• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پڑھی لکھی اولاد کی بے سہارا مائیں

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

پڑھی لکھی اولاد کی بے سہارا مائیں آخر تنہائی میں زندہ رہنے پر مجبور۔۔۔

وہ ایک بڑی عمارت تھی جس کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں ایسی مائیں سکونت پذیر تھیں کے جن میں سے بعض کے کئی کئی وارث تھے یہ وارث صرف بےجان ومال وزر کے تو وارث تھے لیکن ماں جیسی جاندار جاگتی ہستیکے وارث بننے کو تیار نہیں تھے ان ماؤں نے بھی اپنی اولادوں کو حتٰی المقدور نازنعم سے پالا پوسا، پرورش کی، مضبوط وتوانا کردایا۔۔۔ جب وہ خود مختار ہوگئے تو تو وہی ماں ان کے لئے بھوجھ بن گئی۔۔۔

ایسا بوجھ جو ان کے لئے ناقابل برداشت ہوگیا اور اسے انہوں نے اپنے کاندھوں سے اتار دیا کاش وہ اس ماں کی خدمت کو فرض سمجھتے اس فرض کو خش اسلوبی سے نبھاتے لیکن اس اولاد نے تو انہیں اس نہج پر پہنچا دیا کے یہ مائیں آج اپنی زندگی کے بقیہ ایام اولاد سے دور اس جگہ گزارنے پر مجبور ہیں۔۔۔

یہ ایک رباط کا احوال ہے ایک ایسا خیراتی ادارہ کہ جہاں ایسی عورتیں اور مائیں پناہ حاصل کرتی ہیں جن کے بچے یاوارث انہیں فراموش کرچکے ہیں۔۔۔ اسی خیراتی فلاحی ادارے رباط کے ایک کمرے میں ٦ بچوں کی ماں زینب بی بی بھی ہے اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں کئی پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔۔۔ اس کے بچے تعلیم یافتہ بھی ہیں مالی حالت بھی مناسب ہے بلکہ جب ہم نے خود تحقیق کی تو حیرت ہوئی کے اس بے سہارا ماں کے بیٹے بیٹیاں جاہل نہیں بلکہ ماسٹرز ڈگری یافتہ ہیں مالی حالت بھی اچھی ہے کئی کئی گاڑیوں کے مالک بیٹے گھروں میں زر کی بہار بعض تو مستحکم مالی حیثیت کے ہیں اس کے باوجود ان کا یہ عالم ہے کے کچھ دیر کیلئے ماں کو اپنے پاس رکھنے پر تو آمادہ ہیں لیکن مستقل ساتھ رکھنے پر تیار نہیں اسی لئے وہ کثیرالعیال خاتون خیراتی ادارے میں رہائش پذیر ہیں جہاں وہ خیراتی کھانا کھاتی ہیں، خیراتی اشیاء وصول کر کے اپنے زندگی سے رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔۔۔

زینب بی بی کے تمام بچے اپنی اپنی زندگی میں مگن ہیں وہ آپس میں تو ملتے ہیں لیکن ماں کے پاس نہیں جاتے کہ ماں ان سے ان کے ساتھ رہنے کی فرمائش نہ کردے یہ وسوسہ ہی انہیں اپنی ماں سے در رکھئے ہوئے ہے وہ ماں کے جس نے نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھا ان کا بوجھ اٹھائے اٹھائے پھری موسموں کے سرد وگرم اور زمانے کے تھپیڑوں سے بچایا، پرورش کی، تعلیم دلائی جینا سکھایا آج ان کے کمزور قدموں کو مضبوطی عطاء ہوگئی تو وہ اپنی اسی مہربان ماں کو فراموش کر بیٹھے کہ جس نے ان کو اس قابل بنایا کے آج وہ اپنا کنبہ پال رہے ہیں اس ماں کی یہ خواہش نہیں کے وہ ان کے پاس جاکر رہے کیونکہ اسے معلوم ہے اس کے بیٹے اس سے دور بھاگ رہے ہیں ماں تو صرف اتنی سی آرزو رکھتی ہے کے وہ اس کے پاس آئیں، اپنا کچھ وقت اسے دیں اس سے باتیں کریں تاکہ اسے یہ احساس ہوجائے کے وہ لاوارث نہیں بلکہ ٦ بچوں کی ماں ہے دنیا میں کوئی اس کا ہے جو اس کے جنازے کو کندھا دے کر اسے قبر میں اتارے گا اسے مرنے پر کمرے نمبر ٢٣ عورت کی میت نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ کہنے والی اپنی بیٹیاں ہونگی کے یہ ہمارے ماں کا جنازہ ہے۔۔۔

یہ کہتے ہوئے اس کے سرد رخساروں پر گرم آنسووں کی لکیریں رواں ہورہی تھیں۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا سراس کے اپنےسینے پر جھک گیا کیونکہ وہ پرائی آنکھوں میں اپنی اولاد کے لئے منفی سائے برداشت نہیں کرپارہی تھی پھر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔

وائے افسوس جس ماں نے ٦ بچے پال پوس کر جوان کئے تھے وہ آج اس حالت میں ہے ماں تو ٹھنڈی چھاؤں ہے اس کے ساتھ ایسا سلوک؟؟؟۔۔۔ متاع دنیا کی محبت میں مبتلا ایسی اولادیں اپنی قبروں کو دوزخ کے انگاروں سے بھر رہی ہیں ایسی اولادوں کو سوچنا چاہئے کے آج وہ اپنی ماں جیسی ہستی سے منہ موڑ رہے ہیں اپنے بیوی بچوں کی محبت میں مال کے فرائض سے فراموش کررہے ہیں آج کی مصروفیات میں ماں کے لئے وقت نہیں نکال پارہے یہی وقت اس تیزی سے گرز جائے گا کے گزرا کل آج میں نہیں بلکہ آنے کل آج میں تبدیل ہوکر ان کے سامنے ہوگا پھر ایسا ہی کوئی خیراتی ادارہ ہوگا جس کے تنہا کمرے کی سیلن زدہ دیواروں میں تنہائی کے ساتھ وہ زندگی کو گھسیٹتے ہوئے اپنے ان بچوں کی راہ دیکھ رہو ہوں گے جن کے لئے ان بچوں کے پاس اپنے والدین کے لئے کوئی وقت نہیں ہوگا۔۔۔

بلاشبہ اس میں ان کے بچوں کا کوئی قصور نہیں ہوگا کیونکہ وہ بچے وہی رویہ کچھ ان کے ساتھ دہرائیں گے جو وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنا چکے ہیں ایسی اولاد کو سمجھ لینا چاہئے کے آج آپ اپنے والدین کے ساتھ برا سلوک نہیں کررہے انہیں نظر انداز نہیں رکرہے بلکہ اپنی اولاد کو راہ دکھا رہے ہیں کے آنے والے کل ان کے ساتھ ایسا سلوک اختیار کیا جائے اگر اپنے لئے لاوارث عمارت کے کمرے میں تنہازندگی گزارنے کے تصور سے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ ہو رہی ہے اور وہ خوفزدہ ہیں تو اب بھی وقت ہے کے اپنے بوڑھے، ضعیف والدین، کمزور ناتواں والدین کو اپنی محبتوں چاہتوں اور اپنے وقت میں سے ان کا حصہ دیں آج آپ انہیں احترام دے کر مقام عطا کرکے انہیں نہیں بلکہ اپنے لئے مقام واحترام محفوظ کررہے ہیں کہ وہ اولاد جو آج اپنے والدین کو اُن کا مقام ومرتبہ دیتی ہے محبت خلوص اور خدمت سے حق ادا کری ہے تو آنے والے کل کو وہ یہی کچھ پائے گی۔۔۔

ان خیراتی اداروں میں ان ناقدروں کی مائیں ہیں کہ جنہیں ماں کے ہوتے ہوئے ان کی محبت حاصل نہیں کتنے بدقسمت ہیں یہ لوگ؟؟؟۔۔۔ یہ سوال ان سے پوچھئے کہ جو اس نعمت سے محروم ہیں وہ اپنے آپ کو کائنات کا مفلس ترین فرد تصور کرتے ہیں کیونکہ ماں کے رتبے رشتے کو سمجھتے ہیں انہیں ماں کا رشتہ دنیا کا خوبصورت ترین رشتہ لگتا ہے انہیں ماں تاریک راتوں میں روشنی، خزاں رتوں میں گلاب اور تپتے صحرا میں آب جیسی لگتی ہے یہ تو وہ ہستی ہے جو محبت کا عظیم پیکر ہے اسی لئے تو خالق نے اس کی خدمت کو جنت سے روا کردیا ہے کیا کوئی اپنی جنت کو اپنے سے دور کرکے پرسکون رہ سکتا ہے؟؟؟۔۔۔۔ قطعی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن خیراتی، لاوارث کمروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کیا کہہ رہی ہے کس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے؟؟؟۔۔۔ کبھی کچھ وقت نکال کر ان اداروں میں جاکر بیٹھیں ان ماوں کی آنکھوں کی اداسی یاسیت اور افسردگی آپ سے جو کچھ کہے گی وہ الفاظ کی محتاج نہیں ہوگی آپ کو محسوس ہوگا کے پھول کی پتی سے پیرے کا جگر کیسے کٹتا ہے یہ سب دیکھ کر آپ کے الفاظ اور آپ کا قلم بھی ساتھ چھوڑ دے گا۔۔۔

والدین کے تعلق سے حدیث ملاحظہ ہو۔۔۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
وہ تمہاری جنت اور جہنم ہیں

رواہ ابن ماجہ
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔

ہر تحریر صرف تعمیری مقاصد کے لئے پیش کی جاتی ہے ہوسکتا ہے اس میں تنقید کا عنصر بھی موجود ہے لیکن کوشش کریں کے وہ بھی اصلاح کے لئے ہی کی جائے۔۔۔۔

بشکریہ اردو نیوز
١١ فروری ٢٠١١

 
Top