• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پرانا دوست !

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
پرانا دوست !

۔
رعایت اللہ فاروقی
میں اسے پورے تیس سال سے جانتا ہوں یعنی اس وقت سے جب اسے بالغ ہوئے صرف تین سال ہوئے تھے۔ تین چیزیں اس کی شخصیت کی تب بھی شناخت تھیں اور آج بھی شناخت ہیں۔ اعلیٰ درجے کی ذہانت۔ اعلیٰ ترین درجے کا اخلاق اور خاکساری کی حد کو پہنچا ہوا انکسار۔ میرے اور اس کے تعارف کے اگلے سال یعنی 1987ء میں وہ جامعہ بنوریہ میں درجہ ثالثہ کا طالب علم تھا۔ اس نے جامعہ کی مسجد میں امامت کرائی اور سلام پھیرتے ہی مصلے چھوڑ کر چلتا بنا۔ منیجمنٹ نے دعاء نہ کرانے کو ایشو بنا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ جامعہ بنوریہ میں زندگی کی رفتار رک سی گئی۔ منیجمنٹ کا کہنا تھا وہ دعاء نہ کرانے پر معافی مانگے اور اس کا کہنا تھا کہ آپ ثابت کردیں کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعاء فرض یا واجب ہے یا اس کا نماز سے کوئی لازمی تعلق ہے تو میں معافی مانگ لوں گا۔ مفتی محمد نعیم صاحب نے فیکلٹی کا اجلاس بلا لیا اور فیصلہ لکھا کہ محمد الیاس گھمن کا جامعہ سے اخراج کیا جاتا ہے۔ تمام اساتذہ نے دستخط کردیے سوائے میرے والد مولانا محمد عالم رحمہ اللہ کے۔ میرے والد کا موقف تھا کہ آپ نے شرعی مسئلے کو اخراج کی وجہ بتایا ہے، شرعی مسئلے میں الیاس کا موقف درست اور آپ سب کا غلط ہے اور اس مسئلے میں میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اگر میرے دستخط چاہئیں تو یہ لکھئے کہ ہمارا انتظامی قاعدہ ہے کہ فرض نماز کے بعد ہر حال میں دعاء ہوگی اور الیاس نے یہ دعاء نہ مانگ کر ادارے کا ضابطہ توڑا ہے لھذا اخراج کیا جاتا ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ میرے والد کے لاڈلے شاگردوں میں سے ہے۔ اخراج کے بعد اسے رخصت کرتے ہوئے میرے والد نے 100 کا نوٹ دیتے ہوئے کہا تھا۔ "اب کراچی میں نہ پڑھنا، سیدھے پنجاب جاؤ اور وہیں پڑھو" اور الیاس نے ایسا ہی کیا۔ وہ دن ہے اور یہ دن ہے الیاس مسلسل تنازعات کا شکار رہتا ہے اور اس کا سبب اس کی بے پناہ ذہانت اور تحرک کے سوا کچھ نہیں۔ میری درخواست پر اس نے متشددانہ رویہ ترک کیا جو بڑی بات ہے کیونکہ اس لیول پر پہنچ کر لوگ دوستوں کی نہیں بلکہ چمچوں کی سنتے ہیں۔ میں نے اسی فیس بک 2014ء میں تنقید کا نشانہ بنایا تو فورا سرگودھے سے صفائی دینے آگیا اور بخدا اشارے کنائے میں بھی یہ نہیں کہا کہ آئندہ میرے خلاف نہ لکھنا۔
وہ بے انتہاء ذہین ہے، اس کا اخلاق اس درجے کا ہے کہ آپ کو دو منٹ میں فتح کرلے، وہ صرف اور صرف دلیل کی زبان میں بات کرنے والا مولوی ہے۔ اس کی آواز پھیل رہی ہے اور اس پھیلاؤ کا مطلب مولویوں کے لئے یہ ہے کہ چندے کا ایک اہم دعویدار اور میدان میں ہے اور یقین جانئے میں مولویوں کی رگ رگ سے واقف ہوں، چندے کو خطرہ لاحق ہوجائے تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کی اسلامک بینکنگ پر یہی تو مسئلہ تھا کہ ملک بھر کے سیٹھ ان کی طرف متوجہ ہوگئے تھے اور بڑے مدرسوں کے ایسے کیسز میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سیٹھوں نے یہ کہہ کر چندہ دینے سے انکار کردیا کہ "دارالعلوم کو دیدیا ہے" سیٹھ اسلامک بینکنگ کی وجہ سے ہی مفتی تقی عثمانی صاحب کے دارالعلوم کی جانب متوجہ ہوئے تھے لھذا اسلامک بینکنگ کو ہی نشانہ بنانا ضروری ہوگیا تھا اور یہ اس بے رحمی سے بنایا گیا کہ مفتی تقی صاحب کے بارے میں کہا جانے لگا "وہ سود کو حلال کر رہے ہیں" اور یہ بات الیاس پر زنا کی تہمت لگانے سے زیادہ سنگین تھی کیونکہ سود کو حلال کرنے والا تو کافر ہوجاتا ہے، اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ ان پر کفر کا فتویٰ لگانے کی تیاری تھی۔ تقی صاحب کے بعد مولانا زاہد الراشدی ابھرنے لگے تو ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ تو فیس بک پر ہی بکھرا پڑا ہے۔ زاہد الراشدی کے بعد مولانا طارق جمیل کا بھی نمبر لگا اور ان کے قدم بھی روکنے کی کوشش کی گئی۔ یاد رکھئے جب بھی کوئی مولوی سر اٹھانے کی کوشش کرے گا اور یہ خطرہ پیدا ہوگا کہ یہ بھاری چندہ کھینچ سکتا ہے تو کراچی کے مولویوں کا ایک گروپ لازما ان کی کردار کشی کرے گا۔
