حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
پرویز صاحب کی سوانح حیات
جائے مولد ومسکنیہ مقالہ ایم فل کا پنجاب یونیورسٹی میں پیش کیا گیا ہے۔ مقالہ نگار: حافظ محمد ارشد
جناب غلام احمد پرویز صاحب اپنی جائے پیدائش کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’میری پیدائش 9، جولائی 1903ء کو (موجودہ مشرقی پنجاب کے ) ضلع گورداسپور کے قصبہ بٹالہ میں ہوئی جو مختلف خصوصیات کی بناء پر ایک مشہور بستی تھی۔ ‘‘( شاہکار رسالت: ص 29)
پرویز صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ پرویز صاحب عجم کی پیداوار ہیں اور انہیں تنقیداً دوسروں کو عجم کا طعنہ نہ دینا چاہیے ۔
ابتدائی تعلیم
پیدائش کے بعدوہ ا پنی ابتدائی تعلیم وتربیت کے متعلق خود لکھتے ہیں :
’’میرا سفینہ حیات، متعدد جوئباروں اور متنوع آبناؤں سے گزر کر اس مقام تک پہنچاہے، میری پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو شریعت وطریقت کا نہایت نظیف ولطیف آمیزہ تھا گھر کے اسی ماحول کی نسبت سے میں اکثر (استعارۃ) کہا کرتا ہوں کہ میری پیدائش پر اگر میرے ایک کان میں آذان کی ندائے جانضرا پہنچی تھی تو دوسرے میں قوّالوں کی آواز میں ’’امیر خسرو ’’کے قول قلبانوں ‘‘ کی نشید روح افروز‘‘( شاہکار رسالت: ص 29)
پرویز صاحب کی اپنی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ پرویز صاحب کو بچپن میں جو ماحول ملا وہ موسیقی وآذان کا ملاجلا تھا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ پرویز صاحب پوری زندگی موسیقی کے دلدادہ رہے اور سننے میں کافی شغف بھی رکھتے تھے اسی لیے انہوں نے موسیقی کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے فرمایا کہ
’’یہ محض اتفاق تھا کہ دادا جان کا تعلق تصوف کے چشتیہ نظامیہ سلسلہ سے تھا جس میں موسیقی کو جزو عبادت سمجھا جاتا ہے اس سے شعرو نغمہ کے متعلق میرے ذوقِ لطیف کی از خود نشونما ہوتی چلی گئی اگر ان کا تعلق (مثلا) قادریہ یا نقشبندیہ سلسلہ سے ہوتا تو میرے ذوق کا دم گھٹ جاتا اورنہ معلوم یہ تسکین نہ یافتہ تقاضے، کس کس کے نفسیاتی معاذیر کے جھروں کو جھانکنے اور شرعی ’’تاویلوں ‘‘ کے روز نوں سے سرنکالتے ۔ ‘‘( شاہکار رسالت: ص 30)
گویا پرویز صاحب کے لیے موسیقی کے جواز کے لیے دادا جان کا تعلق تصوف کے سلسلہ چشتیہ سے ہونا ہی کافی ہے چاہے وہ شریعت کی روح سے حرام ہی کیوں نہ ہو، مگر اس کے باوجود طلوع اسلام یہ راگ الاپتے نہیں تھکتا کہ
’’ ہمارا مقصد صرف قرآنی حقائق پیش کرنا ہے، اس سے اگر کسی کے مروجہ عقیدہ یا کسی کے دعویٰ پر زد پڑتی ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی کیونکہ اس باب میں مدعی قرآن ہے، ہم نہیں ہمارا فریضہ، قرآن کے دعاوی کو پیش کرنا ہے اور بس۔ ‘‘(طلوع اسلام، جنوری،1985: ص 21)
ہم پرویز صاحب سے اور اب ان کی معنوی اولاد سے پوچھتے ہیں کہ قرآن کی کس آیت سے گانا سننا ثابت ہوتا ہے ۔ حقیقی بات یہ ہے کہ
غیر کی آنکھوں کا تنکا، تجھ کو آتا ہے نظر
دیکھ اپنی آنکھ کا، غاف
ل، ذرا شہتیر بھیامیر خسرو ہی نہیں، روشن آ
راء بیگم کی گلو کاری بھیپرویز صاحب کا یہ ذوق لطیف فقط امیر خسرو کے قول قلبانوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ فلمی اداکاروں، T.V گویوں اور معروف فنکاروں تک پہنچا ہوا تھا چنانچہ روشن آراء بیگم کی گلو کاری سے محظوظ ہونا اسی نظیف ولطیف ذوق کا نتیجہ ہے ۔ پرویز صاحب معروف گلوکاراؤں کی محفلیں، خود اپنے گھر میں سجایا کرتے تھے مگر پرویز صاحب جب تک زندہ رہے ان کا یہ فعل شنیع پردئہ راز میں رہا ہاں ان کی وفات کے بعد یہ راز، رازنہ رہ سکا اور پرویز صاحب کا خبث باطن لوگو ں کے سامنے آ گیا اور یہ اس وقت ہوا جب ایک خاتون نے ان کی یاد داشتوں کو ایک انگریزی مقالے میں پیش کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے ۔ (طلوع اسلام، مارچ واپریل1989ء: ص116 )
اور پرویز صاحب کے اسی ذوقِ لطیف کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بھی موسیقی کا دلدارہ بنا کر پیش کیا ہے ۔ چنانچہ شاہکارِ رسالت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی معاشرتی زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’ شعرہی نہیں، آپ موسیقی سے بھی لطف اند وز ہوتے تھے ۔ عربوں کی موسیقی زیادہ تر حدی خوانی اور رجزنوائی تک محدود تھی۔ ‘‘( شاہکارِ رسالت: ص 314)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کو موسیقی کا دلدارہ ہی نہیں بلکہ عظیم موسیقار کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مکان پر آیا تو میں نے سنا کہ اندر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدّی خوانوں کی طرح گار ہے ہیں، میں اندر گیا توا نہوں نے مجھ سے پوچھا کہ جو کچھ میں پڑھ رہا تھا۔ تو نے اسے سنا تھا۔ جب میں نے کہا ہاں، تو فرمایا کہ جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو جیسے عام لوگ گاتے ہیں ہم بھی گاتے ہیں ۔ ‘‘( شاہکارِ رسالت: ص 314)
مذکورہ اقتباسات میں چند امور غور طلب ہیں :
1. عربوں کی موسیقی تو حدی خوانی اور رجزنوائی تک محدود تھی مگر روشن آراء بیگم کی فحش گلوکاری کو کہاں سے کشیدہ کر لیا گیا تھا۔
2. اشعار پڑھنا خواہ ترنم کے ساتھ ہی کیوں نہ پڑھے جائیں، اور حدی خوانی دونوں ایسے کام ہیں جن سے فحش قسم کی موسیقی کو کوئی واسطہ نہیں ہے ۔
