اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:إن الله وملائكته يصلون على النبي يا أيها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما
"یقیناً اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریمﷺ پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو! تم بھی آپ ﷺ پر صلاۃ و سلام بھیجو۔"
اس آیت مبارکہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کوبھی شامل ہے۔ جیسا کہ صحابہ کرام ë کے سوالات سے ظاہر ہےکہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انھوں نے سوال کیا کہ ہم سلام تو سیکھ چکے ہیں صلوۃ کیسے پڑھیں؟ چنانچہ ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری î بیان فرماتے ہیں : "أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتَّى جَلَسَ بَيْنَ يَدَىْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا السَّلاَمُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ ، فَكَيْفَ نُصَلِّى عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا عَلَيْكَ فِى صَلاَتِنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ. قَالَ : فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَتَّى أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ يَسْأَلْهُ ثُمَّ قَالَ : إِذَا أَنْتُمْ صَلَّيْتُمْ عَلَىَّ فَقُولُوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ....."[ سنن دارقطني ، کتاب الصلوٰۃ ، باب ذکر وجوب الصلاۃ علیٰ النبي ï في التشهد (۲)۱/354]
ایک آدمی آیا وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور ہم بھی موجود تھے۔ وہ کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! "سلام" تو ہم سیکھ چکے ہیں تو صلاۃ ہم اپنی نمازاوں میں آپ ﷺ پر کیسے بھیجیں؟ (یہ بات سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے حتیٰ کہ ہم نے چاہا کہ کاش یہ آدمی سوال ہی نہ کرتا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: جب تم مجھ پر صلاۃ و سلام بھیجو تو کہو: اللهم صل على محمد.....الخ [بیہقی ۲/۳۷۸ (۳۷۸۰)]
اسی طرح صحیح مسلم میں ایک روایت ابو مسعود انصاری ؓ سے مروی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ ؓ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو بشیر بن سعد نے سوال کیا کہ : "أمرنا الله تعالى أن نصلي عليك يا رسول الله ، فكيف نصلي عليك ؟ قال : فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، حتى تمنينا أنه لم يسأله ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " قولوا اللهم صل على محمد....الحديث" [[صحيح مسلم - كتاب الصلاة،باب الصلاة علی النبی ﷺ بعد التشہد- حديث: ۴۰۵۰، سنن ترمذی، ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ﷺ ومن سورۃ الاحزاب، حدیث: ۳۲۲۰، سنن نسائی، کتاب السہو، باب الامر بالصلوٰۃ علی النبی ﷺ ، حدیث:۱۲۸۵، ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی ﷺ بعدالتشہد ، حدیث:۹۷۹]]
درج بالہ ادلہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب میں دیا ہے اور اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد صحابہ کرام نے نبی کریمﷺ سے طریقہ درود سیکھا تو آپ ﷺ نے انھیں نماز والا درود (درود ابراہیمی) سکھایا۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ نماز میں تشہد کے بعد درود پڑھنا اللہ کاحکم ہے اور یہ فرض ہے۔
نبی کریم ﷺ بھی نماز میں درمیانے اور آخری دونوں قعدوں میں تشہد کے بعد درود پڑھا کرتے تھے، جس پر درج ذیل احادیث دلالت کرتی ہیں:
