حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
زينت و زيبائش اور خوبصورت آواز كے ليے پرندے فروخت كرنا جائز ہيں، مثلا رنگ برنگے طوطے، اور بلبل؛ كيونكہ ان كى آواز سننا اور انہيں ديكھنا ايك مباح اور جائز غرض ہے، شريعت ميں اس كى خريد و فروخت يا انہيں ركھنے كى ممانعت ميں كوئى نص وارد نہيں، بلكہ اگر انہيں ان كى غذا كھانا پينا اور اس كے دوسرے لوازمات ديے جائيں تو اس كے جواز كے دلائل ملتے ہيں.
صحيح بخارى ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، وَكَانَ لِي أَخٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو عُمَيْرٍ - قَالَ: أَحْسِبُهُ - فَطِيمًا، وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَالَ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُنُغَرٌ كَانَ يَلْعَبُ بِهِ»
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سب لوگوں سے زيادہ اخلاق والے تھے، ميرا ايك بھائى تھا جسے ابو عمير كہا جاتا تھا ـ راوى كہتے ہيں: ميرا خيال ہے كہ اس نے دودھ چھوڑ ديا تھا ـ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم آتے تو فرماتے:
" اے ابو عمير اس پرندے نے كيا كيا ؟ "ايك چڑيا تھى جس كے ساتھ وہ كھيلا كرتا تھا "
نغر پرندے كى ايك قسم ہے، حافظ رحمہ اللہ فتح البارى ميں اس حديث سے استنباط ہونے والے فوائد كا ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں:
وَفِيهِ جَوَازُ تَكْنِيَةِ مَنْ لَمْ يُولَدْ لَهُ وَجَوَازُ لَعِبِ الصَّغِيرِ بِالطَّيْرِ وَجَوَازُ تَرْكِ الْأَبَوَيْنِ وَلَدَهُمَا الصَّغِيرَ يَلْعَبُ بِمَا أُبِيحَ اللَّعِبُ بِهِ وَجَوَازُ إِنْفَاقِ الْمَالِ فِيمَا يَتَلَهَّى بِهِ الصَّغِيرُ مِنَ الْمُبَاحَاتِ وَجَوَازُ إِمْسَاكِ الطَّيْرِ فِي الْقَفَصِ وَنَحْوِهِ وَقَصِّ جَنَاحِ الطَّيْرِ إِذْ لَا يَخْلُو حَالُ طَيْرِ أَبِي عُمَيْرٍ مِنْ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَأَيُّهُمَا كَانَ الْوَاقِعُ الْتَحَقَ بِهِ الْآخَرُ فِي الْحُكْمِ
اور اس سے يہ بھى ثابت ہوتا ہے كہ: چھوٹے بچے كا پرندے كے ساتھ كھيلنا جائز ہے، اور چھوٹے بچے كى مباح اور جائز كھيل كود كے ليے مال خرچ كرنا جائز ہے، اور پنجرے ميں پرندہ بند كرنا جائز ہے، اور پرندے كے پر كاٹنا جائز ہيں، كيونكہ ابو عمر كے اس پرندے كى دو حالتوں ميں سے ايك ضرور تھى، اور جب ان دونوں حالتوں ميں سے كوئى ايك بھى واقعتا ہو تو حكم ميں دوسرى اس كے ساتھ ملحق ہو گى.
اسى طرح ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
«عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ» قَالَ: فَقَالَ: وَاللَّهُ أَعْلَمُ: «لاَ أَنْتِ أَطْعَمْتِهَا وَلاَ سَقَيْتِهَا حِينَ حَبَسْتِيهَا، وَلاَ أَنْتِ أَرْسَلْتِهَا، فَأَكَلَتْ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ»
" ايك بلى كے باندھ كر ركھنے كى بنا پر ايك عورت جہنم ميں چلى گئى، نہ تو وہ اسے كھانے كو ديتى اور نہ ہى پينے كو، اور نہ ہى وہ اسے چھوڑتى كہ وہ زمين كے كيڑے مكوڑے كھا سكے "
جب بلى ميں ايسا كرنا جائز ہے تو پھر چڑيوں وغيرہ ميں بھى جائز ہوا.
صحيح بخارى ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، وَكَانَ لِي أَخٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو عُمَيْرٍ - قَالَ: أَحْسِبُهُ - فَطِيمًا، وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَالَ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُنُغَرٌ كَانَ يَلْعَبُ بِهِ»
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سب لوگوں سے زيادہ اخلاق والے تھے، ميرا ايك بھائى تھا جسے ابو عمير كہا جاتا تھا ـ راوى كہتے ہيں: ميرا خيال ہے كہ اس نے دودھ چھوڑ ديا تھا ـ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم آتے تو فرماتے:
" اے ابو عمير اس پرندے نے كيا كيا ؟ "ايك چڑيا تھى جس كے ساتھ وہ كھيلا كرتا تھا "
نغر پرندے كى ايك قسم ہے، حافظ رحمہ اللہ فتح البارى ميں اس حديث سے استنباط ہونے والے فوائد كا ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں:
وَفِيهِ جَوَازُ تَكْنِيَةِ مَنْ لَمْ يُولَدْ لَهُ وَجَوَازُ لَعِبِ الصَّغِيرِ بِالطَّيْرِ وَجَوَازُ تَرْكِ الْأَبَوَيْنِ وَلَدَهُمَا الصَّغِيرَ يَلْعَبُ بِمَا أُبِيحَ اللَّعِبُ بِهِ وَجَوَازُ إِنْفَاقِ الْمَالِ فِيمَا يَتَلَهَّى بِهِ الصَّغِيرُ مِنَ الْمُبَاحَاتِ وَجَوَازُ إِمْسَاكِ الطَّيْرِ فِي الْقَفَصِ وَنَحْوِهِ وَقَصِّ جَنَاحِ الطَّيْرِ إِذْ لَا يَخْلُو حَالُ طَيْرِ أَبِي عُمَيْرٍ مِنْ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَأَيُّهُمَا كَانَ الْوَاقِعُ الْتَحَقَ بِهِ الْآخَرُ فِي الْحُكْمِ
اور اس سے يہ بھى ثابت ہوتا ہے كہ: چھوٹے بچے كا پرندے كے ساتھ كھيلنا جائز ہے، اور چھوٹے بچے كى مباح اور جائز كھيل كود كے ليے مال خرچ كرنا جائز ہے، اور پنجرے ميں پرندہ بند كرنا جائز ہے، اور پرندے كے پر كاٹنا جائز ہيں، كيونكہ ابو عمر كے اس پرندے كى دو حالتوں ميں سے ايك ضرور تھى، اور جب ان دونوں حالتوں ميں سے كوئى ايك بھى واقعتا ہو تو حكم ميں دوسرى اس كے ساتھ ملحق ہو گى.
اسى طرح ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
«عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ» قَالَ: فَقَالَ: وَاللَّهُ أَعْلَمُ: «لاَ أَنْتِ أَطْعَمْتِهَا وَلاَ سَقَيْتِهَا حِينَ حَبَسْتِيهَا، وَلاَ أَنْتِ أَرْسَلْتِهَا، فَأَكَلَتْ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ»
" ايك بلى كے باندھ كر ركھنے كى بنا پر ايك عورت جہنم ميں چلى گئى، نہ تو وہ اسے كھانے كو ديتى اور نہ ہى پينے كو، اور نہ ہى وہ اسے چھوڑتى كہ وہ زمين كے كيڑے مكوڑے كھا سكے "
جب بلى ميں ايسا كرنا جائز ہے تو پھر چڑيوں وغيرہ ميں بھى جائز ہوا.