3. پرویز صاحب نے روشن آراء بیگم کی فحش قسم کی گلوکاری کو سند جواز فراہم کرنے کے لیئے عربوں کی حدی خوانی اور ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنے کو سہارا بنایا ہے جو کہ عرب پڑھتے تھے جنہیں سن کر اونٹ مسلسل سفر کرتے جاتے تھے مگر آج کی مروجہ موسیقی کا مقصد اونٹوں کو چلانا نہیں بلکہ بے حیائی پھیلانا ہے اور اسی فعل شنیع کا ارتکاب پرویز صاحب نے خود بھی کیا اور اپنی قلم کے ذریعے اپنی معنوی اولاد کو بھی یہ درس دیا العاذ باللہ
4. پرویز صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو موسیقار کے طور پر پیش کیا ہے جیسا کہ اوپر ذکر کر دیا گیا مگر یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے جس کی وضاحت درج ذیل حدث سے ہو جائے گی۔
قول فعل میں تضاد
پرویز صاحب نے اپنے لیے تو روشن آراء بیگم کی گلو کاری تک سماعت کی اپنے ذوقِ لطیف کو پروان چڑھایا مگر دوسروں کے لیے وہ گانا سننا حرام قرار دیا کرتے تھے اور اس وقت حرام قرار دیتے تھے [L:7] جب متحدہ ہندوستان کے نظام تعلیم میں ’’ہندو‘‘ گانا کی تعلیم لازمی قرار د ینے پر مصر تھے اس وقت پرویز صاحب فرمایا کرتے تھے :
’’ہندو کنیا مہاودیالوں میں راگ وغیرہ نصاب میں شامل ہے لہذا اگر ہندو لڑکے اور لڑکیوں کے لیے راگ کا نصاب رکھا جائے تو انہیں عین مسرت ہو گی لیکن سوال یہ ہے کہ چودہ برس کی عمر میں مسلمان لڑکیوں کو راگ اور تال سکھا کر کیا بنانا مقصود ہے ۔ ‘‘
پرویز صاحب کا اپنافعل ان کی تحریروں سے موافقت نہیں رکھتا اور یہ ان کی ہمیشہ عادت رہی ہے کہ وہ تضادات کی ان بلندیوں پر فائز ہیں کہ کسی دوسرے کے لیے ان کا حصول نہ ممکن ہے ۔
پرویز صاحب اور تصوف
پرویز صاحب اپنی ابتدائی عمر میں تصوف سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں کہ
’’دادا جان سلوک کی منازل بھی ساتھ کے ساتھ طے کرائے جاتے تھے اس لیے مراقبات، مجاہدات، ریاضات (چلہ کشیاں اور زاویہ نشینیاں ) اس عمرمیں میرے معمولات بن چکے تھے جس میں بچے ہنوز ’’گلی ڈنڈا‘‘ کھیلا کرتے تھے میرے ہمعصر پتنگیں اڑایا کرتے تھے اور میں ’’آنسوئے افلاک‘‘ کے حقائق ومعارف سمجھنے میں محو ہوتا تھا۔ ( طلوع اسلام، اگست1938: ص77)
اس سے تھوڑا آگے چل کر لکھتے ہیں کہ
’’تصوف کا ’’ہمہ اوست‘‘ انسان کو وسیع المشرب بنا دیتا ہے ۔ اگرچہ اکثر اوقات کچھ ضرورت سے زیادہ ہی وسیع المشرب۔ اس وسیع المشربی کا نتیجہ تھا کہ میں جس جذب وشوق سے میلاد کی محفلوں میں شریک ہوتا تھا اسی سوز گداز کے ساتھ عزا داری کی مجلسوں میں بھی حاضری دیتا تھا اور قوّالی تو خیر تھی ہی جزو عبادت۔ اس قسم کے اضداد کا مجموعہ تھا میرے بچپن اور ابتدائے شباب کا زمانہ۔‘‘(شاہکار رسالت، گذرگاہ خیال: ص 30)
پرویز صاحب نے پچپن کے اندرھی قرآنی علوم ومعارف اور امیر خسرو کے قول قلبانوں پر گہری نظر رکھی اور تصوف کی منازل کو بھی طے کیا یہی وجہ ہے کہ اس بچپن کے تخیلات کا اثر ان کی قرآنی فکر میں آخر عمر تک رہا اور وہی تصورات جو بچوں کے عہد طفولیت میں ہوتے ہیں پرویز صاحب کی تحریروں میں آخر عمر تک نظر آتے ہیں اور پرویز صاحب انہی نظریات وتخیلات کو سلجھانے میں پوری عمر لگے رہے قطع نظر اس بات سے کہ وہ نظریات قرآن وسنت سے ہم آہنگی رکھتے تھے یا نہیں اور پھر پرویز صاحب بچپن میں شعیت کی مجالس ومحافل میں بھی حاضری دیتے تھے اس حاضری نے پرویز صاحب کو کس ذوق ومزاج سے ہمکنار کر دیا ہو گا۔ اسکے متعلق وہ خود لکھتے ہیں :
’’ویسے بھی صوفی آدھا شیعہ ہوتا ہے ۔ ‘‘( شاہکار رسالت، گذرگاہ خیال: ص 30)
صوفیت اور شیعیت کے اختلاط سے جو نظریات پروان چڑھتے ہوں ان کا لازمی نتیجہ تضادات وتناقضات کی صورت میں ہوتا ہے جیسا کہ پرویز صاحب کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے ۔
پرویز صاحب کی تنقیدی نگاہ
جناب غلام احمد پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ ان تمام افعال کے ساتھ ساتھ ایک احسان خداوندی تھا چنانچہ وہ تنقیدی نگاہ کی صورت میں مجھے ملا تھا لہذا وہ خود لکھتے ہیں کہ
’’لیکن میں نے ابھی فطرت کی اس نوازش کا ذکر نہیں کیا جس نے میری زندگی کے دھارے کا رخ بدل دیا۔ اس نے ذوقِ سلیم اور ذہنِ رسا کے ساتھ مجھے تنقیدی نگاہ بھی عطا کی تھی۔ ‘‘(شاہکار رسالت، گذرگاہ خیال: ص 31)
اسی صفحہ پر آگے چل کرلکھتے ہیں :
’’میں پہلے اس کانٹے کی اس کھٹک کی طرف آتا ہوں، جس کا درد اس زمانے میں لادوا تھا، میں ایک دن تفسیر دیکھ رہا تھا۔ سورئہ احزاب کی یہ آیت میرے سامنے تھی۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا﴾ ( احزاب 29: 33)
’’اے ا یمان والو تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا۔ جنہوں نے موسیٰؑ کو (طرح طرح کی باتیں کر کے ) ستایا لیکن خد نے ان تمام باتوں سے اس کی بریت کی۔ ‘‘
