیں اور جب بچے سمجھدار ہو جائیں تو پھر وراثت میں انکا جو حصہ تھا وہ انکے سپرد کر دیا جائے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مال کی حوالگی کے لیے اللہ تعالى نے محض "نکاح" کی عمر کو شرط قرار نہیں دیا بلکہ اس عمر نکاح کے ساتھ "رشد" یعنی سمجھدار ہونے کو بھی شامل کیا ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نکاح سمجھدار ہونے سے پہلے بھی کیا جاسکتا ہے! کیونکہ اگر نکاح کے صحیح ہونے کے لیے سمجھدار ہونا شرط ہوتا تو اللہ تعالى صرف عمر نکاح کا تذکرہ فرماتے کہ سمجھداری اس میں ضمناً ہی موجود ہے۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں تھا اس لیے اللہ نے بَلَغُواْ النِّكَاحَ کے بعد ایک اور شرط فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْداً کہہ کر لگائی کہ جب یہ دونوں کام ہو جائیں بچے نکاح کی عمر کو بھی پہنچ جائیں اور ان میں سمجھداری بھی آ جائے تو تب انکے مال انکے سپرد کر دیے جائیں۔ اس بات کو سمجھتے ہی یہ مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ موصوف جس آیت سے کمسنی میں نکاح کا عدم جواز کشید فرما رہے تھے , وہی آیت انکے موقف کے خلاف دلیل ہے! کیونکہ کتاب اللہ یعنی قرآن مجید فرقان حمید ایسی معجز کتاب ہے کہ :
لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ
باطل نہ اسکے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے , (یہ قرآن) نہایت دانا, بہت زیادہ تعریف کی گئی ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ [فصلت : 42]
رہا یہ سوال کہ شادی کی عمر کیا ہے؟ تو اسکی بابت عرض ہے کہ شادی کے دو بڑے حصے ہیں ایک نکاح محض اور دوسرا رخصتی ۔ جہاں تک نکاح کا تعلق ہے تو وہ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہوسکتا ہے۔ نومولود بچے کا نکاح بھی ہوسکتا ہے اور اسکی طرف سے اسکے اولیاء وکیل بن کر قبول کریں گے۔ اور جہاں تک رخصتی کا معاملہ ہے تو اسکے لیے ہمبستری کے قابل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اس میں یہی مقصودِ اصلی ہے۔ اور اس بات کا فیصلہ صحت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے اس بارہ کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اور یہی بات ڈاکٹر حافظ عبد الکریم صاحب حفظہ اللہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس میں فرمائی تھی کہ
"اگر 18 برس سے کم عمر لڑکی کی شادی مقصود ہو تو اسکے لیے میڈیکل افسر کے سرٹیفکیٹ کی شرط عائد کی جاسکتی ہے, اور سرٹیفیکٹ یہ ہو کہ بچہ پیدا ہونے کی صورت میں لڑکی کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔"
حافظ صاحب موصوف نے ماروی میمن صاحبہ کے پیش کردہ بل کو صرف مسترد ہی نہیں کیا بلکہ انکے تحفظات کا علاج بھی مذکورہ بالا مشورہ کے ساتھ فرما دیا ہے۔ اور پھر موصوف حنیف ڈار صاحب کی پیش کردہ وہ آیت جسے وہ اپنے حق میں سمجھ رہے تھے , جب انکے موقف کے خلاف واضح طور پر دلیل ہے ۔اور سمجھداری کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی نکاح کے قابل ہو جانے پر دلیل ہے تو پھر کمسنی کی شادی کو "شرمناک" قرار دینا نہ صرف رسول اللہ کی توہین ہے بلکہ یہ قرآن مجید فرقان حمید کی بھی توہین اور اللہ کی شان میں بھی گستاخی ہے۔ اور صرف یہی ایک آیت نہیں , قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالى نے ایسی بچیوں کے نکاح کے بعد کے احکامات بھی ذکر فرمائے ہیں جن کی شادی بلوغت سے قبل ہو جاتی ہے اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کر لیے جاتے ہیں ۔ اگر یہ سب ناجائز اور غلط ہوتا , تو اللہ اپنی پاک کتاب میں اس عمل کو ہی حرام ٹھہراتے نہ کہ اس پر مرتب ہونے والے احکامات ذکر کرتے۔ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں طلاق یافتہ عورتوں کی عدت مختلف اعتبارات سے مختلف بیان فرمائی ہے۔ اگر تو کسی عورت کو نکاح کے بعد طلاق دے دی گئی ہے اور رخصتی نہیں ہوئی یا رخصتی بھی ہوئی ہے لیکن ابھی تک انکے خاوندوں نے انکے ساتھ ہمبستری نہیں کی اور پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو ایسی عورتوں پر کوئی عدت نہیں ہے وہ طلاق کے فورا بعد چاہیں تو اسی دن ہی کسی بھی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہیں :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا "
اے اہل ایمان جب تم مؤمنہ عورتوں سے نکاح کرو اور انہیں چھونے (ہمبستری کرنے ) سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہاری خاطر ان کے ذمہ کوئی عدت نہیں ہے ۔ " [الأحزاب : 49]
اور وہ عورتیں جنہیں حیض آتا ہے ان کی عدت تین حیض متعین کی گئی ہے :
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَءٍ "
اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں (یعنی عدت گزاریں ) " [البقرة : 228]
اور وہ خواتین جنہیں حیض نہیں آتا: اگر تو حمل کی وجہ سے حیض کی بندش ہے تو انکی عدت وضع حمل ہے اور اگر وہ بانجھ ہو چکی ہیں یا ابھی انہیں حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا یعنی نابالغ ہیں اور انہیں طلاق دے دی گئی ہے تو انکی عدت تین ماہ ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ "
اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع نہیں ہوا , اور حمل والی خواتین کی عدت وضع حمل ہے ۔" [الطلاق : 4]
اللہ رب العالمین کے اس فرمان کی روشنی میں یہ بات نہایت ہی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ عورت اگر نابالغ ہو تو بھی اس سے نکاح کیا جاسکتا ہے , رخصتی ہوسکتی ہے , خاوند اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرسکتا ہے ۔ کیونکہ ازوداجی تعلقات قائم کرنے سے پہلے ہی اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ کو طلاق دے دے تو اس پر عدت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالى کے فرمان سے یہ بات واضح کی جاچکی ہے ۔اور اس آخری آیت میں اللہ تعالى نے ان عورتوں کی عدت بیان کی ہے جنہیں حیض نہیں آیا اور طلاق دے دی گئی , اور یہ بات تو ہر کسی کو علم ہے کہ طلاق صرف اسے ہی دی جاسکتی ہے جس سے نکاح کیا گیا ہو , غیر منکوحہ عورت کو طلاق دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اور وہ عورت جسے طلاق دے دی گئی جبکہ اسے ابھی حیض آیا ہی نہیں ہے یعنی وہ بالغ ہوئی ہی نہیں ہے تو اسے تین ماہ تک عدت گزارنے کا حکم دیا جا رہا ہے , جبکہ غیر مدخول بہا عورت کے لیے عدت ہے ہی نہیں , تو اس سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ یہ ایسی نابالغ عورت کی عدت ہے جس سے بلوغت سے قبل ہی نکاح کیا گیا اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کیے گئے اور قبل ازبلوغت ہی اسے طلاق بھی دے دی گئی ۔اگر قبل از بلوغت عورت سے نکاح کرنا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا ناجائز ہوتا تو اللہ سبحانہ وتعالى کبھی اس قسم کی عورت کے لیے طلاق کی عدت مقرر نہ فرماتے ۔جبکہ اللہ تعالى کے فرمان , قرآن مجید فرقان حمید سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ نابالغہ عورت سے نکاح کیا جاسکتا ہے , اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں , اور اگر اسے طلاق ہو جائے تو اسے عدت گزارنے کا بھی حکم ہے ۔ موصوف قاری صاحب نے اس آیت پر بھی اعتراض وارد کیا ہے وہ فرماتے ہیں: "بات عورتوں کی ھو رھی ھے بچیوں کی نہیں ، اور 8 یا 9 یا 10 سال کی بچی کو عربی میں کبھی نساء اور اردو میں کبھی عورت نہیں کہتے" پہلی بات تو یہ ہے کہ موصوف نے یہاں "پیشہ ورانہ ہیرا پھیری" سے کام لیا ہے ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى کا فرمان ہے :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ "
اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع نہیں ہوا , اور حمل والی خواتین کی عدت وضع حمل ہے ۔" [الطلاق : 4]
یعنی لفظ "نساء" ان کے لیے استعمال کیا ہے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں, یعنی عمر رسیدہ خواتین کے لیے ۔ اور پھر اسکے ساتھ ساتھ انکی عدت کا بھی تذکرہ فرمایا ہے جنہیں کبھی حیض آیا ہی نہیں, اور انکے لیے اللہ تعالى نے لفظ وَاللَّائِي استعمال فرمایا ہے۔ اور یہ لفظ عورتوں , بچیوں سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ جنہیں حیض کبھی نہ آیا ہو وہ بچیاں بھی ہوسکتی ہیں اور بیمار لڑکیاں اور عورتیں بھی, سو ان سب کے لیے ایک ہی مشترکہ لفظ استعمال کر لیا گیا ہے۔ دوسری بات ہے کہ جب مختلف عمر کی صنف نازک کا ذکر ایک ہی لفظ میں کرنا ہو تو انکے لیے عربی میں "نساء, نسوۃ" اور اردو میں "عورتیں, خواتین" جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا اگر کہیں یہ لکھا ہو کہ مرد اِس کمرہ میں تشریف رکھیں اور عورتیں اُس کمرہ میں, تو بچیاں یا بچے ان کمروں کے علاوہ کوئی تیسرا یا چوتھا کمرہ نہیں تلاش کریں گے بلکہ بچیاں خواتین کے ساتھ داخل ہونگی اور بچے مردوں کے ساتھ۔ رہی موصوف کی یہ بات کہ: " نہ تو اپنی بیٹی ، پوتی ،نواسی کوئی چھ سال کی عمر میں کسی 53 سال کے مفتی صاحب کو دیتا ھے اور نہ ھی کوئی مفتی 53 سال کی عمر میں کسی 6 سال کی بچی سے نکاح کرتا ھے ،، سب کو اپنا اپنا امیج بہت عزیز ھے" تو یہ ہندوانہ معاشرہ کی ذہنیت کی عکاس ہے! وگرنہ آج بھی ہمارے معاشرہ میں چھ سال نہیں بلکہ چھ ماہ کی عمر میں بھی بعض خاندان اپنی بچیوں کا نکاح کر دیتے ہیں اور پھر انکے جوان ہونے کے بعد انکی رخصتی کی جاتی ہے۔ اور پھر جب ایک عمل کو اللہ نے حلال قرار دیا , اور امام الانبیا جناب محمد مصطفى نے اس پر عمل بھی کرکے دکھایا, اسے تسلیم کرنے سے اگر کسی کے دل میں کچھ تنگی ہے تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى فرماتے ہیں:
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً
پس نہیں!, تیرے رب کی قسم یہ ایمان نہیں لائیں گے! حتى کہ آپ کو اپنے اختلافات میں اپنا حاکم نہ تسلیم کرلیں, اور پھر جو فیصلہ آپ فرما دیں اسکے بارہ میں اپنے دلوں میں کچھ بھی گھٹن یا تنگی نہ رکھیں اور اسے خوش دلی سے تسلیم کر لیں۔ [النساء : 65]
اب ہماری ان معروضات کے بعد ہر صاحب "ایمان" کو دل تھام کر انصاف کرنا ہوگا کہ نبی مکرم کا عمل , اللہ کا حکم درست و صحیح ہے , یا مغرب گزیدہ ذہنیت کے خیالات وافکار؟
جبکہ اس معاشرہ میں پانچ سے دس سال کی عمر میں ماں بننے والی عورتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایک پانچ سالہ ماں کا مختصر تعارف آپ درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں:
http://youngest_mother.tripod.com/
اور اسکے علاوہ پانچ سے دس سالہ ماؤں کی ایک طویل فہرست ویکیپیڈیا کے درج ذیل لنک پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_youngest_birth_mothers