• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاک لوگوں کا مصحف چھونا؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ "نہیں چھوتے اسے مگر المطھرون"۔
اس بارے میں بہت سے دلائل سامنے آئے ہیں لیکن اصل بات تک ابھی بھی میں نہیں پہنچا۔
میرا سوال ہے کہ اس بارے میں علماء اہلحدیث کا موقف ( قرآن و حدیث کے مطابق) پیش کریں اس آیت مبارکہ کا شان نزول صحیح تشریح مختلف مفسرین کی رائے پیان کریں اور یہ مسئلہ ضرور سمجھائیں۔

نوٹ:مجھے اس سوال کا کوئی عنوان زہن میں نہیں آیا لہذا آپ خود عنوان دے دیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
جہاں تک اس آیت کے معنی و مفہوم کا تعلق ہے تو اس بارے دو اقوال ہیں:
ایک قول تو یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس مصحف کے بارے میں ہے جو آسمانوں میں لوح محفوظ میں یا فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ قرآن کے سیاق و سباق سے یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ مصحف ہے جو انسانوں کے پاس ہے اور خبر بمعنی امر ہے یعنی حکم دیا گیا ہے کہ اس مصحف کو پاک لوگ ہی مس کریں۔ اب پاک لوگوں سے مراد کیا ہے تو اس میں پھر دو قول ہیں:
ایک قول کے مطابق پاک لوگوں سے مراد جو حدث اکبر سے پاک ہیں یعنی جنابت وغیرہ سے۔ جبکہ دوسرے قول کے مطابق پاکی سے مراد حدث اکبر اور حدث اصغر دونوں سے پاکی ہے یعنی وہ بے وضو بھی نہ ہوں اور انہوں نے وضو بھی کیا ہوا ہو۔

تفسير قوله تعالى ( لا يَمَسُّهُ إِلا الْمُطَهَّرُونَ )
[TR]
[TD="width: 100%"]

لقد اختلف اهل العلم في تفسير هذه الآية على قولين :
1 - أن المقصود الكتاب الذي في السماء لا يمسه إلا الملائكة .
2 - أن المقصود القرآن لا يمسه إلا الطاهر أما المحدث حدثا أكبر أو أصغر على خلاف بين أهل العلم فإنه لا يمسه .

وقد رجح شيخ الإسلام ابن تيمية في " شرح العمدة (1/384) القول الأول ، فقال :
والصحيح اللوح المحفوظ الذي في السماء مراد من هذه الآية وكذلك الملائكة مرادون من قوله المهطرون لوجوه :
أحدهما : إن هذا تفسير جماهير السلف من الصحابة ومن بعدهم حتى الفقهاء الذين قالوا : لا يمس القرآن إلا طاهر من أئمة المذاهب صرحوا بذلك وشبهوا هذه الآية بقوله : " ‏كَلَّا إِنَّهَا . تَذْكِرَةٌ . ‏فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ . ‏فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ . ‏ ‏مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ . ‏بِأَيْدِي سَفَرَةٍ . ‏كِرَامٍ بَرَرَةٍ " [ عبس : 11 - 16] .
وثانيها : أنه أخبر أن القرآن جميعه في كتاب ، وحين نزلت هذه الآية لم يكن نزل إلا بعض المكي منه ، ولم يجمع جميعه في المصحف إلا بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم .
وثالثها : أنه قال : " ‏فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ " [ الواقعة : 78] ، والمكنون : المصون المحرر الذي لا تناله أيدي المضلين ؛ فهذه صفة اللوح المحفوظ .
ورابعها : أن قوله : " ‏لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ " [ الواقعة :79] ، صفة للكتاب ، ولو كان معناها الأمر ، لم يصح الوصف بها ، وإنما يوصف بالجملة الخبرية .
وخامسها : أنه لو كان معنى الكلام الأمر لقيل : فلا يمسه لتوسط الأمر بما قبله .
وسادسها : أنه لو قال : " الْمُطَهَّرُونَ " وهذا يقتضي أن يكون تطهيرهم من غيرهم ، ولو أريد طهارة بني آدم فقط لقيل : المتطهرون ، كما قال تعالى : " فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ " [التوبة :108] ، وقال تعالى : " ‏إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ " [ البقرة : 222] .
وسابعها : أن هذا مسوق لبيان شرف القرآن وعلوه وحفظه .