بات کچھ ایسی دقیق نہ تھی۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات میں تفصیل سے درج ہے کہ بنی اسرائیل کس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنگ کرتے اور بات بات پر بگڑکربیٹھ جاتے تھے اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تو کچھ نہ بگڑا، خود وہ قوم معتوب اورنعمائے خداوندی سے محروم ہو گئی لیکن اسکی تفسیر میں مجھے یہ لکھا ہوا ملا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے حیادارتھے اس طرح جسم کو چھپائے رکھتے تھے کہ اس کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا تھابنی اسرائیل نے انہیں ستا نا شروع کیا اورکہا کہ یہ اس قدر جو اپنے بدن کو چھپائے رکھتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو برص یا اس قسم کی کوئی اور بیماری ہے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ (حضرت موسیٰ علیہ السلام) کو ان کی تہمت سے بری کرے ۔ سو حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن تنہائی میں اپنے کپڑوں کو پتھر پر رکھ کر غسل کرنے لگے جب فارغ ہوئے اورپنے کپڑے لینے کے لیے اس کی طرف بڑھے تو پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگا موسیٰ لٹھ لے کر اسکے پیچھے دوڑے، یہ کہتے ہوئے کہ اے پتھر میرے کپڑے، اے پتھر میرے کپڑے یہاں تک کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ تک پہنچ گے ۔ انہوں نے انھیں (حضرت موسیٰ علیہ السلام) کو برہنہ دیکھ لیا اور ان پر واضح ہو گیا کہ وہ ساخت میں سب سے بڑھ کر حسین تھے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے الزام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بری کر دیا اس جگہ پہنچ کر پتھر رک گیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے پھر پتھر کو لٹھ مارنے لگے اللہ کی قسم، اس پر ان کی لاٹھی کے نشانات ہیں تین یا پانچ۔ (جامع ترمذی وبخاری)
مجھے جھنجھنی آ گئی اور میں گہری سوچ میں ڈوب گیا دل میں طرح طرح کے شکوک ابھرنے لگے لیکن جب یہ خیال آیا کہ یہ تو نبی اکرمﷺ کی ارشاد وفرمودہ تفسیرہے تو کپکپا اٹھا گڑگڑا کر تو بہ کی اور شیطان سے پناہ مانگی جو اس قسم کے وساوس پیدا کر رہا تھا۔ لیکن اسکے بعد کیفیت یہ ہو گئی کہ تفسیر کا کوئی ساورق الٹا اس پر اسی قسم کی تفسیری روایات دکھائی دیں اس وسواس میں جو کچھ میرے دل میں پر گزر رہی تھی اسے کسی سے بیان نہیں کر سکتا تھا نہ قرآن پاک کی تفسیرچھوڑسکتا تھانہ اس پر اختیار تھا کہ اس سے دل میں اس قسم کے شکوک اور وساوس پیدا نہ ہوں شکوک پیدا ہونے کے ساتھ ہی دل میں یہ خیال ابھرتا کہ رسول اللہﷺ کی بیان فرمودہ تفسیر، اور اس کے خلاف شکوک! معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ ( شاہکار رسالت، گذرگاہ خیال: ص 31- 32)
یہ تھی پرویز صاحب کی تنقیدی نگاہ جو بچپن سے ہی پرویز صاحب پر نوا زش خداوندی تھی مذکورہ اقتباسات بطور مثال پیش کیے ہیں وگرنہ پرویز صاحب کی نگاہ تنقید تو بہت ساری احادیث صحیحہ پر تنقید کر رہی تھی۔ چونکہ یہاں پرویز صاحب کے حالات بتانا مقصود ہیں اس لیے پرویز صاحب نے مذکورہ حدیث پر جو نگاہ تنقید ڈالی ہے اور جس کی وجہ سے ان کا جسم کپکپا اٹھا تھا اور پھر توبہ واستغفار بھی کرنی پڑی تھی اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ پرویز صاحب کے دل ودماغ میں انکار حدیث کا پہلو بچپن سے ہی تنقیدی نگاہ کی صورت میں ظاہر ہو چکا تھا اس لیے ان کی جوانی اور پھر بڑھاپا کی عمر میں اس میں مزید نکھار پیدا ہوتا گیا اور پرویز صاحب نے حدیث کا انکار کرنے میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی۔
سرکاری ملازمت
جناب غلام احمد پرویز صاحب نے اپنی زندگی میں سرکاری ملازمت بھی کی اگرچہ سرکاری ملازمت کے آغاز کی صحیح تاریخ باوثوق ذرائع سے نہیں مل سکی مگر بعض اقتباسات سے یہ بات معلو ہوتی ہے کہ انہوں نے 1922ء کے قریب ملازمت شرع کی اور ملازمت کا آغاز لا ہور سے ہوا چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں:
’’جب میں لا ہور آنے لگاتو دادا جان نے مجھے (لا ہور میں ) دو ’’بزرگوں ‘‘ سے ملنے کی تاکید فرمائی ایک امام الدین بخار، جو نواں کے کوٹ کے گاؤں میں رہتے تھے (اور کہا جاتا تھا کہ وہ لا ہور کے قطب ہیں ) اور دوسرے علامہ اقبال جن سے انہوں نے مجھے ذہنی طور پر پہلے متعارف کرا رکھا تھا اول الذّکر بزگوار سے تومیں ایک آدھ مرتبہ ہی ملا لیکن حضرت علامہ کی خدمت میں بار یابی کے مواقع زیادہ حاصل ہوئے اب جو اُس زمانے میں ان کی خدمت میں حاضری کی جرأت پر نگۂ بازگشت ڈالتا ہوں (یہ آج سے قریبا ساٹھ سال پہلے کی بات ہے ) تو دل ہی دل میں محجوب ہو جاتا ہوں ۔ کہاں علامہ اقبال اورکہاں اٹھارہ بیس سال کا نو وارد، گمنام سا طالب علم! چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ ‘‘(تصوف کی حقیقت، رہ ورسیم منزلھا، ق)
اس اقتباس سے پرویز صاحب کی زندگی میں جو ملازمت کا آغاز ہے اسکا اندازہ ہو جاتا ہے کہ پرویز صاحب نے تقریبا بیس سال کی عمر میں سرکار ملازمت حاصل کر لی تھی۔
دورانِ ملازمت اسلم جیرا جپوری سے تعلق
غلام احمد پرویز صاحب چونکہ فقط قرآن کو سند وحجت تسلیم کرتے ہیں اور حدیث کا انکار، اس لیے انہوں نے دوران ملازمت بھی ایسی ہی شخصیات سے رابطہ قائم کیا جو انکار حدیث میں معروف تھیں چنانچہ اسلم جیرا جپوری سے غلام احمد پرویز صاحب نے ملاقات کی جس کاتذکرہ وہ یوں کرتے ہیں :
’’غالبا 31۔ 1930ء کا ذکر ہے میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے متعلق، ایک مضمون دیکھا اس کا بیشتر حصہ، خود میرے خیالات کا ترجمان تھا لیکن بعض مقامات ایسے بھی تھے جن میں مجھے کچھ تردد بھی تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اس موضوع پر، اس قسم کا مضمون دیکھا، سلجھی ہوئی عبارت، خیالات صاف واضح، سادہ انداز اور الفاظ کم از کم، لیکن ہر لفظ اپنے مقام پر منتخب محکم اور بخود خریدہ، دلائل دلکش، تبحر عالمانہ لیکن اسلوب بحث طالبعلمانہ، سب سے بڑی بات، یہ کہ ہر دعوے کی تائید قرآن سے ۔ (طلوع اسلام، ۷ جنوری1956ء: ص7)
