حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
پرندوں کے بارے میں توہمات
(نوٹ: یہ مقالہ سعدیہ قمر نے ایم اے اسلامیات کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں پیش کیا۔)
جس طرح جانوروں کے بارے میں توہمات پائے جاتے ہیں اسی طرح پرندوں کے بارے میں توہمات بھی ہیں۔
کوے کا بولنا:
کوے کے بولنے کو بہت مشہور ہے کہ کوا بولے تو مہمان آتا ہے۔
جیسا کہ عاملوں ، جادوگروں اور جنات کے پوسٹمارٹم میں مصنف لکھتا ہے:
’’ وہ تمام صورتیں جو دور جاہلیت میں توہم پرستی کی بنیاد پر لوگوں میں پائی جاتی تھیں اور اسلام نے انہیں باطل قرار دے کر ان کی بیخ کنی فرعادی تھی وہ آہستہ آہستہ پھر مسلمانوں میں لوٹ آئی ہیں اگرچہ اس کی بعض شکلیں قدرے مختلف ہیں لیکن اصل کے اعتبار سے بدشگونی کی جدید وقدیم صورتوں میں قدرے اشتراک بہر حال موجود ہے۔
جیسا کہ اکثر لوگ گھر کی منڈیر (دیوار) پر کوے کے بولنے سے کسی مہمان کا شگون لیتے ہیں۔(عاملوں، جادوگروں اور جنات کا پوسٹ مارٹم :ص 315)
کوے کا کائیں کرنا بھی مسافر آنے کا شگون خیال کیا جاتا ہے:
بعض علاقوں میں کوا کو اگر گھر کی دیوار یا چھت پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرے تو اسے مسافر کے آنے کا شگون سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے لئے جگہ کی کوئی پابندی نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کوا کسی کے گھر کے اوپر اڑتا ہوا کائیں کرے تب بھی اس گھر کے لوگوں کو پشین ہو جاتا ہے کہ آج ان کا کوئی مسافر واپس آنے والا ہے۔
كبوتر كو منحوس سمجھنا:
کبوتر کو گھر میں رکھنا منحوس سمجھا جاتا ہے اور اسے لڑائی ڈلوانے اور روزی میں کمی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
’’جبکہ اکثر لوگ کبوتر کے شکار حلال کرنے یا گھر میں پالنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے کبوتر کو متبرک سمجھا اور اس کی بد دعا کو نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘
شام کو مرغ کا اذان دینا:
شام کے وقت اگر مرغا اذان دیتا ہے تو اسے منحوس خیال کیا جاتا ہے۔
مرغی کا اذان دینا:
اگر مرغی اذان دے تو اسے بہت ہی منحوس خیال کیا جاتا ہے اور اسے فورا ذبح کرنے کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک اگر مرغی کو ذبح نہ کیا گیا تو ضرور کچھ برا ہو جائے گا اس لیے وہ اس مصیبت کے ذریعے کو ذبح کر لیتے ہیں۔
مولانا اشرف علی تھانوی رقمطراز ہیں:
’’ لوگوں میں مشہور ہے کہ مرغی اذان دے تو اس کو فورا ذبح کر دو کیونکہ اس وبا پھیلاتی ہے ۔‘‘(اغلاط العوام از مولانا اشرف علی تھانوی :ص 43)
اُلو کو منحوس سمجھنا:
بعض ممالک میں لو کو بہت ہی عزت و تکریم حاصل ہے اور اسے ایک عقلمند پرندہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں اس کے برعکس ہے پاکستان میں الو کے بولنے کو منحوس تصور کیا جاتا ہے اس لیے الو کو بھگانے کی فوری کوشش کی جاتی ہے۔(اغلاط العوام از مولانا اشرف علی تھانوی :ص 25)
دنوں کے بارے میں توہمات
جس طرح مہینوں کےبارے میں شگون و بدشگون ہیں اسی طرح دنوں کے بارے میں بہت سی توہمات پائی جاتی ہیں۔
جمعرات :
