• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان کے مسلم ہم جنس پرست جوڑے کی برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے پر درخواست

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پاکستان کے مسلم ہم جنس پرست جوڑے کی برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے پر درخواست
ریحانہ کوثر اور ثوبیہ کمار​
برمنگھم 26 مئی 2013: دو پاکستانی مسلم لڑکیاں جنہوں نے چند روز قبل لیڈیز رجسٹری آفس میں شادی کر لی تھی انہوں نے ہوم آفس میں اسائلم کی درخواست دی ھے۔​
ان کا کہنا ھے کہ اگر وہ پاکستان گئیں تو ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ھے، نہ صرف ان کے رشتہ دار بلکہ مذہبی گروپس بھی ان کے پیچھے پڑے ہیں جس سے ان کی واپسی موت کا دوسرا نام ھے۔ لہٰذا انہیں مستقل بنیادوں پر انگلینڈ میں قیام کی اجازت دی جائے۔​
برمنگھم کے اخبار سنڈے مرکزی کے مطابق ایک 34 سالہ ریحانہ کوثر جو لاہور سے ھے اور دوسری لڑکی سوبیہ کمار جس کا تعلق میر پور آزاد کشمیر سے ھے۔​
کچھ عرصہ پہلے سٹوڈنٹس ویزہ پر برطانیہ آئیں تھیں۔ ریحانہ کوثر ماسٹر کی ڈگری ہولڈر ھے اور سوبیہ کمار بزنس مینجمنٹ پنجاب یونیورسٹی سے پاس ہیں۔ دونوں ہائیر ایجوکیشن کے سلسلے میں برطانیہ آئی تھیں اور یہاں برمنگھم یونیورستی کی طالبات ہیں۔​
کچھ عرصہ پہلے یارک شائر میں منتقل ہو گئی تھیں جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سول پارٹنر شپ کے تحت اکٹھی رہیں گی، پہلے تو کونسل نے یہ کہہ کر رجسٹری سے انکار کر دیا پھر انہیں مزید 4 ہفتے سوچنے کا وقت دیا گیا۔​
ٹھیک چار ہفتوں بعد بھی ان کا یہی فیصلہ تھا جس پر ان دونوں نے روائیتی دلہنوں والا انگلش لباس زیب تن کیا اور رجسٹری آفس میں دونوں نے زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کے عہد و پیماں کئے۔​
دوسری طرف مذہبی حلقے اس چیز کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ اسلام میں شادی جیسا مقدس رشتہ صرف اور صرف ایک مرد اور عورت آپس میں کرتے ہیں۔​
ان لڑکیوں کے رشتہ داروں کا کہنا ھے کہ ان دونوں کو نہ صرف برطانیہ بلکہ ان کے آبائی ملک پاکستان سے بھی دھمکیاں ملی ہیں۔​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
استغفراللہ۔
شرم و حیا کی یقیناً حد ہوتی ہے۔ لیکن بے حیائی اور فحاشی کی کوئی حد نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھیں اور ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیں۔ آمین۔
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
استغفراللہ۔
شرم و حیا کی یقیناً حد ہوتی ہے۔ لیکن بے حیائی اور فحاشی کی کوئی حد نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھیں اور ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیں۔ آمین۔
آمین
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
انا للہ وانا الیہ راجعون
پہلی بات اسے پاکستانی کہا جائے مسلم نہ کہا جائے، یہ کہاں سے مسلم ہیں؟
مسلمان کے گھر شیطان پیدا ہوجائے تو اسے کیا مسلمان ہی کہا جائے گا۔ لفظ مسلم کا تعلق ایمان سے ہے۔ نام نہاد خاندانوں کی وراثت یا گھرانے سے نہیں۔
دوسری بات یہ ایک فیشن بن چکا ہے۔ ایسا اقدام یا تو شہرت حاصل کرنے یعنی میڈیا اور اخبارات و رسائل میں زینت بننے یا کسی ذاتی مفا د یورپ میں ویزہ حاصل کرنے یا مستقل قیام کی اجازت حاصل کرنے کے لئے ایسا انتہائی قبیح فعل تک کرنے میں رضامند ہوجاتے ہیں۔
یہاں بھی ایسا ہی مفاد نظر آرہا ہے۔
اللہ کی لعنت ہو اور ٖغرق جہنم کرے ان ہم جنس پرستوں کو۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