۱۔ عن عائشة قالت :كنا نعد لرسول الله صلى الله عليه وسلم سواكه وطهوره فيبعثه الله ما شاء أن يبعثه من الليل فيتسوك ويتوضأ ، ثم يصلي تسع ركعات لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة فيدعو ربه ويصلي على نبيه ، ثم ينهض ولا يسلم ، ثم يصلي التاسعة فيقعد ، ثم يحمد ربه ويصلي على نبيه ويدعو ، ثم يسلم تسليمة يسمعنا....الحديث [[ سنن البیہقی، کتاب الصلاۃ، باب فی قیام اللیل۲/۴۹۹(۴۴۱۳)، سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی الوتر بثلاث و خمس و سبع و تسع (۱۱۹۱)]]
عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی مسواک اور وضو کا پانی تیار کرکے رکھ دیتے تو جب اللہ کی مرضی ہوتی آپﷺ کو رات کے وقت بیدار فرمادیتا تو آپﷺ مسواک فرماتے ، وضوء کرتے پھر نو رکعتیں پڑھتے، ان میں سے صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے ، اللہ سے دعا مانگتے ، درود پڑھتے پھر کھڑے ہوجاتے ، سلام نہ پھیرتے، پھر نویں رکعت پڑھتے ،اس کے آخر میں بیٹھتے ، اللہ کی حمد بیان کرتے ،اس کے نبیﷺ پر درود بھیجتےاور دعا مانگتے پھر سلام پھیر دیتے... الخ
۲۔ یہی حدیث صحیح مسلم میں بایں الفاظ مروی ہے:
.... ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة ، فيذكر الله ويحمده ويدعوه ، ثم ينهض ولا يسلم ، ثم يقوم فيصل التاسعة ، ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه ، ثم يسلم تسليما يسمعنا.... الحديث [[صحيح مسلم ، كتاب صلاة المسافرين وقصرھا، باب جامع صلاة الليل ومن نام عنہ او مرض - حديث:۷۴۶]]
اور آپ ﷺ نو رکعتیں پڑھتے ، صرف آٹھویں رکعت میں (تشھد) بیٹھتے (اس سے قبل نہ بیٹھتے) پس اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بیان کرتے، دعا مانگتے، پھر کھڑے ہوجاتے، سلام نہ پھیرتے، پھر نویں رکعت پڑھتے اس میں (بھی تشھد) بیٹھتے، اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بیان کرتے اور دعا مانگتے پھر سلام پھیر دیتے.....الخ
۳۔ امام احمد نے سیدہ عائشہ ؓ کی مسانید میں اس روایت کو یوں نقل کیا ہے :
.... ، ثم يصلي ثماني ركعات ، لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة ، فيجلس ويذكر ربه عز وجل ، ويدعو ، ويستغفر ، ثم ينهض ولا يسلم ، ثم يصلي التاسعة ، فيقعد ، فيحمد ربه ويذكره ويدعو ، ثم يسلم تسليما يسمعنا... الحديث [[مسند احمدفی باقی مسند الانصار(حدیث عائشۃ (۲۳۷۴۸)۶/۵۴]]
...پھر آٹھ رکعتیں پڑھتے ، صرف آٹھویں رکعت میں ہی (تشھد)بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کرتے ، دعا مانگتے ، استغفار کرتے ، پھر کھڑے ہو جاتے ، سلام نہ پھیرتے، پھر نویں رکعت پڑھتے ، اللہ کی حمد بیان کرتے ، اس کا ذکر کرتے ، دعا مانگتے پھر سلام پھیرتے...الخ
تو ان احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہﷺ
"...يصلى تسع ركعات لا يجلس فيها الا فى الثامنة فيذكر الله ربه عزوجل ويحمده ويصلى على نبيه ويدعوه ويستغفر ثم ينهض ولا يسلم ثم يصلى التاسعة..."
...نو رکعتیں پڑھتے ان میں سے صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے ، اللہ کا ذکر ، اس کی حمد بیان کرتے اور اس کے نبی ﷺ پر درود پڑھتے ، دعا مانگتے ، استغفار کرتے پھر کھڑے ہوجاتے ، سلام نہ پھیرتے ، پھر نویں رکعت پڑھتے...الخ
ان روایات میں آخری سے پہلے یعنی درمیانے تشہد میں سلام ، درود اور دعا پڑھنے کی واضح دلیل موجود ہے۔