کہتے ہیں کہ اگر جمعرات کو بارش شروع ہو گی تو وہ پورے ہفتے ہوتی رہے گی اسی طرح اگر جمعرات کو کوئی بھی کام شروع کریں گے تو وہ لٹکے رہیں گے یعنی جلدی ختم نہیں ہوں گے۔ اس طرح لوگ اس دن کوئی کام شروع کرنے میں احتیاط برتتے ہیں۔
اتوار:
عمومی طور پر اتوار کو بال تراشوائے جاتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے حالات درست کرنے کے لئے اتوار کو بال ترشواتے ہیں کہ اتوار کو بال تراشوانے سے ان کے برے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔
چین کے انہوئی صوبے کے شہر میں ایک بچے کےب ال تراشے جا رہے ہیں گزشتہ اتوار کو چینی قمری سال کے دوسرے مہینے کا دوسرا دن تھا اور چینی رسوم ورواج کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد اس روز بال ترشواتی ہے ان کا خیال ہے کہ اس طرح سنال کےشروع سے آخر تک قسمت کی دیوی ان پر مہربان رہتی ہے۔(اخبار جہاں ہفت روزہ، 23 مارچ ، 2008ء)
منگل اور بندھ:
پاکستان میں منگل اور بدھ کو منحوس دن تصور کیا جاتا ہے۔ منگل اور بدھ کو رخصتی کرنا، ولیمہ کرنا اور دیگر تقاریب یا کوئی بھی کاروبار شروع کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔
صدقہ اور ہماری توہم پرستی
صدقہ دیتے وقت اکثر خصوصا خواتین بڑی افراط وتفریط اور توہم پرستی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اس قسم کی لا یعنی باتیں گھڑ لی جاتی ہیں کہ صدقہ ہفتے یا منگل کے دن دیا جائے ، دوپہر 12 بجے دیا جائے، لازما کالی مرغی یا کالا بکرا ہو اور اسے رات کو اس کےا سرہانے باندھ دیا جائے، جس کا صدقہ دے رہے ہیں، یا گوشت وغیرہ ہو تو اسے پہلے جس کا صدقہ دے رہے ہیں، اس پر سے سات بار یا اکیس بار اتارا جائے۔ اجناس میں سے کوئی چیز صدقہ دی جا رہی ہو تو رات کو مریض کے سرہانے رکھا جائے پھر یہ صدقہ کس کو دیا جائے؟ تو ان توہم پرستوں کے پاس اس کا جواب اور مصرف یہ ہے کہ صدقے کا گوشت دوپہر 12 بجے اتار کر چیل کوؤں کو کھلا دیا جائے، شام کو دونوں وقت ملتے مرغی کا انڈا تار کر تین راستوں پر رکھ دیا جائے، آٹے کی گولیاں بنا کر سمندر کی مچھلیوں کو کھلائی جائیں، یہ اور ایسی کتنی ہی جاہلانہ اور غیر شرعی باتیں صدقہ کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں رائج ہیں۔(جنگ سنڈے میگزین :27 ستمبر 2009ء )
بعض لوگ صدقہ میں گوشت وغیرہ چیلوں کو دینا ضرور ی سمجھتے ہیں یہ بھی غلط ہے۔ شرع نے صدقہ کا مصرف مقرر کر دیا ہے چنانچہ مسلمان مساکین اس کا بہترین مصرف ہیں۔ چیلے اس کا مصرف نہیں ۔(اغلاط العوام از مولانا اشرف علی تھانوی :ص33)
سورج گرہن چاند گرہن
حاملہ عورت:
جس دن سورج گرہن یا چاند گرہن لگتا ہے حاملہ عورت کو بہت احتیاط برتنا پڑتی ہے وہ کس لوہے کی چیز کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ روشنی میں نہیں جا سکتی ، باہر نہیں نکل سکتی اور کچھ مخصوص چیزیں بھی نہیں کھا سکتی۔ پاکستان میں یہ توہم بھی بہت عام کہ سورج کرہن کے دوران یا چاند گرہن کے دوران عورت اگر کچہ کھا لے یا کچھ مخصوص چیزیں اپنے بدن کے قریب لے کر آئے تو اس کے بچے کے اعضاء کٹ جائیں گے۔
بد قسمتی ، بدشگونی سمجھنا:
