محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,551
- پوائنٹ
- 304
السلام و علیکم و رحمت الله -
دوسرے فورمز اور سوشل ویب سائٹ کی طرح محدث فورم پر بھی آجکل نئی تخلیق یافتہ تنظیم "داعش" کے معامله پر بڑے زور شورسے احباب فورم کے مابین گرما گرم بحث و مباحثہ اور مناظرہ جاری و ساری ہے- کچھ احباب داعش نظریات کے حامی ہیں تو اکثر ان میں سے داعش نظریات کے مخالف ہیں- اور کچھ ان میں بہت زیادہ جذباتی بھی ہیں-
میرا سوال احباب فورم سے یہ ہے کہ ہم اورہمارے علماء کے داش سے متعلق نظریات و فتاویٰ جات فلحقیقت پرنٹ میڈیا (جو ٹی وی، وڈیوز، تصاویر، ٹاک شوز، ماہانہ و ہفتہ وار میگزین وغیرہ پر مبنی ہے ) کے مرہون منّت ہیں -اکثر یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ پرنٹ میڈیا یا اس کا ٩٠ فیصد حضہ مغربی یہودی تنظیموں کے فنڈز پر پل رہا ہے اور وہی خبریں بیان کرتا جو مغربی اقدار کو جلا بخشتی ہیں- اور یہ بھی ایک امر ہے کہ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس داعش جیسی تنظیم کا رکن رہ چکا ہو یا اس تنظیم سے اس کا براہ راست رابطہ ہو یا وہ ان علاقوں کا سفر کرچکا ہو جہاں داعش نامی تنظیمی اپنا قبضہ جما چکی ہے -
سوال ١:
ایسی صورت میں کیا کسی تنظیم کو اس پرنٹ میڈیا کی خبروں کی بنیاد پر فاسق و فاجر قرار دینا کیا عین اسلامی عمل ہے یا اسلامی عمل نہیں ہے ؟؟ -یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن میں تو الله رب العزت کا ارشاد پاک ہے کہ تمھارے پاس اگر کوئی فاسق کوئی خبرلے کر آے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو - کہ کہیں بعد میں اپنی بے وقوفی و جلد بازی کی بنا پر پشیمان ہو جاؤ (سوره الحجرات ٦)-
سوال ٢:
اگر ہمیں کسی گروہ یا تنظیم کے بارے میں کو فتویٰ دینا ہو یا نظریہ قائم کرنا ہو - تو اسلامی نقطہ نظر سے ہماری تحقیق کا دائرہ کار اور حدود کیا ہونی چاہیے - تاکہ ہم تنظیم کے صحیح منہج تک پہنچ سکیں - مطلب یہ کہ اسطرح ہم یا تو تنظیم کے حق پر ہونے کی بنا پر راہ ہدیت حاصل کریں یا پھر تنظیم کے باطل نظریات ہونے کی بنا پر گمراہی سے بچنے کی کوشش کریں؟؟-
امید ہے احباب فورم جلد ہی اس پر اپنی قیمتی آراء پیش کریں گے-
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو (آمین)-
دوسرے فورمز اور سوشل ویب سائٹ کی طرح محدث فورم پر بھی آجکل نئی تخلیق یافتہ تنظیم "داعش" کے معامله پر بڑے زور شورسے احباب فورم کے مابین گرما گرم بحث و مباحثہ اور مناظرہ جاری و ساری ہے- کچھ احباب داعش نظریات کے حامی ہیں تو اکثر ان میں سے داعش نظریات کے مخالف ہیں- اور کچھ ان میں بہت زیادہ جذباتی بھی ہیں-
میرا سوال احباب فورم سے یہ ہے کہ ہم اورہمارے علماء کے داش سے متعلق نظریات و فتاویٰ جات فلحقیقت پرنٹ میڈیا (جو ٹی وی، وڈیوز، تصاویر، ٹاک شوز، ماہانہ و ہفتہ وار میگزین وغیرہ پر مبنی ہے ) کے مرہون منّت ہیں -اکثر یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ پرنٹ میڈیا یا اس کا ٩٠ فیصد حضہ مغربی یہودی تنظیموں کے فنڈز پر پل رہا ہے اور وہی خبریں بیان کرتا جو مغربی اقدار کو جلا بخشتی ہیں- اور یہ بھی ایک امر ہے کہ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس داعش جیسی تنظیم کا رکن رہ چکا ہو یا اس تنظیم سے اس کا براہ راست رابطہ ہو یا وہ ان علاقوں کا سفر کرچکا ہو جہاں داعش نامی تنظیمی اپنا قبضہ جما چکی ہے -
سوال ١:
ایسی صورت میں کیا کسی تنظیم کو اس پرنٹ میڈیا کی خبروں کی بنیاد پر فاسق و فاجر قرار دینا کیا عین اسلامی عمل ہے یا اسلامی عمل نہیں ہے ؟؟ -یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن میں تو الله رب العزت کا ارشاد پاک ہے کہ تمھارے پاس اگر کوئی فاسق کوئی خبرلے کر آے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو - کہ کہیں بعد میں اپنی بے وقوفی و جلد بازی کی بنا پر پشیمان ہو جاؤ (سوره الحجرات ٦)-
سوال ٢:
اگر ہمیں کسی گروہ یا تنظیم کے بارے میں کو فتویٰ دینا ہو یا نظریہ قائم کرنا ہو - تو اسلامی نقطہ نظر سے ہماری تحقیق کا دائرہ کار اور حدود کیا ہونی چاہیے - تاکہ ہم تنظیم کے صحیح منہج تک پہنچ سکیں - مطلب یہ کہ اسطرح ہم یا تو تنظیم کے حق پر ہونے کی بنا پر راہ ہدیت حاصل کریں یا پھر تنظیم کے باطل نظریات ہونے کی بنا پر گمراہی سے بچنے کی کوشش کریں؟؟-
امید ہے احباب فورم جلد ہی اس پر اپنی قیمتی آراء پیش کریں گے-
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو (آمین)-