• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان میں کم عمری کی شادی سے پاک زون

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پاکستان کے معاملات میں گورڈن براؤن کی مداخلت پر دینی حلقے برہم ہو گئے۔ اُمت رپورٹ کے مطابق حافظ حسین نے کہا کم عمری کی شادی کیخلاف مہم بے راہ راوی پھیلانے کی سازش ہے۔ حنیف جالندھری نے کہا اقوام متحدہ اپنے چارٹر کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ابوالخیر زبیر نے کہا اسلامی احکامات میں مداخلت ہے۔ علامہ زاہد الراشدی اور فرید پراچہ نے بھی مذمت کی اور حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے گورڈن برائون نے پاکستان میں کم عمری کی شادی سے پاک زون بنانے کا اعلان کیا تھا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یہ اصل میں کم عمری کی شادی کے خلاف نہیں بلکہ پورے اسلام کے خلاف ہیں۔ یہ نبی کریمﷺ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے خلاف ہیں۔

قد بدت البغضاء من أفواههم وما تخفي صدورهم أكبر
بغض ان کے منہ سے پھوٹا پڑ رہا ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ تو اس سے بھی بڑا ہے۔

ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے ہاں جائز بچے تو چھوڑیں، ناجائز بچوں کی شرح پیدائش بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ مسلمان اگر اپنے دین اسلام کی دعوت بھی نہ دیں - جس میں ہماری انتہائی کوتاہی کے باوجود اللہ کےفضل سے دین اسلام قبول کرنے والوں کی شرح میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے - تب بھی کہیں صرف شرح پیدائش کی بناء پر ہی عنقریب مسلمان یورپ وامریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی طاقت نہ بن جائیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ کم عمری میں شادی سے جہاں مسلمان محفوظ قلعے میں آکر اپنا آدھا ایمان مکمل کرنے کرے گا، وہاں اس کے بچے بھی زیادہ ہوں گے جس کی طرف ہمارے نبی کریمﷺ نے بھی ہمیں توجہ دلائی ہے: تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم

یہ در اصل ڈالروں کا جھکاوا دے کر چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی شادی تیس تیس سال کی آدھی عمر گزارنے کے بعد ہو اور پھر ان کے غلیظ معاشروں کی طرح ہمارے ہاں زنا وفحاشی کا دور دورہ ہو۔ ان کے ہاں صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے بچے بچیاں غیر تو چھوڑیں اپنے عزیزوں بلکہ ماں باپ کے ہاتھوں جنسی تشدد سے محفوظ نہیں ہیں اور ہمارے ہاں آکر یہ کم عمری کی شادی کا رونا روتے ہیں۔

اس حوالے سے میری محترمہ خالہ کا یہ آرٹیکل بہت اچھا ہے۔ سب ساتھی اس کا ضرور مطالعہ کریں!

http://magazine.mohaddis.com/shumara/86-jul2005/1590-family-planing-aor-maghrbi-mafadat

اور یہ آرٹیکل بھی:
http://magazine.mohaddis.com/shumara/86-jul2005/1589-abadi-main-izafa-yourap-ki-awaleen-tarjeeh
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اس حوالے سے میری محترمہ خالہ کا یہ آرٹیکل بہت اچھا ہے۔ سب ساتھی اس کا ضرور مطالعہ کریں!
ماشاءاللہ بڑا مدلل مضمون ہے جس سے ناقدین کا منہ شرعی لثاظ کے ساتھ ساتھ دنیاوی لحاظ سے بھی بند ہو جاتا ہے اللہ انکو جزائے خیر دے امین
مگر مسئلہ یہ ہے کہ تقریبا تمام الیکٹرونک میڈیا ڈاکٹر راشدہ جیسی آزاد عورت کی تلبیسات کو تو مزین کر کے پیش کرتا ہے مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی وفادار خواتین کی اس بارے گواہیوں کو کبھی عوام کے سامنے نہیں آنے دیتا تاکہ تصویر کا دوسرا اور حقیقی رخ کسی کو نظر نہ آئے اور انکی بیرورنی طرف سے آنے والی روٹی چلتی رہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ اصل میں کم عمری کی شادی کے خلاف نہیں بلکہ پورے اسلام کے خلاف ہیں۔ یہ نبی کریمﷺ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے خلاف ہیں۔

