خواجہ خرم
رکن
- شمولیت
- دسمبر 02، 2012
- پیغامات
- 477
- ری ایکشن اسکور
- 49
- پوائنٹ
- 86
علماء امت کے اقوال:
شیخ الإسلام ابن باز رحمہ اللہ اس شب کے حوالہ سے اپنے شہرہ آفاق رسالہ "التحذیرمن البدع" میں ارشاد فرماتے ہیں:"پندرہویں شعبان کی فضیلت کے متعلق تمام احادیث ضعیف اورموضوع ہیں ,لیکن جمہورعلماء کے نزدیک اس رات محفل رچانا بدعت ہے- اوراسکی فضیلت کے متعلق واردشدہ سب احادیث ضعیف اورباقی موضوع گھڑی ہوئی ہیں جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب لطائف المعارف میں بیان کیا ہے"-
عبادات میں ضعیف حدیث اس وقت قابل عمل ہوتی ہے- جب صحیح دلائل سے اسکی اصل بنیاد (شرع) سےثابت ہو- شب شعبان کے جشن کے بارے میں کوئی صحیح بنیاد ثابت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ضعیف حدیث قابل عمل ہو"
(دیکھئے التحذیرمن البدع کا اردوترجمہ ص 24)
امام ابوبکرطرطوشی نے اپنی کتاب "البدع والحوادث" میں کہا ہے کہ ابن وضاح نے زید بن اسلم کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے مشائخ وفقہاء میں سے کسی ایک کوبھی پندرہویں شعبان کی رات اورمکحول کے طرزعمل کی طرف توجہ کرتے ہوئے نہیں پایا اوروہ اس رات کودوسری راتوں پرکوئی فضیلت نہیں دیتے تھے- ابن ابی ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد نمیری کہتا ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات کا ثواب شب قدرکے برابرہے – اس نے کہا کہ اگرمیں اسکوسنتا اورمیرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تومیں اسکوضرورمارتا کیوں کہ زیاد قصہ گوتھا-
(دیکھئے التحذیرمن البدع ص 27)-
شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس طرح کی موضوع اورضعیف احادیث کے نقل کرنے کے بعد انکا من گھڑت ہونا یا ضعیف ہونےکی تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا:" مذکورہ آیات واحادیث اوراہل علم کے اقوال سے طالب حق کے لئے یہ امرواضح ہوجاتا ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب کونماز یا کسی اورچیزکے لئے محفل منعقد کرنا اوراسکے دن کوروزہ کیلئے خاص کرنا اہل علم کے نزدیک قابل مذمت بدعت ہے اورشرع شریف میں اسکی کوئی اصل نہیں ہے- بلکہ اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دورمسعود کے بعد یہ بدعت پیداہوئی ہے"-
(التحذیرمن البدع ص 29)-
یاد رہے کہ بعض سلف سے پندرہویں شعبان کی شب میں نمازوں کے حوالے سے جوازکے کچھ آثارملتے ہیں جیسا کہ اہل شام میں سے مکحول ,خالد بن معدان اورلقمان بن عامروغیرہ کا عمل منقول ہے,اوران ہی بزرگوں کودیکھتے ہوئے لوگوں نے شب براءت کا مسئلہ اخذکیا لیکن جب اس مسئلے کی شہرت ہوئی توعلماء حجاز جیسے عطاء بن ابی رباح ,ابن ابی ملیکہ اورفقہاء مدینہ جیسے اصحاب مالک وغیرہ نے اسکا شدید نوٹس لیا اوراسکے بدعت ہونے کا فتوى جاری کیا- اب جولوگ پندرہویں شعبان کا شب منانے کا دم بھرتےہیں وہ بھی شب بیداری کی کیفیت کے مسئلہ پراختلاف کا شکارہوگئے-