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ پرویز صاحب 31۔ 1930ء تک اپنے خیالات ونظریات کو ایک خاص مشن کیلئے تیار کر چکے تھے اسی لیے انہوں نے اس اقتباس میں فرمایا کہ ’’اس کا بیشترحصہ، خود میرے خیالات کا ترجمان تھا۔ ‘‘ اوریہ کہ ’’ہر دعوے کی تائید قرآن سے ‘‘ چنانچہ اسلم جیرا جپوری سے جناب غلام احمد پرویز صاحب نے ملاقات کی اور اس ملاقات کو وہ بڑے طمطراق سے بیان کرتے تھے ۔ چنانچہ جناب غلام احمد پرویز صاحب نے اسلم جیرا جپوری سے ملاقات کا وقت لیا اور پھر ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ پرویز صاحب نے ان سے کچھ عربی کتب بھی پڑھیں۔ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں :
’’میں عربی ادب کی بعض کتابوں میں ناپختگی محسوس کیا کرتا تھا میں نے چاہا کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاؤں اور عند الفرصت مولانا سے یہ کتابیں از سرنو پڑھ لوں، چنانچہ غالباً 1935ء میں میں نے اس کے متعلق مولانا سے ذکرکیا وہ اس کے لیے بخوشی راضی ہو گئے چنانچہ میں شملہ سے تنہا دہلی آ گیا اور چونکہ مولانا بھی اس زمانے میں اکیلے ہی رہتے تھے اس لیے فیصلہ یہی ہوا کہ میں انہی کے ساتھ رہوں یہ چھ ماہ کا عرصہ میری ز ندگی کے یاد گار دنوں میں سے تھا، میں آیاتو تھاعربی ادب کی ناپختگی دور کرنے کے لیے لیکن (وہ جو کہتے ہیں کہ ۔ ۔ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے ۔ ) ہمارا بیشتر حصہ، قرآن کے رموز و غوامض پر بحث و تحقیق میں گزرتا۔ ‘‘( طلوع اسلام، ۷ جنوری1956ء: ص7)
حقیقی بات یہ ہے کہ پرویز صاحب کو جس شخص کی تلاش تھی وہ انہیں صرف ایک مضمون پڑھنے سے میسر آ گیا اور پھر پرویز صاحب نے عرصہ چھ ماہ میں ان سے قرآن کے وہ رموزو غوامض سیکھے جو حدیث کے انکار میں ممددو معاون بنے ۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
طلوع اسلام کا اجراءطلوع اسلام کے دور اجراء سے متعلق جان لینا ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس مجلہ کا آغاز جناب نزیر نیازی کے ماتحت ہوا تھا۔ نیازی صاحب نے 1935ء میں ’’طلوع اسلام‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ مجلہ جاری کیا لیکن 1936ء میں جبکہ اس کے کل چھ شمارے شائع ہوئے تھے بند ہو گیا اور موجودہ طلوع اسلام 1938ء میں نئے انتظامات کے ساتھ شائع ہوا۔ نیازی صاحب نے اپنے شذرہ میں اس کی وضاحت فرمائی ہے اور آخر میں لکھا ہے:
’’یہ ایک جداگانہ اورنیا طلوع اسلام تھا، حضرت پرویز اور ان کی جماعت کے خیالات کا حامل یہ نیا ’’طلوع اسلام‘‘ بھی پیام اقبال کا ترجمان اورقرآنی تعلیم کا پیامبر تھا ( اورہے ) پرویز صاحب اسی پیامبر اور تعلیم کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ باقی رہی ’’ان کی جماعت‘‘ سو انہوں نے جماعت نہیں بنائی، وہ جماعت سازی کے خلاف ہیں بہرحال، یہ بات ضمناً سامنے آ گئی تھی جس کی وضاحت ضروری سمجھی گئی‘‘( طلوع اسلام، ۷ جنوری1959ء: ص51)
پرویز صاحب کی صحافتی دنیا کا آغاز
پرویز صاحب کی باقاعدہ صحافتی دنیا کا آغاز مئی 1938ء میں ہوا جب انہوں نے ’’طلوع اسلام‘‘ کو نئے انتظامات کے تابعکر کے آگے بڑھایا گویا اس رسالہ کے اجراء کے ساتھ ہی، پرویز صاحب نے باضابطہ طور پر صحافتی زندگی میں قدم رکھا اوریہ بات بھی شک سے بہت دور ہے کہ پرویز صاحب کی تحریر میں شگفتگی، ادبی چاشنی اور برمحل شعر کا استعمال وافر مقدار میں پایا جاتا ہے ۔ پرویز صاحب کی قلمی قوت اور تحریر ی طاقت سے کسی کو انکار نہیں یہی وجہ ہے کہ بہت پڑھے لکھے لوگ بھی ان کی تحریر پڑھ کر متاثر ہو جاتے ہیں اور گمراہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں ۔ متحدہ ہندوستان میں ’’طلوع اسلام‘‘ مئی 1938ء سے لے کر جون1942ء تک اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتا رہا اور پھر اسکے بعد 1947ء تک تعطل کا شکار رہا ۔
طلوع اسلام حصول پاکستان کے بعد
متحدہ ہندوستان میں طلوع اسلام، کی اشاعت مئی 1938ء سیئ جون 1942ء تک جاری رہی اور پھر جولائی 1942ء سے دسمبر 1947ء، تک تعطل کا شکار رہی حصول پاکستان کے بعد جنوری 1948ء میں دوبارہ طلوع اسلام کی اشاعت کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے مگر یہ بات یاد رہے کہ متحدہ ہندوستان میں اس کا آغاز دہلی سے ہوا تھا جبکہ حصول پاکستان کے بعد اس کا آغاز کراچی سے ہوا اور مئی 1958ء، سے کراچی سے نقل مکانی کے بعد یہ لا ہور سے شائع ہونا شروع ہو گیا جو تاحال لا ہور سے ہی شائع ہوتا ہے ۔ حتی کہ فروری ۱۹۸۵ء میں پرویز صاحب کی وفات کے بعد بھی اس کی اشاعت کا بیڑہ پرویزی فکر کے لوگوں نے اٹھا رکھا ہے ۔ جو کہ لا ہور بی25/، گلبرگ2 لا ہور سے اس رسالہ کو ماہنامہ نکالتے ہیں ۔
علمائے اسلام کی طرف سے پرویز صاحب پر فتاوائے کفر
پرویز صاحب جوں جو ں مطالعہ قرآن میں آگے بڑھتے گئے ویسے ہی حدیث سے دور ہوتے گئے اور انکار حدیث کے ساتھ ساتھ تعلیمات اسلامی کاحلیہ بھی بگاڑدیا۔ چنانچہ نماز، زکوۃ، قربانی، اطاعت والدین، عذاب قبر، حد رجم تعدّد ازدواج وغیرہ سے متعلق عجیب عجیب وتاویلات کیں اور بعضوں کا سرے سے انکار ہی کر دیا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیائے اسلام کی طرف سے پرویز صاحب پر کفر کے فتوے لگائے گے اوریہ وہ دوسرے شخص ہیں جن پر متفقہ دنیا ئے اسلام کی طرف سے کفر کا فتوی لگایا گیا پہلی شخصیت غلام احمد قادیانی کی تھی جن کے حصے میں پوری دنیا کی طرف سے کفر کے فتوے آئے اور دوسری شخصیت پرویز صاحب کی ہے جن پر پوری دنیائے اسلام کی طرف سے کفر کا فتوی لگایا گیا ۔
پاکستانی علماء
متحدہ ہندوستان میں پرویز صاحب قرآن کے ساتھ سنت کا نام بھی لیا کرتے تھے مگر پاکستان بننے کے بعد انہوں نے صرف قرآن کا نعرہ لگا یا گویا کتاب بلا پیغمبر اورقرآن بلا محمدﷺ، اور ان کا یہ نرالا نعرہ ان کی ہر تحریر میں جابجا موجو دہے جو کہ ایک خاص گروہ کو خوش کرنے کے لیے تھا اسی بناء پر علمائے پاکستان نے 1962ء میں پرویز صاحب پر فتوٰیٔ کفر لگایا اور اس فتوٰی میں ایک ہزار علماء کی تعداد شامل تھی۔
امام کعبہ شیخ محمد عبداللہ السبیل
امام کعبہ شیخ محمد عبداللہ السبیل نے بھی پرویز صاحب پر کفر کا فتویٰ صادر کیاجس کی عبارت درج ذیل ہے ۔
’’الحمد لله وحده والصلوة والسلام علی من لا نبی بعده وعلیٰ آله وصحابه اجمعین، اما بعد: فان منظمة (طلاع اسلام) والتی تصدر مجلة باسم ’’طلوع اسلام‘‘ وتنتمی الی إمامها الضال (غلام احمد برویز) الذی انکر حجية الحدیث الشریف وانکر المعجزات وعذاب القبر وکثیرا من ضرویات الدین والحد وحرف فی آیات القرآن الکریم واقوال الرسول ﷺ مما یتعلق بالصلوة والزکوة والحج والجمة والنار وغیر ذالك ولا شک ان غلام احمد برویز واتباعه ومن کان علی عقائد المذکورة کفار خارجون عن ملة الاسلام وهم فی ذالک مثل القادیانیین الکفرة۔
وقد المنا ما بلغنا من ان هاتين الطائفتین’’منظمة طلوع الاسلام‘‘
’’والقادبانین‘‘ تقوم بالنشطة متنوعة لنشر کفر یاتهما فی دولة الکویت الشقیقية وغیرها من دول الخلیج۔
ویجب علی المسؤلیین والعلماء ان ینتبهو الهذا الخطر العظیم ویعملوا للخطر علی الشطتهم حتی لا تنتشر سمومهم بین المسلمین والله الهادى الی سبیل الرشاد وصلی الله علی سیدنا ونبینا محمد وعلی آله وصحبه اجمعین وبارک وسلم تسلیما
الرئیس العام لشؤن المسجد الحرم والمسجد النبوی
امام وخطیب المسجد الحرام محمد عبد الله السبیل
الحمد لله وحده والصلوة والسلام علی من لا نبی بعده وعلی آله وصحابه اجمعین، أما بعد:
طلوع اسلام نامی تنظیم، جو طلوع اسلام کے نام سے ایک رسالہ نکال رہی ہے، اپنے گمراہ پیشوا، غلام احمد پرویز کی طرف منسوب ہے ۔ یہ شخص حجیت حدیث، معجزات، عذب قبر اور بہت سی ضروریات دین کا منکر ہے ۔ اس ملحد نے قرآن کریم کی ان آیات اور آنحضرت ﷺ کی ان آحادیث میں تحریف کی ہے جو نماز، زکوٰۃ، حج جنت اور دوخ وغیرہ سے متعلق ہیں ۔
یقینا اس میں شک نہیں کہ غلام احمد پرویز، اس کے متبعین، اور جو بھی اسکے مذکورہ بالا عقائد کے حامل ہیں، کافر ہیں اورملت سلامیہ سے خارج ہیں ۔ اس معاملہ میں یہ لوگ قادیانی کافروں ہی کی طرح ہیں ۔
ہمیں اس بات پر دلی رنج اور دکھ ہوا کہ یہ دونوں گروہ، پرویزی اورقادیانی اپنے کفریہ نظریات کو پھیلانے کے لیے ۔ برادر اسلامی ملک کویت اور دیگر خلیجی ریاستوں میں مصروف عمل ہیں ۔
حکومت کے ذمہ داران اور علماء پر واجب ہے کہ وہ اس عظیم خطرے سے آگاہ رہیں اور انکی جملہ حرکات اور ممکنہ کاروائیوں پر پابندی لگائیں تاکہ انکا زہر مسلمانوں میں نہ پھیل سکے ۔
والله الهادى إلى سبيل الرشاد وصلى الله عليه على سيدنا ونبينا ومحمد وعلى آله وصحبه أجمعين وبارك وسلم تسليما
نگران اعلی مسجد حرام ومسجد نبوی شریف
وامام خطیب مسجد حرام (مکہ مکرمہ) محمد عبداللہ السبیل(ماہنامہ محدث،اگست ستمبر، 2002ء: ص112)
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ کا فتوی:
اس فتویٰ کے مطابق بھی پرویز صاحب کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا گیا ہے چنانچہ ادارئہ تحقیق مجلہ محدث میں اس فتویٰ کا ترجمہ بایں الفاظ کیا ہے ۔
فتویٰ نمبر 21168 مؤرخہ 14/ 1420ھ
’’طلوع اسلام‘‘ نامی جماعت کے عقائدو افکار جو اس جماعت کے بانی غلام احمد پرویز اور اس کے پیروکا روں نے اپنی کتابوں اور مضامین کے ذریعے پھیلائے اور بہت سے اسلامی ملکوں میں اس جماعت کے خلاف علمائے مسلمینکی کثیر تعداد کی طرف سے جاری کئے گئے فتاوٰی سے آگاہی کے بعد، یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ جماعت متعدد گمراہیوں کا مجموعہ ہے جن میں سے اکثر یہ ہیں ۔
1. اطاعت رسولﷺ سے انحراف اور سنت کی حجیت (شرعی حیثیت) کا انکار کرنا اور یہ وہم کہ صرف قرآن ہی شریعت کا مآخذ ہے ۔
2. ارکان اسلام میں تحریف کرنا اور اس کے ایسے مطالب لینا جو قرآن وسنت اور اجماع امت کے خلاف ہیں۔ مثلا صلوٰۃ، زکوٰۃ اور حج کے ان کے نزدیک خاص معانی ہیں جو درحقیقت باطل توجہیات ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسا کہ خارج ازاسلام باطنی فرقوں کی تحریفات ہیں ۔
3. ارکان ایمان میں تحریف کرنا جو قرآن وسنت اور اجماع امت کے خلاف ہیں ۔ ملائکہ ان کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ کائنات کو ودیعت کی گئی قوتوں کا حصہ ہیں اور قضاء وقدر ا نکے نزدیک مجوسی فریب ہے ۔
4. جنت ودوزخ کا انکار کرنا کہ ان کے نزدیک یہ حقیقی جگہیں نہیں ہیں ۔
5. حضرت آدم علیہ السلام کے ’ابو البشر‘ ہونے کا انکار کہ ان کے نزدیک وہ ایک تمثیلی قصہ ہے حقیقت نہیں ۔
6. قرآن کریم کی تفسیر، اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق کرنا اور کہنا کہ احکام قرآن عبوری (وقتی) تھے ابدی نہیں ہیں ۔
اس کے علاوہ بھی اس جماعت نے بہت سے ایسے گمراہ عقائد وافکار اپنائے ہوئے ہیں (جن کی یہ دعوت بھی دیتے ہیں ) جن میں سے ایک ہی عقیدہ اس جماعت کے اسلام سے خارج ہونے اور اس کے زمرئہ مرتدین میں شامل ہونے کے لیے کافی ہے چہ جائیکہ بہت سے عقائد کفریہ جمع ہو جائیں، علمائے اسلام کی بجائے اگر عام مسلمان لوگ بھی ان کے عقائد وافکار کے بارے میں غور وفکر کریں گے تو وہ بھی اس جماعت کی ضلالت وکفر یات کے جاننے کے بعد اس کے کافر ومرتد ہونے کا یقینی فیصلہ کریں گے ۔ کیونکہ یہ جماعت اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولﷺ کو جھٹلاتی اور مؤمنین کے رستے سے انحراف کرتی اور معروف ضروریات دین میں تحریف کرتی ہے ۔
جو کچھ اس جماعت کے بارے میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس کی بناء پر جو بھی اس جماعت کی اتباع کرتا ہے یا اسکی طرف دعوت دیتا ہے یا کسی بھی ذریعے سے لوگوں کو ان کی آراء سے متاثر کرتا ہے وہ کافر اور دین اسلام سے خارج ہے اور مسلم حکمرانوں پر واجب ہے کہ وہ اس سے توبہ کروائے اور اگر وہ تائب ہو جائے اور ایسی (کفریہ) حرکات سے باز آ جائے اور اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک ورنہ ایسے کافر کو از روئے اسلام قتل کر دینا چاہیے ۔
اورتمام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس گمراہ جماعت اس جیسی دوسری اسلام سے منحرف جماعتوں مثلا قادیانیوں، بہائیوں وغیرہ سے بچیں اور لوگوں کو بچائیں اور ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ قران وسنت کو مضبوطی سے پکڑیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رحمہم اللہ کی اتباع کا التزام کریں ۔
ہم اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے دشمنوں کو جہاں کہیں بھی ہوں، نیچا دکھائے اور ان کے مکروفریب کو نیست ونابود کرے ۔ بے شک وہ ہر چیز پر قادر اور ہمارے لیے ا للہ تعالیٰ کافی اور بہترین وکیل ہے ۔ اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی اٰلہ وصحبہ
دستخط عبدالعزیز بن عبداللہ بن آل شیخؒ چیئرمین فتوی کونسل اور دیگر آراکین فتوی کونسل، سعوی عرب کے دستخط۔ (ماہنامہ محدث، اگست ستمبر2002 :ص115- 116)
یاد رہے کہ پرویز صاحب پرا س کے علاوہ حکومت کویت، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب کے سابق مفتیٔ اعظم شیخ عبد العزیز بن عبداللہ باز رحمہ اللہ اور دیگر علمائے کرام نے فتوائے کفر لگائے ہیں ۔
فتوائے کفر میں نامی گرامی علمائے کرام
عالم اسلام کے وہ علماء جنہوں نے پرویز صاحب پر متفقہ طور پر کفر کا فتوی لگایا انکے نام بمع عہدہ شمارئہ محدث میں یوں دئیے گئے ہیں ۔
1. مولانا محمد ادریس سلفی وحافظ عبدالقہار دہلوی (جماعت غرباء اہلحدیث، کراچی9)
2. مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ، لا ہور)
3. ڈاکٹراسرار احمد (امیر تنظیم اسلامی، لا ہور)
4. مولانا محمدتقی عثمانی (سابق جسٹس شریعت بنچ، سپریم کورٹ)
5. قاضی عبداللطیف (ممبر اسلامی نظریاتی کونسل وسابق سینٹیر)
6. مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی (ادارئہ منہاج القرآن، لا ہور)
7. مولانا ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری (صوبائی وزیر مذہبی امور، پنجاب)
8. ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر (صدر جامعہ علوم اسلامیہ)
9. مولانا سراج الدین (شیخ الحدیث جامعہ دار العلومنعمانیہ)
10. مولانا محمد یوسف لدھیانوی (عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)
11. مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی (چیئرمین جماعت اہلحدیث)
12. مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی (صدر مدرس دار العلوم،کراچی)
13. مولانا شیخ عبدالحفیظ مکی (مکہ مکرمہ)
14. مولانا منظور احمد چنیوٹی (سابق ایم پی اے )
15. مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ مدنیہ (شیخ الحدیث جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک)
16. مولانا محمد اجل خاں (سرپرست جمعیت علمائے اسلام)
17. مولانا مفتی محمد عاشق الہی ا لبرنی (مدینہ منورہ)
18. ڈاکٹرعبدالواحد (مفتی جامعہ مدنیہ)
19. مولانا عبدالستار خان نیازی
20. مولانا ابو طاہر محمد اسحاق خان (اسلامی یونیورسٹی، مدینہ منورہ)
12. مولاناحافظ عبدالرشید شیخ الحدیث (دار العلوم تقویۃ الاسلام، لا ہور)
22. مولانا عبدالرحمن (چیئرمین متحدہ علماء بورڈ)
23. مولانا صفی الرحمن مبارک پوری (سابق ا میر جماعت اہلحدیث، ہند)
24. مولانا محمد سلطان ذوق ندوی ( بنگلہ دیش)
25. مولانا مجاہد الاسلام (صدر اسلامی فقہ اکیڈمی، ہند)
26. مولانا نعیم الحق نعیم (مدیر، الاعتصام، دارالدعوۃ السلفیہ، لا ہور)
27. مولانا حافظ محمد قاسم (شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم)
28. مولانا محمد یٰسین صابر (شیخ الحدیث جامعہ خیر المدارس، ملتان)
29. مولانا محمد اجمل قادری (مرکز خدام الدین، لا ہور)
30. مولانا ریاض الحسن نوری (مشیر وفاقی شرعی عدالت)
31. مولانا حافظ عبدالرحمان مدنی (مہتمم جامعہ لا ہور الاسلامیہ)
32. ابو عمار زاہد الراشدی (سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل)
33. مولانا عبدالمالک (صدر جمعیت اتحاد العلماء، منصورہ)
34. حضرت قاضی عبدالکریم کلاوچی (مدرسہ عربیہ نجم المدارس)
35. حضرت مولانا مفتی نور محمد ومولانا عبدالحلیم ( افغانستان)
36. مولانا مفتی محمد الیاس کشمیری
37. فتوی دار العلوم دیوبند
اور کئی دیگر علمی شخصیات اورپاکستان کے معروف دینی ادارے بھی اس میں شامل ہیں ۔
مذکورہ علمائے کام کے نام پیش کر کے میرا مقصد کسی خاص شخصیت کی توہین کرنا نہیں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ پرویز صاحب کے نظر یات عین قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے عالم اسلام کی معروف دینی شخصیات نے ان کو دائرہ اسلام سے خارج قراردیا حتی کہ سعودی عرب کے مفتیان نے ذمہ دارنِ حکومت کے توسط سے ان کے قتل کا بھی فتوی دیا ۔
حکومت وقت سے پرویز صاحب کے تعلقات
پرویز صاحب کے اپنی زندگی میں بننے والی تمام حکومتوں سے تعلقات اچھے رہے ہیں جس کی دلیل طلوع اسلام کے درج ذیل اقتباسات ہیں ۔
’’پرویز صاحب کے قائد اعظم سے لے کر، ان تمام حضرات تک سے، جو وقتا فوقتا صاحب اقتدرا رہے، اچھے مر اسم تھے، لیکن انہوں نے ان میں سے، کسی سے بھی کوئی مفاد حاصل نہیں کیا، نہ کوئی منصب مانگا، نہ کوئی اعراز طلب کیا، نہ کوئی فیکٹری الاٹ کرائی، نہ جاگیر حاصل کی۔ ‘‘( طلوع اسلام، جنوری 1974ء: ص23)
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جناب غلام احمد پرویز صاحب نے ارباب اقتدار سے تعلقات استوار کر رکھے تھے اگرچہ طلوع اسلام کی زبانی ان تعلقات کا مقصد حصول جاہ ومنصب نہ تھا مگر یہ طلاع اسلام کی حقیقت بیانی سے راہ فرار ہے کیونکہ پرویز صاحب کے ارباب حکومت سے تعلقات کی بناء پر ہی پرویزی لٹریچر دورِ ایوبی میں وسیع بنیادوں پر اشاعت پزیر ہوا اور پرویز صاحب کے لٹریچر میں صدر ایوب خود بھی دلچسپی رکھتے تھے چنانچہ اس بات کا اعتراف پرویز صاحب نے خود کیا ہے ۔
’’صدر ایوب (مرحوم) سے میرے خاص روابط تھے، لیکن میں نے ان سے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا (جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے) وہ میرے لٹریچر میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے ۔ ‘‘(طلوع اسلام، جنوری 1984: ص47)
اسی وجہ سے طلوع اسلام کا مطالعہ بھی فوج میں لازم کر دیا گیا چنانچہ طلوع اسلام کے صفحات میں اس کا ذکر بھی ان الفاظکے ساتھ ملتا ہے ۔
’’یہ شاید 1961ء کا ذکر ہے، پرویز صاحب میرے ہاں پنڈی آئے، انہیں فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملاقات کے لیے بلایا تھا، ایوب خان کے کان میں بھی اس نئی سوچ کی بھنک پڑی، انہیں پسند آئی اور پھر انہوں نے چاہا کہ یہ سوچ دور دورتک پہنچنی چاہیے چنانچہ مجھے یاد ہے کہ فوج میں ایک باقاعدہ مراسلہ آیا جس میں طلوع اسلام کی فکر کو سمجھنے اور عام کر دینے کی ترغیب دی گئی۔ ‘‘
اس اقتباس سے بھی یہ بات ظاہر ہے کہ پرویز صاحب کے حکومت وقت کے ساتھ تعلقات تھے اوران تعلقات کے پس پردہ مالی اعانت کے ساتھ ساتھ پرویزی لٹریچر کی فوج میں باعدہ طور پر نشرو اشاعت کرانا بھی شامل تھا ۔ چاہے پرویز صاحب خود کتناہی اس کا انکار کیوں نہ کریں ۔
بھٹوکا نعرہ ’’اسلامی سو شلزم‘‘ اور پرویزصاحب کا نظام ربوبیت
صدر ایوب خا ں کے دور حکومت میں پرویز صاحب صدر ایوب سے خفیہ ملا قاتیں کرتے تھے اور صدر ایوب کی مدح سرائی بھی کرتے تھے اس وقت چونکہ جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے پاس امور خارجہ کا قلمدان تھا اس لیے بھٹو صاحب بھی صدر ایوب کے قصیدے گایا کرتے تھے مگر صدر ایوب کا دور حکومت ختم ہوتا ہوا نظر آیا تو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی صدر ایوب کے خلاف اپنا پلیٹ فارم بنایا جوکہ آج بھی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے نام سے موجود ہے مگرپرویز صاحب بھٹو صاحب کو طعن و تشنیع کا صرف اس لیے نشانہ بناتے رہے کیونکہ صدر ایوب پرویز صاحب پرخاص عنایت کیا کرتے تھے اسی لیے طلوع اسلام کی وہ عبارت جو صدر ایوب کے حق میں اور بھٹو کے خلاف اس وقت قلم وقرطاس کی زینت بنی درج ذیل ہے۔
’’ ہمارے نزدیک یہ انسانی کریکٹر کی انتہائی پستی اور کمینگی ہے کہ جب تک کوئی شخص بر سر اقتدار رہے اسکی مدح سرائی کیجاے اور جونہی وہ اقتدار سے الگ ہو اسے ہدف طعن وتشنیع بنانا شروع کر دیا جائے، یہ خود غرضی، بزدلی اور منافقت کی بدترین مثال ہے ایسے لوگوں پر نہ کبھی اعتما د کرنا چاہیے، نہ شریف انسانوں کو انہیں اپنے پاس بٹھانا چاہیے ۔ ‘‘( طلوع اسلام،ستمبر1985ء:ص44)
اس اقتباس سے یہ بات ظاہر ہے کہ پرویز صاحب دور ایوبی میں صدر ایوب سے کس قدر خوش تھے اور صدر ایوب کی مخالفت کرنے والوں کے کس قدر خلاف تھے مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جناب پرویز صاحب جو کہ بھٹو کے خلاف اور صدرایوب کے حق میں کبھی مضامین لکھا کرتے تھے عین ان دنوں جب بھٹو صاحب اقتدار پر براجمان ہوئے اور وہ اسلامی سوشلزم کا پُر فریب نعرہ لگا کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے، پرویز صاحب صدر ایوب کے احسا نات وتعلقات کو پس پشت ڈال کر بھٹو صاحب کے ثناء خواں بن گئے کیونکہ بھٹو صاحب کا نعرہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ اور پرویز صاحب کا نعرہ ’’نظام ربوبیت‘‘ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ اس لیئے پرویز صاحب بھٹو کے بہت قریبی ہو گئے اور جو قلم پہلے بھٹو صاحب کے خلاف چلتا تھا اب وہی بھٹو صاحب کے حق میں چلنا شروع ہو گیا۔
ایک ضمنی گوشہ