قد بدت البغضاء من أفواههم وما تخفي صدورهم أكبر
بغض ان کے منہ سے پھوٹا پڑ رہا ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ تو اس سے بھی بڑا ہے۔

ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے ہاں جائز بچے تو چھوڑیں، ناجائز بچوں کی شرح پیدائش بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ مسلمان اگر اپنے دین اسلام کی دعوت بھی نہ دیں - جس میں ہماری انتہائی کوتاہی کے باوجود اللہ کےفضل سے دین اسلام قبول کرنے والوں کی شرح میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے - تب بھی کہیں صرف شرح پیدائش کی بناء پر ہی عنقریب مسلمان یورپ وامریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی طاقت نہ بن جائیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ کم عمری میں شادی سے جہاں مسلمان محفوظ قلعے میں آکر اپنا آدھا ایمان مکمل کرنے کرے گا، وہاں اس کے بچے بھی زیادہ ہوں گے جس کی طرف ہمارے نبی کریمﷺ نے بھی ہمیں توجہ دلائی ہے: تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم

یہ در اصل ڈالروں کا جھکاوا دے کر چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی شادی تیس تیس سال کی آدھی عمر گزارنے کے بعد ہو اور پھر ان کے غلیظ معاشروں کی طرح ہمارے ہاں زنا وفحاشی کا دور دورہ ہو۔ ان کے ہاں صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے بچے بچیاں غیر تو چھوڑیں اپنے عزیزوں بلکہ ماں باپ کے ہاتھوں جنسی تشدد سے محفوظ نہیں ہیں اور ہمارے ہاں آکر یہ کم عمری کی شادی کا رونا روتے ہیں۔

اس حوالے سے میری محترمہ خالہ کا یہ آرٹیکل بہت اچھا ہے۔ سب ساتھی اس کا ضرور مطالعہ کریں!

http://magazine.mohaddis.com/shumara/86-jul2005/1590-family-planing-aor-maghrbi-mafadat

اور یہ آرٹیکل بھی:
http://magazine.mohaddis.com/shumara/86-jul2005/1589-abadi-main-izafa-yourap-ki-awaleen-tarjeeh
جزاک اللہ
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
قومی اسمبلی: بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کی قرارداد منظور'
کم عمری کی شادیاں روکنے سمیت 5 بل پیش

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز، بالواسطہ محصولات میں کمی کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی جبکہ کمسن عمری کی شادیاں روکنے سمیت 5 ترمیمی بل پیش کر دئیے گئے جنہیں متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیا گیا۔

منظور کی جانے والی قرارداد کے تحت قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر ان ڈائریکریکٹ ٹیکسز میں کمی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

قرارداد پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد سے رکن اسد عمر نے پیش کی۔ جس میں براہ راست ٹیکسوں کے نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا۔

پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا افضال نے کہا کہ 18 کروڑ عوام میں سے صرف 10 لاکھ ٹیکس دے رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے ہم سب کو ٹیکس دینا ہو گا۔ ایوان میں حکومت کی جانب سے مخالفت نہ کرنے پر قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔

قرار داد پر بحث کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن آصف حسنین نے کہا کہ ملک میں جاگیرداروں کی اجارہ داری ہے، جاگیرداروں نے خود کو صنعت کاروں کی صف میں شامل کر لیا ہے، ان پر ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔

مسلم لیگ ن کے رکن پرویز ملک نے کہاکہ ٹیکس چوروں کو پکڑنا چاہتے ہیں، معاشی ایجنڈے کو مل کر حل کرنا ہو گا۔

تحریک انصاف کے جاوید ہاشمی نے کہا کہ جو بڑے صنعت کار اپنا پیسہ بیرون ملک بھیجتے ہیں، ان سے بھی پوچھا جائے۔

پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے کہا کہ بڑے لوگوں کو بھی ٹیکس ادائیگی کے دائرہ کار میں لایا جائے،

تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اب بڑے ٹیکس چوروں پر ہاتھ ڈالا جائے،

پارلیمانی سیکرٹری رانا افضال نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم چور دروازہ نہیں، سرمائے کی بیرون ملک منتقلی روکنے کے لئے ایسی سکیم لانا ضروری تھا۔

ماروی میمن نے امتناع جسمانی سزا بل 2014ء ایوان میں متعارف کرایا۔

طاہرہ اورنگزیب نے معذور افراد (روزگار بحالی) ترمیمی بل 2014ء مولانا امیر زمان نے آئین کے آرٹیکل 198 میں ترمیم کیلئے دستور (ترمیمی) بل 2014ء پیش کیا۔ بلوچستان کے شہر لورالائی میں ہائیکورٹ بنچ کے قیام کا بل بھی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

جمعیت علمائے اسلام ف کی اقلیتی رکن آسیہ ناصر نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 51 میں مزید ترمیم کا بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1984ء سے آج تک قومی اسمبلی میں اقلیتوں کیلئے دس نشستیں مختص رہی ہیں اکثریتی ارکان کی تعداد میں 200ء میں اضافہ کیا گیا تھا مگر اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں غیر مسلموں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم آبادی کو اپنی آبادی کے مقابلے میں کم نمائندگی کے باعث کئی مسائل کا سامنا ہے لہذا اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں کو دس سے بڑھا کر سولہ کیا جائے۔

دریں اثناء چھوٹی عمر کی بچیوں کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے ترمیمی بل 2014ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا جبکہ وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ ہمیں اس معاملے میں آئین، قانون اور شریعت کو مدنظر رکھنا ہو گا اور اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی رجوع کرنا پڑے گا۔

ماروی میمن نے تحریک پیش کی کہ کمسنی کی شادی کی روک تھام (ترمیمی) بل 2014ء پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس اس بل کی منظوری سے چھوٹی عمر کی بچیوں کی شادی کی روک تھام سے کئی معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہو گا۔

وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں آئین، قانون اور شریعت کو مدنظر رکھنا ہو گا اور اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی رجوع کرنا پڑے گا۔ انہوں نے بل کی مخالفت نہیں کی اور کہا کہ بل کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے ایوان سے اجازت ملنے پر ماروی میمن نے بل ایوان میں پیش کیا۔

ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ کمسنی میں شادیوں کی روک تھام کے حوالے سے بل صوبائی معاملہ بن چکا ہے یہ صوبائی اسمبلیوں میں پیش ہونا چاہئے۔

مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ ایوان میں آئین کے آرٹیکل کی تشریح یا جاری بزنس کے حوالے سے قواعد کے تحت نکتہ اعتراض اٹھانے کی اجازت ہے۔

آئین کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیاں صرف وہی قانون سازی کر سکتی ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ کمسنی کی شادیوں کے حوالے سے بل قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات موجود ہیں۔

وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا کہ وہ اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ بل پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جائے۔

وزیراعظم نے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات زیر بحث لانے کی ہدایت کی ہے۔

دریں اثناء پیپلز پارٹی کے رکن ایاز سومرو نے ضم شدہ، تقرر شدہ بذریعہ تبادلہ بل 2014ء پر حکومت کے ساتھ مزید مشاورت کرنے کے لئے واپس لے لیا۔


پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا ہے کہ ہم نے مشکل حالات کے باوجود ایک سال میں غیر ملکی ڈائریکٹ قرضوں کی مد میں چھ فیصد کمی کی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشکل حالات کے باوجود ایک سال میں ہم نے غیر ملکی ڈائریکٹ قرضوں کی مد میں چھ فیصد کمی کی ہے۔ انہوں نے اسلامی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے ابن خلدون کے ٹیکس نظام کی مثال دی اور کہا کہ معیشت کی بحالی، بجلی کے بحران کے خاتمے اور ٹیکسوں کے نظام کے حوالے سے ایوان ہماری اصلاح کرے اور بتائے کہ ہم کہاں پر غلط جا رہے ہیں۔ اس سے حکومت کے ہاتھ مضبوط ہونگے۔ انہوں نے یہ بات منگل کو قومی اسمبلی میں بحث کو سمیٹتے ہوئے کہی۔ دریں اثناء ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضٰی جاوید عباسی نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اگر مجلس قائمہ برائے بین الصوبائی رابطہ کے چیئرمین کے انتخاب میں کسی رکن کی رائے نہیں لی گئی تو اس بارے میں تحقیقات کرائی جائے گی۔ اجلاس میں رکن قومی اسمبلی مولانا امیر زمان نے ڈپٹی سپیکر کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ وہ بین الصوائی رابطہ کی مجلس قائمہ کے رکن ہیں لیکن چیئرمین کے انتخاب کیلئے طلب کئے گئے اجلاس کی اطلاع انہیں دی گئی اور نہ ہی ان سے رائے لی گئی جس پر ڈپٹی سپیکر مرتضٰی جاوید عباسی نے اس معاملہ کی تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرائی۔