عدیل بھائی کی رپورٹ پر کمنٹس کرتا ہوں۔

بھائی شہرت کے لئے نہیں ھے،

انگلینڈ میں پناہ حاصل کرنے پر 6 کیٹگریز ہیں جن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ھے، اس پر سارا خرچہ یونائیٹڈ نیشن سے ملتا ھے اور جس نے کیس کیا ھے اس کو بھی فل فرنش رہائش اور تمام اخراجات یونائیٹڈ نیشن سے ہی ملتے ہیں اسطرح یہ سب سے آسان اور مفت کا طریقہ ھے مگر اس پر پہلی ہیئرنگ ہوم آفس میں ہوتی ھے اگر ناکام ہوئے تو پھر اپیل رائٹس ملتا ھے جس پر پھر سارا معاملہ کورٹ کے ذریعے سے چلتا ھے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد جا کر فائنل کامیابی یا ناکامی کا سامنا ہوتا ھے، اگر ناکامی ہو تو پھر درخواست گزار کسی دوسرے گھر میں شفٹ ہو جاتے ہیں اور اسطرح انہیں ٹوٹل 7 سال کا عرصہ گزارنا پڑتا ھے جس پر پھر وہ خود اپنا سب کچھ مینج کرتے ہیں اس سے پھر انہیں اتنے عرصہ اللیگل گزارنے کے بعد دوسری درخواست دینی پڑتی ھے جو ایک نارمل روٹین ھے۔

اسائلم کرنے پر اس ملک کے حالات دیکھنے پڑتے ہیں کہ درخواست گزار کے ملک میں ایسے حالات بھی ہیں یا نہیں، اس کے مطابق درخواست دی جاتی ھے اس پر درخواست گزار کے ذہن کے مطابق وکیل کی کوشش ہوتی ھے کہ اس کے لئے کوئی آسان سی کیٹگری کے مطابق کہانی تیار کرے۔

جب سے گے میرج کی اجازت ملی ھے لڑکیوں کے حوالہ سے یہ شائد پہلا کیس درج ہوا ھے اس لئے اسے اخبارات میں لایا گیا ھے، ورنہ اسائلم کیس اخبارات میں نہیں لائے جاتے مجھے نہیں لگتا کہ یہ کیس کامیاب ہو گا کیونکہ انہیں مذھب کے مطابق ہی سوالات کا سامنا کرنا ہو گا ہوم آفس یا کورٹ میں، اور پھر ان کی انویسٹیگیشن بھی بہت ہو گی جس سے ہو سکتا ھے جلد ہی ان پر دوسری خبر بھی سامنے آ جائے گی۔

گے میرج پر لڑکوں کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں جس پر میں چند ہفتے پہلے لندن گیا ہوا تھا جس پر ایک دوست کسی اپنے کسی عزیز کو لایا اسائلم پر کچھ معلومات حاصل کرنے کے لئے تو اس نے بھی ایسی ہی کیس پر درخواست جمع کروائی ہوئی تھی۔ اس پر انگریزوں کو فائدہ ہو یا نہ ہو مگر اپنے لوگوں نے اس پر بھرمار لگا دی ہوئی ھے اور یہ سب وکیل کی مدد سے ہی ہوتا ھے۔

جو لڑکیاں یہاں پڑھنے کے لئے آتی ہیں اگر تو ان کے والدین مالی طور پر اس قابل نہیں ہیں تو پھر انہیں اپنی بیٹیوں کو یہاں پڑھنے نہیں بھیجنا چاہئے، اس پر میں وقت ملنے پر کلپس لگاتا ہوں جس سے آپکو بہت کچھ جاننے کو ملے گا۔

والسلام
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
اس پر انگریزوں کو فائدہ ہو یا نہ ہو مگر اپنے لوگوں نے اس پر بھرمار لگا دی ہوئی ھے اور یہ سب وکیل کی مدد سے ہی ہوتا ھے۔

کنعان بھائی ہماری قوم کا تو المیہ ہی یہی ہے کہ غلط یا درست کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، بھلے اس میں عزت، غیرت ناموس سب کچھ ختم ہو جائے۔ اللہ ہمیں ہدایت اور صراط مستقیم پر چلائے آمین یا رب العالمین
 
Top