جہاں تک اس آرٹیکل کا تعلق ہے تو سبوخ سید بھی پچھلے دس سال سے میرے دوست ہیں لھذا میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا، اس کے لئے آپ کو کسی منجھے ہوئے میگزین ایڈیٹر سے رائے مانگنی ہوگی البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر یہ الیاس گھمن سبوخ سید کے بارے میں شائع کرتا تو قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری ایک فون کال پر الیاس اسے ویب سائٹ سے ہٹا بھی چکا ہوتا اور شاہ جی سے معذرت بھی کر چکا ہوتا اور یہی پرانے دوستوں کی کوالٹی ہوتی ہے۔ میں نے شاہ جی سے یہ درخواست نہیں کی کیونکہ فی الحال اپنی اتنی حیثیت نظر نہیں آتی لیکن یقین ہے کہ ایک دن شاہ جی کے ساتھ بھی دوستی کا لیول اس مقام تک پہنچ جائے گا۔ وہ ایک اچھے دوست ہیں، ہمدرد ہیں، ملنسار ہیں اور مشکل وقت میں آس پاس نظر آنے والوں میں سے ہیں !
یہ کیس اپنی نوعیت کے لحاظ سے دارالافتاء جانے کا تھا یا عدالت جانے کا ؟ قرآن مجید اس حوالے سے کیا کہتا ہے ؟ صرف اسی کیس میں قذف کیوں رکھی گئی ؟ الزام لگانے والے قرآنی ہدایات کے بجائے منافقین مدینہ کی راہ پر کیوں چلے ؟ جب تک الیاس گھمن کو عدالت مجرم قرار نہیں دیدیتی میں اسے پاک دامن ہی مانوں گا۔ کل کو آپ میں سے کسی شخص پر کوئی الزام لگا دے اور الزام لگانے والا ہوا بھی کسی شیخ الحدیث کا بیٹا تو کیا میں مان لوں ؟ یہ تو بہت ہی آسان بات ہوگئی، فیس بک پر بھی جو بندہ قابو نہ آ ئے اس پر ایسا ہی کوئی الزام دھر دو اور اسی سے کہو کہ اپنی پاک دامنی اور معصومیت ثابت کرو ورنہ ہم تمہیں زانی ہی مانیں گے۔ کیا شریعت اور مروجہ قانون ثابت کرنا ملزم کے ذمہ داری بتاتے ہیں ؟ جس دن آپ پر تہمت لگی اس دن آپ کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا اور اگر اس دن رعایت اللہ فاروقی بھی آپ سے ہی مطالبہ کرنے لگا کہ اپنی بے گناہی ثابت کرو تو وہ آپ کا ہی دل ہوگا جس پر خنجر چلیں گے۔ میری تو کوئی بیٹی اور بہن نہیں لیکن بہنوں اور بیٹیوں والو ! ایک بار قرآن مجید بھی کھول کر دیکھ لو کہ اس کیس میں اس کے رہنماء اصول کیا ہیں ؟
--
پس تحریر: آج کل فیس بک پر ایک مولانا صاحب ”ہاٹ ایشو“ بنے ہوئے ہیں۔ اس مو ضوع پر یہ ایک معتدل تحریر ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسے موضوعات پر تہذیب کے دائرے میں مکالمہ ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن اگر منتظمین محدث فورم اس پوسٹ کے حق میں نہیں تو اس پوسٹ کو حذف کیا جاسکتا ہے (ی ث)​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
واضح رہے کہ مذکورہ بالا مولانا صاحب لڑکوں اور لڑکیوں کا مدرسہ چلاتے ہیں۔ اور مولانا صاحب کی زوجہ نے جو خود ایک معروف عالم صاحب کی بیٹی ہیں، ۔اپنے شوہر پر شدید الزامات عائد کئے کہ ان کے مدرسہ کی طالبات اور بعض خواتین اساتذہ کے ساتھ ناجائز مراسم ہیں۔ ان کی زوجہ نے مختلف علمائے کرام کو اس سلسلہ میں خطوط بھی لکھے۔ عوامی سطح پر یہ بات سب سے پہلے روزنامہ امت کے کالم میں شائع ہوئی۔ اور آج کل اسی کی بازگشت سوشیل میڈیا پر ہاٹ ایشو بنی ہوئی ہے۔ یہ سطور صرف ان احباب کے لئے ہے جو اس موضوع سے تاحال بے خبر ہیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
پس تحریر: آج کل فیس بک پر ایک مولانا صاحب ”ہاٹ ایشو“ بنے ہوئے ہیں۔ اس مو ضوع پر یہ ایک معتدل تحریر ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسے موضوعات پر تہذیب کے دائرے میں مکالمہ ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن اگر منتظمین محدث فورم اس پوسٹ کے حق میں نہیں تو اس پوسٹ کو حذف کیا جاسکتا ہے (ی ث)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ!
یہ الفاظ آپکے ہیں؟؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہ سطور صرف ان احباب کے لئے ہے جو اس موضوع سے تاحال بے خبر ہیں۔
کل کسی نے میرے گروپ میں شئیر کیا تھا. میں نے اسکو منع کیا تو مجھے خوب صلواتیں سنائیں اور دیوبندی کے طعنے سننے کو ملے. خیر میں نے تھوڑی دیر اسکو سمجھایا پھر گروپ سے آؤٹ کر دیا.
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مولوی الیاس گھمن ، چند وضاحتیں—-وقاص خان