قومی اسمبلی کا رواں سیشن 8 اپریل تک جاری رہے گا یہ فیصلہ منگل کو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ یوتھ اسمبلی کے ارکان نے بھی منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی دیکھی۔

ح
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
دل صاحب ایمان سے انصاف طلب ہے
ماروی میمن نے بچیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کے لیے ایک بل پیش کیا , جسے ڈاکٹر عبد الکریم صاحب حفظہ اللہ نے خلاف شریعت کہہ کر مسترد فرما دیا ۔ لیکن شاید حافظ صاحب حفظہ اللہ اس خلاف شریعت بل کو رد کرنا کچھ لوگوں کو ہضم نہ ہوسکا تو انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کر دی۔ اسی سلسلہ میں محترم قاری حنیف ڈار صاحب کی ایک تحریر بعنوان"دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے" نظروں سے گزری جس میں موصوف نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری کی اس حدیث پر طعن کیا جس میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ نے نکاح کے وقت اپنی عمر مبارک چھ سال ذکر فرمائی ہے۔ یہ مضمون قاری صاحب موصوف کے پیش کردہ اعتراضات کا جواب ہے​

http://www.rafeeqtahir.com/ur/cat-articles-87.html
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

شیخ رفیق طاھر حفظہ اللہ​
ماروی میمن نے بچیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کے لیے ایک بل پیش کیا , جسے ڈاکٹر عبد الکریم صاحب حفظہ اللہ نے خلاف شریعت کہہ کر مسترد فرما دیا ۔ لیکن شاید حافظ صاحب حفظہ اللہ کا اس خلاف شریعت بل کو رد کرنا کچھ لوگوں کو ہضم نہ ہوسکا تو انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کر دی۔ اسی سلسلہ میں محترم قاری حنیف ڈار صاحب کی ایک تحریر بعنوان"دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے" نظروں سے گزری جس میں موصوف نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری کی اس حدیث پر طعن کیا جس میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ﷟ نے نکاح کے وقت اپنی عمر مبارک چھ سال ذکر فرمائی ہے۔آپ فرماتی ہیں:
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَأُدْخِلَتْ عَلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَكَثَتْ عِنْدَهُ تِسْعًا»
نبی ﷺ نے ان سے جب نکاح کیا تو وہ چھ سال کی تھیں اور جب انکی رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں۔ اور وہ آپ ﷺ کے پاس نو سال تک رہیں۔
[صحیح البخاری:5133]​
موصوف نے اس عمر میں شادی کو شرمناک فعل قرار دے کرایک طرف تو امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷑ کی توہین کا ارتکاب کیا ہے اور دوسری طرف کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کی اصحیت پر کیچڑ اچھال کر امت کےاتفاق کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ موصوف اس بات پہ مصر ہیں کہ کمسن بچیوں کی شادی نہیں ہوسکتی۔ اور نبی مکرم ﷑ کی شادی بھی سیدہ عائشہ ﷞ سے چھ سال کی عمر میں نہیں ہوئی, بلکہ یہ بات رسول مکرم ﷑ کی طرف غلط منسوب ہے۔ اپنے ان نظریات کا اظہار واضح لفظوں میں کرنے کی بجائے رقمطراز ہیں :
"نہ تو اپنی بیٹی ، پوتی ،نواسی کوئی چھ سال کی عمر میں کسی 53 سال کے مفتی صاحب کو دیتا ھے اور نہ ھی کوئی مفتی 53 سال کی عمر میں کسی 6 سال کی بچی سے نکاح کرتا ھے ،، سب کو اپنا اپنا امیج بہت عزیز ھے ،، اس سے بڑھ کر کوئی نفاق نہیں ھے کہ جس کام کو خود شرمناک سمجھتے ھیں اسے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرتے ھوئے ان کو شرم محسوس نہیں ھوتی ھے ،،ایک راوی نے قرآن کی نکاح کے لئے رشد کی عمر کی شرط کو ساقط کر دیا ھے ،، اور اسی ایک حدیث کو بنیاد بنا کر قرآن کو معطل کر کے رکھ دیا گیا ھے"