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ پرویز صاحب اور بھٹو صاحب دونوں سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے خلاف تھے ( ایک سیاسی میدان میں اور دوسرا نظریاتی میدان میں ) اس لحاظ سے بھی پرویز صاحب کو بھٹو صاحب کا ہمنوا اور ساتھی بننا اور ان کے حق میں مضامین لکھنا ضروری تھا تاکہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے خلاف جو محاذ انہوں نے کھول کر رکھا تھا اس میں کامیابی حاصل ہو۔ یہی وجہ تھی کہ بھٹو صاحب کے سیاسی بیانات اور پرویز صاحب کی قلمی زہر افشانیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔
عہدضیاء الحق اور پرویز صاحب
بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ضیاء الحق صاحب نے چونکہ اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور پرویز صاحب بھٹو صاحبکے ساتھ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی مخالفت میں اور سوشلزم کے پر فریب نعرہ میں اشتراک رکھتے تھے اس لیے ضیاء الحق صاحب کی حکومت پرویز صاحب کے لیے ساز گار نہ ہوئی اور پرویز صاحب آخر عمر تک ضیاء الحق پر طعن وتشنیع کرتے رہے ضیاء الحق صاحب کے دور حکومت کو مثالی دور اور حکومت نہیں کہاجا سکتا مگر بہرحال بھٹو کے دور حکومت سے دور ضیاء الحق قدرِ بہتر تھا جبکہ پرویز صاحب کے لیے وہ کسی بھی لحاظ سے سود مند ثابت نہ ہو اسی لیے پرویز صاحب ان پر طعن وتشنیع کرتے رہے ۔
عمرہ کی ادائیگی
پرویز صاحب نے 1982ء میں عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے سعودیہ کا سفر کیا اور یہ سفر انہیں ا ن کے بعض ساتھیوں کے مجبور کرنے پر کرنا پڑا ورنہ وہ خوداس کے لیے تیار نہ تھے اور پھر وہاں انہوں نے عمرہ ادا کیا مگر اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ارکان عمرہ انہوں نے کس طرح ادا کیے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ارکان جدید اور ترقی یافتہ طریقوں کے مطابق ادا کرنے چاہئیں نہ کہ پرانے اور قدامت پسندانہ طریقوں سے، اس کی ایک مثال شاہکار رسالت میں وہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’سچ ہے، جب تک سربراہ مملکت جاگے نہیں، رعایا چین کی نیند کیسے سوسکتی ہے ؟ قرآن کریم نے اس امت کو طائفین کہہ کر پکار ہے، یعنی راتوں کو پہرہ دینے والے ۔ یہ پہرہ دیتے ہیں تاکہ نوع انسانی اطمینان کی نیند سو سکے ۔ (شاہکار رسالت:ص215)
پرویز صاحب نے اپنی قلم کے ساتھ چونکہ اس قرآنی آیت کا مفہوم رات کو پہرہ دینے والے لکھا ہے اب نہ جانے عمرہ کی ادائیگی کے وقت پرویز صاحب کے ہاں اس آیت کا مفہوم فوراً بدل گیا ہو اور پرویز صاحب کے ذہن میں ہی پوشیدہ رہ گیا ہو کہ اس کا مفہوم رات کے وقت پہرہ دینے والے ہی نہیں بلکہ دن کے وقت بیت ا للہ کا طواف کرنے والے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ پرویز صاحب نے بیت اللہ کا طواف لازماً دن کے وقت بھی کیا ہو گا۔
پرویز صاحب کے اساتذہ
پرویز صاحب کے اساتذہ کی فہرست میں صرف دو اشخاص ہی ہیں ایک تو ان کے دادا جان مولوی رحیم بخش جو کہپرویز صاحب کے بچپن کے مربی ہیں اور دوسرے مولوی اسلم جیراجپوری، چنانچہ پرویز صاحب نے دونوں کا تذکرہ اپنی قلم سے ہی کیا ہے چنانچہ اپنے ایک مربی دادا جان کا تذکرہ شاہکارِ رسالت میں بایں الفاظ کرتے ہیں :
’’چونکہ وہ مجھے اپنے علم وسلوک کاوارث بناناچاہتے تھے، اس لیے انہوں نے شروع ہی سے مجھے اپنے آغوش میں لے لیا اورمیری پرورش، تربیت اور تعلیم انہی کے ہاتھوں یا زیرنگرانی ہوئی۔ ‘‘(شاہکار رسالت:ص29)
اور اسلم جیراجپوری سے تلمیذانہ تعلق کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں عربی ادب کی بعض کتابوں میں ناپختگی محسوس کیا کرتا تھا، میں نے چاہا کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاؤں، اورعندالفرصت مولانا سے یہ کتابیں، از سرنو پڑھ لوں ۔ چنانچہ غالبا 1935ء میں، میں نے اس کے متعلق مولانا سے ذکر کیا اور وہ اس کے لیے بخوشی راضی ہو گئے ۔ ‘‘(طلوع اسلام، 7جنوری 1956ء:ص7)
ان دونوں اقتباسات سے معلوم ہوا کہ بچپن کے مربی دادا جان تھے اور جوانی کی عمر کے مربی مولانا اسلم جیراجپوری تھے، ان کے علاوہ براہ راست کسی ایسے فرد کی شناخت نہیں ہو سکی جن سے پرویز صاحب نے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے فیض حاصل کیا ہو۔ ہاں کتب سے استفادہ انہوں نے ضرور کیا ہو گا۔
پرویز صاحب کے تلامذہ
پرویز صاحب نے کوئی انسٹیٹوٹ نہیں بنایا تھا نہ ہی پرویز صاحب کسی مدرسہ وسکول وکالج میں مدرس کی حیثیت سے پڑھاتے تھے، اس لیے ان کا کوئی ا یسا شاگرد جس نے اُن سے براہ راست کسب فیض کیا ہو، معلوم نہیں ہو سکا۔ مگر پرویز صاحب کا لٹریچر پڑھ کر بہت سارے لوگوں نے آپ کو اپنا اعزازی استاد مانا ہے ۔ جن میں مرد وخواتین شامل ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جوکہ آپ کی معنوی اولاد ہیں جن کے سہارے آج بھی ادارہ طلوع اسلام چل رہا ہے ۔
وفات پرویز
پرویز صاحب اپنی وفات سے قبل تقریبا پانچ ماہ اپنے بستر علالت پر رہے کہ یہی علالت مرض الموت بن گی اور آپ اس دار فانی سے 24 فروی 1985ء کو شام چھ بجے انتقال فرما گئے ۔
چنانچہ آپ کی وفات سے متعلق ادارہ طلوع اسلام لکھتا ہے کہ
’’/15اکتوبر 1984ء کو آپ نے آخری بار درس قرآن دیا ا ور اس کے بعد مسلسل بستر علالت پر رہے ۔ اور 24فروی 1985ء کو شام چھ بجے، اس دار فانی سے انتقال فرما گئے ۔ ‘‘(طلوع اسلام، اپریل 1985ء:ص7)
﴿ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ﴾ (الدخان:29)
’’پس نہ تو ان پر آسمان رویا اور نہ ہی زمین اور وہ مؤمن نہ تھے ۔