۔
۔
دو بنیادی نکتے سمجھیں اس کے بعد اصل بات کی طرف آتے ہیں۔
1۔ مولوی الیاس گھمن مولوی یعنی مذہب سے جڑی شخصیت ہیں تو ان کے خلاف چارج شیٹ پیش کرنے والی خاتون بھی نا صرف مذہبی پس منظر رکھتی ہیں بلکہ مولوی الیاس گھمن کی بنسبت ہزارہا درجہ زیادہ دیندار اور عزت دارگھرانے کی ایک فرد ہیں۔
2۔ اگر فیصلہ معروف حیثیت یا پچھلے خوشگوار تجربات کی روشنی میں کرنا ہے تو خاتون کی معروف حیثیت مولوی الیاس کی نسبت کافی بہتر ہے۔ ان کا اور ان کے گھرانے کا کردار صاف ستھرا اور قابل تقلید ہے۔
مجھے ذاتی طور پر حیاتی مماتی، مسجد مدرسہ کی بنیاد پر ہونے والی کشمکش اور چندہ یا مذہبی قد کاٹھ میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ نہ واسطہ ہے اور نہ ہی ان معاملات کو اس قابل جانتا ہوں کہ ان کی وجہ سے کچھ لکھنے کا کشٹ اٹھاؤں۔ البتہ مولوی الیاس گھمن کا مسئلہ حضرت مفتی زین العابدین رحمہ اللہ اور ان کے خاندان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے براہ راست مجھ سے بھی متعلق ہے اس لئے چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں..
مولوی الیاس گھمن کے خلاف جو چارج شیٹ منظر عام پر آئی ہے اس کی بازگشت پہلے بھی علمی حلقوں میں سنائی دی تھی۔ میری معلومات کے مطابق مولانا سلیم اللہ خان صاحب کو جب یہ صورتحال بتائی گئی تو انہوں نے نا صرف مولوی الیاس گھمن کی مذمت کی تھی بلکہ ان سے قطع تعلق کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ چونکہ اہل مدارس کا کوئی بھی اچھا اقدام میڈیا کی زینت نہیں بنا کرتا اس لیے یہ خبر بھی کسی کی دلچسپی کا سامان نہ بن سکی۔ اور بات آئی گئی ہو گئی۔
اب جب یہ خبر میڈیا کی زینت بنی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک پرانی خبر نئی پیکنگ میں کیوں منظر عام پر لائی گئی ہے؟؟ میرے پاس اس سوال کا جواب ہے اور نہ ہی اس پر بات کرنا میرا مقصود۔ البتہ اتنی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ خبر آج کل کی نہیں بلکہ مہینوں پرانی ہے. مولوی الیاس گھمن کے ساتھ مفتی صاحب رحمہ الله کی بیٹی کا رشتہ مسئلہ مصاہرت کی بنیاد پر ختم ہوئے بھی ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ اس لیے انہیں فریق بنانے والے اور ان کی شخصیت و کردار پر نازیبا جملے کسنے والوں کو اس بات کا جواب ضرور دینا چاہیے کہ وہ ایک عزت دار خاتون کی بابت بکواس کس مقصد کی خاطر کر رہے ہیں؟؟؟
اگر سینے میں دل ہو اور سر پر مسلک پرستی کا جنون سوار نہ ہو تو بس ایک بار سوچیے گا کہ ہماری سوسائٹی اس لڑکی کا کیا حشر کرتی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ خود اس کا والد اسے ہوسناک نظروں سے دیکھتا رہا۔ ارے اللہ کے بندو۔! ذرا تصور تو کرو ایک ماں نے کس کرب کے ساتھ اپنی پھول جیسی بچی کے ساتھ ہونے والا ظلم زیر بار قلم لایا ہو گا۔؟؟ کتنی ہی راتیں اس نے آنکھوں میں کاٹی ہوں گی یہ فیصلہ کرنے میں کہ وہ اپنی بچی کی عزت بچانے کی خاطر خاموشی اختیار کرے یا اس درندگی کو سنجیدہ اور ذمہ دار علمائے کرام کے علم میں لا کر اپنی اور اپنی بچی کی زندگی اس درندے کے چنگل سے نکالے۔؟؟ نا معلوم کس مٹی سے بنے ہیں وہ لوگ جنہوں نے یہ حقائق پڑھے اور بجائے تحقیق و تفتیش کے مفتی صاحبؒ کی بیٹی کے بارے میں اوٹ پٹانگ گفتگو کرنے لگے ہیں۔۔
حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ خواتین کا معاملہ جو بہت نازک ہوتا ہے اس میں ہمارے نام نہاد مذہبی دوست بدترین رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے بزعم خود دین کی خدمت اور خدا کی خوشنودی کی کوشش کر رہے ہیں۔ تف ہے ان پست فکر لوگوں کی ذہنیت پر۔ اگر مولوی الیاس گھمن کے خلاف چارج شیٹ پیش کرنے والی کوئی عام خاتون ہوتیں تو بھی یہ رویہ مناسب نہیں تھا چہ جائیکہ وہ اس گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں جس کی للہیت اور خدا شناسی کی گواہ ایک دنیا ہے۔
بہرحال سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ فریق ثانی کا دعوی سچائی پر مبنی ہے۔ مولوی الیاس گھمن کا کردار حد درجہ کریہہ اور شرمناک ہے۔ انہوں نے درندگی اور ہوس پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فریق ثانی نے اپنے تئیں اس معاملے کے مناسب حل کی کوششیں کی تھیں۔ فریق ثانی نے ذمہ دار علمائے کرام کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی مقدور بھر کاوش کے بعد اس لیے خاموشی اختیار کر لی تھی کہ ہر عزت دار خاندان کو اپنی عزت سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فریق ثانی نے کبھی بھی اس معاملے کو میڈیا یا کسی دوسرے ذریعے سے لوگوں کے درمیان لانے کی سعی نہیں کی۔ بلکہ درد دل کے ساتھ علمائے کرام کو خبر کر کے خاموش رہنے کو ترجیح دی تھی۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ فریق ثانی نے مولوی الیاس گھمن کی تذلیل کی خاطر یہ سب کیا ہے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ مفتی صاحبؒ کا خاندان آئی بی سی پر شائع ہونے والی سٹوری کی مذمت کرتا ہے۔ ان کے بقول مفتی ریحان (جسے وہ لوگ نہیں جانتے) نے اپنی سٹوری میں مرچ مصالحہ لگا کر دلچسپی کا سامان پیش کیا ہے جو قابل مذمت ہے۔ مفتی صاحب کے خاندان نے یہ معاملہ فقط علماء کرام کے سامنے رکھا تھا. اس موقع پر جب یہ معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم اور آپ تک پہنچا ہے تو اس میں حضرت مفتی صاحبؒ کے خاندان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے ان کے اچھے برے کسی بھی قسم کے مقاصد سے مفتی صاحب کے خاندان یا ان کی بیٹی کا کوئی واسطہ ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے جس کسی نے مذکورہ معاملے پر گفتگو کرنی ہے وہ براہ راست ان کے ساتھ کرے جنہوں نے یہ معاملہ منظر عام پر لایا ہے۔

