محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
"پتھر کا موسی علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگنا"
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
آج ھم جس حدیث پر اعتراض کا ازالہ لکھنا چاھتے ہيں وہ منکر حدیث کے لٹریچر میں الاول نمبر پر ہوتی ہے کہ آپ کسی منکر حدیث کو نا دیکھيں گے کہ وہ اس روایت پر اپنے اشکالات نا پیش کریں ۔ در اصل یہ حدیث قرآن کی ایک ایت پر تفسیر ہے نبیﷺ سے۔ ارشادی باری تعالی ہے
اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی۔ پھر اللہ نے موسیٰ کو ان کی بنائی ہوئی باتوں سے بری کردیا اور وہ اللہ کے ہاں بڑی عزت والے تھے۔( سورہ الحزاب : 69)
بنی اسرائیل کی موسیٰ علیہ السلام کو ایذا رسانی:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے۔ ان کی حیاء کی وجہ سے ان کے بدن کو کوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے جو لوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے ‘ وہ کیوں باز رہ سکتے تھے ‘ ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے ایک پتھر پر اپنے کپڑے (اتار کر)رکھ دیئے۔ پھر غسل شروع کیا۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لیے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرا کپڑا دیدے۔ آخر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کو ننگا دیکھ لیا ‘ اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی تہمت سے ان کی برات کر دی۔ اب پتھر بھی رک گیا اور آپ نے کپڑا اٹھا کر پہنا۔ پھر پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم اس پتھر پر موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑ گئے تھے۔
( صحیح بخاری ،كتاب أحاديث الأنبياء)
اشکالات :
منکر حدیث کا اس حدیث پر اعتراض یہ ہے کہ روایت میں موسی علیہ السلام کی توہین کی گئی ہے کہ ان کو بنی اسرائیل کے سامنے برہنہ کردیا۔ دوسرا یہ کہ اس روایت میں ایک معجزہ ہے کہ پتھر کپڑے لئے دوڑ پڑا اور یہ بات منکر حدیث کو کسی قیمت پر گوارا نہیں کیونکہ یہ معجزات کے منکر ہے تیسرا یہ کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو پتھر پر مار کے نشانات کا صحیح علم کیوں نہ تھا ۔
ازالہ :
اعتراض کا جواب دینے سے قبل قارئین کی توجہ آیت پر کرانا چاھتا ہو -
ایت میں وَجِیْھًا کا معنی ایسا آبرو اور رعب والا شخص ہے جس کے متعلق لوگوں کو کچھ اعتراض ہو بھی تو وہ اس کے منہ پر کچھ نہ کہہ سکیں اور ادھر ادھر باتیں کرتے پھریں ۔ یہی لفظ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ کے لئے استعمال فرمایا اور کہا (وَجِیْھًا فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ) (٣:٤٥) یعنی عیسیٰ دنیا میں بھی وجیہ تھے اور آخرت میں بھی وجیہ ہوں گے۔ چنانچہ دنیا میں یہود ان کی پیدائش سے متعلق الزام لگاتے تھے لیکن منہ پر بات کہنے کی کوئی جرات نہ کرتا تھا۔ تو اس لحاظ " فبرأه الله مما قالوا" کہ اللہ نے بری کر دیا وہ جو کہا کرتے تھے ۔ اس میں "مما قالو" کے الفاظ کے بعد وجیھاً کا لفظ لانا اس بات کی دلیل ہے کہ بنی اسرائیل ضرور کچھ کہا کرتے تھے پیٹھ پیچھے اور ان باتوں سے موسی علیہ السلام کو تکلیف بھی ہوتی تھی اور بنی اسرائیل ان کے منہ پر کہنے کی جراءت بھی نا کرتے تھے۔ اب ان گزراشات کے بعد منکر حدیث دوستوں سے پوچھنا چاھتے ہيں كه وه بتائيں وہ کیا ایذا دینی والی باتیں تھی اور پھر موسی علیہ السلام کو اللہ نے اس ایذا سے نجات دی تو نجات کی صورت کیا تھی ؟
موسی علیہ السلام کی قوم آپس میں یہ کہا کرتی تھی کہ موسی علیہ السلام ھمارے ساتھ نہیں نہاتے ضرور ان کو کوئی جلد کی بیماری ہوگی جس کی وجہ وہ اکیلا غسل فرماتے ہے پتھر کا کپڑے لے کر بھاگنا اور قوم کے قریب پینج جانا اگر اس وقت موسی علیہ السلام بلکل برہنہ بھی تھے تو قوم میں بلکل برہنہ کوئی معیوب بات نہیں کیونکہ حدیث میں صراحت ہے کہ قوم برہنہ حالت میں غسل کرتی تھی۔ مزید حدیث میں یہ کہی موجود نہیں کہ موسی علیہ السلام بلکل برہنہ تھے بلکہ ھم کہتے ہے کہ وہ لنگوٹے وغیرہ پہن کر نہا رھے تھے تو اس بات کو ماننے میں کیا حرج ہے ؟ احادیث کہ شارحین نے بھی یہی بات فرمائی ہے۔ لیکن منکر حدیث کہ ذہن کا کمال ہے کہ وہ ایسے اعتراض کرتے ہے حیرت ہے جو سمندر کے ساحل پر مغرب کے مرد و خواتین کا برھنے ہو کر نہانے کو تو معیوب نہیں سمجھتے اور کبھی تنقید بھی کرتے نظر نہیں آتے لیکن حدیث میں جو بات بیان نہیں بھی ہوئی اس پر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔
موسی علیہ السلام کے برہنا ہونے پر اعتراض ہے تو قرآن کا بیان سنئے!
{فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۭوَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ }
پھر جب (آدم اور حوا) نے اس درخت کو چکھ لیا تو ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے پر ظاہر ہوگئیں اور وہ جنت کے پتے اپنی شرمگاہوں پر چپکانے لگے۔
(سورہ العراف:22)
اب بتائے ان احباب کا اس حدیث کا مذاق اڑانا زائل ہوا کہ نہیں ورنہ قرآن پر کیا اعتراض کرے گے ؟
اس ایت کو مسلمانوں کا اپنے حق میں پیش کرنا ان حضرات کو کیسا گوارا تھا ایک منکر حدیث قاری صاحب نے اس ایت پر یہ اعتراض کر دیا کہ یہاں ننگے ہونے کو شیطان کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ حدیث میں اللہ کی جانب ان قاری صاحب کا مطلب یہ ہے اب برہنہ ہونا تو کوئی اعتراض نہیں رھا بلکہ اعتراض یہ رھا کہ اس واقعہ کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے جناب عالی! ھم پہلے ہی عرض کر چکے کہ موسی علیہ السلام بلکل برہنہ نہا رھے تھے یہ حدیث سے ثابت نہیں ورنہ ثابت کیجیئے موسی علیہ السلام کمزکم اپنی لنگوٹیاں پہنے ہی قوم کے پاس پہنچ گئے اور قوم نے سارا جسم ہر عیب و نقص سے پاک دیکھا تو اس طرح اللہ کی طرف سے موسی علیہ السلام کو خیر پہنچی جیسا کہ ان کی قوم ان کو ایذا دیتی تھی اور
اللہ کا فرمان ہے
مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ
تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے
(سورہ النساء :79)
تو اگر موسی علیہ السلام کو خیر پہنچی اور ان کی ایذاوں سے جان چھوٹی تو اللہ کی طرف منسوب کرنا صحیح ہوا یا نہیں ۔
اس حدیث میں لفظ آدر پر اشکال کا ازالہ:
کوئی شخص موسی علیہ السلام پر بنی اسرائیل کا آدر (خصیتیں بڑجانا) کا لفظ کہنے سے استدلال کر سکتا ہے کہ خصئے پر نظر پڑھنے کے لئے مکمل برھنا ضروری ہے ورنہ خصئے نظر ہی نہیں آسکتے لیکن یہ آپ کا خیال ہے آدر ہونا ایک بیماری ہے جس کو انگریزی میں Hydrocele کہتے ہیں۔ اس بیماری میں انسان کے خصیوں کے گرد جلد کے اندر پانی سے بھری تھیلیاں بن جاتی ہیں اور ان کا حجم بہت بڑا ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کے بارے میں آپ مختصراً یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.mayoclinic.org/.../basics/definition/con-20024139
اس بیماری میں مرد کے خصیوں کا حجم اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ وہ کپڑوں کے اندر سے رانوں کے درمیان لٹکے ہوئے صاف نظر آتے ہیں۔ اس بیماری کا پتہ لگانے کے لیے مکمل برہنہ ہونا ضروری نہیں۔ چھوٹی موٹی لنگوٹ ہو تو صاف پتہ چل جائے گا کہ بندے کو یہ بیماری ہے کہ نہیں۔ الغرض موسی علیہ السلام کی لنگوٹ کے ساتھ انہوں نے بخوبی اندازہ لگا لیا کہ موسی علیہ السلام آدرُ "خصیہ پھولنے کی بیماری(القاموس الوحید) میں مبتلا نہیں ۔ کوئی بھی گوگل پر Hydrocele کی بیماری پر مزید سرچ کر سکتا ہے۔(بشکریہ محترم Zahid Kareem بھائی)
رہی یہ بات کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ قسم اٹھاکر کہتے ہیں کہ پتھر پر مار کے چھ یا سات نشانات ہیں اور اس پر یہ اعتراض کہ اگر یہ تفسیر منسوب الی اللہ ہے تو کیا اللہ کو صحیح تعداد معلوم نہیں تھی نشانات کی ؟ اس اعتراض پر یہ ایت پڑھئے
وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ
اور ان (یونسؑ)کو لاکھ یا اس سے زیادہ کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا ۔
اب جو یہاں اعتراض کرتا ہے کہ کیا اللہ کو معلوم نہیں تھا کہ نشان چھ ہیں یا سات تو وہ قرآن پر بھی اعتراض کرے کہ کیا اللہ کو معلوم نہیں تھا کہ کتنے بندوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا؟ جو تشریح اس آیت کریمہ میں "الف او یزیدون" میں لفط "او" کی ہے وہی اس روایت میں سِتَّةٌ أَوْ سَبْعَةٌ کی ہے۔ اگر یہ اسلوب اللہ تعالی نے استعمال کیا تو اعتراض نہیں مگر حدیث میں کوئی ایسی بات آجائے تو فوراً جھٹلا دو؟ اہل تحقیق سے انصاف کا سوال۔
محترم قارئین ھم نے احادیث کو ہر اعتراض سے پاک ثابت کیا ہے لیکن اب بھی کسی کو یہ جوابات منظور نہیں تو یہ گزارشات ملاحظہ کیجیئے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکر ہیں ۔ انھیں یہ تفسیر راس نہیں آسکتی۔ تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے تسلیم کرلیں وہ یوں کہ حجر کے معنی پتھر بھی ہیں اور گھوڑی بھی۔ (منجد) اس لحاظ سے یہ واقعہ یوں ہوگا کہ موسیٰ گھوڑی پر سوار تھے۔ کسی تنہائی کے مقام پر نہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پر اپنے کپڑے رکھ دیئے۔ جب نہانے کے بعد کپڑے لینے کے لئے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ علیہ السلام ثوبی یا حجر کہتے اس کے پیچھے دوڑے تاآنکہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھ لیا کہ آپ بالکل بے داغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔(مولانہ عبدالرحمٰن کیلانی)
آخر میں ھم منکر حدیث احباب سے گزارش کرے گے کہ حدیث کو جھٹلا دینا اتنا آسان نہیں جتنا آپ احباب نے سمجھ لیا ہے-قاری صاحب تو اپنی بے بسی بار بار ثابت کرتے رھتے ہيں کہ سند و متن پر جرح کرنا میرے بس میں نہیں اور کر بھی کیسے سکتے ہيں- یہ اسناد سونے کی زنجیر ہے اور محدثین کرام کے وقت سے ہی ان احادیث کو کوئی بھی جھٹلا نا سکا سندً و متناً مگر ھم نے جو معیارات آپ نے قائم کئے اس کے مطابق جواب لکھ دیا ہے اگر پہلا جواب منظور نہیں تو آخری جواب سے زیادہ ھم آپ کے مرض کا علاج کیسے کرے تعجب ہے جو لوگ قرآن میں ھد ھد اور چیونٹیاں کہ واقعہ کی عجیب و غریب تاویلات کرتے ہے لیکن حدیث میں کوئی ایسا واقعہ بیان ہو جائے تو ناک منہ چڑھاتے هيں یہ اپنے ساتھ ہی نانصافی ہے بس اللہ ہی سے دعا ہے کہ اللہ ھمیں اور آپ کو ھدایت دیں۔ آمین
https://www.facebook.com/AntiMunkireHadith/photos/a.379044548829578.91507.379020948831938/715887461811950/?type=1&theater
Last edited: