ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 583
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
پچھلی امتوں کے اس شخص کے واقعے کو شرک اکبر میں جہالت کے عذر کی دلیل بنانا جو اپنے آپ کو مرنے کے بعد جلانے کا حکم دیتا ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ سَمِعْتُ أَبِي ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْغَافِرِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا فِيمَنْ سَلَفَ أَوْ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، قَالَ : كَلِمَةً يَعْنِي أَعْطَاهُ اللَّهُ مَالًا وَوَلَدًا فَلَمَّا حَضَرَتِ الْوَفَاةُ ، قَالَ لِبَنِيهِ : أَيَّ أَبٍ كُنْتُ لَكُمْ ؟ ، قَالُوا : خَيْرَ أَبٍ ، قَالَ : فَإِنَّهُ لَمْ يَبْتَئِرْ أَوْ لَمْ يَبْتَئِزْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا وَإِنْ يَقْدِرِ اللَّهُ عَلَيْهِ يُعَذِّبْهُ ، فَانْظُرُوا إِذَا مُتُّ ، فَأَحْرِقُونِي حَتَّى إِذَا صِرْتُ فَحْمًا ، فَاسْحَقُونِي ، أَوْ قَالَ فَاسْتَحِلُونِي فَإِذَا كَانَ يَوْمُ رِيحٍ عَاصِفٍ فَأَذْرُونِي فِيهَا ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَأَخَذَ مَوَاثِيقَهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَرَبِّي ، فَفَعَلُوا ثُمَّ أَذْرَوْهُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : كُنْ فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ قَائِمٌ ، قَالَ اللَّهُ : أَيْ عَبْدِي مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ ، قَالَ : مَخَافَتُكَ أَوْ فَرَقٌ مِنْكَ ، قَالَ : فَمَا تَلَافَاهُ أَنْ رَحِمَهُ عِنْدَهَا ، وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى : فَمَا تَلَافَاهُ غَيْرُهَا ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبَا عُثْمَانَ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ هَذَا مِنْ سَلْمَانَ غَيْرَ أَنَّهُ زَادَ فِيهِ أَذْرُونِي فِي الْبَحْرِ أَوْ كَمَا حَدَّثَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، وَقَالَ : لَمْ يَبْتَئِرْ ، وَقَالَ خَلِيفَةُ : حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ وَقَالَ لَمْ يَبْتَئِزْ ، فَسَّرَهُ قَتَادَةُ لَمْ يَدَّخِرْ .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلی امتوں میں سے ایک شخص کا ذکر کیا۔ اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ فرمایا یعنی اللہ نے اسے مال و اولاد سب کچھ دیا تھا۔ جب اس کے مرنے کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے لڑکوں سے پوچھا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بہترین باپ، اس پر اس نے کہا کہ لیکن تمہارے باپ نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی نہیں بھیجی ہے اور اگر کہیں اللہ نے مجھے پکڑ پایا تو سخت عذاب کرے گا تو دیکھو جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، یہاں تک کہ جب میں کوئلہ ہو جاؤں تو اسے خوب پیس لینا اور جس دن تیز آندھی آئے اس میں میری یہ راکھ اڑا دینا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر اس نے اپنے بیٹوں سے پختہ وعدہ لیا اور اللہ کی قسم کہ ان کے لڑکوں نے ایسا ہی کیا، جلا کر راکھ کر ڈالا، پھر انہوں نے اس کی راکھ کو تیز ہوا کے دن اڑا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے «كن» کا لفظ فرمایا کہ ہو جا تو وہ فوراً ایک مرد بن گیا جو کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے میرے بندے! تجھے کس بات نے اس پر آمادہ کیا کہ تو نے یہ کام کرایا۔ اس نے کہا کہ تیرے خوف نے۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ اس پر رحم کیا۔ پھر میں نے یہ بات ابو عثمان نہدی سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے اسے سلیمان فارسی سے سنا، البتہ انہوں نے یہ لفظ زیادہ کئے کہ «أذروني في البحر.» یعنی میری راکھ کو دریا میں ڈال دینا یا کچھ ایسا ہی بیان کیا۔ ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا اور اس نے «لم يبتئر.» کے الفاظ کہے اور خلیفہ بن خیاط ( امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ ) نے کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا پھر یہی حدیث نقل کی۔ اس میں «لم يبتئر.» ہے۔ قتادہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں یعنی کوئی نیکی آخرت کے لیے ذخیرہ نہیں کی۔
[صحيح البخاري، حدیث نمبر : ٧٥٠٨]
مشرکین کے عاذر اس واقعہ سے شرک اکبر میں جہالت کے عذر کی دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس آدمی نے اللہ تعالی کی قدرت کا انکار کیا ہے کہ اللہ تعالی اسے اس انداز سے مرنے کے بعد زندہ نہیں کر پائے گا! یہ تو سراسر کفر ہے! دیکھو اللہ کے لیے قدرت کی صفت کا انکار کرنے کے بعد بھی وہ کافر نہیں ہوا دیکھو اس کی جہالت اور لا علمی کی بنا پر اس کا عذر قبول کیا گیا وغیرہ۔
شیخ عبد الرحمن ابو بطین النجدی رحمہ اللہ اس واقعے سے شرک اکبر میں عذر بالجہل کا استدلال کرنے والوں اور مشرکین کو جہالت کا عذر دینے والوں کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واحتج بعض من يجادل عن المشركين بقصة الذي قد أوصى أهله أن يحرقوه بعد موته، على أن من ارتكب الكفر جاهلا لا يكفر، ولا يكفر إلا المعاند
مشرکین کا دفاع کرنے والے اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کے میرے مرنے کے بعد مجھے جلا دینا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ لاعلمی و جہالت کی وجہ سے کفر کا ارتکاب کرنے والا کافر نہیں ہوتا سوائے اس کے جو عناد کی وجہ سے کفر کرتا ہو۔
والجواب عن ذلك كله: أن الله سبحانه وتعالى أرسل رسله مبشرين ومنذرين، لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل؛ وأعظم ما أرسلوا به ودعوا إليه: عبادة الله وحده لا شريك له، والنهي عن الشرك الذي هو عبادة غيره؛ فإن كان مرتكب الشرك الأكبر معذورا لجهل، فمن الذي لا يعذر؟!
اس کا جواب یہ ہے کہ ﷲ نے اپنے رسول بھیجے جو خوشخبری دینے والے اور خبردار کرنے والے تاکہ لوگوں کے پاس انبیاء کی بعثت کے بعد ﷲ کے ہاں کوئی بہانہ و حجت نہ رہے ان رسولوں نے سب سے زیادہ جس بات کی دعوت دی اور جو چیز ان کی دعوت میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی وہ ایک ﷲ کی عبادت تھی اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنا یعنی غیر ﷲ کی عبادت سے اجتناب۔ اگر جہالت کی بنا پر شرک اکبر کا مرتکب کا عذرِ جہالت قبول کرلیا جائے تو پھر کس کا عذر قبول نہیں ہے؟
[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج : ١٢، ص : ٦٨-٦٩]
شیخ رحمہ اللہ اس تعلق سے آگے مزید فرماتے ہیں :
وأما الرجل الذي أوصى أهله أن يحرقوه، وأن الله غفر له مع شكه في صفة من صفات الرب تبارك وتعالى، فإنما غفر له لعدم بلوغ الرسالة له، كذلك قال غير واحد من العلماء; ولهذا قال الشيخ تقي الدين: من شك في صفة من صفات الرب تعالى، ومثله لا يجهله، كفر، وإن كان مثله يجهله لم يكفر; قال: ولهذا لم يكفر النبي صلى الله عليه وسلم الرجل الشاك في قدرة الله تعالى، لأنه لا يكفر إلا بعد بلوغ الرسالة؛ وكذلك قال ابن عقيل، وحمله على أنه لم تبلغه الدعوة.