پس تحریر: یہ ایک دوسرا نکتہ نظر ہے (ی ث)​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
الیاس گھمن ... کی کہانی .... مکافات عمل
.
نری "واہیاتی" تھی اور کیا تھا - گفتگو کے قابل موضوع نہیں اور اس پر لکھنا پڑ رہا ہے - بھلے خاتون کے الزامات سچ ہوں اور معاملات اس سے بھی زیادہ سنگین لیکن مفتی ریحان کون ہے ؟ - کیا لوگوں کی عزت " نامعلوم افراد " کے حوالے کی جا سکتی ہے ؟
کیا شریعت اور اخلاقیات کے کسی بھی تصور میں یوں "بے نام" کی کہانیاں نشر کرنے کی اجازت عام دی جا سکتی ہے ؟ ---- ہرگز نہیں

ایک صحافی صاحب معافی مانگ رہے ہیں - دوسرا سید زادہ ابھی ضد پر قائم ہے لیکن کیا وہ اپنے کسی محبت کے مرکز کے بارے میں ایسے کسی "مفتی نا معلوم " کی لکھی کہانی کو یوں نشر کر سکتا ہے ؟ ... "صحافی سید " بری طرح اپنے مسلکی نظریات کا اسیر ہے اور اس کی تگ وتاز حدود سے گزر رہی ہے

میں نے جنید جمشید کے بارے میں لکھا تھا کہ "نبی کی زوج " کی محبت کے نام پر مسلک کی عصبیت کا مظاھرہ کیا جا رہا ہے یہ تو پھر محض ایک مولوی کا معاملہ ہے

قصہ مختصر یہ صحافت نہیں ہے چنگیز خانی وحشت ہے - برس گزرے بچپن کے ایک دوست ، جو اب لاہور کے صحافیوں کے سردار ہیں ، چھاپہ مار ٹیم بنے تشریف لائے - ایک قران ہاتھ میں پکڑا ہوا اور ذرا سے جذباتی - قران میں جلد بندی کی غلطی تھی صفحات اپنی ترتیب سے نکلے ہووے - اس ادارے کا پتہ پوچھا کہ جس نے چھاپا تھا - میں ان کا ارادہ جان گیا کہ اگلے روز بڑی خبریں لگیں گی ، سکینڈل کھڑا ہو گا ہاں اگر کچھ " لیں دین " ہو جائے تو الگ بات ہے -

میں نے بے تکلفی سے کہا کہ" آرام سے یھاں سے نکل اور کچھ خدا کا خوف کر " - معاملہ ختم ہو گیا - قران کے ناشر میرے ہم مسلک نہ تھے بریلوی مسلک کے تھے لیکن ان کی کوئی غلطی نہ تھی محض لاپرواہی تھی - لیکن صحافت بلیک میلنگ بن کے رہ گئی اب ایک اور قدم آگے بڑھ کے قانون ساز بھی ٹھری اور "عدالت عالیہ " بھی -

اور یہ " عدالت عالیہ " اس کیس سے کتنے ہی " شکار" کر رہی ہے - ایک واحد مولوی کو تمام مذھبی طبقے کی "علامت " بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ، مدارس کے بارے میں پرپیگنڈا کیا جا رہا ہے ، الیاس گھمن کی آوٹ میں لبرل طبقہ تمام مدارس کے بارے میں بدزبانی کر رہا ہے..جو بازار حسن کے مستقل محافظ ہیں بلکہ " سرپرست اور شیر ہولڈر " ان کو بھی عورت کی مظلومیت پر رونا آ رہا ہے

اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھئے - دیوبندی حضرات مولانا احمد علی لاہوری ، مفتی محمد حسن ،مفتی محمد شفیع اور ان جیسے کتنے ہی نجیب اور پر شکوہ بزرگوں کے وارث تھے - لیکن انہوں نے اپنے افکار کی دنیا ، اپنی وارثت خود ہی الیاس گھمنوں کے حوالے کر دی - محض بد زبانی کے مظاہر اور آپ نے ان صاحب کو "متکلم اسلام" قرار دے دیا - کچھ تو خدا کا خوف کرتے کہ کہ مفتی محمد شفیع کا علم اس روز کیسا تڑپا ہو گا کہ جب آپ کے ترجمان یہ صاحب ٹہرے ہوں گے ، مولانا احمد علی لاہوری کی روح کیسے بے چین ہوئی ہو گی جب آپ کی شناخت یہ صاحب ہووے ہوں گے

لاہور کے ایک معروف دیوبندی بزرگ اور مصنف ، جو بہت مرکزی جگہ خطیب ہیں ، ایک روز ہمارے سامنے سلگ ہی اٹھے کہ یہ ہمارا چہرہ نہیں ایک سازش ہے - الیاس گھمن صاحب ، کہ جواب محض "مناظر اسلام " ہی نہ تھے " ترجمان دیوبندیت " بھی تھے ، کشتوں کے پشتے لگاتے تھے ..اہل حدیث اور مماتی بزرگ ، گو کیسے بھی محترم نہ ہوں ، ان صاحب کی نوک زبان پر دھرے رہتے تھے ، محدثین تک نہ بچے - میاں نذیر حسین محدث دہلوی کہ جن کے بارے میں علمائے دیوبند بھی احترام کے منافی بات نہ کرتے ، موصوف کی زبان سے نہ بچ سکے - موصوف کا کارنامہ تھا کہ اہل حدیث اور دیوبندی ایک دوسرے سے اتنے دور ہو گئے کہ نفرت کی دیواریں بن گئیں ..مقام نہیں ورنہ اس کے " فوائد " بھی بتاتا صرف اتنا کہہ کے آگے چلتا ہوں کہ جہاد افغانستان کبھی ان اہل حدیثوں اور دیوبندیوں نے مل کر لڑا تھا

اور اب.....
پرانا قصہ نہیں کہ لاہور کی مرکزی جامعہ مدنیہ کے سالانہ جلسے کے مرکزی خطیب علامہ احسان الہی ظہیر ہوتے ، مولانا احمد علی لاہوری سید داوود غزنوی کے پیچھے عیدین کی نمازیں ادا کرتے ، مفتی محمد حسن اور غزنہ کے سادات کی محبت کے قصے زبان زد عام تھے ، میرے والد شہید ہووے تو مولانا سعید الرحمان علوی نے ہمارے ہاں آنا جانا بڑھا لیا کہ بچوں کو حوصلہ رہے ..... بہت سے قصے ہیں جو نقش پارینہ ہووے...

