عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
پروفیسر مظہر کا کالم۔ نئی بات 16 جنوری 2013
کرپشن ، مہنگائی ، بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ ، خود کُش حملوں اور بم دھماکوں کے باوجود ارضِ وطن کی فضاؤں میں امیدوں اور آشاؤں کی توانا کرنیں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں ۔بیباک میڈیا اور آزاد عدلیہ نے اذہان و قلوب کے دھندلے آئینوں کو یوں صیقل کیا ہے کہ اب ان میں ہر کسی کا باطنی عکس دکھائی دینے لگا ہے ۔شعور کے نور نے شبِ تار میں دراڑیں ڈال دیں اور وہ دَور لد گیا جب مایوسیوں کی ’’بُکل‘‘ مارے یہ قوم کہا کرتی تھی کہ
دور لگے وہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
لاریب یہ اُن ہزاروں شہیدوں کے لہو کی کرشمہ سازی ہے جس نے وطن کی مٹی کو بھگو کر ہمیں شعور اور آگہی کی اِس منزل تک پہنچایا اور ہماری کچھ کر گزرنے کی اُمنگوں کو پھر سے جوان کر دیا ۔گھر گھر میں صفِ ماتم بچھی اور در در پہ نوحہ خوانی ہوتی رہی لیکن فراعینِ وقت اپنی ذات کے گنبد میں گُم رہے ۔لہو ٹپکتا رہا ، جمتا رہا اورپھر جمتے لہو کا پہاڑ کھڑا ہو گیا اور اب اسی پہاڑ کی چوٹیوں سے پھوٹنے والی نور کی کرنیں زمینی خُداؤں کو للکاررہی ہیں ۔قوم نے اپنے پیاروں کے ہزاروں لاشے اُٹھائے اور تقدیر پہ شاکر ہو کر اُنہیں دھرتی کی کوکھ میں چھپا دیا لیکن جب ضبط کے سارے بندھن ٹوٹے تو پھر چشمِ فلک نے وہ عجب نظارہ دیکھا جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر پائے گی ۔آفرین ہے اُن ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں اور بوڑھوں کے حوصلے پر جنہوں نے اپنے وجود کے ٹکڑوں کو سڑک پر سجا کر قبرستانوں کا سا خاموش احتجاج کرکے پوری دُنیا کو لرزا دیا ۔کسی اورمیں بھلا اتنی سکت اور تاب و تواں کہاں جو وہ لہو جماتی سردی میں کھُلے آسمان کے نیچے کفن میں لپٹے اپنے پیاروں کو تکتے تکتے اسّی گھنٹے گزار دے ۔تاریخ اُدھیڑ کے رکھ دیجئے ،آپ کو ایسا دلدوز ، اندوہناک اور کربناک احتجاج کہیں نہیں ملے گا۔تحقیق کہ اگر بوکھلائے ہوئے حکمران گورنر راج کا اعلان نہ کرتے تو انقلاب آتا ۔۔۔ خونی انقلاب ، جس میں یہ سبھی غرق ہو جاتے ۔انقلاب تو خیراب بھی آئے گا کہ ’’شہدائے کوئٹہ‘‘ نے انقلاب کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے البتہ یہ طے ہونا باقی ہے کہ عوام یہ انقلاب ووٹ کی طاقت سے لائیں گے یا سروں کی فصل کاٹ کے ۔چشمِ بینا دیکھ رہی ہے کہ دورِ گراں خوابی گزر چکا اور وہ وقت قریب لگا ہے کہپھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں ، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے۔
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے۔