• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان کا تاریخی باطن

ابو عمر

مبتدی
شمولیت
دسمبر 06، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
101
پوائنٹ
0
پاکستان کا تاریخی باطن
اگر مسلمانان ہندو پاکستان کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے اور ان عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جنہوں نے ہندوستان میں مسلمان کلچر اور ذہنی ساخت کی تشکیل میں بنیادی کردار سر انجام دیا تو اُن میں اسلام یعنی مذہب کا کردار سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ مغربی تعلیم، آزادی فکر اور میڈیا کی تانوں اور اڑانوں کے باوجود حکومتیں اور معاشرے کے طاقتور طبقے مذہبی شخصیات کے تیوروں سے کیوں خوفزدہ رہتے ہیں اور آج بھی اُن کی رائے کو کیوں اہمیت دی جاتی ہے اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ ادراک ضروری ہے کہ بارہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں کی قیادت علماء کرام کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ 1192-93 میں قطب الدین ایبک نے ہندوستان میں پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی اور پھر یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح انگریزوں کی 1857ء میں بالادستی اور حکمرانی تک جاری و ساری رہا۔ انگریزوں کے اقتدار اور علماء کرام پر سختیوں کے باوجود مسلمانوں کی فکری و سیاسی قیادت علماء کرام کے پاس ہی رہی۔ جب بیسویں صدی کے آغاز پر ووٹ اور جمہوریت کی سیاست کی ہوا چلی اور سیاسی جماعتوں کا وجود لازمی قرار پایا تو مسلمانوں کی سیاسی قیادت مغربی تعلیم یافتہ شخصیات کی جانب منتقل ہونا شروع ہوئی لیکن اس کے باوجود علماء کرام ایک معاشرتی و مذہبی طاقت کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں بھی سب سے زیادہ قربانیاں علماء کرام نے دیں اور سب سے زیادہ گردنیں بھی انہوں نے ہی کٹوائیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور حکومت کے دوران علماء کو ہمیشہ دربار میں اہم حیثیت حاصل رہی اور سبھی مسلمان بادشاہ ان سے مشاورت کرتے رہے اور ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال بھی کرتے رہے۔ گویا ایک طرح سے علماء اس دور میں شریک اقتدار تھے اور بعض اوقات بادشاہ گر کا رول بھی ادا کرتے رہے۔ اکبر بادشاہ سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور حکمران تھا اور اس کی بادشاہت 49 برس یعنی نصف صدی پر محیط ہے لیکن جب اُس نے دین الٰہی کی جسارت کی تو نہ صرف حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ بلکہ ان کی قیادت میں بڑے بڑے علماء نے مزاحمت کی، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ کچھ درباری مسلمانوں نے بادشاہ کی خوشنودی کے لئے دین الٰہی قبول بھی کر لیا۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد جب مسلمانوں کے اقتدار کا شیرازہ بکھرنے لگا اور مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں اور طاقتور ہندو مہاراجوں نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنا چاہا تو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ رحمہ نے جہاد تحریک کا بیج بویا جسے اُن کے عزیزان، شاگردان اور مریدان نے عملی تحریک کی شکل دی۔ یہ تحریک 1731ء سے 1831ء تک تقریباً ایک سو سال تک جاری رہی اور بالاکوٹ میں اپنوں ہی کے ہاتھوں دم توڑ گئی۔ سراج الدولہ نے 1757ء میں اور ٹیپو سلطان نے 1799ء میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی غداری کے سبب شکست کھا کر انگریزوں کے لئے راہ ہموار کی تھی۔ انہی ہزیمتوں شکستوں نے مسلم ہندوستان کی تاریخ میں دو ملامتی علامتوں یعنی میر جعفر و میر صادق کو جنم دیا جن کی غداری کا ماتم آج بھی کیا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بیسویں صدی کے طلوع تک ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی و فکری قیادت زیادہ تر علماء کرام کے ہاتھوں میں تھی اور اس ضمن میں مسلمان مذہبی طاقتوں کی جانب سے انگریزوں کا طوقِ غلامی اتار پھینکنے کے لئے جو آخری منظم کوشش کی گئی وہ ریشمی رومال کی تحریک تھی جس کی تفصیلات نہایت دلچسپ ہیں۔ ان کے مطابق ترکی کی عثمانی فوج نے بھی بلوچستان کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہونا تھا لیکن افغانستان کے شاہی خاندان کے چند افراد کی مخبری نے یہ راز فاش کر دیا اور یوں انگریزوں نے اس تحریک کو کچل دیا۔ اس تمام عرصے میں جتنے لوگوں کو سزا کے طور پر کالے پانی بھیجا گیا، قید و بند میں ڈالا گیا یا جلا وطن کیا گیا ان سب کا تعلق علماء کرام اور مذہبی حلقوں سے تھا۔ اس تحریک کی ناکامی کے بعد حصول آزادی یا حصول حقوق کے لئے عسکری انداز ترک کر دیا گیا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق سیاسی حکمت عملی اپنائی گئی جس پر مغربی تعلیم یافتہ حضرات کی اجارہ داری تھی۔ یوں تاریخی عمل نے تقریباً نو صدیوں کے بعد مدرسوں کو پیچھے دھکیل دیا اور مغربی تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل نوجوانوں کو سیاسی قیادت کا فرض سونپ دیا لیکن اس کے باوجود علماء کرام اور مذہبی طاقتیں پس پردہ رہ کر نہ صرف اپنا کردار سر انجام دیتی رہیں بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو ہر تحریک کی صف اول میں شامل رکھا کیونکہ مغربی تعلیم یافتہ طبقہ اُن کے وسیع اثر و رسوخ کا پورا ادراک رکھتا تھا اور ان کی سیاسی اہمیت کا قائل تھا۔
1933-34 میں انگلستان سے واپسی پر جب قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کا بیڑا اٹھایا تو اس وقت مسلم لیگ ایک بے جان سیاسی قوت بن چکی تھی جس پر وڈیرے، جاگیردار، گدی نشین اور کمزور سیاسی شخصیات چھائی ہوئی تھیں۔ مسلم لیگ کے تن مردہ میں جان اُس وقت پڑنا شروع ہوئی جب انتخابات کے بعد کانگریس نے 1937ء میں چھ اکثریتی صوبوں میں اپنی حکومتیں بنائیں اور مسلمانوں نے ڈیڑھ برس تک ہندو راج کا مزہ چکھا تو ان کی آنکھیں کھلیں۔ کانگریسی دور حکومت میں نہ صرف مسلمانوں پر ملازمتوں اور زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع بند کر دیئے گئے بلکہ سکولوں میں مسلمان دشمن ترانہ بندے ماترم بھی لازمی قرار دے دیا گیا اور گاندھی جی کے بت کی پراتھنا کا حکم بھی جاری کر دیا گیا۔ تفصیل دیکھنی ہو تو پیر پور رپورٹ پڑھیے۔ مسلم لیگ صحیح معنوں میں عوامی تحریک اُس وقت بنی جب مسلم لیگ نے مارچ 1940ء میں قرارداد لاہور (پاکستان) منظور کر کے ہندوستان میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کر دی۔ لندن ٹائمز کے مطابق اس اجلاس میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان عوام نے شرکت کی جو کہ ایک سیاسی کرامت تھی۔
1934ء سے لے کر 1947ء تک قائد اعظم نے بار بار اپنی تقریروں کے ذریعے مسلمانوں میں علیحدہ قومیت کا احساس بیدار اور پھر مضبوط کرنے کی کوششیں کیں اور علیحدہ قومیت کے شعور کی بنیاد ہمیشہ مذہب اور کلچر کو قرار دیا۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد ان کا سارا زور ہی دو قومی نظریے پر تھا اور وہ مسلسل مسلمان عوام کو بڑی دردمندی سے یہ سمجھانے اور باور کرانے کی کوششیں کرتے رہے کہ ہم اس لئے مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد مملکت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ مسلمان اپنے مذہب، کلچر، روایات اور انداز کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے پیش نظر مسلمانوں کے معاشی، اقتصادی اور معاشرتی مفادات بھی تھے اسی لئے علامہ اقبال مسلمانوں کی FULLER DEVELOMPENT OF PERSONALITY پر زور دیتے تھے یعنی مسلمان شخصیت کی مکمل نشو و نما کے لئے ایک آزاد وطن کا قیام ضروری سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جب مکمل نشو و نما کی بات کی جاتی ہے تو اس میں معاشی، سیاسی، فکری، تعلیمی اور مذہبی تمام عوامل شامل ہوتے ہیں۔