وقال الإمام ابن القيم في مدارج السالكين (2/417) :
قلت : مثاله قوله تعالى : " ‏لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ " [ الواقعة :79] قال - يقصد الإمام ابن القيم شيخَ الإسلام - : والصحيح في الآية أن المراد به الصحف التي بأيدي الملائكة لوجوه عديدة :
- منها : أنه وصفه بأنه مكنون والمكنون المستور عن العيون وهذا إنما هو في الصحف التي بأيدي الملائكة .
- ومنها : أنه قال : " ‏لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ " [ الواقعة :79] ، وهم الملائكة ، ولو أراد المتوضئين لقال : لا يمسه إلا المتطهرون ، كما قال تعالى : ‏إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ " [ البقرة : 222] . فالملائكة مطهرون ، والمؤمنون متطهرون .
- ومنها : أن هذا إخبار ، ولو كان نهيا لقال : لا يمسسه بالجزم ، والأصل في الخبر أن يكون خبرا صورة ومعنى .
- ومنها : أن هذا رد على من قال : إن الشيطان جاء بهذا القرآن ؛ فأخبر تعالى : أنه في كتاب مكنون لا تناله الشياطين ، ولا وصول لها إليه كما قال تعالى في آية الشعراء : " ‏وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ ‏. ‏وَمَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ [ عراء : 210 - 211] وإنما تناله الأرواح المطهرة وهم الملائكة .
- ومنها : أن هذا نظير الآية التي في سورة عبس : " ‏فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ . ‏فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ . ‏مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ . ‏بِأَيْدِي سَفَرَةٍ . ‏كِرَامٍ بَرَرَةٍ " [ عبس : 12 - 16] ، قال مالك في موطئه : أحسن ما سمعت في تفسير : " ‏لَا يَمَسُّهُ إالْمُطَهَّرُونَ " أنها مثل هذه الآية التي في سورة عبس :
- ومنها : أن الآية مكية من سورة مكية تتضمن تقرير التوحيد والنبوة والمعاد ، وإثبات الصانع ، والرد على الكفار ، وهذا المعني أليق بالمقصود من فرع عملي وهو حكم مس المحدث المصحف .
- ومنها : أنه لو أريد به الكتاب الذي بأيدي الناس لم يكن في الإقسام على ذلك بهذا القسم العظيم كثير فائدة إذ من المعلوم أن كل كلام فهو قابل لأن يكون في كتاب حقا أو باطلا بخلاف ما إذا وقع القسم على أنه في كتاب مصون مستور عن العيون عند الله لا يصل إليه شيطان ، ولا ينال منه ، ولا يمسه إلا الأرواح الطاهرة الزكية ؛ فهذا المعنى أليق وأجل وأخلق بالآية وأولى بلا شك .ا.هـ.
والله أعلم
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="width: 100%"]
عبد الله زقيل
zugailam@yahoo.com
[/TD]
[/TR]
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
دوسرے قول کے مطابق اگر وضو کے بغیر قرآن مجید کو چھویا جائے یا تلاوت کی جائے یا تلاوت کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو کیا کرنا ہو گا؟
اور ایک اہم بات یہ بتائیے کہ اگر ایسا مسئلہ آ جائے جہاں آئمہ سلف و آئمہ محدثین کے اقوال ایک مسئلے میں مختلف ہوں تو کیا کسی ایک قول پر عمل کر لینا کافی ہو گا یا راجح موقف کی تلاش از حد ضروری ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال : كيا بغير وضوء قرآن مجيد ( جس ميں ترجمہ يا آيات كى تشريح نہ ہو ) اٹھانا جائز ہے ؟
كيونكہ ميں نے سنا ہے كہ ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مؤمن ہميشہ پاك ہوتا ہے، اگر چہ جنبى بھى ہو "


الحمد للہ:​
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے اسى طرح كا سوال كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" جمہور اہل علم كے ہاں مسلمان شخص كے ليے بغير وضوء قرآن مجيد چھونا جائز نہيں، آئمہ اربعہ كا مسلك يہى ہے، اور صحابہ كرام بھى يہى فتوى ديا كرتے تھے.