ایک دوسری روایت جو کہ بخاری ومسلم میں موجود ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو تشہد پڑھنے کا طریقہ سکھایا ہے اس میں بھی تشہد کے دعا مانگنے کا حکم نبی کریم ﷺ نے دیا ہے۔
[[بخاری، کتاب الاستئذان ، باب السلام من اسماء اللہ تعالیٰ (۶۲۳۰)، کتاب الاذان (۸۳۵)، مسلم، کتاب الصلاۃ ، باب التشہد فی الصلوٰۃ (۴۰۲)]]
اسی طرح یہی حدیث نسائی اور مسند احمد میں شرط مسلم پر ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے: " ثم ليتخير من الدعاء أعجبه إليه" پھر جو دعا اس کو پسند ہو وہ دعا مانگے۔ [[نسائی، کتاب السہو، باب کیف التشھد (۱۲۷۹)، باب الدعاء بعدالصلاۃ علی النبی (۱۲۹۸)، مسند احمد (۴۰۹۰)، (4149)]]
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ اورصحابہ کرام تشہد اور دعا پڑھا کرتے تھے،خواہ تشہد درمیانی ہو یا آخری ۔کیونکہ تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے پھر ۵ ھ میں سورۃ الأحزاب نازل ہونے کے بعد تشہد اور دعا کے درمیان صلوۃ(درود)کا اضافہ کیا گیا، جیسا کہ سابقہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
لہٰذا پہلے اور دوسرے دونوں قعدوں میں تشہد کے بعد درود بھی پڑھنا چاہیے اور دعا بھی مانگنی چاہیے۔ پہلے دوسرے قعدے میں درود یا دعا کا ترک کردینا خلاف سنت ہے اس سےنماز میں نقص پیدا ہوجاتا ہے اور جان بوجھ کر ایساکرنےوالا استخفاف سنت کے جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے۔ (اعاذنا الله منه)
مانعین کے دلائل کا جائزہ
۱۔ عن أبي عبيدة ، عن أبيه ، " أن النبي صلى الله عليه وسلم كان في الركعتين الأوليين كأنه على الرضف " ، قال : قلنا : حتى يقوم ؟ قال : " حتى يقوم" [[سنن أبي داود - كتاب الصلاة، باب في تخفيف القعود، حديث:۹۹۵]]
ابو عبیدہ اپنے والد گرامی عبداللہ بن مسعود ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب دو رکعتوں (کے تشہد) میں ہوتے تو یوں ہوتا کہ گویا آپﷺ پتھر پر ہیں۔ (شعبہ) کہتے ہیں کہ ہم نے کہا جب تک آپﷺ کھڑے نہ ہوتے تو (سعد بن ابراہیم نے )کہا جب تک آپﷺ کھڑے نہ ہوتے۔
یعنی بہت جلد درمیانی تشہد سے کھڑے ہوجاتے تھے۔
جائزہ:۔
اولاً: اس روایت کو ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ بن مسعود اپنے والد عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کر رہا ہے جبکہ ابو عبیدہ کا سماع اپنے عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ حدیث انقطاع کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل عمل ہے۔
ثانیاً: اس روایت کے الفاظ درمیانے قعدے کے اختصار پر تو دلالت کرتے ہیں مگر تشہد ہی کے الفاظ پر اکتفاء کرنے اور درود نہ پڑھنے اور دعا نہ کرنے پر بالکل دلالت نہیں کرتے ۔ لہٰذا یہ روایت درود نہ پڑھنے کی دلیل ہی نہیں بنتی۔
۲۔ عن عائشة أن رسول الله كان لا يزيد فى الركعتين على التشهد [[مسند ابی یعلیٰ ۷/۳۳۷ (۴۳۷۳)]]
عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ دو رکعتوں (یعنی درمیانےتشھد میں) تشھد سے زیادہ کچھ نہ پڑھتے۔
جائزہ:۔
اولاً: مسند ابی یعلیٰ الموصلی میں اس کی سند یوں ہے: "حدثنا أبو معمر إسماعيل بن إبراهيم ، حدثنا عبد السلام بن حرب ، عن بديل بن ميسرة ، عن أبي الجوزاء ، عن عائشة" تو اس سند میں ابو الجوزاء عائشہ ؓ سے بیان کر رہا ہے جبکہ محدثین کی تحقیق کے مطابق ابو الجوزاء کا عائشہؓ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ حافظ صاحب نے تہذیب التہذیب میں ابن عدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ : وقول البخاري في اسناده نظر يريد أنه لم يسمع من مثل ابن مسعود و عائشة وغيرهما [[تہذیب التہذیب ۳۳۵/۱ (۷۰۲)]]
