- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
مہلک ترین گناہوں میں ایک گناہ ، پاکدامنی ، بھولی بھالی مومن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگانا ہے۔ یہ سنگین گناہوں میں سے ہے۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کے حق میں کتاب و سنت میں سخت وعید آئی ہیں، یہ گناہ بدکاری ( زنا)سے کچھ کم نہیں بلکہ اس کے قریب درجہ کا ہے۔
شریعت میں بدکاری کرنے والے کی سزا 100 کوڑے رکھی گئی ہے تو بدکاری کی تہمت لگانے والےکے لیے ( اگر وہ اس پر 4 گواہ پیش نہ کر سکے) سزا 80 کوڑے مقرر کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے شخص کو فاسق کہا گیا، آئندہ کبھی بھی اس کی گواہی کو نا قابل قبول قرار دیا گیا ، یعنی کسی بھی معاملے میں وہ گواہی دے تو شرعاً اس کی گواہی مردود اور نا قابلِ قبول ہوگی۔ معنوی اعتبار سے یہ کوئی معمولی سزا نہیں۔ احساس و شعور رکھنے کے لیے یہ اذیت ناک صورتحال ہوگی کہ معاشرہ میں اس کی بات کا اب کوئی اعتبار نہیں رہے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر 4گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں 80 کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔ ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ ‘‘ (النور: 54)
توبہ سے حدود ( زنا اور تہمت زنا وغیرہ کی شرعی سزا) معاف نہیں ہوتے لہٰذا کسی پر تہمت لگانے کے بعد 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو شرعاً 80 کوڑے اس پر ضرور لگیں گے چاہے وہ توبہ کرے یا اپنی بات سے رجوع کرے۔ اسی طرح ’’مردود الشھادة‘‘ ہونے( گواہی قبول نہ کیے جانے) کے بارے میں بھی بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ بھی ہمیشہ کے لیے ہے توبہ کے بعد بھی آئندہ کبھی اس کی گواہی قبول نہ کی جائے گی۔ البتہ توبہ کر لینے اور اپنی اصلاح کر لینے کے بعد وہ بالاتفاق فاسق نہیں رہے گا۔
الغرض ظاہری اور معنوی لحاظ سے سزا کی شدت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کسی بے گناہ پر بدکاری کی تہمت لگانا اور اس کے پاک دامن کو داغدار کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا بڑا جرم ہے؟ ایک اور مقام پر یہ وعید سنائی گئی کہ ایسے لوگوں پر دنیا و آخرت میں لعنت برستی ہے۔ دنیا کی رسوائی کے علاوہ آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا عذاب تیار ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ پاکدامن ، بھولی بھالی با ایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ، ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے( اور وہی ) ظاہر کرنے والا ہے۔ ‘‘( النور: 23-25)
آیات بالا میں بھولی بھالی عورتوں پر تہمت زنا کی سزا بیان کی گئی۔ اہل علم کا اجماع ہے اس بات پر کہ یہ سزا عورتوں پر تہمت کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ کسی پاک دامن مرد پر بھی تہمت لگائی جائے، اسی طرح تہمت لگانے والا چاہے مرد ہو یا عورت ہر ایک کو یہ سزا ملے گی اگر وہ 4 گواہ پیش نہ کر سکیں۔ عہد رسالت میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بعض منافقین نے جو تہمت لگائی تھی تو مسلمانوں میں سے بھی 2 مرد اور ایک خاتون کی زبانیں اس تہمت سے آلودہ ہو گئی تھی اور انہوں نے اس ’’واقعہ افک‘‘ کو پھیلانے میں حصہ لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب اللہ تعالیٰ نے سورة النور کی آیات نازل فرما کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براٴت ظاہر فرما دی اور مذکورہ بالا احکام نازل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان تمام تہمت لگانے والوں پر حد نافذ فرمائی اور انہیں کوڑے لگائے گئے۔(ترمذی/ ابو داؤد)