بعض نے کہا کہ یہ شب بیداری مساجد میں باجماعت ہوگی جیساکہ خالدبن معدان اورلقمان بن عامروغیرہ نے کیا یہ لوگ اس شب اپنے بہترین لباس پہنتے تھے,خوشبواورسرمہ استعمال کرتے تھے- اوررات بھرمسجد میں ٹھرتے تھے- اسحاق بن راہویہ نے بھی ان لوگوں کی موافقت کی-
جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے مساجد میں نماز,قصہ خوانی اوردعاء کے لئے جمع ہونا مکروہ ہے البتہ انسان تنہا گھرمیں نمازپڑھ سکتا ہے-جیساکہ امام اوزاعی وغیرہ نے کہا ہے-
جب کہ تنہا نمازیا پھربا جماعت نمازکے متعلق علماء کے دوقول ہیں- پہلاقول یہی ہے کہ یہ بدعت ہے – جیسا کہ اکثرعلماء حجازکہتے ہیں –جب کہ دوسراقول ہے کہ انسان کا تنہا نمازپڑھنا یا خاص جماعت میں نمازپڑھنا مکروہ نہیں ہے جیسا کہ اوزاعی ابن رجب وغیرہ کہتے ہیں-
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں امام اوزاعی کا یہ موقف اورابن رجب کا اس موقف کو اختیارکرنا عجیب وغریب اورضعیف ہے- اسلئے کہ جس چیزکا شرعی دلائل سے مشروع ہونا ثابت نہ ہوتا ہو اسکواللہ کے دین میں اضافہ کرنا جائزنہیں ہے خواہ وہ اسے تنہاکرے یا باجماعت – اورخواہ اسے خفیہ طورپرانجام دے یا علانیہ طورپراس لئے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے -:" من عمل عملا لیس علیه أمرنا فھوررد"اوراسی جیسی بیشماردلائل جوبدعت کی بیخ کنی کرتی ہیں-(دیکھئے التحذیرمن البدع ص 13)
توسابقہ سطورکے نتیجہ میں ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کا میلہ ,شب بیداری اوراس حوالے سے قائم کردہ دیگرسارے اموربدعات کے زمرے میں آتے ہیں لہذا ان سے پرہیزاوراجتناب لازمی ہے-
شیخ الإسلام ابن باز رحمہ اللہ اس شب کے حوالہ سے اپنے شہرہ آفاق رسالہ "التحذیرمن البدع" میں ارشاد فرماتے ہیں:"پندرہویں شعبان کی فضیلت کے متعلق تمام احادیث ضعیف اورموضوع ہیں ,لیکن جمہورعلماء کے نزدیک اس رات محفل رچانا بدعت ہے- اوراسکی فضیلت کے متعلق واردشدہ سب احادیث ضعیف اورباقی موضوع گھڑی ہوئی ہیں جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب لطائف المعارف میں بیان کیا ہے"-
عبادات میں ضعیف حدیث اس وقت قابل عمل ہوتی ہے- جب صحیح دلائل سے اسکی اصل بنیاد (شرع) سےثابت ہو- شب شعبان کے جشن کے بارے میں کوئی صحیح بنیاد ثابت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ضعیف حدیث قابل عمل ہو"
(دیکھئے التحذیرمن البدع کا اردوترجمہ ص 24)
امام ابوبکرطرطوشی نے اپنی کتاب "البدع والحوادث" میں کہا ہے کہ ابن وضاح نے زید بن اسلم کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے مشائخ وفقہاء میں سے کسی ایک کوبھی پندرہویں شعبان کی رات اورمکحول کے طرزعمل کی طرف توجہ کرتے ہوئے نہیں پایا اوروہ اس رات کودوسری راتوں پرکوئی فضیلت نہیں دیتے تھے- ابن ابی ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد نمیری کہتا ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات کا ثواب شب قدرکے برابرہے – اس نے کہا کہ اگرمیں اسکوسنتا اورمیرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تومیں اسکوضرورمارتا کیوں کہ زیاد قصہ گوتھا-