"اور بخاری کا یہ کہنا کہ اس کی سند محل نظر ہے ، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اس ابو الجوزاء نے عبداللہ بن مسعود اور عائشہ وغیرہ جیسوں سے کچھ نہیں سنا۔"
لہٰذا یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ثانیاً: علی بن ابی بکر الہیثمی نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : "رواه ابو يعلي من رواية ابي الحويرث عن عائشة والظاهر انه خالد بن الحويرث وبقية رجاله رجال الصحيح" [[۱۴۲/۲]]
"اس کو ابو یعلیٰ نے ابو الحویرث عن عائشہ بیان کیا ہے اور ظاہر بات یہ ہے کہ وہ خالد بن الحویرث ہے اور وہ ثقہ ہے اور اس کے باقی تمام رجال صحیح کے رجال ہیں۔
لیکن مجھے مسند ابی یعلی میں تو یہ روایت نہیں ملی جو ابو الحویرث عن عائشہ کے طریق سے مروی ہے۔ شاید کسی اور جگہ ہو گی۔ بہر حال اس کی سند میں بھی مقال ہے کیونکہ ابوالحویرث جو عائشہ ؓ سے روایت کرتا ہے ، طبقہ ثالثہ (طبقہ وسطی من المتابعین) میں سے ہے، وہ مجہول ہے۔ جیسا کہ میزان میں ہے: "ابو الحويرث عن عائشة لا يعرف فان كان الأول فلم يدرك عائشة " [[میزان الاعتدال فی نقدالرجال ۳۵۹/۷ (۱۰۱۴۴)]]
"وہ ابوالحویرث جو عائشہ سے روایت کرتا ہے وہ تو معروف نہیں (مجہول) ہے ۔ اگر پہلا (ابوالحویرث یعنی عبدالرحمن بن معاویہ ) مراد ہے تو اس نے عائشہ کو نہیں پایا ہے۔"
تو ابوالحویرث کی روایت دونوں صورتوں میں مقبول نہیں بن سکتی، کیونکہ ایک ابوالحویرث جو عائشہ سے روایت کرتا ہے وہ تو ہے ہی مجہول اور دوسرا ابوالحویرث جو عبدالرحمن بن معاویہ ہے اس نے ابن عباس ؓ کو تو پایا ہے مگر عائشہ کو نہیں پایا۔ لہٰذا اس صورت میں روایت منقطع ہے۔
رہا علامہ ہیثمی کا یہ کہنا کہ یہ ابو الحویرث نہیں بلکہ خالد بن الحویرث ہے وہ بھی مجہول ہے۔ علامہ مزی تہذیب الکمال ۴۱/۸ (۱۶۰۰) میں رقم طراز ہیں : "قال عثمان ابن سعيد الدارمى سألت يحيى بن معين عنه فقال لا أعرفه قال أبو أحمد ابن عدي وخالد هذا كما قال ابن معين لا يعرف وانا لا أعرفه أيضا و عثمان بن سعيد كثيراً ما سأل يحيى بن معين عن قوم فكان جوابه أن قال لا أعرفهم وإذا كان يحيى لا يعرفه فلا تكون له شهرة ولا يعرف"
"عثمان بن سعید دارمی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن معین سے اس (خالد بن حویرث) کے بارےمیں سوا ل کیا تو وہ فرمانے لگے کہ میں اسے نہیں پہچانتا۔ ابو احمد بن عدی کہتے ہیں کہتے اور یہ خالد(ابن حویرث) جیسا کہ ابن معین نے کہا ہے مجہول ہے اور مین بھی اسے نہیں جانتا۔ اور عثمان بن سعید اکثر جب یحیی بن معین سے لوگوں کے متعلق پوچھتے اوروہ ان کو مثردہ لا اعرفھم سنا دیتے تو اس وقت صورت حال یہ ہوتی کہ جب یحیٰ کسی کو نہ جانتے ہوتے تو نہ ہی اس کو شہرت حاصل ہوتی تھی اور نہ ہی وہ معروف ہوتا تھا۔ (یعنی ارباب علم کے ہاں وہ مجہول قرارپاتا)
ابن حبان کا اس کو کتاب الثقات میں ذکر کرنا کسی کا م کا نہیں ہے کیونکہ محدثین کے ہاں ابن حبان کی توثیق مقبول ہی نہیں ہے۔
حاصل کلام یہ کہ یحیٰ بن معین جیسے امام الجرح والتعدیل اعلم الناس بالرجال نے بھی خالد بن الحویرث کو مجہول قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس کی روایات بھی ساقط الاعتبار ہیں تو نتیجہ یہ کہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت کرنےوالا خالد بن حویرث ہو، ابوالحویرث ہویا دوسرا ابوالحویرث یعنی عبدالرحمن بن معاویہ ہو تینوں صورتوں میں یہ روایت ناقابل احتجاج ہے ،دو کی جہالت اور ایک کی عدم لقاء کی وجہ سے۔ واللہ اعلم