جس آدمی کی مثال دی جاتی ہے کہ اس نے جلانے کی وصیت کی تھی اور ﷲ نے اس کی مغفرت کر دی باوجود اس کے کہ وہ ﷲ کی صفات میں شک کرنے والا تھا؟ اس کی بخشش اس وجہ سے ہوئی تھی کہ اس کے پاس رسولوں کا پیغام نہیں پہنچا تھا بہت سے علماء نے یہی جواب دیا ہے اسی وجہ سے شیخ تقی الدین رحمہ ﷲ کہتے ہیں جس نے رب کی صفات میں سے کسی صفت میں شک کیا اگر وہ لا علم نہیں تھا تو کافر کہلائے گا اور اگر لا علم تھا تو کافر نہیں ہوگا یہی وجہ ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس آدمی کو کافر نہیں کہا جو ﷲ کی قدرت میں شک کرتا تھا اس لیے کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم رسالت پہنچنے سے پہلے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے تھے۔ اسی طرح ابن عقیل رحمہ ﷲ نے کہا ہے کہ وہ آدمی (جس نے جلانے کی وصیت کی تھی) کو رسالت نہیں پہنچی تھی۔
واختيار الشيخ تقي الدين في الصفات أنه لا يكفر الجاهل، وأما في الشرك ونحوه فلا، كما ستقف على بعض كلامه إن شاء الله تعالى؛ وقد قدمنا بعض كلامه في الاتحادية وغيرهم، وتكفيره من شك في كفرهم.
شیخ تقی الدین رحمہ ﷲ صفات کے بارے میں کہتے ہیں کہ (اللہ کی بعض صفات سے) جاہل کو کافر نہیں کہا جاسکتا البتہ شرک میں یہ عذر نہیں بن سکتا جس طرح ان کے رائے اتحادیہ کے بارے میں گزر چکی ہے کہ وہ کافر ہیں اور جو ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
قال صاحب اختياراته: والمرتد من أشرك بالله، أو كان مبغضا لرسول الله صلى الله عليه وسلم أو لما جاء به، أو ترك إنكار كل منكر بقلبه، أو توهم أن من الصحابة من قاتل مع الكفار، أو أجاز ذلك، أو أنكر فرعا مجمعا عليه إجماعا قطعيا، أو جعل بينه وبين الله وسائط يتوكل عليهم ويدعوهم ويسألهم، كفر إجماعا.
صاحب اختیارات فرماتے ہیں مرتد وہ ہے جو ﷲ کے ساتھ شرک کرے یا نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے بغض رکھے یا آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی شریعت سے نفرت کرے یا منکرات کو ترک نہ کر دے یا یہ کہے کہ صحابہؓ میں سے کسی صحابی نے کفار کی معیت و مدد میں جنگ کی ہے یا کفار کی مدد کے لئے جنگ کرنا جائز سمجھے۔ یاکسی ایسے فرعی مسائل میں سے کسی ایسے مسئلہ کا انکار کرے جس پر قطعی اجماع ہوچکا ہو یا اپنے اور ﷲ کے درمیان وسیلے اور ذرائع بناتا ہو اور ان پر بھروسہ و توکل کرتا ہو ، انہیں پکارتا ہو مرادیں مانگتا ہو تو ایسا شخص بالاجماع کافر ہے۔
ومن شك في صفة من صفات الله تعالى، ومثله لا يجهلها فمرتد، وإن كان مثله يجهلها فليس بمرتد، ولهذا لم يكفر النبي صلى الله عليه وسلم الرجل الشاك في قدرة الله، فأطلق فيما تقدم من المكفرات، وفرق في الصفة بين الجاهل وغيره، مع أن رأي الشيخ أن التوقف في تكفير الجهمية ونحوهم، خلاف نصوص أحمد وغيره من أئمة الإسلام.