الیاس گھمن بھلے بے گناہ ہو یا گناہ گار لیکن "عزت سادات" اب کبھی واپس نہیں آئے گی..الزام جھوٹے ہوں یا سچے ، معاشرہ ان کو سچ ہی گردانے گا .....لیکن یہ کیوں ہوا ؟...عبرت کا مقام ہے ..کیسے ممکن ہے کہ آپ صبح شام دوسروں کی ، اور بزرگوں کی پگڑیاں اچھالیں اور ہمیشہ عافیت میں رہیں ....جناب یہ مکافات عمل ہے اور یہ ہونا تھا... آپ کے لیے اب بس توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور واحد راستہ
..
......................ابوبکرقدوسی
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ھر گھر سے گھمن نکلے گا ۔۔۔ محمد حنیف ڈار

حضرات گھمن صاحب کی واردات تو آپ نے سن لی ، کچھ نے مان لی کچھ نے نہیں مانی۔ جنہوں نے نہیں مانی وہ مجھے ماننے والوں سے زیادہ پیارے ھیں کیونکہ یہ ان کا علم اور علماء سے حسنِ ظن ھے جس میں وہ خود اپنے آپ سے لڑ کر بھی یہی چاھتے ھیں کہ یہ سب جھوٹ نکلے اور ان کا حسنِ ظن سلامت رھے اور وہ اپنے بچوں کو منہ دکھانے کے قابل رھیں –
میرے لئے یہ کیس نیا نہیں ھے اور نہ کچھ زیادہ انوکھا ھے کہ یہ میری فیلڈ ھے ، میں نے بہت سارے نیک ناموں کو پکڑا ھے ، انٹرویو بھی کیا ھے ، نکالا بھی ھے ، گواہیاں بھی سنی ھیں اور حلف بھی لئے ھیں۔ آج میں چند وارداتیں ، ان مجرموں کی نفسیات اور ان کے وہ دلائل نقل کرنے چلا ھوں جو وہ اپنے ضمیر کو مطئن کرنے کے لئے دیتے ھیں اور جن کے زور پر وہ اس قسم کے قبیح فعل کا ارتکاب کر کے بھی شرمسار نہیں ھوتے بلکہ سینہ زوری کرتے ھیں ،
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ھے کہ عام آدمی کا گناہ چھپانا واجب ھے اور عالم کا گناہ چھپانا واجب تر ھے کیونکہ لوگ ان کے فعل سے دلیل پکڑتے ھیں۔ مگر یہ بات ھے ذاتی اور لازمی گناہ کی، جیسے کسی نے روزہ نہیں رکھا یا کوئی اس قسم کا گناہ کر لیا جس کا تعلق اس کی اپنی ذات کے ساتھ ھے ، لیکن ایسا متعدی گناہ جو دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے اس میں عوام کو آگاہ کرنا نہایت ضروری ھوتا ھے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آدمی کو دور سے آتے دیکھا تو ام المومنینؓ کو فرمایا کہ یہ شخص اپنی قوم کا شریر ترین بندہ ھے ، مگر جب وہ آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اس کا خوب اکرام کیا ،، جب وہ چلا گیا تو ام المومنینؓ نے پوچھا کہ آپ ﷺ نے ھمیں تو اس شخص کے بارے میں یہ فرمایا تھا ،اور خود اس کا اتنا اکرام فرمایا ھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں پہلے سے اس لئے خبردار کر دیا تھا کہ کہیں میرے اکرام کو دیکھ کر تم اس کو ثقہ اور معتبرنہ سمجھ لو۔ میرا اکرام میرے اخلاق کا آئینہ دار ھے ، میں کسی کی برائی کی خاطر اپنے اخلاق کو داغدار نہیں کر سکتا –
ایک صاحب میں نے مسجد والے کمرے میں نائب امام کے طور پر رکھے جو میرے والد صاحب کی عمر کے تھے، حافظ قرآن تھے۔ مقصد یہ تھا کہ میں آگے پیچھے جاتا ھوں تو وہ نماز وغیرہ پڑھا دیا کریں گے۔ ایک دوست نے جو ائیرپورٹ پر کام کرتے تھے اپنا 10یا 12 سال کا بچہ ان کے پاس حفظ کرنے بٹھا دیا۔ وہ عصر سے عشاء کے بعد تک ان کے پاس رھتا ، سبق ،سبقی ،منزل سب سنی جاتی ، پہلے پہل اس کو خوب مارتے تھے ، میرے دو تین بار اعتراض کرنے پر انہوں نے مارنا چھوڑ دیا اور اپنی مصلحت کے تحت انہوں نے بچہ ٹیون کر لیا رمضان کا مہینہ تھا اور حافظ صاحب آخری عشرے کے لئے اعتکاف کرنے سعودیہ بیت اللہ چلے گئے۔ عید پر میرے ماموں بدع زاید سے تشریف لائے جن کو مسجد والے کمرے میں ھی سلایا گی۔ حافظ صاحب عید والے دن واپس آئے تھے ، عید سے اگلے دن ماموں اور حافظ صاحب کمرے میں سوئے ھوئے تھے جس کا ایک دروازہ مسجد کے مینار میں کھلتا ھے۔ یہاں کے مینار میں کافی گنجائش ھوتی ھے گدا لگا کر بندہ سو بھی سکتا ھے اور فریج الماری بھی رکھی جا سکتی ھے۔ حافظ صاحب اس بچے کو مینار میں لے گئے، ان کی بدقسمتی کہ میرے ماموں کچی نیند میں تھے، جب سرگوشیوں میں حافظ صاحب نے اس کو کمانڈ دی کہ مینار میں چلو تو وہ چونک گئے۔ حافظ صاحب سے وہ ذاتی طور پر واقف نہیں تھے ، ورنہ شاید شک نہ کرتے کیونکہ میرے ابا جان کے بقول اس وقت دنیا میں زندہ ولی اللہ صرف حافظ صاحب تھے، خیر ماموں نے ان کو موقع پر پکڑ لیا – ماموں جان تبلیغی جماعت کے بڑے متحرک اور باعمل بزرگ تھے ، انہوں نے والد صاحب سے بات کی ، والد صاحب شدت غم سے رونا شروع ھو گئے، ان کا آئیڈل مر گیا تھا ، بت ٹوٹ گیا تھا۔ کہنے لگے کہ اگر مجھے امام دین یہ بات نہ بتاتا تو میں کسی اور کی بات کبھی نہ مانتا۔
بچے کو بلایا گیا اس نے ساری کیفیت بتا دی ،، اس کے باپ کو بھی بلایا گیا اور بچے کو بھی فارغ کر دیا گیا اور حافظ صاحب بھی سب کچھ سمیٹ سماٹ کر رخصت ھو گئے۔ ان کے مرید تو مجھے کھانے کو دوڑتے تھے جس طرح گھمن صاحب کے دیوانے اور دیوانیاں کر رھی ھیں – مگر حافظ صاحب کائیاں تھے وہ کہتے جب میں نے خدا پر چھوڑ دیا ھے تو تم لوگ بھی چھوڑ دو – گاؤں میں مسجد مدرسہ بنایا تو امام اور مدرس کے لئے الگ الگ کمرہ کچن باتھ کا سیٹ بنایا اور شرط یہ رکھی کہ وہ بیوی بچے ساتھ رکھیں گے۔ مگر بیوی بچے ساتھ ھونے کے باوجود 8 میں سے چھ کو بچوں سے بد فعلی کی وجہ سے نکالنا پڑا۔ لوگوں کو کچھ بتا بھی نہیں سکتے تھے اور لوگ الزام لگاتے تھے کہ یہ مولوی کو ٹھہرنے نہیں دیتے۔ ایک صاحب نے تو کمال کر دیا ،نزدیک کے قصبے میں مکان کرائے پر لے لیا۔ جہاں وہ یہ کام کرتے تھے ، قریب کالج تھا ، کالج کے لڑکوں سے تو شیطان بھی پناہ مانگتاھے ، وہ محسوس کر گئے کہ یہ مولوی ھماری بغل میں دو نمبری کر رھا ھے۔ آخر انہوں نے اس کو ننگا پکڑ لیا اور مار مار کر دنبہ بنا دیا ،، جس کے بعد اس کو گاؤں سے دفعہ کیا گیا ، ھم نے تنگ آ کر مسجد کا مدرسہ ھی بند کر دیا۔
یہ مرض ھر اس جگہ سے لگتا ھے جہاں بچے اکٹھے سوتے ھیں ، چاھے وہ کالج کا ھوسٹل ھو یا مدرسے کا۔ رات کو وارداتیں ھوتی رھتی ھیں اور مہتمم صاحباں ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ھیں ، کیونکہ ان کے نزدیک اس فعل کے مرتکب کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے اور توبہ کرا کر چھوڑ دینا چاہئے ” اور تم مردوں میں سے دو جو یہ کام کریں ان کی ڈانٹ ڈپٹ کرو اور اگر توبہ کر لیں تو ان سے درگزر کرو(( واﻟذان ﯾﺎﺗﯾﺎﻧﮭﺎ ﻣﻧﮑم ﻓﺂذوھﻣﺎ ﻓﺎن ﺗﺎﺑﺎ واﺻﻟﺣﺎ ﻓﺎﻋرﺿوا ﻋﻧﮭﻣﺎ ان اﷲ ﮐﺎن ﺗواﺑﺎ رﺣﯾﻣﺎ- النساء 16)) یہ عام طور پر Molesting کرتے ھیں جسے عربی میں ملاطفت کہا جاتا ھے۔ جس میں ان کا رانجھا بھی راضی ھو جاتا ھے ، میڈیکل کا بھی کوئی خطرہ نہیں ھوتا ھے اور بقول ان کے شریعت بھی گنگ کھڑی رھتی ھے کہ جس چیز پر وہ سزا کا نفاذ چاھتی ھے وہ تو ھوئی ھی نہیں ، اور بقول ان کے “اگر تم بڑے گناہ سے بچ جاؤ تو چھوٹا ھم معاف کر دیں گے “کی شق کے تحت یہ بس دل لگی ھے کوئی جرم نہیں – اس واردات میں سب سے بڑا ظلم خود قرآن کے ساتھ ھوتا ھے۔ میری مسجد والے حافظ صاحب بھی بچے کو بس ھاتھ دھلا کر قرآن پکڑا دیتے تھے کہ تمہارا کچھ نہیں بگڑا ، اور یہی کام ھماری مسجد کے امام اور مدرس کرتے تھے۔ بچے کو نہانے کا کہتے تو دوسرے بچے شک کرتے ،لہذا وہ بھی بچے کو نہانے سے منع کر دیتے۔ مگر ایک خدا ترس قاری صاحب بھی آئے تھے جو اس بچے کی خاطر سارے بچوں کو نہلانے کے لئے تالاب پر لے جاتے تھے ،جب یہ روٹین پکی ھو گئ تو والدین کو شک گزرا کہ یہ کیا ھو رھا ھے بھائی ؟ اور پکڑے گئے۔ الغرض ایک گھمن پہ نا رہیے، اس گھمن نظام کے خلاف آواز اٹھائیے۔
 
Last edited by a moderator:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
۔
مولوی الیاس گھمن کا قضیہ ، کیا حقیقت کیا فسانہ