چنانچہ میں جب پاکستان کی تاریخ اور ہندوستان میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی ہزاروں برسوں پر محیط زندگی کا بغور مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے اسلام پاکستان کے خمیر اور باطن میں شامل نظر آتا ہے اور پاکستان کی بنیا د کا موٴثر ترین محرک نظر آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر قائد اعظم  نے اسلام کا نام نہ لیا ہوتا تو وہ نہ کبھی مسلمانوں کی اکثریت کے لیڈر بنتے نہ 1945-46 کے انتخابات میں مثالی فتح حاصل کرتے اور نہ ہی پاکستان بنتا۔
اور ہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس سے قائد اعظم کا کوئی ذاتی مفاد ہرگز وابستہ نہیں تھا۔ وہ خلوص نیت سے بات کرتے تھے اور انہوں نے زندگی کا معتدبہ حصہ مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ہمارے بعض دین سے بیزار اور بیگانہ حضرات ”وکیلانہ“ بحث کی طرز پر بال کی کھال اتارتے ہوئے کہتے رہتے ہیں کہ قائداعظم کا مقصد مسلمان ریاست کا قیام تھا نہ کہ اسلامی ریاست۔ اوّل تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں ہیں دوم یہ کہ خود قائد اعظم  نے پاکستان کو پریمیئر اسلامی ریاست قرار دیا جسے سیکولر حضرات مانتے نہیں کیونکہ انہوں نے قائد اعظم کو پڑھا ہی نہیں۔ تیسری بات یہ کہ قائد اعظم نے کوئی سو بار کہا کہ پاکستان کے سیاسی نظام کی بنیاد اسلام پر ہو گی۔ یہ حضرات کیوں نہیں سمجھتے کہ جس ریاست کے نظام کی بنیاد اسلام پر ہو وہی اسلامی ریاست ہوتی ہے لیکن اس سے ہرگز مراد مذہبی ریاست نہیں کیونکہ اسلامی ریاست اپنے شہریوں پر مذہب نافذ نہیں کرتی، وہ اقلیتوں کی حفاظت کے علاوہ انہیں پوری مذہبی آزادی اور پورے شہری حقوق دیتی ہے۔ یہی منشاء قائداعظم کی تھی اور اسی لئے وہ اسلامی جمہوریت اور فلاحی ریاست کا تصور پیش کرتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام پاکستان کے خمیر اور باطن میں شامل ہے اسلئے سیکولر حضرات جو چاہے کریں اپنے ارادوں میں ناکام ہوں گے۔ دوم قائد اعظم علیہ رحمہ نے اسلامی قوتوں یا مذہبی جماعتوں کو شکست دے کر پاکستان نہیں بنایا تھا بلکہ انہیں کئی مذہبی جماعتوں ، بڑے بڑے مذہبی اور روحانی گھرانوں اور پیروں کی حمایت حاصل تھی۔ جن مذہبی جماعتوں نے ان کی مخالفت کی ان کی اپنی وجوہ تھیں لیکن یاد رکھئے کہ مسلمانوں نے کبھی بھی اپنا سیاسی مستقبل مذہبی جماعتوں کے سپرد نہیں کیا کیونکہ وہ پاپائیت کے خلاف ہیں۔ رہی مذہبی انتہا پسندی تو وہ سیاست کا شاخسانہ اور عالمی سیاسی ایجنڈے کا نتیجہ ہے نہ کہ مذہب کا، کیونکہ ہر مسلمان اچھی طرح سمجھتا ہے کہ برداہشت، مذہبی رواداری، عفو و درگزر، حق گوئی، قانون کا احترام اور انصاف اسلام کے بنیادی اصول ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عملی مثال تھے۔ انتہاپسندی، جذباتیت اور قانون شکنی کے رجحانات کا مقابلہ کرنے کیلئے انہی اسلامی اصولوں کو فروغ دینے اور لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھئے کہ سیکولر ازم کا نعرہ ہرگز اس مسئلے کا حل نہیں۔ سیکولر ازم کا پرچار مزید بگاڑ پیدا کرے گا اور معاشرے کی مزید تقسیم، اندرونی نزاع اور گروہی چپقلش کا باعث بنے گا۔

پاکستان کا تاریخی باطن... صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
مسلمان اچھی طرح سمجھتا ہے کہ برداہشت، مذہبی رواداری، عفو و درگزر، حق گوئی، قانون کا احترام اور انصاف اسلام کے بنیادی اصول ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عملی مثال تھے۔ انتہاپسندی، جذباتیت اور قانون شکنی کے رجحانات کا مقابلہ کرنے کیلئے انہی اسلامی اصولوں کو فروغ دینے اور لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔
بہت اچھی بات ہے ماشاءاللہ
 
Top