بعض لوگ سورج گرہن اور چاند گرہن کو منحوس سمجھتے ہیں جس دن گرہن نکلا ہو اس دن کو بد قسمتی کا دن سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ شگون لیتے ہیں کہ ان کے ساتھ ضرور کچھ برا ہو نے والا ہے۔
حضرت محمدﷺکے بیٹے کی وفات:
بعض لوگ سورج گرہن کو حضور کے بیٹے کی وفات سے منسوب کرتے ہیں اور اپنے یقین کو اور پختہ بناتے ہیں کہ جس دن سورج گرہن لگے گا ضرور برا دن ہو گا۔
زچہ کو نحس اور منحوس سمجھنا
زچہ کو بالکل نحس اور منحوس سمجھا جاتا ہے:
مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
’’ زچہ کو بالکل نحس اورچھوت سمجھنا اور اس سے الگ بیٹھنا اس کا جھوٹا کھا لینا تو کیا معنی جس برتن کو چھو لے اس میں بے دھوئے مانجھے پانی نہ پینا غرضیکہ بالکل بھنگن کی طرح سمجھنا یہ محض لغو اور بیہودہ ہے۔
یہ بھی ہے کہ پاک ہونے تک یا کم ازکم چھٹی نہانے تک زچہ کے شوہر اس کے پاس نہیں آنے دیتیں بلکہ اس کو عیب اللہ نہایت برا سمجھتی ہیں۔
زچہ کو تارے دکھانا:
بعض جگہ زچہ کو چھٹی کے دن تارے دکھائے جاتے ہیں یعنی زچہ کو نہلا کر عمدہ قیمتی لباس پہنا کر آنکھیں بند کر رات کو صحن میں لاتی ہیں اور کسی تخت پر کھڑا کر کے آنکھیں کھول دیتی ہیں کہ اول نگاہ آسمان کے ستاروں پر پڑے کسی اور کو نہ دیکھے یہ بھی محض خرافات اور بیہودہ رسمیں ہیں۔
نذور نیاز کے بارے میں توہمات
نیاز نہ دینے پر شگون کہ جانور مر جائے گا:
نذرو نیاز نہ دلانے پر لوگ یہ شگون لیتے ہیں کہ اگر وہ نذر نہ دیں گے تو ان کے جانور مر جائیں گے یا کوئی مصیبت ان کو آ پہنچے گی۔ کوئی گھر میں نقصان ہو جائے گا۔
رزق کم ہونا:
ایک یہ بھی شگون لیا جاتا ہے کہ اگر نیاز نہ دلائی گئی تو اللہ تعالی ان کا رزق کم کر دے گا۔ اس لیے لوگ رزق کی کمی سے بچنے کے لئے نیاز دلوانا خود پر فرض سمجھتے ہیں۔
نذرونیاز اور بزرگوں کی شرینی:
کچھ لوگ نذرو نیاز صرف اس لیے دلاتے ہیں کہ انہیں ہر سال بزرگوں کی شرینی دینی پڑتی ہیں۔ جس طرح وہ زکوٰۃ دینا فرض سمجھتے ہیں اسی طرح بزرگوں کی شیرینی ان کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری لکھتے ہیں:
’’ کوئی یہ کہے کہ اگر اس نے گیارہویں شریف کا دودھ نہ دیا تو اس کی وجہ سے بھینس یا گائے مر جائے گی یا وہ بیمار ہو جائے گا یا رزق کم ہو جائے گا اولاد کی موت واقع ہو جائے گی ، گھر میں نقصان ہو جائے گا اسی طرح کاروبار اور کھیتی میں بزرگوں کا حصہ یعنی زکوٰۃ اور عشر شرعی وغیرہ سے الگ بزرگوں کی سالانہ شیرینی جو عوانم میں مروج ہے شرعا دینا تو جائز ہے مگر نہ دینے پر توہم پرستی کو فروغ دینا جائز نہیں یہ تمام باتیں بوجہ جہالت فروغ پاتیں ہیں اور پھر لوگ ان کے ہاتھ نفع ونقصان کا عقیدہ وابستہ کر لیتے ہیں جو کہ شرک فی العبادات ہے لہٰذا ان امور سے بچنا چاہیے۔(توحيد و تعظیم از ڈاکٹر طاہر القادری: ص271۔ 272)
نظر بد سے بچاؤ کے لئے غلط طریقہ:
جميل احمد زينو اپنی تالیف’’ ہلاکت خیز غلطیاں اور ان کی اصلاح ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’بعض لوگوں کا حسد کی روک تھام، نقصان سے بچنے اور نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے مصنوعی ہتھیلی، جوتا، گھوڑے کا پاؤں، کانٹے دار جھاڑی کو اپنے گھر کے دروازے پر لگا لیتے ہیں۔‘‘(ہلاکت خیز غلطیاں اور ان کی اصلاح از جمیل احمد زینو:ص 48)