الغرض کسی بھی گناہ، پاکدامن مسلمان مرد یا عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر کوئی بندہٴ مسلم واقعتاً بدکاری میں ملوث ہو تب بھی نصیحت و خیر خواہی اور اصلاح کی سنجیدہ کوشش کے ساتھ اس کی پردہ پوشی ہی بہتر و پسندیدہ ہے۔ احادیث میں اسی کی ترغیب دی گئی ہے۔
شریعت میں بدکاری کرنے والے کی سزا 100 کوڑے رکھی گئی ہے تو بدکاری کی تہمت لگانے والےکے لیے ( اگر وہ اس پر 4 گواہ پیش نہ کر سکے) سزا 80 کوڑے مقرر کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے شخص کو فاسق کہا گیا، آئندہ کبھی بھی اس کی گواہی کو نا قابل قبول قرار دیا گیا ، یعنی کسی بھی معاملے میں وہ گواہی دے تو شرعاً اس کی گواہی مردود اور نا قابلِ قبول ہوگی۔ معنوی اعتبار سے یہ کوئی معمولی سزا نہیں۔ احساس و شعور رکھنے کے لیے یہ اذیت ناک صورتحال ہوگی کہ معاشرہ میں اس کی بات کا اب کوئی اعتبار نہیں رہے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر 4گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں 80 کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔ ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ ‘‘ (النور: 54)
توبہ سے حدود ( زنا اور تہمت زنا وغیرہ کی شرعی سزا) معاف نہیں ہوتے لہٰذا کسی پر تہمت لگانے کے بعد 4 گواہ پیش نہ کر سکے تو شرعاً 80 کوڑے اس پر ضرور لگیں گے چاہے وہ توبہ کرے یا اپنی بات سے رجوع کرے۔ اسی طرح ’’مردود الشھادة‘‘ ہونے( گواہی قبول نہ کیے جانے) کے بارے میں بھی بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ بھی ہمیشہ کے لیے ہے توبہ کے بعد بھی آئندہ کبھی اس کی گواہی قبول نہ کی جائے گی۔ البتہ توبہ کر لینے اور اپنی اصلاح کر لینے کے بعد وہ بالاتفاق فاسق نہیں رہے گا۔
الغرض ظاہری اور معنوی لحاظ سے سزا کی شدت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کسی بے گناہ پر بدکاری کی تہمت لگانا اور اس کے پاک دامن کو داغدار کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا بڑا جرم ہے؟ ایک اور مقام پر یہ وعید سنائی گئی کہ ایسے لوگوں پر دنیا و آخرت میں لعنت برستی ہے۔ دنیا کی رسوائی کے علاوہ آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا عذاب تیار ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ پاکدامن ، بھولی بھالی با ایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ، ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے( اور وہی ) ظاہر کرنے والا ہے۔ ‘‘( النور: 23-25)
آیات بالا میں بھولی بھالی عورتوں پر تہمت زنا کی سزا بیان کی گئی۔ اہل علم کا اجماع ہے اس بات پر کہ یہ سزا عورتوں پر تہمت کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ کسی پاک دامن مرد پر بھی تہمت لگائی جائے، اسی طرح تہمت لگانے والا چاہے مرد ہو یا عورت ہر ایک کو یہ سزا ملے گی اگر وہ 4 گواہ پیش نہ کر سکیں۔ عہد رسالت میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بعض منافقین نے جو تہمت لگائی تھی تو مسلمانوں میں سے بھی 2 مرد اور ایک خاتون کی زبانیں اس تہمت سے آلودہ ہو گئی تھی اور انہوں نے اس ’’واقعہ افک‘‘ کو پھیلانے میں حصہ لیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب اللہ تعالیٰ نے سورة النور کی آیات نازل فرما کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براٴت ظاہر فرما دی اور مذکورہ بالا احکام نازل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان تمام تہمت لگانے والوں پر حد نافذ فرمائی اور انہیں کوڑے لگائے گئے۔(ترمذی/ ابو داؤد)
الغرض کسی بھی گناہ، پاکدامن مسلمان مرد یا عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر کوئی بندہٴ مسلم واقعتاً بدکاری میں ملوث ہو تب بھی نصیحت و خیر خواہی اور اصلاح کی سنجیدہ کوشش کے ساتھ اس کی پردہ پوشی ہی بہتر و پسندیدہ ہے۔ احادیث میں اسی کی ترغیب دی گئی ہے۔