۔
یہ معاملہ انتہائی سنگین اور گھمبیر صورتحال کی طرف جارہا ہے۔ اگرایک طرف معروف ومشہور شخصیت ہے تو دوسری طرف پورا خاندان ہی پوری دنیا کا مشہور ومعروف حسنی سید خاندان ہے۔ مفتی زین العابدین رحمہ اللہ جن کا نام بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس رحمہ اللہ کے بعد پاکستان سے بیرون پوری دنیا میں تبلیغ کی محنت کو زندہ کرنے والے بانی کے طور پر مشہور ہے۔ جنہوں نے اپنی زندگی میں باون(52) حج کیے۔ یہ بات لکھنا اور منہ سے کہنا آسان ہے ورنہ جو ایک بار حج کرلے ساری زندگی حاجی صاب کہلاتا ہے۔ مفتی صاحب کے یہ سارے حج کے سفر دراصل تبلیغی محنت کو زندہ کرنے اور پوری دنیا سے آئے ہوئے حاجیوں کے مکہ میں تبلیغی جوڑ کے سلسلے میں ہوتے تھے چنانچہ اس طرح انہوں نے پوری دنیا میں پچاس ساٹھ سال محنت کرکے تبلیغ کی محنت کو زندہ کیا۔ پھر جس خاتون کا معاملہ ہے وہ ان کی واقعتا چہیتی اور لائق بیٹی ہیں، بلکہ فیصل آباد میں تبلیغ کی محنت سے جڑی خواتین کی امیر بھی ہیں۔ ہندوستان کے تبلیغی بزرگان سمیت حاجی عبدالوہاب صاحب جب بھی فیصل آباد آتے اپنی اس بچی کے گھر بھی ضروری آتے تھے۔
یہ معاملہ تقریبا تین سال پرانا ہے ،اس معاملے کا مجھے ایک ہفتہ قبل ایک پوسٹ سے پتا چلا، جس میں مولانا الیاس گھمن صاحب کو برا بھلا کہا گیا تھا۔چنانچہ غیرت ایمانی کا تقاضا سمجھتے ہوئے میں نے پوسٹ لکھنے والے سے میسج میں بحث شروع کردی۔ چونکہ اس شخص کا تعلق میری معلومات کے مطابق جماعت اسلامی سے تھا تو جماعت اسلامی کےذمہ داران کو بھی شکایت کی کہ آپ کی جماعت کا بندہ علماء کے خلاف اس طرح پروپیگنڈہ کررہا ہے اسے منع کریں۔ چنانچہ ان صاحب نے مجھے میسج میں کچھ خطوط، استفتاء اور اس کے جواب میں مفتی زرولی خان صاحب کا فتوی۔ ہندوستان کے مشہور عالم مولانا ابوبکر غازی پوری کا خط اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا جواب۔ اور وفاق کے میگزین کااشتہار بھیج دیا۔ ان صاحب کو جواب دینے کے لئے اب میرے پاس کچھ نہیں تھا۔چنانچہ اب اس معاملے کی تحقیق کے لئے فریقین سے رابطہ کرنے کا ارادہ کیا۔
سب سے پہلے میں نے الیاس گھمن صاحب کے سیکرٹری سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا یہ بات مجھ سے پوچھنے کی نہیں۔ میں نے کہا اس کا مطلب ہے میں اسے سچ سمجھوں تو تب انہوں نے کہا کہ بھیا یہ پروپیگنڈا ہے ۔
اس کے بعد میں نے دوسرے فریق سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا، چونکہ مفتی صاحب کی بیٹی سے میری وائف کا پرانا تعلق تھا(ہمارا اور ان کا خاندان ایک ہی یعنی سید ہے )البتہ کافی عرصہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا، آخری بار رابطہ الیاس گھمن صاحب کی شادی کی مبارک باد دینے کے لئے ہوا تھا۔اس لئے تین چار گھنٹے کی سرتوڑ کوشش کے بعدوائف کا بذریعہ فون رابطہ ہوگیا۔ چنانچہ سب سے پہلےفیس بک پر گردش کرتے خط کے بارے پوچھا تو مفتی صاحب رحمہ اللہ کی بیٹی نے اس خط کی تصدیق کی کہ وہ میرا ہی خط ہے اور میں نے ہی یہ خط مفتی زرولی خان صاحب کو فتویٰ پوچھنے کے لئے بھیجا تھا۔اور اسی طرح کے خطوط کراچی، لاہور ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، اکوڑ خٹک بھی بھیجے گئے تھے۔ اب مجھے نہیں معلوم یہ زر ولی صاحب والا فتویٰ اتنے عرصے بعد کس نے فیس بک پر دے دیا، میں اگر چاہتی تو دو سال پہلے ہی میڈیا کو بلا کر رسوا کردیتی لیکن میں نے تو اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا ہوا ہے،اللہ خود انتقام لے گا۔ خواتین کی اس تفصیلی گفتگو کو میں نے خود سنا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فتوے آنے کے بعد ہماری جدائی ہوگئی اور پھر اس کے آٹھ مہینے بعد مولانا الیاس گھمن ملائشیا چندے کے سلسلے میں گئے تو وہاں لوگوں کو یہی بتایا کہ میں مفتی زین العابدین کا داماد ہوں ان لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا تو ہم نے کہا اب نہیں ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب میں مفتی صاحب کے نام پر لاکھوں روپے چندہ کیا۔
بہرحال اس کے دو دن بعد یعنی کل مفتی ریحان کا ایک مضمون سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا۔ چونکہ کئی باتیں مجھے خود اس خاتون کے ذریعے معلوم ہوچکی تھیں اس لئے جب اس مضمون کو پڑھا تو آدھے سے زیادہ باتیں وہی تھیں جو خاتون نے بتائی تھیں البتہ کچھ باتیں نئی تھیں، مثلا دو لڑکوں والا معاملہ۔ اسی طرح گھریلو ملازمہ والا معاملہ۔
چنانچہ آج پھر دوبارہ مفتی ریحان کے بارے تحقیق شروع کی تو خاتون کا کہنا تھا میں اسے نہیں جانتی کون ہے۔ اور نہ ہی کوئی انٹرویو دیا۔اور نہ ہی لڑکوں والے معاملے کی تصدیق یا تردید کی۔
