ذکی الرحمان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 26، 2013
- پیغامات
- 55
- ری ایکشن اسکور
- 100
- پوائنٹ
- 0
پاکستان کی افغانی طالبان کی مدد - عقل سلیم اسکا انکار کرتی ہے - افغانی طالبان کا بیان
نوٹ یہ بیان طالبان کی اپنی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے
برطانیہ کے تحقیقاتی ادارے کے پروپیگنڈے کے حوالے سے امارت ِ اسلامیہ کی رہبر شوریٰ کا ردعمل
برطانیہ کے تحقیقاتی ادارے کے پروپیگنڈے کے حوالے سے امارت ِ اسلامیہ کی رہبر شوریٰ کا ردعمل
پیر, 14 جون 2010 20:26
Monday, 03 Rajab 1431
گزشتہ روز لندن اسکول آف اکنامکس کے تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) امارت ِاسلامیہ افغانستان کی فوجی اور لاجسٹک سپورٹ کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار کوئٹہ شوریٰ کی مجالس میں بھی شرکت کرتے ہیں اور شوریٰ کے اراکین سے اپنے مطالبات زبردستی منوالیتے ہیں۔
امارت ِاسلامیہ افغانستان نے لندن اسکول آف اکنامکس کی اس رپورٹ کو بے بنیاد پروپیگنڈے سے تعبیر کرتے ہوئے رپورٹ کو امریکہ اور برطانیہ کے مفادات کا حصول قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے امارتِ اسلامیہ افغانستان مذکورہ اعلامیہ جاری کرتی ہے:
(1) افغانستان میں امریکہ، برطانیہ اور ان کے ساتھ شامل ناٹو اتحادی فورسز اپنی تمام تر فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود مجاہدین کی کامیاب عسکری کارروائیوں کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ اب یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ اپنے علمی اور تحقیقاتی مراکز کو بھی افغانستان پر قبضے اور اس کے عوام کو مزید مصائب کا شکار کرنے کی خاطر حرکت میں لایا جائے جس کی ایک مثال یہ بے بنیاد رپورٹ ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان London School of Economics کی اس رپورٹ کو مغربی سیاسی اہلکاروں کا ایک فرمائشی ڈراما سمجھتی ہے اور اسے کسی بھی طور سے ایک علمی ادارے کے دلائل پر مشتمل رپورٹ نہیں سمجھتی۔
(2) قابض افواج کے خلاف جہاد اور مزاحمت افغانستان کے اندر سے افغان ملت کی تائید کے ساتھ اسلامی امارت کے قائد کے زیرکمان ہورہی ہے اور افغانستان کے 70 فیصد حصے پر امارت اسلامیہ کا کنٹرول ہے جس کا اعتراف ہمارا دشمن بھی کرتا ہے۔ لہٰذا امارت ِاسلامیہ کی قیادت کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ افغانستان کی سرحدات سے باہر اس عوامی مزاحمت کے لیے شورائیں قائم کرے۔
( 3) امارت ِاسلامیہ روزاوّل سے اس بات پر قائم ہے کہ افغانستان میں جاری مزاحمت افغان عوام کی جانب سے قابض افواج کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک صاف ستھری افغانی اور اسلامی مزاحمت ہے، اور افغان عوام کی مدد کے بغیر اور بیرونی امداد کے بل بوتے پر اس کو آگے لے جانا ناممکن ہے، اس لیے کہ اگر اپنے عوام کی تائید کے بغیر ایسا ممکن ہوتا تو کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت کو دنیا کے 29 ممالک کی جانب سے انٹیلی جنس، اقتصادی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، لیکن اس تمام تر حمایت کے باوجود کرزئی کی کٹھ پتلی انتظامیہ افغان مجاہد عوام کی جانب سے جاری سخت مزاحمت کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
(4) پاکستانی حکومت کے اہلکار جو اپنے آپ کو امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں وہاں تک جاچکے ہیں جہاں تک ان کے لیے ممکن تھا، لہٰذا ان سے افغانستان میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کے لیے مدد حاصل کرنے کی باتوں کو عقلِ سلیم قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اگر پاکستان مجاہدین کی مدد کرتا تو اس کے اثرات بہت زیادہ واضح ہوتے۔
(5)لندن اسکول آف اکنامکس سمیت دنیا بھر کے علمی، تحقیقی، فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کو امارت ِاسلامیہ واضح طور پر یہ دعوت دیتی ہے کہ وہ افغانستان آکر کھل کر اسلامی امارت کی صفوں میں دیکھیں کہ ان کے مجاہدین اور جہادی قیادت افغان ہیں یا کوئی اور۔ پھر وہ کرزئی کی کٹھ پتلی انتظامیہ کی صفوں کو بھی چیک کریں کہ ان کے رہبر افغان ہیں یا پھر ہمارے ملک پر قبضہ کرنے والے دشمن۔ اور پھر دنیا کے سامنے اس چشم کشا حقیقت کی بنیاد پر رپورٹ پیش کریں، تب جاکر علمی مراکز حقیقت میں اپنے عالمانہ معیار کو پورا کریں گے۔ ان کی حیثیت اور وقعت محفوظ ہوگی اور دنیا ان کی اکیڈمک تحقیقات سے مستفید ہوگی۔
آخر میں اسلامی امارت ساری دنیا کے آزاد ممالک خصوصاً پڑوسی ممالک سے مطالبہ کرتی ہے کہ طاقت کے نشے میں بدمست قوتوں کے قبضے کو ختم کرنے کی خاطر امارت اسلامیہ کا ساتھ دیں تاکہ ہماری مظلوم اور تکالیف سے چور چور قوم قابض افواج کے قبضے سے آزاد اور ایک آزاد نظام کی حامل ہوجائے۔