اور اس کی موقوف متصل ہونے کی دلیل ابن خزیمہ والی روایت ہے جس میں صراحت موجود ہے : عن ابن إسحاق قال : وحدثني عن تشهد رسول الله في وسط الصلاة ، وفي آخرها عبد الرحمن بن الأسود بن يزيد النخعي ، عن أبيه قال : وكنا نحفظه عن عبد الله بن مسعود كما نحفظ حروف القرآن حين أخبرنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه إياه قال فكان يقول إذا جلس.....ثم إن كان في وسط الصلاة نهض حين يفرغ من تشهده ، وإن كان في آخرها دعا بعد تشهده... الحدیث
" ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے نماز کے درمیان والے اورآخر والے تشہد کے بارے میں عبدالرحمن بن الاسود نے اپنے باپ اسود بن یزید سے روایت کرتے ہوئے حدیث سنائی کہ ہم عبداللہ بن مسعود ؓ سے یاد کرتے تھے جیسے کہ ہم قرآن کے حروف یاد کرتے ہیں جب انھوں (عبداللہ بن مسعودؓ) نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو یہ (تشہد) سکھایا ہے تو جب وہ بیٹھتے تو کہتے ...... پھر اگر وہ نماز کے درمیان میں ہوتے تو تشہد سے فارغ ہوکر کھڑے ہوجاتے اور اگر آخر والے تشہد میں ہوتے تو تشہد کے بعد دعا مانگتے ......الحدیث
[[ابن خزیمہ ۳۵۰/۱ (۷۰۸)]]
یہی روایت ابن خزیمہ۳۴۸/۱ (۷۰۲) میں ان الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے: " ، عن أبيه ، أنا عبد الله بن مسعود ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه التشهد في الصلاة
قال : كنا نحفظه عن عبد الله بن مسعود كما نحفظ حروف القرآن الواو والألف ، فإذا جلس على وركه اليسرى قال....الحديث
"اسود بن یزیدکہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہﷺ نے اس کو نماز میں تشہد پڑھنا سکھایا۔ کہتے ہیں (اسود بن یزید)کہ ہم اس کو عبداللہ بن مسعود ؓ سے یاد کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید کے حروف واؤ،الف وغیرہ یاد کرتے تھے ، تو جب وہ بیٹھتے تو ...الحدیث
ان روایات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ روایت ابن مسعود ؓ پر موقوف ہے اور کان یقول اور اذا جلس کی ضمیریں عبداللہ بن مسعود ؓ کی طرف لوٹتی ہے ۔ ان کے فاعل عبداللہ بن مسعود بنتے ہیں اور "اذاجلس" اسود بن یزید نخعی کا مقولہ ہے۔
درج بالا بحث سے معلوم ہو اکہ یہ روایت موقوف ہے اور موقوف روایات دین حجت نہیں۔
اصول یہ ہے کہ کبھی "جزء" بول کر"کل" مراد لیاجاتا ہے ۔ لہٰذا اس جگہ بھی قعدہ اولیٰ اور اخیرہ میں تشہد سے مراد تشہد مع درود ہی ہے۔
اگر تشہد سے صرف تشہد ہی مراد لیا جائے تو اس روایت کے مطابق آخری رکعت والے تشہد میں بھی تشہد کے بعد دعا مانگنے کا ذکر ہے، درود پڑھنا آخری رکعت میں بھی ثابت نہیں ہورہا۔
"عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہوتا"اگر اس اصول کو بھی مدنظر رکھ لیا جائےتو نتیجہ یہ نکلے گا کہ آخری رکعت میں درود کے ثبوت کے لیے دیگر روایات کا سہارا لینا پڑے گا تو دیگر روایات بعینہٖ قعدہ اولیٰ میں بھی درود پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں۔ لہٰذا دونوں کا معاملہ یکساں ہے اور یہ روایت بھی مانعین کے لیے دلیل بننے سے قاصر ہے۔
نتیجۃ البحث:۔
اس تمام بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ درمیانی تشہد میں درود پرھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، جیسا کہ فہم صحابہ اس بات پر دال ہے، نیز یہ کہ اس کو ترک کرنے کے لیے کوئی بھی دلیل موجود نہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین
http://www.deenekhalis.ahlulhdeeth.com/play.php?catsmktba=&id=231&action=a3lan