لیکن میراخیال اور وجدان یہ کہتا ہے کہ یہ مفتی ریحان فرضی نام ہے اصل میں یہ مضمون جیونیوز کے سابق رپورٹر سبوح سید جو آج کل غالبا بول ٹی وی میں ہیں ان کا لکھا ہوا ہے۔ یاد رہے موصوف غامدی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے اور ایک جید عالم دین کا بیٹا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس مضمون میں موصوف نے چند باتیں اصل خط والی لکھ کر ساتھ مرچ مصالحہ اپنی طرف سے لگا دیا ہے۔ آج سے تقریبا چار سال قبل کی بات ہے ایک تقریب جس میں، میں بھی شریک تھا سبوح سید نے اس وقت تقریر کرتے ہوئے الیاس گھمن کو امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کا خاص ایجنٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریمنڈڈیوس کی ڈائری سے الیاس گھمن کا نمبر ایجنسیوں کو ملا ہے۔ چنانچہ سبوح سید کو الیاس گھمن یا دیگر علمائے کرام سے خصوصی نفرت ہے چنانچہ اس قسم کے چٹکلے وہ اپنے مضامین میں اکثر چھوڑٹے رہتے ہیں۔بہرحال مضمون میں خط سے زیادہ اپنی طرف سے اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
مضمون میں مردان کی جس خاتون کا ذکر کیا گیا ہے مفتی صاحب کی بیٹی نے اس کی بھی تصدیق کی اور بتایا کہ پٹھانوں نے قتل کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا ہم بولی نہیں گولی کی زبان سمجھتے ہیں۔، البتہ معافی والی بات صرف مضمون میں ہی لکھی ہوئی ہے۔
چونکہ یہ معاملہ دو سال پرانا ہے اس لئے اس دوران علماء کے اندر ہی اندر کئی حالات وواقعات پیش آئے، بے شمار ایسے علماء جو مولانا الیاس گھمن کی جماعت کے تھے انہیں چھوڑ گئے۔
وہ جید اور ممتاز علماء کرام جو الیاس گھمن صاحب کی جماعت کے سرکردہ رکن تھے اور اب دو تین سال کے دوران ایک ایک کرکے گھمن صاحب کو خدا حافظ کہہ چکے ہیں یہ ہیں:
مولانا منیر احمد منور۔
مولانا انور اوکاڑوی
علامہ عبدالغفار ذھبی
مولانا محمود عالم صفدر
مولانا عبدالشکور حقانی
مولانا عبداللہ عابد
مولانا شفیق الرحمان
مولانا محمد رضوان عزیز
مولانا مقصود احمد
مولانا محمد عرفان بھیروی
مولانا محمد بلال جھنگوی
مولانا عبداللہ معتصم
مولانا عبدالغنی طارق
مولانا امداد اللہ انور
قاری محمد رفیق صاحب جدہ
قاری محمد اسامہ رفیق جدہ
ڈاکٹر محمد الیاس فیصل مدینہ منورہ
مولانا محمد ابو بکر اوکاڑوی
مولانا شاھد طوفانی
مولانا انصر باجوہ
مولانا محمد بلال منڈی بہاؤالدین
شیخ سجاد الحسن الحجانی مردان
یہ تمام حضرات ان کے جماعت کے تھے اور معاون بھی تھے ان سب حضرات نے گھمن صاحب سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور ان کے ہر قسم کے قول و فعل سے اعلان برأت کر چکے ہیں۔اس لسٹ میں چند نہایت ہی نامور شخصیات ہیں جنہیں ہر آدمی جانتا بھی نہیں۔
اس کے علاوہ مولانا سلیم اللہ خان اور وفاق المدارس کا اعلان برات تو وفاق کے میگزین میں آپ نے دیکھ لیا ہوگا۔
اب جہاں تک اس معاملے کی حقیقت کا ذکر ہے تو خاتون کی طرف سے تو مکمل خاموشی ہے جیسا کہ انہوں نے فون پر کہا بھی کہ میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا ہوا ہے اللہ خود انتقام لے گا میں تو دو سال سے خاموش ہوں، بس اپنے رب سے اس معاملے میں رابطہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف احناف میڈیا سروس کے لوگ پوری طرح گالم گلوچ کی تیروں اور برچھوں سمیت مختلف پوسٹوں پر کمنٹ کررہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں یہ عورت کئی مردوں سے دوستی رکھتی تھی اور کبھی کہتے ہیں اس نے چالیس لاکھ روپے مانگے تھے جس سے اختلاف پیدا ہوا۔ اور کبھی کہتے ہیں اس واقعہ کی کوئی حقیقت نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا یہ مماتیوں کا پروپیگنڈا ہے۔
ہمارے لئے اس میں یہ ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان نہ دھریں۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ایک متاثرہ فریق سے براہ راست خود معلوم کی گئی ہے۔ اب آگے کا معاملہ وفاق المدارس اور اکابرین کے حل کرنے کا ہے۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ علماء کی بدنامی ہورہی ہے اسے دبا دینا چاہیے۔ بھائی دبانے سے بدنامی ختم نہیں ہوتی۔ آج سے دیڑھ سو سال پہلے سپیکر کی حرمت پر جو فتویٰ دیا گیا تھا وہ آج تک سیکولر اور لبرل لوگ علماء کو طعنے دے رہے ہیں کہ تم تو وہ ہو جنہوں نے سپیکر کو حرام قرار دیا تھا۔ حالانکہ ایک صدی سے بھی پرانا واقعہ ہے، اسی طرح یہ واقعہ بھی اگر اسی طرح چھوڑ دیا گیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الزام دینے کے لئے باقی رہے گا۔ اکابرین دونوں فریقوں کا موقف سننے کے بعد مجرم کا تعین کریں۔ وہ کوڑے تو نہیں لگا سکتے لیکن تعین کرکے بتا تو سکتے ہیں کہ فلاں مجرم ہے اس کا علماء سے کوئی تعلق نہیں۔ جرائم معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں ہوتے رہتے ہیں لیکن اگر جرم کی سزا مل جائے تو دھبے دھل جاتے ہیں ورنہ ہمیشہ یاد باقی رہتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی شیطان کے شر سے حفاظت فرمائے۔
 
Last edited by a moderator:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
وعلیکم السلام
و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

جی ہاں
اس سے قطع نظر کہ الیاس گھمن صاحب پر لگاۓ گۓ الزامات درست ہیں کہ نہیں. مجھے وہ تحریر معتدل نہیں لگتی. اس میں کچھ زیادہ ہی گن گاۓ گۓ ہیں.
 
Top