اس سلسلے ميں صحيح حديث وارد ہے جس ميں كوئى حرج نہيں عمرو بن حزم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اہل يمن كو خط لكھا جس ميں فرمايا:

" طاہر شخص كے علاوہ قرآن مجيد كو كوئى شخص نہ چھوئے "
يہ حديث جيد ہے، اور اس كے كئى طرق ہيں جو ايك دوسرے سے مل كر اسے قوى كرتے ہيں.
اس سے يہ علم ہوا كہ حدث اصغر اور حدث اكبر سے طہارت كيے بغير قرآن مجيد چھونا جائز نہيں، اور اسى طرح بغير وضوء ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل كرنا بھى جائز نہيں ہے.
ليكن اگر بالواسطہ يعنى كسى چيز كے ساتھ پكڑے مثلا كسى لفافے يا غلاف وغيرہ ميں تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن جيسا كہ بيان ہو چكا ہے جمہور اہل علم كے صحيح قول كے مطابق بغير وضوء براہ راست قرآن مجيد چھونا جائز نہيں ہے.
ليكن حفظ كردہ قرآن مجيد بغير وضوء زبانى پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں اور اس كى غلطى نكالنے والے شخص كے ليے قرآن مجيد پكڑنے كوئى حرج نہيں ہے.
ليكن حدث اكبر يعنى جنابت والا شخص قرآن مجيد زبانى بھى نہيں پڑھ سكتا، اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ جنابت كے علاوہ ہر حالت ميں قرآن مجيد كى تلاوت كيا كرتے تھے.
على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيت الخلاء سے نكلے اور قرآن مجيد كچھ تلاوت فرمائى"
وہ كہتے ہيں يہ تو غير جنبى شخص كے ليے ہے، ليكن جنبى شخص ايك آيت بھى تلاوت نہيں كر سكتا.
اس حديث كو امام احمد نے جيد سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
مقصد يہ كہ جنبى شخص غسل كرنے سے قبل نہ تو قرآن مجيد سے ديكھ كر تلاوت كر سكتا ہے، اور نہ ہى زبانى اپنے حافظہ سے، ليكن حدث اصغر والا شخص جو جنبى نہ ہو وہ بغير وضوء كيے زبانى قرآن مجيد تلاوت كر سكتا ہے ليكن قرآن مجيد كو چھو نہيں سكتا.
ديكھيں: فتاوى ابن باز رحمہ اللہ ( 10 / 150 ).
اور آپ كى ذكر كردہ حديث " مومن پاك ہے " يہ حديث ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ملے تو ميں جنابت كى حالت ميں تھا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرا ہاتھ پكڑا تو ميں ان كے ساتھ ساتھ چلنے لگا حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك جگہ بيٹھ گئے، اور ميں چپكے سے وہاں سے كھسك گيا، اور گھر آكر غسل كيا اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس واپس آيا تو وہ بيٹھے ہوئے تھے، فرمانے لگے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كہاں تھے ؟
ميں نے ان سے عرض كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: سبحان اللہ، اے ابو ہريرہ مومن نجس نہيں ہوتا "
صحيح بخارى كتاب الغسل حديث نمبر ( 276 ) صحيح مسلم كتاب الحيض حديث نمبر ( 556 ).
صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" يہ حديث مسلمان شخص كے زندہ اور مردہ پاك صاف ہونے كى عظيم دليل ہے، وہ كہتے ہيں: جب مسلمان شخص كى طہارت ثابت ہو گئى تو اس كا پسينہ، اس كا لعاب، اس كا خون سب كچھ پاك اور طاہر ہيں، چاہے مسلمان شخص بے وضوء ہو يا جنبى ہو، يا حائضہ عورت ہو يا نفاس والى.
اور جب يہ علم ہو گيا تو اس كے طاہر اور پاك ہونے كا معنى بھى معلوم ہو گيا، چنانچہ اس ميں كوئى مانع نہيں كہ مسلمان شخص كا جسم طاہر ہو اور وہ اس وقت وضوء بھى ہو، كيونكہ حدث كا وصف بدن كے ساتھ قائم ہے جو نماز ادا كرنے ميں مانع ہے، اور اسى طرح دوسرى اشياء ميں بھى مانع ہے جس كے ليے طہارت كى شرط لگائى جاتى ہے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
لیکن یہاں تو بہت سارے علمائے اہلحدیث "بغیر وضو کے قرآن مجید کو چھونے اور پڑھنے" کے قائل ہیں؟مثلا اگر قرآن مجید کی تلاوت کے دوران وضو ٹوٹ گیا تو تلاوت ختم نہیں کی جا سکتی بلکہ جاری رکھنی چاہیے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
بس متن یعنی ٹیکسٹ کو چھونے اور مس کرنے سے احتراز کریں اور قرآن مجید کی تلاوت ممنوع نہیں ہے۔ چاہے مصحف دیکھ کر ہو یا زبانی ہو۔ <br>متن اور ٹیکسٹ سے مراد قرآن کے الفاظ ہیں اور اگر قرآن کے اوراق کو اس کے کونے سے پکڑا جائے کہ جو صفحہ کا خالی حصہ ہوتا ہے یا اس کے گتے یا کور کو ہاتھ لگانا، تو میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top