پہلی بات تو یہ کہ یہ خبر قابل اعتبار ہی نہیں کیونکہ یہ مغربی میڈیا کی طرف سے آئی ہے مثلا گارڈین میں یہ کہا گیا ہے کہ سماجی کارکن اور دو رہائشیوں نے یہ خبر دی ہے البتہ یمنی آفیشیل نے اس خبر کی تردید کی ہے دیکھیں
گارڈین کا لنک
دوسری بات اگر کوئی شادی کی پہلی رات فوت ہوا بھی ہو تو یہاں خبر میں یہ بھی واضح نہیں کہ اسکی وجہ کیا کم سنی تھی یا کوئی اور
تیسرا یہ کہ جنہوں نے یہ خبر دی ہے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ دس بارہ سال کی عمر کے بچے ماں باپ نہیں بن سکتے کیونکہ انکے ہاں ایسے ریکارڈ موجود ہیں اور یہ وہ ریکارڈ ہیں جو بچے بچے پیدا کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے کیے اور جن یورپی امریکی بچوں نے بچے پیدا کرنے کی خؤاہش ہی نہیں کی انکی تعداد اور کم عمری کا تو پتا ہی نہیں کہ انہوں نے یہ تعلق کتنی کم عمری میں بغیر ڈیتھ کے قائم کر لیا
البتہ چوتھی بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ خبر بالکل درست ہو اور وہ بچی ابھی بالغ ہی نہ ہوئی ہو یا شادی کے قابل ہی نہ ہو تو اسکی زبردستی شادی کر دی گئی ہو تو ایسی صورت میں یہ اسلام کا یا بخاری والی حدیث کا یا کم عمری کی شادی کو محدیث کے درست کہنے کا کیا قصور ہے یہ تو اسلام کا نام لینے والے کا ذاتی معاملہ ہو سکتا ہے اور ایسے معاملات تو بہت سے مسلمان کرتے رہتے ہیں بھلا پاکستان میں چھوٹی چھوٹی بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور پھر انکو قتل کیا یہ روزانہ اخبار کی خبریں ہم نہیں پڑھتے جس میں قصور سار ان فحاشی والے ڈراموں اور فلموں اور ماحول کا ہے مگر ہم کبھی اسکو تو بند نہیں کرتے کیا ہماری دشمنی صرف تب ہوتی ہے جب نکاح کا نام لے کر ایسا کیا جائے
اگر کوئی کہے کہ ہم اسکو بھی بر کہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہاں برا کہنے کی بات نہیں ہو رہی مطلقا پابندی لگانے کی بات ہو رہی ہے تو کیا اس سارے فحاشی کے میڈیا پہ پابندی لگانے کی بات کسی نے کی ہے کہ جس سے نوجوانوں کی بچوں کی نہ صرف صحتیں خراب ہوتے ہیں بلکہ بچیوں سے زیادتی اور قتل والے واقعات روزانہ ہو رہے ہیں
افسوس ہے کہ روزانہ والے واقعات تو نظر نہیں آتے جہاں بچیاں زیادتی کے بعد قتل ہو رہی ہیں مگر یہ ایک ناقابل اعتبار خبر کو اس قابل سمجھا جا رہا ہے
اصل میں طاغوت ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتا ہے
1۔منکرین حدیث کا فروغ جیسا کہ کم عمری کی شادی اور اس طرح کے جھوٹے واقعات کا سہارا لے کر احادیث اور محدثین کو معطون کیا جا رہا ہے
2۔نکاح کو مشکل بنانا اور فحاشی کو آسان بنانا