(دیکھئے التحذیرمن البدع ص 27)-
شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس طرح کی موضوع اورضعیف احادیث کے نقل کرنے کے بعد انکا من گھڑت ہونا یا ضعیف ہونےکی تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا:" مذکورہ آیات واحادیث اوراہل علم کے اقوال سے طالب حق کے لئے یہ امرواضح ہوجاتا ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب کونماز یا کسی اورچیزکے لئے محفل منعقد کرنا اوراسکے دن کوروزہ کیلئے خاص کرنا اہل علم کے نزدیک قابل مذمت بدعت ہے اورشرع شریف میں اسکی کوئی اصل نہیں ہے- بلکہ اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دورمسعود کے بعد یہ بدعت پیداہوئی ہے"-
(التحذیرمن البدع ص 29)-
یاد رہے کہ بعض سلف سے پندرہویں شعبان کی شب میں نمازوں کے حوالے سے جوازکے کچھ آثارملتے ہیں جیسا کہ اہل شام میں سے مکحول ,خالد بن معدان اورلقمان بن عامروغیرہ کا عمل منقول ہے,اوران ہی بزرگوں کودیکھتے ہوئے لوگوں نے شب براءت کا مسئلہ اخذکیا لیکن جب اس مسئلے کی شہرت ہوئی توعلماء حجاز جیسے عطاء بن ابی رباح ,ابن ابی ملیکہ اورفقہاء مدینہ جیسے اصحاب مالک وغیرہ نے اسکا شدید نوٹس لیا اوراسکے بدعت ہونے کا فتوى جاری کیا- اب جولوگ پندرہویں شعبان کا شب منانے کا دم بھرتےہیں وہ بھی شب بیداری کی کیفیت کے مسئلہ پراختلاف کا شکارہوگئے-
بعض نے کہا کہ یہ شب بیداری مساجد میں باجماعت ہوگی جیساکہ خالدبن معدان اورلقمان بن عامروغیرہ نے کیا یہ لوگ اس شب اپنے بہترین لباس پہنتے تھے,خوشبواورسرمہ استعمال کرتے تھے- اوررات بھرمسجد میں ٹھرتے تھے- اسحاق بن راہویہ نے بھی ان لوگوں کی موافقت کی-
جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے مساجد میں نماز,قصہ خوانی اوردعاء کے لئے جمع ہونا مکروہ ہے البتہ انسان تنہا گھرمیں نمازپڑھ سکتا ہے-جیساکہ امام اوزاعی وغیرہ نے کہا ہے-
جب کہ تنہا نمازیا پھربا جماعت نمازکے متعلق علماء کے دوقول ہیں- پہلاقول یہی ہے کہ یہ بدعت ہے – جیسا کہ اکثرعلماء حجازکہتے ہیں –جب کہ دوسراقول ہے کہ انسان کا تنہا نمازپڑھنا یا خاص جماعت میں نمازپڑھنا مکروہ نہیں ہے جیسا کہ اوزاعی ابن رجب وغیرہ کہتے ہیں-
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں امام اوزاعی کا یہ موقف اورابن رجب کا اس موقف کو اختیارکرنا عجیب وغریب اورضعیف ہے- اسلئے کہ جس چیزکا شرعی دلائل سے مشروع ہونا ثابت نہ ہوتا ہو اسکواللہ کے دین میں اضافہ کرنا جائزنہیں ہے خواہ وہ اسے تنہاکرے یا باجماعت – اورخواہ اسے خفیہ طورپرانجام دے یا علانیہ طورپراس لئے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے -:" من عمل عملا لیس علیه أمرنا فھوررد"اوراسی جیسی بیشماردلائل جوبدعت کی بیخ کنی کرتی ہیں-(دیکھئے التحذیرمن البدع ص 13)
توسابقہ سطورکے نتیجہ میں ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کا میلہ ,شب بیداری اوراس حوالے سے قائم کردہ دیگرسارے اموربدعات کے زمرے میں آتے ہیں لہذا ان سے پرہیزاوراجتناب لازمی ہے-