ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 619
- ری ایکشن اسکور
- 193
- پوائنٹ
- 77
پندرہ شعبان کی رات قیام کے تین مراتب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
علامہ ابن العثيمين فرماتے ہیں :
في قيام ليلة النصف من شعبان، وله ثلاث مراتب:
پندرہ شعبان کی رات قیام کے تین مراتب، ہیں:
المرتبة الأولى: أن يصلي فيها ما يصليه في غيرها، مثل أن يكون له عادة في قيام الليل فيفعل في ليلة النصف ما يفعله في غيرها من غير أن يخصها بزيادة، معتقداً أن لذلك مزية فيها على غيرها، فهذا أمر لا بأس به، لأنه لم يحدث في دين الله ما ليس منه.
پہلا مرتبہ: آدمی معمول کے مطابق نماز پڑھتا ہے، آدھی رات قیام کرنا اس کی عادت ہے، چنانچہ پندرہ شعبان کی رات بھی وہ پچھلی راتوں کے بغیر اضافی عبادت کیے بغیر وہی عمل کرتا ہے، اس رات کی خصوصیت کی نیت سے اضافی عبادت نہیں کرتا، یہ جائز ہے، یہ بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔
المرتبة الثانية: أن يصلي في هذه الليلة، أعني ليلة النصف من شعبان دون غيرها من الليالي، فهذا بدعة، لأنه لم يرد عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنه أمر به، ولا فعله هو ولا أصحابه.
دوسرا مرتبہ: خاص اسی رات کو نماز پڑھنا، جبکہ اس کا معمول عام راتوں میں نہیں ہوتا، یہ بدعت ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم ثابت نہیں، نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا۔
وأما حديث علي رضي الله عنه الذي رواه ابن ماجه: «إذا كان ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها» . فقد سبق عن ابن رجب أنه ضعفه، وأن محمد رشيد رضا قال: إنه موضوع، ومثل هذا لا يجوز إثبات حكم شرعي به.
اور وہ حدیث جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسے ابن ماجہ نے روایت کی ہے: "اگر پندرہ شعبان کی رات ہو تو اس کی رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو"، ابن رجب نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، اور محمد رشید رضا نے اسے موضوع قرار دیا ہے، اور ایسے حدیث سے شرعی حکم ثابت کرنا جائز نہیں۔
وما رخص فيه بعض أهل العلم من العمل بالخبر الضعيف في الفضائل، فإنه مشروط بشروط لا تتحقق في هذه المسألة، فإن من شروطه أن لا يكون الضعف شديداً، وهذا الخبر ضعفه شديد، فإن فيه من كان يضع الحديث، كما نقلناه عن محمد رشيد رضا رحمه الله تعالى.
اور جو کچھ بعض اہل علم نے ضعیف حدیث کو فضائل میں عمل کرنے کی رخصت دی ہے، وہ کچھ شرائط کے تحت ہے جو اس مسئلے میں پوری نہیں ہوتی ہیں، ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ حدیث کی ضعف شدید نہ ہو، اور یہ حدیث بہت زیادہ ضعیف ہے، کیونکہ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو حدیث کو گھڑتے تھے، جیسے کہ محمد رشید رضا نے بتایا۔
الشرط الثاني: أن يكون وارداً فيما ثبت أصله، وذلك أنه إذا ثبت أصله ووردت فيه أحاديث ضعفها غير شديد كان في ذلك تنشيط للنفس على العمل به، رجاء للثواب المذكور دون القطع به، وهو إن ثبت كان كسباً للعامل، وإن لم يثبت لم يكن قد ضره بشيء لثبوت أصل طلب الفعل.
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اس اصل سے متعلق ہو جو ثابت ہو، کیونکہ جب کسی مسئلے کی اصل ثابت ہو اور اس کے بارے میں کم درجے کی ضعیف احادیث آئیں تو وہ انسان کو عمل کی ترغیب دیتی ہیں، تاہم اس پر یقین نہیں کیا جاتا، اور اگر یہ ثابت ہو جائے تو یہ عامل کے لئے ثواب کا باعث ہوگا، اور اگر یہ ثابت نہ ہو تو اس سے اس کو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ فعل کے کرنے کا اصل مقصد ثابت ہے۔
ومن المعلوم أن الأمر بالصلاة ليلة النصف من شعبان لا يتحقق فيه هذا الشرط، إذ ليس لها أصل ثابت عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كما ذكره ابن رجب وغيره.
اور یہ معلوم ہے کہ پندرہ شعبان کی رات نماز پڑھنے کا حکم اس شرط کو پورا نہیں کرتا، کیونکہ اس کا کوئی ثابت اصل نہیں ہے، جیسا کہ ابن رجب اور دیگر علماء نے ذکر کیا ہے۔
قال ابن رجب في اللطائف ص ٥٤١: فكذلك قيام ليلة النصف من شعبان لم يثبت فيها عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولا عن أصحابه شيء.
ابن رجب نے "لطائف المعارف" (صفحہ ۵۴۱) میں فرمایا: اسی طرح پندرہ شعبان کی رات قیام کے بارے میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی بات ثابت نہیں ہے۔
وقال الشيخ محمد رشيد رضا (ص ٨٥٧ في المجلد الخامس) : إن الله تعالى لم يشرع للمؤمنين في كتابه ولا على لسان رسوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولا في سنته عملاً خاصًّا بهذه الليلة.
،
شیخ محمد رشید رضا نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر اور آپ کی سنت میں اس رات کے لیے کوئی خاص عمل نہیں مقرر کیا۔
وقال الشيخ عبد العزيز بن باز: ما ورد في فضل الصلاة في تلك الليله فكله موضوع. اه
شیخ عبد عزیز بن باز نے فرمایا: پندرہ شعبان کی رات نماز کی فضیلت میں جتنی روایات آئی ہیں، وہ سب موضوع ہیں۔
وغاية ما جاء في هذه الصلاة ما فعله بعض التابعين، كما قال ابن رجب في اللطائف ص ٤٤١: وليلة النصف من شعبان كان التابعون من أهل الشام يعظمونها ويجتهدون فيها في العبادة.
اس نماز کے بارے میں جو سب سے زیادہ ذکر آیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض تابعین نے یہ عمل کیا، جیسا کہ ابن رجب نے لطائف میں کہا ہے کہ اہل شام کے تابعین پندرہ شعبان کی رات کی تعظیم کرتے تھے اور عبادت میں محنت کرتے تھے۔
وعنهم أخذ الناس فضلها وتعظيمها، وقد قيل: إنهم بلغهم في ذلك آثار إسرائيلية، فلما اشتهر ذلك عنهم في البلدان اختلف الناس في ذلك: فمنهم من قبله ووافقهم على تعظيمها، وأنكر ذلك أكثر علماء الحجاز، وقالوا: ذلك كله بدعة.
ان تابعین سے لوگوں نے اس رات کی فضیلت اور تعظیم حاصل کی، اور کہا گیا ہے کہ انہیں اس بارے میں اسرائیلی آثار پہنچے تھے، اور جب یہ عمل مختلف علاقوں میں مشہور ہوا تو لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا: بعض نے اس کو قبول کیا اور اس کی تعظیم میں ان کی پیروی کی، لیکن زیادہ تر علمائے حجاز نے اس پر اعتراض کیا اور اسے بدعت قرار دیا۔
ولا ريب أن ما ذهب إليه علماء الحجاز هو الحق الذي لا ريب فيه، وذلك لأن الله تعالى يقول: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ الأِسْلاَمَ دِيناً فَمَنِ اضْطُرَّ فِى مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لإِثْمٍ فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ}.
اس میں کوئی شک نہیں کہ علمائے حجاز کا مسلک ہی حق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بیقرار ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے۔"
ولو كانت الصلاة في تلك الليلة من دين الله تعالى لبينها الله تعالى في كتابه، أو بينها رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بقوله أو فعله، فلما لم يكن ذلك علم أنها ليست من دين الله، وما لم يكن منه فهو بدعة.
اور اگر اس رات نماز اللہ کے دین کا حصہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی کتاب میں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل سے بیان کرتے، چونکہ ایسا نہیں ہوا، اس لیے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ اللہ کے دین میں، سے نہیں ہے، اور جو کچھ دین کا حصہ نہیں، وہ بدعت ہے۔
وقد صح عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنه قال: «كل بدعة ضلالة».
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "ہر بدعت گمراہی ہے۔"
المرتبة الثالثة: أن يصلى في تلك الليلة صلوات ذات عدد معلوم، يكرر كل عام، فهذه المرتبة أشد ابتداعاً من المرتبة الثانية وأبعد عن السنة.
تیسرا مرتبہ: اس رات میں ہر سال مخصوص تعداد میں مخصوص نمازیں پڑھنا، یہ دوسرے مرتبے سے زیادہ بدعت اور سنت سے دور ہے۔
والأحاديث الواردة فيها أحاديث موضوعة، قال الشوكاني في الفوائد المجموعة (ص ١٥ ط ورثة الشيخ نصيف) : وقد رويت صلاة هذه الليلة، أعني ليلة النصف من شعبان على أنحاء مختلفة كلها باطلة وموضوعة.
اس رات کے متعلق آنے والی روایات سب موضوع ہیں، جیسا کہ شوکانی نے "الفوائد المجموعة" میں کہا ہے، کہ پندرہ شعبان کی رات کی نماز مختلف طریقوں سے آئی ہے، لیکن سب باطل اور موضوع ہیں۔
[مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين، ج : ٢٠، ص : ٢٨-٣٠، ]