موصوف کی اس عبارت سے درج ذیل باتیں صاف جھلکتی ہیں:
1- سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ کے چھ سال کی عمر میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی سے متعلق روایات جھوٹی اور غلط ہیں۔
2- ایک راوی(جس نے مذکورہ روایت بیان کی) کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔
3- مذکورہ روایت کی وجہ سے قرآن کا حکم معطل کر دیا گیا۔
4- کمسنی کی شادی شرمناک فعل ہے۔
ہم سب سے پہلے روایت پر بات کریں گے کیونکہ تمام تر باتیں اسی کے گرد گھوم رہی ہیں ۔تو اس روایت کے صحیح ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ روایت دو ایسی کتابوں میں موجود ہے جنہیں امت نے صحیح ترین کتب قرار دیا ہے۔ یعنی صحیح البخاری(5133) اور صحیح مسلم(1422)۔ اور یہ روایت صرف انہی دو کتب میں نہیں بلکہ انکے سوادیگر کتب میں بھی موجود ہے۔ اور پھر موصوف کے اس فرمان کہ
" ایک راوی نے قرآن کی نکاح کے لئے رشد کی عمر کی شرط کو ساقط کر دیا ہے"
سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ روایت کسی ایک ہی راوی نے بیان کی ہے۔ جبکہ صرف انہیں دو کتب کو ہی سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ اس روایت کو سیدہ عائشہ صدیقہ ﷞ سے روایت کرنے والے دو مختلف اشخاص ہیں ایک کانا م اسود ہے اور دوسرے کا عروہ , عروہ سے انکے بیٹے ہشام اور امام زہری روایت کرتے ہیں تو اسود سے انکے شاگرد رشید ابراہیم , پھر ابراہیم سے یہ روایت نقل کرنے والے اعمش ہیں اور زہری سے معمر, اور ہشام سے عبدہ بن سلیمان , سفیان, علی بن مسہر,وہیب وغیرہ ہیں۔ یعنی یہ روایت کسی "ایک" راوی کی مرہون نہیں ہے۔ اس صحیح حدیث پر طعن کرنےکے لیے موصوف نے قرآن مجید فرقان حمید کی ایک آىت کو بنیاد بنانے کی کوشش کی ہے۔ جو درج ذیل ہے:
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْداً فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ
اور یتیموں کو آزماؤ حتى کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں, تو اگر تم ان میں کوئی بھلائی دیکھو تو انکے مال انکے سپرد کر دو۔ [النساء : 6] اس آیت کو بنیاد بناتے ہوئے موصوف رقمطراز ہیں:
"تقسیمِ وراثت میں تو نکاح کی عمر کو فرض سمجھ لیا گیا ھے جو کہ شعور کے ساتھ مشروط ھے ،مگر نکاح 6 ماہ کی بچی کا بھی کیا جا سکتا ھے گویا نکاح کی وہ عمر ھی سراب ٹھہری جس کو اللہ نے تقسیمِ وراثت کا پیمانہ بنایا تھا "
موصوف کی درج بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ
1- موصوف "تقسیم وراثت" کے لیے نکاح کی عمر کو فرض سمجھتے ہیں۔اور اسے "رشد" سے مشروط کرکے تقسیم وراثت کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔
2- بلوغت سے قبل نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ﷯ نے نکاح کی عمر کو "تقسیم وراثت" کے لیے شرط نہیں قرار دیا بلکہ آیت کے الفاظ سے کسی بھی ادنی شعور رکھنے والے کو یہ بات واضح سمجھ آسکتی ہے کہ نکاح کی عمر کو جس کام کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے وہ ہے "مال سپرد کرنا" ۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ جب ورثاء سب نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور ان میں رشد بھی آ جائے تو تب مال وراثت تقسیم کیا جائے۔ بلکہ اس سے قبل بھی وراثت تقسیم کی جاسکتی ہے ۔ اور ایسے بچوں کے حصص جو ابھی سمجھدار نہیں ہوئے انکےسپرد کرنے کی بجائے ان کے سرپرست اپنے پاس محفوظ رکھیں اور جب بچے سمجھدار ہو جائیں تو پھر وراثت میں انکا جو حصہ تھا وہ انکے سپرد کر دیا جائے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مال کی حوالگی کے لیے اللہ تعالى نے محض "نکاح" کی عمر کو شرط قرار نہیں دیا بلکہ اس عمر نکاح کے ساتھ "رشد" یعنی سمجھدار ہونے کو بھی شامل کیا ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نکاح سمجھدار ہونے سے پہلے بھی کیا جاسکتا ہے! کیونکہ اگر نکاح کے صحیح ہونے کے لیے سمجھدار ہونا شرط ہوتا تو اللہ تعالى صرف عمر نکاح کا تذکرہ فرماتے کہ سمجھداری اس میں ضمناً ہی موجود ہے۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں تھا اس لیے اللہ ﷯ نے بَلَغُواْ النِّكَاحَ کے بعد ایک اور شرط فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْداً کہہ کر لگائی کہ جب یہ دونوں کام ہو جائیں بچے نکاح کی عمر کو بھی پہنچ جائیں اور ان میں سمجھداری بھی آ جائے تو تب انکے مال انکے سپرد کر دیے جائیں۔ اس بات کو سمجھتے ہی یہ مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ موصوف جس آیت سے کمسنی میں نکاح کا عدم جواز کشید فرما رہے تھے , وہی آیت انکے موقف کے خلاف دلیل ہے! کیونکہ کتاب اللہ یعنی قرآن مجید فرقان حمید ایسی معجز کتاب ہے کہ :
لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ
باطل نہ اسکے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے , (یہ قرآن) نہایت دانا, بہت زیادہ تعریف کی گئی ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ [فصلت : 42]
رہا یہ سوال کہ شادی کی عمر کیا ہے؟ تو اسکی بابت عرض ہے کہ شادی کے دو بڑے حصے ہیں ایک نکاح محض اور دوسرا رخصتی ۔ جہاں تک نکاح کا تعلق ہے تو وہ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہوسکتا ہے۔ نومولود بچے کا نکاح بھی ہوسکتا ہے اور اسکی طرف سے اسکے اولیاء وکیل بن کر قبول کریں گے۔ اور جہاں تک رخصتی کا معاملہ ہے تو اسکے لیے ہمبستری کے قابل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اس میں یہی مقصودِ اصلی ہے۔ اور اس بات کا فیصلہ صحت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے اس بارہ کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اور یہی بات ڈاکٹر حافظ عبد الکریم صاحب حفظہ اللہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس میں فرمائی تھی کہ
"اگر 18 برس سے کم عمر لڑکی کی شادی مقصود ہو تو اسکے لیے میڈیکل افسر کے سرٹیفکیٹ کی شرط عائد کی جاسکتی ہے, اور سرٹیفیکٹ یہ ہو کہ بچہ پیدا ہونے کی صورت میں لڑکی کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔"
حافظ صاحب موصوف نے ماروی میمن صاحبہ کے پیش کردہ بل کو صرف مسترد ہی نہیں کیا بلکہ انکے تحفظات کا علاج بھی مذکورہ بالا مشورہ کے ساتھ فرما دیا ہے۔ اور پھر موصوف حنیف ڈار صاحب کی پیش کردہ وہ آیت جسے وہ اپنے حق میں سمجھ رہے تھے , جب انکے موقف کے خلاف واضح طور پر دلیل ہے ۔اور سمجھداری کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی نکاح کے قابل ہو جانے پر دلیل ہے تو پھر کمسنی کی شادی کو "شرمناک" قرار دینا نہ صرف رسول اللہ ﷑ کی توہین ہے بلکہ یہ قرآن مجید فرقان حمید کی بھی توہین اور اللہ ﷯ کی شان میں بھی گستاخی ہے۔ اور صرف یہی ایک آیت نہیں , قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالى نے ایسی بچیوں کے نکاح کے بعد کے احکامات بھی ذکر فرمائے ہیں جن کی شادی بلوغت سے قبل ہو جاتی ہے اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کر لیے جاتے ہیں ۔ اگر یہ سب ناجائز اور غلط ہوتا , تو اللہ ﷯ اپنی پاک کتاب میں اس عمل کو ہی حرام ٹھہراتے نہ کہ اس پر مرتب ہونے والے احکامات ذکر کرتے۔ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں طلاق یافتہ عورتوں کی عدت مختلف اعتبارات سے مختلف بیان فرمائی ہے۔ اگر تو کسی عورت کو نکاح کے بعد طلاق دے دی گئی ہے اور رخصتی نہیں ہوئی یا رخصتی بھی ہوئی ہے لیکن ابھی تک انکے خاوندوں نے انکے ساتھ ہمبستری نہیں کی اور پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو ایسی عورتوں پر کوئی عدت نہیں ہے وہ طلاق کے فورا بعد چاہیں تو اسی دن ہی کسی بھی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہیں :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا "
اے اہل ایمان جب تم مؤمنہ عورتوں سے نکاح کرو اور انہیں چھونے (ہمبستری کرنے ) سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہاری خاطر ان کے ذمہ کوئی عدت نہیں ہے ۔ " [الأحزاب : 49]
اور وہ عورتیں جنہیں حیض آتا ہے ان کی عدت تین حیض متعین کی گئی ہے :
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَءٍ "
اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں (یعنی عدت گزاریں ) " [البقرة : 228]
اور وہ خواتین جنہیں حیض نہیں آتا: اگر تو حمل کی وجہ سے حیض کی بندش ہے تو انکی عدت وضع حمل ہے اور اگر وہ بانجھ ہو چکی ہیں یا ابھی انہیں حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا یعنی نابالغ ہیں اور انہیں طلاق دے دی گئی ہے تو انکی عدت تین ماہ ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ "
اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع نہیں ہوا , اور حمل والی خواتین کی عدت وضع حمل ہے ۔" [الطلاق : 4]
اللہ رب العالمین کے اس فرمان کی روشنی میں یہ بات نہایت ہی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ عورت اگر نابالغ ہو تو بھی اس سے نکاح کیا جاسکتا ہے , رخصتی ہوسکتی ہے , خاوند اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرسکتا ہے ۔ کیونکہ ازوداجی تعلقات قائم کرنے سے پہلے ہی اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ کو طلاق دے دے تو اس پر عدت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالى کے فرمان سے یہ بات واضح کی جاچکی ہے ۔اور اس آخری آیت میں اللہ تعالى نے ان عورتوں کی عدت بیان کی ہے جنہیں حیض نہیں آیا اور طلاق دے دی گئی , اور یہ بات تو ہر کسی کو علم ہے کہ طلاق صرف اسے ہی دی جاسکتی ہے جس سے نکاح کیا گیا ہو , غیر منکوحہ عورت کو طلاق دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اور وہ عورت جسے طلاق دے دی گئی جبکہ اسے ابھی حیض آیا ہی نہیں ہے یعنی وہ بالغ ہوئی ہی نہیں ہے تو اسے تین ماہ تک عدت گزارنے کا حکم دیا جا رہا ہے , جبکہ غیر مدخول بہا عورت کے لیے عدت ہے ہی نہیں , تو اس سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ یہ ایسی نابالغ عورت کی عدت ہے جس سے بلوغت سے قبل ہی نکاح کیا گیا اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کیے گئے اور قبل ازبلوغت ہی اسے طلاق بھی دے دی گئی ۔اگر قبل از بلوغت عورت سے نکاح کرنا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا ناجائز ہوتا تو اللہ سبحانہ وتعالى کبھی اس قسم کی عورت کے لیے طلاق کی عدت مقرر نہ فرماتے ۔جبکہ اللہ تعالى کے فرمان , قرآن مجید فرقان حمید سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ نابالغہ عورت سے نکاح کیا جاسکتا ہے , اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں , اور اگر اسے طلاق ہو جائے تو اسے عدت گزارنے کا بھی حکم ہے ۔ موصوف قاری صاحب نے اس آیت پر بھی اعتراض وارد کیا ہے وہ فرماتے ہیں: "بات عورتوں کی ھو رھی ھے بچیوں کی نہیں ، اور 8 یا 9 یا 10 سال کی بچی کو عربی میں کبھی نساء اور اردو میں کبھی عورت نہیں کہتے" پہلی بات تو یہ ہے کہ موصوف نے یہاں "پیشہ ورانہ ہیرا پھیری" سے کام لیا ہے ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى کا فرمان ہے :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ "
اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع نہیں ہوا , اور حمل والی خواتین کی عدت وضع حمل ہے ۔" [الطلاق : 4]
یعنی لفظ "نساء" ان کے لیے استعمال کیا ہے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں, یعنی عمر رسیدہ خواتین کے لیے ۔ اور پھر اسکے ساتھ ساتھ انکی عدت کا بھی تذکرہ فرمایا ہے جنہیں کبھی حیض آیا ہی نہیں, اور انکے لیے اللہ تعالى نے لفظ وَاللَّائِي استعمال فرمایا ہے۔ اور یہ لفظ عورتوں , بچیوں سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ جنہیں حیض کبھی نہ آیا ہو وہ بچیاں بھی ہوسکتی ہیں اور بیمار لڑکیاں اور عورتیں بھی, سو ان سب کے لیے ایک ہی مشترکہ لفظ استعمال کر لیا گیا ہے۔ دوسری بات ہے کہ جب مختلف عمر کی صنف نازک کا ذکر ایک ہی لفظ میں کرنا ہو تو انکے لیے عربی میں "نساء, نسوۃ" اور اردو میں "عورتیں, خواتین" جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا اگر کہیں یہ لکھا ہو کہ مرد اِس کمرہ میں تشریف رکھیں اور عورتیں اُس کمرہ میں, تو بچیاں یا بچے ان کمروں کے علاوہ کوئی تیسرا یا چوتھا کمرہ نہیں تلاش کریں گے بلکہ بچیاں خواتین کے ساتھ داخل ہونگی اور بچے مردوں کے ساتھ۔ رہی موصوف کی یہ بات کہ: " نہ تو اپنی بیٹی ، پوتی ،نواسی کوئی چھ سال کی عمر میں کسی 53 سال کے مفتی صاحب کو دیتا ھے اور نہ ھی کوئی مفتی 53 سال کی عمر میں کسی 6 سال کی بچی سے نکاح کرتا ھے ،، سب کو اپنا اپنا امیج بہت عزیز ھے" تو یہ ہندوانہ معاشرہ کی ذہنیت کی عکاس ہے! وگرنہ آج بھی ہمارے معاشرہ میں چھ سال نہیں بلکہ چھ ماہ کی عمر میں بھی بعض خاندان اپنی بچیوں کا نکاح کر دیتے ہیں اور پھر انکے جوان ہونے کے بعد انکی رخصتی کی جاتی ہے۔ اور پھر جب ایک عمل کو اللہ ﷯ نے حلال قرار دیا , اور امام الانبیا جناب محمد مصطفى ﷑ نے اس پر عمل بھی کرکے دکھایا, اسے تسلیم کرنے سے اگر کسی کے دل میں کچھ تنگی ہے تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى فرماتے ہیں:
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً
پس نہیں!, تیرے رب کی قسم یہ ایمان نہیں لائیں گے! حتى کہ آپ ﷑ کو اپنے اختلافات میں اپنا حاکم نہ تسلیم کرلیں, اور پھر جو فیصلہ آپ ﷑ فرما دیں اسکے بارہ میں اپنے دلوں میں کچھ بھی گھٹن یا تنگی نہ رکھیں اور اسے خوش دلی سے تسلیم کر لیں۔ [النساء : 65]
اب ہماری ان معروضات کے بعد ہر صاحب "ایمان" کو دل تھام کر انصاف کرنا ہوگا کہ نبی مکرم ﷑ کا عمل , اللہ ﷯ کا حکم درست و صحیح ہے , یا مغرب گزیدہ ذہنیت کے خیالات وافکار؟
جبکہ اس معاشرہ میں پانچ سے دس سال کی عمر میں ماں بننے والی عورتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایک پانچ سالہ ماں کا مختصر تعارف آپ درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں:
http://youngest_mother.tripod.com/
اور اسکے علاوہ پانچ سے دس سالہ ماؤں کی ایک طویل فہرست ویکیپیڈیا کے درج ذیل لنک پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے: https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_youngest_birth_mothers
 

arifkarim

مبتدی
شمولیت
مئی 11، 2015
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
17
یہ اصل میں کم عمری کی شادی کے خلاف نہیں بلکہ پورے اسلام کے خلاف ہیں۔ یہ نبی کریمﷺ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے خلاف ہیں۔
جی بالکل۔ یہاں مغرب میں ایسا ہی ہے۔
 
Top