اور جو شخص ﷲ کی صفات میں ایسی صفت میں شک کرے جس سے لاعلمی ممکن نہیں ہو سکتی تو ایسا شخص مرتد ہے اور اگر صفت ایسی ہو کہ جس سے عام طور پر لوگ بے خبر و لا علم ہوں تو ایسے کو مرتد نہیں کہیں گے۔ (ابن تیمیہ رحمہ ﷲ بعض صفات سے لا علم کو کافر نہیں کہتے۔ اسی لیے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس شخص کو کافر نہیں کہا تھا جس نے ﷲ کی قدرت میں شک کیا تھا) گذشتہ جتنی باتیں کافر کر دینے والی ذکر ہو چکی ہیں ان میں بعض صفات سے لا علم شخص میں فرق ہے اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شیخ کہتے ہیں کہ جہمیہ کو کافر کہنے میں توقف کرنا چاہیے جبکہ امام احمد رحمہ ﷲ وغیرہ ائمہ اسلام کی رائے کچھ اور ہے۔
قال المجد رحمه الله تعالى: كل بدعة كفرنا فيها الداعية، فإنا نفسق المقلد فيها، كمن يقول: بخلق القرآن، أو أن علم الله مخلوق، أو أن أسماءه مخلوقة، أو أنه لا يرى في الآخرة، أو يسب الصحابة رضي الله عنهم تدينا، أو أن الإيمان مجرد الاعتقاد، وما أشبه ذلك، فمن كان عالما في شيء من هذه البدع يدعو إليه، ويناظر عليه، محكوم بكفره، نص أحمد على ذلك في مواضع، انتهى. فانظر كيف حكم بكفرهم مع جهلهم.
المجد رحمہ ﷲ کہتے ہیں ہر وہ بدعت جس کے داعی کو ہم کافر سمجھتے ہیں اس میں ہم مقلد کو فاسق کہتے ہیں جیسا کہ خلق قرآن کے قائل اور ﷲ کے علم کو مخلوق کہنے والے یا اس کے اسماء کو مخلوق سمجھنے والے یا یہ کہنے والا کہ قیامت میں ﷲ کو نہیں دیکھا جاسکے گا یا کوئی شخص صحابہ رضی ﷲ عنہم کو گالیاں دیتا ہو یا یہ کہے کہ ایمان صرف عقیدے کو کہے یا اس جیسی اور باتیں ہوں جو شخص ان بدعات کو جانتا ہو ان کی طرف دعوت دیتا ہو ان کے دفاع کے لئے دلائل دیتا ہو بحث کرتا ہو ایسے شخص کے کافر ہونے کا حکم ہے اور اس پر احمد رحمہ ﷲ نے متعدد دلائل دئیے ہیں۔ آپ نے دیکھا ان لوگوں نے لا علمی کے باوجود مرتکبین کی تکفیر کی ہے۔
[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج : ١٢، ص : ٧٣-٧٤]
اسی طرح شیخ عبد اللطيف بن عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوهاب آل الشيخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وحديث الرجل الذي أمر أهله بتحريقه كان موحّداً ليس من أهل الشرك فقد ثبت من طريق أبي كامل عن حماد عن ثابت عن أبي رافع عن أبي هريرة: "لم يعمل خيراً إلا التوحيد" فبطل الاحتجاج به عن مسألة النزاع.
حدیث میں جلانے کی وصیت کرنے والے جس شخص کا ذکر ہے وہ شخص موحد تھا مشرک نہیں جیسا کہ ابو کامل نے حماد سے ابی رافع سے ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ((لَمْ یَعْمَلْ خَیرًا قَطّ اِلَّا التَّوْحِید)) ’’اس نے توحید کے علاوہ کوئی عمل نہیں کیا تھا‘‘ لہٰذا اس حدیث سے استدلال زیر بحث مسئلہ میں نہیں ہوسکتا۔
[منهاج التأسيس والتقديس في كشف شبهات داود بن جرجيس، ص : ٢١٧]
علمائے نجد رحمہم اللہ کی ان تشریحات سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات جن کا ادراک کتاب اللہ سے جانے بغیر نہیں ہوتا ان صفت سے لاعلمی اس شخص کے لیے عذر ہو سکتی ہے جس تک حجت رسالت نہ پہنچی ہو لیکن اس پچھلی امت میں اللہ کی صفت سے لاعلم شخص کا واقعہ شرک اکبر میں جہالت کے عذر کی دلیل بالکل بھی نہیں بن سکتا۔
اللہ کی رحمت ہو علمائے نجد رحمہ اللہ پر جنہوں نے پہلے ہی ان شبہات کا رد فرما دیا جو آج داود بن جرجيس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مدخلی اور اخوانی جیسے مشرکین کے عاذر پھیلا رہے ہیں۔ آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مرجئہ کے فتنے سے محفوظ رکھے اور صحیح سلفی منہج پر قائم رکھے۔ آمین
Last edited: